Wednesday, 6 December 2023

حضرت آدم علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا

حضرت آدم علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا
محترم قارئینِ کرام : ہمارے جدِّ اَمجد حضرت سیدنا آدم علیہ الس : لام نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ۔
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ، بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے : ⏬

برِّ صغیر کے نامور محقق و محدث حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت آدم علیہ السّلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کی فتلقیٰ آدمُ وہ کلمات یہ تھے اسئلک بحق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر انہیں پیدا نہ کرتا تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ (تفسیر عزیزی صفحہ نمبر 339 مترجم اردو) ۔ یہی عقیدہ اہلسنت ہے معتزلہ منکر ہیں اس کے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا : ⏬

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے (اجتہادی) خطاء ہوگئی تو انہوں نے کہا : اے رب ! میں تجھ سے بہ حق (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے ‘ اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم ! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے جانا حالانکہ میں نے ابھی ان کو پیدا نہیں کیا ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا : کیونکہ اے رب ! جب تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور تو نے مجھ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی تو میں سراٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں پر ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا تھا ‘ سو میں نے جان لیا کہ تو نے جس کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر لکھا ہے وہ تجھ کو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہوگا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم تم نے سچ کہا وہ مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور کیونکہ تم نے ان کے وسیلہ سے سوال کیا ہے اس لیے میں نے تم کو بخش دیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں تم کو پیدا نہ کرتا ۔ (دلائل النبوۃ ص ٤٨٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت،چشتی)

اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ایک ضعیف راوی ہے لیکن فضائل میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے ۔ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔ (معجم صغیر ج ٢ ص ٨٣۔ ٨٢‘ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ‘ مدینہ منورہ ‘ ١٣٨٨ ھ)

امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ‘ اور حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس مضمون کی حدیث کو روایت کیا ہے ۔ (الوفاء ص ٣٣‘ مطبویہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد)

علامہ ابن تیمیہ نے بھی ان دونوں حدیثوں کو روایت کیا ہے ‘ لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ ابونعیم حافظ نے اس حدیث کو ” دلائل النبوۃ “ میں روایت کیا ہے ‘ اس نسبت میں ابن تیمیہ کو خطا لاحق ہوئی ‘ یہ حدیث حافظ ابونعیم کی ” دلائل النبوۃ “ میں نہیں ہے بلکہ حافظ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی ” دلائل النبوۃ “ میں ہے ‘ ان دونوں حدیثوں کے متعلق ابن تیمیہ لکھتے ہیں : یہ دونوں حدیثیں احادیث صحیحہ کی تفسیر کے درجہ میں ہیں ۔ (مجموع الفتاوی ج ٢ س ٩٦‘ مطبوعہ دارالجیل ‘ ریاض ‘ ١٤١٨ ھ،چشتی)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو حافظ الہیثمی نے بھی ذکر کیا ہے ‘ وہ اس روایت کو درج کرنیکے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کو امام طبرانی نے ” معجم صغیر “ اور ” معجم اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اس کے ایک راوی کو میں نہیں پہچانتا ۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ)

شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ (توسل ص ١٠٦‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)

امام حاکم نیشا پوری نے بھی اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح الاسناد لکھا ہے ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٦١٥ دار الباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ) ۔ امام حاکم نیشا پوری نے ایک اور حدیث اس کے مقارب روایت کی ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : یہ حدیث مبارکہ مکمل حوالہ جات اور صحیح اسناد کے ساتھ یہ حدیث پاک پیش خدمت ہے پڑھیئے اور پہچانیئے محمد ابن عبدالوھاب نجدی کے پیروکاروں کو جو بغض رسول  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  میں اتنا اندھے ہوچکے ہیں کہ صحیح احادیث کو ضعیف کہہ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اس بغض رسول  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وجہ سے اتنا متعصب و اندھے ہوچکے ہیں کہ احادیث کے بھی منکر ہو گئے اللہ انہیں ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔

سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ۔
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین  ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد،  كنز العمال، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں  روایت مذکور ہے :  عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :  لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك  هذا حديث صحيح الإسناد ۔
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی  تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک  ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا : اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس  حدیث کی سندصحیح  ہے ۔ (مستدرک علی الصحیحین)(كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690،چشتی)(دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 )(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت )(كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق حدیث پاک میں ہے : (مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه، كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ)

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد ۔
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر ۔" لا إله إلا الله محمد رسول الله "لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا - (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690) (معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989)(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243) (مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917)(جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457) (كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138 ) (تفسير در منثور, سورة البقرة:37،چشتی)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37) (تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82)(شرح المواهب للزرقاني,ج ,1,ص ,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320،چشتی)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23)(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف)(موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل") (الحج النقلیہ صفحہ 84 ، 85 علامہ ابن تیمیہ ممدوح وہابیہ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ وحی کی : اے عیسیٰ علیہ السلام ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاؤ ‘ اور جو تمہاری امت میں سے ان کا زمانہ پائے اس کو بھی ان پر ‘ ایمان لانے کا حکم دو ‘ کیونکہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کرتا اور میں نے عرش کو پانی پر پیدا کا تو وہ ہلنے لگا ‘ پھر میں نے اس پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا تو وہ ساکن ہوگیا ۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٦١٥‘ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ،چشتی) ۔

علامہ سیوطی نے امام حاکم ‘ امام بیہقی  ‘ امام طبرانی ، امام ابونعیم اور امام ابن عساکر علیہم الرّحمہ کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو بیان کیا ہے ۔ (خصائص کبری ج ١ ص ٦‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد) 

علامہ قسطلانی نے بھی حضرت عمر کی روایت کو امام حاکم کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ (المواہب اللدنیہ مع الزرقانی ج ١ ص ٤٤ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)

علامہ زرقانی نے اس کی شرح میں امام حاکم اور ابو الشیخ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکور الصدر روایت بیان کی ہے اور لکھتے ہیں کہ امام حاکم اور ابوالشیخ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکور الصدر روایت بیان کی ہے اور لکھتے ہیں کہ امام حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ سبکی نے ” شفاء القام “ میں اور علامہ بلقینی نے اپنے فتاوی میں اس تصحیح کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی ‘ اس لیے یہ حدیث حکما مرفوع ہے ‘ علامہ ذہبی نے کہا : اس کی سند میں عمرو بن اوس ہے ‘ پتا نہیں وہ کون ہے ؟ اور امام دیلمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر آپ نہ ہوتے تو میں جنت کو پیدا کرتا نہ نار کو پیدا کرتا ۔ (شرح المواہب اللدنیہ ج ١ ص ٤٤‘ مطبوعہ دار الفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)

ملاعلی قاری نے بھی امام دیلمی کی اس روایت کو استشہاد کے طور پر پیش کیا ہے ۔ (موضوعات کبیر ص ٥٩ مطبوعہ مطبع مجتبائی ‘ دہلی ‘ ١٣١٥ ھ)

حضرت آدم علیہ السلام کی حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعا

مکمل حوالہ جات اور صحیح اسناد کے ساتھ یہ حدیث پاک پیش خدمت ہے پڑھیئے اور پہچانیئے ابن وھاب نجدی کے پیروکاروں کو جو بغض رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اتنا اندھے ہوچکے ہیں کہ صحیح احادیث کو ضعیف کہہ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اس بغض رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وجہ سے اتنا متعصب و اندھے ہوچکے ہیں کہ احادیث کے بھی منکر ہو گئے اللہ انہیں ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔

سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں روایت مذکور ہے : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك هذا حديث صحيح الإسناد -
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس حدیث کی سندصحیح ہے ۔ (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194- معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690،چشتی)(دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 )(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت )(كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد )

سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے: فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق حدیث پاک میں ہے : (مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه، كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ)
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد-
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے ، اللہ تعالی نے فرمایا : اے آدم ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر ۔" لا إله إلا الله محمد رسول الله "لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا - (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690) (معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989)(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243) (مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ، حديث نمبر:13917)(جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457) (كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138 ) (تفسير در منثور, سورة البقرة:37،چشتی)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37) (تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82)(شرح المواهب للزرقاني,ج ,1,ص ,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23)(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف)(موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل") (الحج النقلیہ صفحہ 84 ، 85 علامہ ابن تیمیہ ممدوح وہابیہ)

امامُ الوہابیہ و دیابنہ ابن تیمیہ کے نزدیک وسیلہ جائز ہے

محترم قارئینِ کرام : آج کل کے بعض دیوبندی اور جملہ غیرمقلد وھابی حضرات توسل کو حرام جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مبارکہ سے کسی بھی صورت میں توسل کرنا جائز نہیں ہے لیکن امامُ الوہابیہ و دیابنہ علامہ ابن تیمیہ نے توسل کے جواز کا اقرار کیا ہے ملاحظہ فرمائیں : ⏬

علاّمہ ابن تیمیہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے توسل کرنا جائز ہے یا نہیں تو انہوں نے اسے جائز قرار دیا :

علامہ ابن تیمیہ سے سوال کیا گیا : کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے توسل کرنا جائز ہے کہ نہیں ؟
تو ابن تیمیہ نے کہا : الحمد اللہ ! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر صلوۃ و سلام ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دعا و شفاعت اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے افعال اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حق میں بندوں کے وہ احکام جو ان پر واجب قرار دیے گئے ہیں ، کو وسیلہ بنانا باتفاق المسلمین مشروع ہے ۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے توسل کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال مبارک کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی توسل کیا جس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے توسل کیا کرتے تھے ۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 140 مطبوعہ سعودیہ عرب،چشتی)

ایک اور مقام پر علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ سے دعا کرنے والا کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے ، انبیاء علیہم السّلام اور صالحین وغیرہم کے حق میں سوال کرتا ہوں یا فلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ، اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت ہو ، اور یہ دعا صحیح ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت اور حرمت ہے جس کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کرے ، حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کی اجازت کے بغیر کون اس سے شفاعت کر سکتا ہے ۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 211 مطبوعہ سعودیہ عرب)

جی جنابِ من اب غیرمقلد وہابی اور بعض دیوبندی حضرات اپنے امام و ممدوح جناب ابن تیمیہ کو بھی بدعتی ، کذاب اور گمراہ کہیں گے کیونکہ اس نے توسل کے جواز کو تسلیم کیا ہے ؟

یاللہ میں تجھ سے انبیاء اور صالحین وغیرھم کے حق سے سوال کرتا ہوں

امامُ الوہابیہ و دیابنہ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے اور انبیاء اور صالحین وغیرھم کے حق سے سوال کرتا ہوں یافلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت ہو ، اور یہ دعا صحیح ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت اور حرمت ہے ‘ جس کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کرے ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کون اس سے شفاعت کرسکتا ہے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢١١‘ مطبوعہ بامر فہدبن عبدالعزیز،چشتی)

امامُ الوہابیہ قاضی شوکانی لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ انبیاء (علیہم السلام) کے وسیلہ کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جس کو امام ترمذی (رحمۃ اللہ علیہ) نے روایت کر کے کہا : یہ حدیث حسن ‘ صحیح اور غریب ہے ‘ امام نسائی (رحمۃ اللہ علیہ) ‘ امام ابن ماجہ (رحمۃ اللہ علیہ) ‘ اور امام ابن خزیمہ (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی صحیح میں اور امام حاکم (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کو روایت کرکے کہا یہ حدیث امام بخاری (رحمۃ اللہ علیہ) اور امام مسلم (رحمۃ اللہ علیہ) کی شرط پر صحیح ہے ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری بصارت بحال کر دے ‘ آپ نے فرمایا : یا میں رہنے دوں ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر نابینائی بہت دشوار ہے ‘ آپ نے فرمایا : جاؤ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر کہو : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ‘ اور محمد نبی رحمت کے وسیلہ سے میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ الحدیث ۔ ” حصن حصین “ کے باب صلوۃ الحاجۃ میں اس حدیث کا ذکر آئے گا ‘ اور صالحین کے توسل کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جو صحیح (بخاری) میں ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم محترم حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کی اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا : اے اللہ ! ہم تیرے نبی کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں ۔ (تحفہ الذاکرین ص ٣٧‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے حقیقت محمدی پر بحث کرتے ہوئے یہ دو حدیثیں لکھی ہیں : اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا ‘ اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں اپنی ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا ۔ (مکتوبات دفتر سوم ‘ حصہ دوم ‘ مکتوب نمبر ١٢٢) ۔ یہ حدیثیں ہرچند کہ ان الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور نہیں ہیں لیکن یہ معنی ثابت ہیں ۔ ان حادیث سے یہ واضح ہو گیا کہ مقربین بارگاہ کے وسیلہ سے دعا کرنا ابتداء آفرینش سے مشروع اور معمول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام مدح میں اس دعا کا ذکر فرما کر اس کے جواز اور استحسان کو بیان فرمادیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)






No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...