Thursday 7 December 2023

اسلام میں گالی دینے کا شرعی حکم گالی سنگین جرم اورگناہ کبیرہ ہے

0 comments
اسلام میں گالی دینے کا شرعی حکم گالی سنگین جرم اورگناہ کبیرہ ہے
محترم قارئینِ کرام : اسلام ایک مہذب دین ہے اس لیے اس نےگالی کو سنگین جرم اورگناہ کبیرہ قرار دیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اسلام میں تو ایک غیر مسلم کو گالی دینا جائز نہیں.افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں گالم گلوچ کو بطور ہتھیار اور آخری حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو تعلیماتِ دینِ اسلام اور تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سراسر منافی ہے ۔ یہ کسی صورت میں اسلام اور اہلسنت کی آبیاری نہیں الٹا دین کا نقصان ہے ۔ آپ کے کسی سے لاکھ علمی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن ان کا علمی انداز میں محاسبہ کرنا ہی شعائر علماء دینِ حق ہے  ۔ گالم گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ الادب المفرد میں لکھتے ہیں : حدثنا عمرو بن مرزوق ، قال ‏:‏ اخبرنا عمران، عن قتادة ، عن يزيد بن عبد الله بن الشخير ، عن عياض بن حمار قال‏:‏ قلت‏ :‏ يا رسول الله ، الرجل يسبني‏ ؟‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم :‏ المستبان شيطانان يتهاتران ويتكاذبان‏ ۔
ترجمہ حضرت سیدنا عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کوئی آدمی مجھے گالی دے تو ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : دو باہم گالم گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں جو بے ہودگی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ (الادب المفرد حدیث نمبر : 427 صفحہ نمبر 148 مطبوعہ دارالصدیق)،چشتی)،(صحيح: أخرجه أحمد : 17483 و الطيالسي : 1176 و ابن حبان : 5726 و البيهقي فى السنن: 235/10 - انظر صحيح الترغيب: 2781)

حدثنا احمد، قال‏:‏ حدثنا ابي قال‏:‏ حدثني إبراهيم، عن حجاج بن حجاج، عن قتادة، عن يزيد بن عبد الله، عن عياض بن حمار قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”إن الله اوحى إلي ان تواضعوا حتى لا يبغي احد على احد، ولا يفخر احد على احد“، فقلت‏:‏ يا رسول الله، ارايت لو ان رجلا سبني في ملا هم انقص مني، فرددت عليه، هل علي في ذلك جناح‏؟‏ قال‏:‏ ”المستبان شيطانان يتهاتران ويتكاذبان‏ ۔
ترجمہ حضرت سیدنا عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تواضع اور عجز و انکساری اختیار کرو، اور کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے ، اور نہ ہی ایک دوسرے پر فخر کرے ۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اگر مجھ سے کم مرتبہ کوئی شخص مجھے گالی دے اور میں اسے جواب دوں تو کیا مجھے گناہ ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : باہم گالم گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں جو بےہودہ گوئی کرتے اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ (الادب المفرد حدیث نمبر: 428 صفحہ نمبر 148 مطبوعہ دارالصدیق،چشتی)(أخرجه مسلم، كتاب الجنة: 2865)(أبوداؤد: 4895 و ابن ماجه: 4214)

امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ صحیح ابنِ حبان میں لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مزید فرمایا ہے کہ : الْمُسْتَبَّانِ شَيْطَانَانِ يَتَهَاتَرَانِ وَيَتَكَاذَبَانِ ۔
ترجمہ : آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔ (صحیح ابن حبان 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة،چشتی)

گالی کی تعریف : زبان کا بے ہودہ،غلط اور ناجائز استعمال خواہ کسی بھی شکل میں ہو”گالی کہلاتا“ہے۔لغت کے مطابق گالی بدزبانی اور فحش گوئی کا نام ہے۔

الغرض اسلام تحمل و برداشت اور رواداری کا وہ نمونہ فراہم کرتا ہے جو دنیا کا کوئی معاشرہ فراہم نہیں کر سکتا. قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو یہاں تک حکم دیا ہے کہ غیر مسلموں کے جھوٹے معبودوں (بتوں) کو بھی گالیاں نہ دو. ارشاد ہوتا ہے : وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ ﷲِ فَيَسُبُّوا ﷲََ عَدْوًام بِغَيْرِ عِلْمٍ ۔
ترجمہ : اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے ۔(الأنعام، 6: 108)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے زبان ایک بہت بڑی نعمت ہے، زبان قلوب و اذہان کی ترجمان ہے، اسکا صحیح استعمال ذریعہ حصول ثواب اور غلط استعمال وعید عذاب ہے، یہی وجہ ہے کہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں“اصلاحِ زبان” کو ضروری قرار دیا گیا ہے ۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت ، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے ۔یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے۔“(بخاری شریف)

لہٰذا کسی بھی انسان کامال لوٹنا اور اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا دوسروں پر حرام ہے۔

بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گالی گلوچ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"منافق کی چار نشانیاں ہیں۔جب بولے جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے،امین بنایا جائے توخیانت کرے اور جب جھگڑا ہوجائے توگالی گلوچ پر اتر آئے ۔

مسلم شریف کی روایت ہے کہ جب دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کریں تو گناہ ابتدا کرنے والے پر ہی ہوگا،جب تک کے مظلوم حد سے نہ بڑھے۔ایک طرف تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گالی گلوچ سے منع کیا اورفرمایا کہ گالی گلوچ کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہوگااور دوسری طرف اخلاقی طور پر یہ بھی ہدایت کی ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دیا جائے،اس لیے کہ اس طرح کرنے سے دونوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

کسی مسلمان کی دل آزاری کرنا بہت سخت گناہ ہے اور گالی کے ذریعے انسان کو شدید تکلیف ہوتی ہے کوئی اس تکلیف کا اظہار کر دیتا ہے اور کوئی صبر کا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔ مذہب اسلام نے صرف مسلموں کو نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔اور اگر کوئی اہل ایمان کو گالی دے توکس قدر سخت گناہ ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

صحیح بخاری کی حدیث ہے،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے ۔

غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاﺅں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا ،مارنا ،پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے ۔”الدرالمختار“میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ :”غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا۔“(الدرالمختار)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً أولیصم" (صحیح بخاری: ۶۰۱۸، صحیح مسلم: ۴۷/۷۴)
ترجمہ : جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے(اسے چاہئے یا تو) وہ بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔

اہل ایمان کی گفتگو بہترین اورپر تاثیر ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ فضولیات سے احتراز کرتے ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ“ (مؤطا امام مالک: ۹۰۳/۲ ح ۷۳۷ اوسندہ حسن)
ترجمہ : فضول باتوں کو چھوڑ دینا ، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے ۔

سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں میں سے کون افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ“ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔(بخاری : ح ۱۱،مسلم ۴۲/۶۶،چشتی)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے(ان کی دوسری بیوی سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بابت) عرض کیا : آپ کے لئے صفیہ کا ایسا ایسا ہونا کافی ہے۔ بعض راویوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مراد یہ تھی کہ وہ پستہ قد ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے) فرمایا“لقد قلت کلمۃً لومج بھا البحر لمزجتہ“ تو نے ایسی بات کہی ہےکہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ اس کا ذائقہ بھی بدل ڈالے۔( سنن ابی داؤد: ۴۸۷۵)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : “إن دماء کم وأموالکم و أعراضکم بینکم حرام۔۔۔۔ الخ“(بخاری: ۶۷)
ترجمہ : یعنی ایک مسلمان کےلیے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور اس کی عزت آبرو قابل احترام ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : “من یضمن لي مابین لحییہ ومابین رجلیہ أضمن لہ الجنة ۔
ترجمہ : جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (بخاری : ۶۴۷۴)

جس طرح زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بنا پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ایسے ہی ان دونوں کی حفاظت کی کوتاہی کرنے والوں کے لئے تنبیہ بلیغ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:أتدرون ما أکثر ما یدخل الناس النار ؟ الأجوفان: الفم و الفرج ۔
ترجمہ : کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کثرت کے ساتھ کون سی چیز جہنم میں داخل کرے گی؟ وہ دو کھوکھلی چیزیں ، زبان اور شرمگاہ ہیں۔( سنن ترمذی: ۲۰۰۴، سنن ابن ماجہ: ۴۲۴۶واسنادہ صحیح،چشتی)

یوہیں بلا وجہ شرعی کسی مسلمان جاہل کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:یحسب امری من الشران یحقرا خاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ، رواہ مسلم عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ۔
ترجمہ : آدمی کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے بھائی مسلمان کی تحقیر کرے مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے خون آبرو مال(اسے مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا)۔(صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ باب تحریم خلم المسلم وخذلہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۱۷)

اسی طرح کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرعی گالی دیناحرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:سباب المسلم فسوق رواہ البخاری ومسلم ۱؎ والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والحاکم عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
ترجمہ : مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے (اسے امام بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا) ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب سباب المسلم فسوق قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۸)(جامع الترمذی ابوا ب البر و الصلۃ ماجاء فی الشتم امین کمپنی دہلی ۲ /۱۹)(سنن ابن ماجہ ابواب الفتن ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۹۱)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :سباب المسلم کالمشرف علی الہلکۃ، رواہ الامام احمد ، والبزار عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بسند جید۔
ترجمہ : مسلمان کو گالی دینے والا اس شخص کی مانند ہے جو عنقریب ہلاکت میں پڑ اچاہتاہے۔ (اسے امام احمد اور بزار نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے) ۔ (الترغیب والترہیب بحوالہ البزار الترھیب من السباب واللعن مصطفی البابی مصر ۳ /۴۶۷)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :من اٰذی مسلما فقد اذانی ومن اٰذانی فقد اذی اﷲ۔ رواہ الطبرانی۳؎ فی الاوسط عن انس رضی اللہ عنہ بسند حسن۔
ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالٰی کو ایذا دی (اسے امام طبرانی نے الاوسط میں سند حسن کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔ (المعجم الاوسط حدیث ۳۶۳۳ مکتبۃ المعارف ریاض ۴ /۳۷۳)

جب عام مسلمانوں کے باب میں یہ احکام ہیں تو علماء کرام کی شان تو ارفع واعلٰی ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :لایستخف بحقہم الامنافق۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔علماء کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق (طبرانی نے کبیر میں ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا) ۔ (المعجم الکبیر حدیث ۷۸۱۹ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۸ /۲۳۸،چشتی)

فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لایستخف بحقہم الامنافق بین النفاق رواہ ابوالشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبدﷲ الانصاری رضی ﷲ عنہما ۔
ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق (اسے ابوالشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصارٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا) ۔ (کنز العمال بحوالہ ابی الشیخ حدیث ۴۳۸۱۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۶ /۳۲)

اور فرماتے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لیس من امتی من لم یعرف لعالمناحقہ۔ رواہ احمد والحاکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ ۔ جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیں۔ اسے احمد، حاکم اور طبرانی نے کبیر میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ (مسند امام احمد بن حنبل حدیث عبادہ ابن صامت دارالفکر بیروت ۵ /۳۲۳)

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اہل قدس کو جو امان دی تھی اس کے الفاظ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو میسر مذہبی آزادی کا دستور ہیں:هذا ما أعطی عبد ﷲ عمر أمیر المؤمنین أهل إیلیاء من الأمان، أعطاهم أمانا لأنفسهم وأموالهم ولکنائسهم وصلبانهم، وسقیمها وبریئها وسائر ملتها، أنه لا تسکن کنائسهم ولا تهدم ولا ینتقص منها ولا من حیزها، ولا من صلیبهم، ولا من شیء من أموالهم، ولا یکرهون علی دینهم، ولا یضار أحد منهم، ولا یسکن بإیلیاء معهم أحد من الیهود ۔
یہ وہ امان ہے جو ﷲ کے بندے عمر بن الخطاب امیر المومنین نے ایلیا کو دی. ان کی جانوں، ان کے اموال، ان کے کلیساؤں، ان کی صلیبوں اور ان کی ساری ملت کو امان دی گئی ہے. ان کے گرجوں کو بند کیا جائے نہ گرایا جائے، نہ ہی ان میں کمی کی جائے اور نہ ان کے احاطوں کو سکیڑا جائے، اور نہ ان کی صلیبوں میں کمی کی جائے اور نہ ہی ان کے اموال میں کمی کی جائے اور کسی کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے، اور نہ کسی کو تکلیف پہنچائی جائے اور نہ ان کے ساتھ (جبراً) یہودیوں میں سے کسی کو ٹھہرایا جائے (کیونکہ اس زمانہ میں مسیحی لوگوں اور یہود میں بڑی عداوت تھی) ۔ ( طبری، تاریخ الأمم والملوک، 2: 449،چشتی)

شرعا گالیاں دینا اور مار پیٹ کرنا جائز نہیں ہے

مسلم ہو یا غیر مسلم کسی کو بھی گالی گلوچ کرنا یا لعن طعن کرنا اچھا عمل نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اس کو پسند نہیں فرمایا ہاں ایک صورت ہے کہ مظلوم پر جب ظلم ہو رہا ہو تو اس کو اجازت ہے تاکہ ظالم کو مزید ظلم کرنے سے روکا جا سکے قرآن پاک میں ہے : لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا ۔
ترجمہ : اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے ۔

کسی بھی مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے ، جو کوئی ناجائز طریقے سے مال کھاتا ہے اس پر گناہ ہے ، گالی نہیں دینی چاہیے بلکہ قانونی کاروائی ضروری ہے ۔ ذرا غورفرمایئے کہ جب اسلام غیر مسلم کو گالی دینے کی اجازت نہیں دیتا تو ایک مسلمان کو گالی دینا کتنا بڑا گناہ ہوگا لہٰذا ہمیں تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے محبت ، اخوت ، بھائی چارے کا درس دینا چاہیے اور علمی گفتگو کا جواب علمی انداز میں دینا چاہیے اور دشنام طرازی سے بچنا چاہیے ۔ اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔ اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا علام ہے اور اس عزت و توقیر والے کا علم بڑا کامل اور بہت پختہ (محکم) ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔