Wednesday, 13 December 2023

ایصالِ ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں حصہ سوم

ایصالِ ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں حصہ سوم

امام بدر الدين عينی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عَنْ طَاؤُوْسِ : کَانُوْا يَسْتَحِبُّوْنَ أَنْ لَا يَتَفَرَّقُوْا عَنِ الْمَيِتِ سَبْعَةَ أَيَامٍ، لِأَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ وَيُحَاسَبُوْنَ فِي قُبُوْرِهِمْ سَبْعَةَ أَيَامٍ ۔ (عمدة القاري في شرح صحيح البخاري جلد 8 صفحہ 70)
ترجمہ : حضرت طاؤوس رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ائمہ و اسلاف علیہم الرحمہ اس عمل کو پسند کرتے تھے کہ میت کی قبر سے سات دنوں تک جدا نہ ہوا جائے (یعنی کم از کم سات دنوں تک وہاں فاتحہ و قرآن خوانی کا معمول جاری رکھا جائے) کیونکہ سات دنوں تک میت کی قبر میں آزمائش ہوتی ہے اور ان کا حساب ہوتا ہے ۔

امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 174ه) فرماتے ہیں : وَنَرَی الصَّدَقَةَ عَلٰی مَوْتَی الْمُسْلِمِيْنَ وَالدُّعَاءِ لَهُمْ وَنُؤْمِنُ بِأَنَّ اﷲَ يَنْفَعُهُمْ بِذَالِکَ ۔ (الإبانة عن أصول الديانة جلد 1 صفحہ 31)
ترجمہ : اور ہماری رائے میں مسلمان مُردوں کے لیے صدقہ کرنا اور اُن کے لیے دعا کرنا جائز ہے، اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں ان (اَعمالِ صالحہ) کے بدلے نفع دے گا ۔

امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 321ه) ’عقیدہ طحاویہ‘ میں فرماتے ہیں : وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ، وَصَدَقَاتِهِمْ مَنْفِعَةٌ لِـلْأَمْوَاتِ ۔  (العقيدة الطحاوية صفحہ 56)
ترجمہ : (جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ان کےلیے زندہ لوگوں کی دعائیں اور صدقہ کرنا نفع دیتا ہے ۔

امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 537ه) فرماتے ہیں : وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ وَصَدَقَتِهِمْ عَنْهُمْ نَفْعٌ لَهُمْ ۔ (المطالب الوفية شرح عقائد النسفية صفحہ 153)
ترجمہ : (جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ان کے لیے زندہ لوگوں کی دعائیں اور اُن کے صدقات مُردوں کو نفع دیتے ہیں ۔

امام سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 791ه) فرماتے ہیں : وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ وَصَدَقَتِهِمْ أَيْ صَدَقَةِ الْأَحْيَاءِ عَنْهُمْ أَي عَنِ الْأَمْوَاتِ نَفْعٌ لَهُمْ ۔ (شرح العقائد المسمی بالنبراس مع التعليقات القسطاس صفحہ 579)
ترجمہ : (جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) اُن کےلیے زندہ لوگوں کی دعائیںاور زندوں کا ان (مُردوں) کےلیے صدقہ کرنا انہیں نفع دیتا ہے ۔

علامہ ابْنُ أَبِي الْعِزِّ الدِّمَشْقِيُّ رحمۃ اللہ علیہ (م792ه) فرماتے ہیں : إِتَّفَقَ أَهْلُ السُّنَّةِ أَنَّ الْأَمْوَاتَ يَنْتَفِعُوْنَ مِنْ سَعْيِ الْأَحْيَاءِ بِأَمْرَيْنِ : أَحَدُهُمَا : مَا تَسَبَّبَ إِلَيْهِ الْمَيِتُ فِي حَيَاتِهِ، وَالثَّانِي : دُعَاءُ الْمُسْلِمِيْنَ وَاسْتِغْفَارُهُمْ لَهُ، وَالصَّدَقَةُ وَالْحَجُّ عَلٰی نِزَاعٍ فِيْمَا يَصِلُ مِنْ ثَوَابِ الْحَجِّ. فَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَنٍ (131-189ه) : أَنَّهُ إِنَّمَا يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ ثَوَابُ النَّفَقَةِ، وَالْحَجُّ لِلْحَاجِّ. وَعِنْدَ عَامَةِ الْعُلَمَاءِ : ثَوَابُ الْحَجِّ لِلْمَحْجُوْجِ عَنْهُ، وَهُوَ الصَّحِيْحُ. وَاخْتُلِفَ فِي الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَةِ، کَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، وَالذِّکْرِ، فَذَهَبَ أَبُوْ حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمْهُوْرُ السَّلَفِ إِلٰی وَصُوْلِهَا، وَالْمَشْهُوْرُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ عََدْمُ وُصُوْلِهَا. وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْبِدَعِ مِنْ أَهْلِ الْکَلَامِ إِلٰی عَدْمِ وُصُوْلِ شَيْئٍ اَلْبَتَّةَ، لَا الدُّعَاءُ وَلَا غَيْرُهُ. وَقَوْلُهُمْ مَرْدُوْدٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ ۔ (شرح العقيدة الطحاوية صفحہ 345- 346)
ترجمہ : اہلِ سنت اس بات پر متفق ہیں کہ مردہ لوگ زندوں کی طرف سے کیے گئے عمل سے دو اُمور میںنفع حاصل کرتے ہیں : ان دو میں سے ایک یہ کہ میت نے اپنی حیات میں کوئی عمل کیا ہو (جیسے صدقہ وغیرہ). اور دوسرا مسلمانوں کا ان کے لیے دعا و استغفار کرنا، صدقہ و خیرات کرنا اور حج کرنا ۔ اور حج کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں ؟ پس محمد بن حسن الشیبانی بیان کرتے ہیں کہ بے شک میت تک صدقہ کا ثواب پہنچتا ہے ، اور حج کا ثواب حج کرنے والے کےلیے ہے ۔ عام علماء کا موقف ہے کہ حج کا ثواب محجوج عنہ (جس کی طرف سے حج کیا گیا) کے لیے ہے، اور یہی صحیح موقف ہے، اور بدنی عبادات، جیسے : روزہ، نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر کے بارے میں اختلاف ہے۔ پس امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کا موقف ہے کہ ان کا ثواب پہنچتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب عدمِ وصول کا ہے ۔ اہل کلام میں سے بعض اہل بدعات اِس طرف گئے ہیں کہ کسی بھی چیز کا ثواب مطلقًا نہیں پہنچتا، نہ دعا اور نہ ہی غیر دعا. اور اُن کا یہ قول کتاب و سنت کی روشنی میں مردود (ناقابل قبول) ہے ۔

منکرین کے امام علامہ ابن تیمیہ قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ سے گناہوں کی بخشش کے دس اَسباب بیان کیے ہیں ۔ اُنہوں نے چوتھا اور پانچواں سبب اِیصالِ ثواب کو قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : اَلسَّبَبُ الرَّابِعُ : اَلدَّافِعُ لِلْعِقَابِ : دُعَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ لِلْمُؤْمِنِ، مِثْلُ صَلَا تِهِمْ عَلٰی جَنَازَتِهِ ۔ (مجموع الفتاوی جلد 7 صفحہ 498-499،چشتی)
ترجمہ : (گناہوں سے بخشش کا) چوتھا سبب اور عذاب سے بچانے والی مومن بندوں کی دوسرے مومنین کی (بخشش) کے لیے کی جانے والی دعائیں ہیں، جیسا کہ وہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں ۔

ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَا مِنْ مَيِتٍ تُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ يَبْلُغُوْنَ مِاءَةً کُلُّهُمْ يَشْفَعُوْنَ لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 / 654، الرقم : 947)
ترجمہ : جس میت پر سو مسلمانوں کا گروہ نماز پڑھے اور وہ سب اس کے لئے شفاعت کریں تو اس کے حق میں اُن کی شفاعت قبول کر لی جاتی ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوْتُ فَيَقُوْمُ عَلٰی جَنَازَتِهِ أَرْبَعُوْنَ رَجُـلًا لَا يُشْرِکُونَ بِاﷲِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمُ ﷲُ فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 / 655، الرقم : 948،چشتی)
ترجمہ : جو مسلمان شخص فوت ہو جائے اور اس کے جنازہ میں چالیس ایسے لوگ ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما لیتا ہے ۔

صحیح مسلم کی مذکورہ بالا دو حدیثیں بیان کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : وَهٰذَا دُعَاءٌ لَهُ بَعْدَ الْمَوْتِ. فَـلَا يَجُوْزُ أَنْ تُحْمَلَ الْمَغْفِرَةُ عَلَی الْمُؤْمِنِ التَّقِيِ الَّذِي اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ، وَکُفِّرَتْ عَنْهُ الصَّغَائِرُ وَحْدَهُ، فَإِنَّ ذَالِکَ مَغْفُوْرٌ لَهُ عِنْدَ الْمُتَنَازِعِيْنَ. فَعُلِمَ أَنَّ هٰذَا الدُّعَاءَ مِنْ أَسْبَابِ الْمَغْفِرَةِ لِلْمَيِتِ ۔
ترجمہ : اور یہ دعائے بخشش اس کےلیے موت کے بعد ہے۔ اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہ مغفرت صرف متقی مومن کے لئے ہے جو کہ پہلے ہی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا ہے اور اس کے صغیرہ گناہ یک بارگی مٹا دیئے گئے ہیں ۔ بے شک (صغیرہ گناہوں کا مٹایا جانا) تو اختلاف کرنے والوں کے ہاں بھی تسلیم شدہ ہے ۔ پس جان لیا گیا ہے کہ دعا بھی میت کی مغفرت کے اسباب میں سے ہے ۔

اِس کے بعد علامہ ابن تیمیہ پانچواں سبب لکھتے ہیں : اَلسَّبَبُ الْخَامِسُ : مَا يُعْمَلُ لِلْمَيِتِ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ، کَالصَّدَقَةِ وَنَحْوِهَا، فَإِنَّ هٰذَا يُنْتَفَعُ بِهِ بِنُصُوْصِ السُّنَّةِ الصَّحِيْحَةِ الصَّرِيْحَةِ، وَاتِّفَاقِ الْأَئِمَّةِ وَکَذَالِکَ الْعِتْقِ، وَالْحَجِّ، بَلْ قَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ فِي الصَّحِيْحَيْنِ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ. وَثَبَتَ مِثْلُ ذَالِکَ فِي الصَّحِيْحِ مِنْ صَوْمِ النَّذْرِ مِنَ الْوُجُوْهِ الْأُخْرَی، وَلَا يَجُوْزُ أَنْ يُعَارَضَ هٰذَا بِقَوْلِهِ {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} [النجم،53 : 39] لِوَجْهَيْنِ : أَحَدُهُمَا : أَنَّهُ قَدْ ثَبَتَ بِالنُّصُوْصِ الْمُتَوَاتِرَةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَنْتَفِعُ بِمَا لَيْسَ مِنْ سَعْيِهِ، کَدُعَاءِ الْمَلَائِکَةِ، وَاسْتِغْفَارِهِمْ لَهُ، کَمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی : {اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا} [غافر، 40 : 7]. وَدُعَاءُ النَّبِيِيْنَ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَاسْتِغْفَارِهِمْ، وَکَدُعَاءِ الْمُصَلِّيْنَ لِلْمَيِتِ، وَلِمَنْ زَارُوْا قَبْرَهُ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ (مجموع الفتاوی جلد 7 صفحہ 498-499،چشتی)
ترجمہ : (گناہوں کی بخشش کا) پانچواں سبب وہ نیک اعمال ہیں جو میت کےلیے کیے جاتے ہیں ۔ جیسے صدقہ اور اس طرح کے اعمال ۔ پس یہ بات سنت صحیحہ صریحہ کی نصوص سے ثابت ہے کہ میت کو ان اعمال کا فائدہ ہوتا ہے اور اس پر ائمہ کرام علیہم الرحمہ کا اتفاق ہے اور اسی طرح (میت کی طرف سے) غلام آزاد کرنے اور حج کرنے کا فائدہ (بھی میت کو پہنچتا) ہے ۔ بلکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیحین میں ثابت شدہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی فوت ہو جائے اور اس پر (ماہِ رمضان کے) روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے ادا کرے۔‘‘ اِسی طرح کا حکم الصحيح میں دیگر قرائن کی بنا پر منت کے روزوں سے بھی ثابت ہے۔ پس (یہ تمام تفاصیل جان لینے کے بعد) یہ کہنا جائز نہیں کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے قول {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} ’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی‘‘ کے ساتھ کوئی تعارض ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں : پہلی وجہ یہ ہے کہ بے شک یہ بات نصوص متواترہ اور ائمہ سلف کے اِجماع سے ثابت ہے کہ مؤمن کو اس عمل سے بھی فائدہ ملتا ہے جس کے لیے اُس نے کوئی کوشش نہ کی ہو، جیسا کہ ملائکہ کی دعا اور ان کا مومن بندے کے حق میں استغفار کرنا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں.} اور اِسی طرح نبیوں اور مؤمنین کی دعائیں اور ان کا استغفار کرنا، نماز پڑھنے والوں کا میت کے لیے دعا کرنا، اور قبروں پر جانے والوں کا صاحبِ قبر کے لیے دعا کرنا (بھی مغفرت کے اسباب میں سے ہے) ۔

علامہ ابن تیمیہ نے اپنی دوسری کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں بھی اِیصالِ ثواب پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور اِس کی مشروعیت پر بالتفصیل لکھا ہے : فَأَمَّا مَا يَذْکُرُهُ بَعْضُ النَّاسِ مِنْ أَنَّهُ يَنْتَفِعُ الْمَيِتُ بِسَمَاعِ الْقُرْآنِ بِخِلَافِ مَا إِذَا قُرِءَ فِي مَکَانٍ آخَرَ، فَهٰذَا إِذَا عُنِيَ بِهِ : أَنَّهُ يَصِلُ الثَّوَابُ إِلَيْهِ إِذَا قُرِءَ عِنْدَ الْقَبْرِ خَاصَّةً، فَلَيْسَ عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَعْرُوْفِيْنَ، بَلِ النَّاسُ عَلٰی قَوْلَيْن : أَحَدُهُمَا : أَنَّ ثَوَابَ الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَةِ مِنَ الصَّلَاةِ وَالْقِرَاءَةِ وَغَيْرِهِمَا يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ کَمَا يَصِلُ إِلَيْهِ ثَوَابُ الْعِبَادَاتِ الْمَالِيَةِ بِالْإِجْمَاعِ، وَهٰذَا مَذْهَبُ أَبِي حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَغَيْرِهِمَا، وَقَوْلُ طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ وَهُوَ الصَّوَابُ لِأَدِلَّةٍ کَثِيْرَةٍ ذَکَرْنَا فِي غَيْرِ هٰذَا الْمَوْضِعِ ۔ وَالثَّانِي : أَنَّ ثَوَابَ الْعِبَادَةِ الْبَدَنِيَةِ لَا يَصِلُ إِلَيْهِ بِحَالٍ. وَهُوَ مَشْهُوْرٌ عِنْدَ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ. وَمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ هٰـؤُلَاءِ يَخُصُّ مَکَانًا بِالْوُصُوْلِ أَوْ عَدْمِهِ ۔ فَأَمَّا اسْتِمَاعُ الْمَيِتِ لِـلْأَصْوَاتِ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَغَيْرِهَا : فَحَقٌّ، لٰـکِنَّ الْمَيِتُ مَا بَقِيَ يُثَابُ بَعْدَ الْمَوْتِ عَلٰی عَمَلٍ يَعْمَلُهُ هُوَ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنِ اسْتِمَاعِ أَوْ غَيْرِهِ. وَإِنَّمَا يُنْعَمُ أَوْ يُعَذَّبُ بِمَا کَانَ قَدْ عَمِلَهُ فِي حَيَاتِهِ هُوَ، أَوْ بِمَا يَعْمَلُ غَيْرُهُ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنْ أَثَرِهِ، أَوْ بِمَا يُعَامَلُ بِهِ. کَمَا قَدِ اخْتُلِفَ فِي تَعْذِيْبِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ، وَکَمَا يُنْعَمُ بِمَا يُهْدَی إِلَيْهِ، وَکَمَا يُنْعَمُ بِالدُّعَاءِ لَهُ، وَإِهْدَاءِ الْعِبَادَاتِ الْمَالِيَةِ بِالْإِجْمَاعِ ۔ وَکَذَالِکَ قَدْ ذَکَرَ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَائِ مِنْ أَصْحَابِ أَحْمَدَ وَغَيْرِهِمْ، وَنَقَلُوْهُ عَنْ أَحْمَدَ، وَذَکَرُوْا فِيْهِ آثَارًا : أَنَّ الْمَيِتَ يَتَأَلَّمُ بِمَا يُفْعَلُ عِنْدَهُ مِنَ الْمَعَاصِي ۔ فَقَدْ يُقَالَ أَيْضًا : إِنَّهُ يُتَنَعَّمُ بِمَا يَسْمَعُهُ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَذِکْرِ اﷲِ ۔ (إقتضاء الصراط المستقيم صفحہ نمبر 378-379،چشتی)
ترجمہ : اور بعض لوگوں کا جو یہ بیان ہے کہ میت کو قرآن حکیم سننے سے فائدہ ہوتا ہے (جب اس کی قبر کے پاس پڑھا جائے) بخلاف اس کے کہ جب کسی دوسری جگہ پر پڑھا جائے۔ اس بات سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ثواب صرف اسی صورت میں پہنچتا ہے جب خاص طور پر قبر کے پاس ہی پڑھا جائے، تو معروف علماء میں سے کسی کی بھی یہ رائے نہیں ہے۔ بلکہ اس بارے میں دو آراء ہیں : پہلا قول : بدنی عبادات کے بارے میں ہے جیساکہ نماز اور تلاوتِ قرآن حکیم اور اس کی علاوہ دیگر بدنی عبادات کا ثواب بھی میت کو پہنچے گا جس طرح مالی عبادات کا ثواب پہنچتا ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور یہ ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کا مذہب ہے۔ ان دونوں کے علاوہ شافعی اور مالکی فقہاء کے ایک گروہ کا بھی یہی قول ہے۔ یہی حق ہے۔ اس پر بہت سے دلائل ہیں جنہیں ہم نے اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ بیان کیا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جہاں تک بدنی عبادات کا تعلق ہے تو فقہائے شافعی اور مالکی کے نزدیک میت کو اس کا ثواب کسی طور نہیں پہنچتا. اور ان میں سے کوئی بھی قبر کے پاس یا دور ہونے کو خاص نہیں کرتا ۔ پس جہاں تک میت کا قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ سننے کا تعلق ہے تو یہ حق ہے لیکن میت کو موت کے بعدہر اس عمل کا ثواب ملتا ہے جو وہ کرتا ہے جیسا کہ قرآن کی تلاوت سننا وغیرہ. پس اسے ہر اس عمل کی جزا و سزا ملتی رہتی ہے جو اس نے دنیا میں کیا تھا یا اس مرنے والے کے علاوہ اس کے بتانے کی وجہ سے کوئی اور کرتا ہے یا جس کا وہ معاملہ کرتا ہے۔ جس طرح کہ اس (میت) پر نوحہ کیے جانے کی صورت میں اس کو عذاب دیے جانے میں اختلاف ہے۔ اور جس طرح اس کو اپنی طرف آنے والے (اعمالِ صالحہ کے) ہدایا کی صورت میں نعمت ملتی ہے اور اسی طرح اس کو اپنے لیے کیے جانے والی دعائے بخشش کی نعمت ملتی ہے اور مالی عبادات میں سے اس کی طرف ہدیہ کیا جاتا ہے۔ اس پر اجماع ہے۔
اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو کار علماء کرام کے ایک طبقہ اور دیگر نے امام احمد سے نقل کیا ہے اور اس میں یہ قول بیان کیا ہے : بے شک میت کو اپنے پاس ہونے والے گناہوں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ بھی کہا جاتا ہے : میت جو کچھ تلاوتِ قرآن اور ذکر الٰہی سنتی ہے اسے (ثواب کی صورت میں) انعام دیا جاتا ہے ۔

امام ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ایصال ثواب پر اہل سنت و جماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : صَرَّحَ عُلَمَاؤُنَا فِي بَابِ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ بِأَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا کَذَا فِي الْهِدَايَةِ، بَلْ فِي زَکَاةِ التَّتَارْخَانِيَةِ عَنِ الْمُحِيْطِ، اَلْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْـلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيْعِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيءٌ. وَهُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ ۔ (رد المحتار جلد 2 صفحہ 243)
ترجمہ : ہمارے علماء نے دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے باب میں اِس بات کی تصریح کی ہے کہ انسان کےلیے جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے ۔ خواہ وہ عمل نماز ہو ، روزہ ہو ، کوئی صدقہ ہو یا کچھ اور ، اِسی طرح الھدایہ میں مذکورہ ہے ۔ بلکہ فتاویٰ تتارخانیہ میں زکوٰۃ کے باب میں محیط سے منقول ہے ہے کہ ایصال ثواب کرنے والے کےلیے افضل یہ ہے کہ وہ تمام مومنین و مومنات کو ایصال ثواب کی نیت کرے ، اِس طرح سب کو ثواب پہنچ جائے گا اور اِیصال کرنے والے کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ یہی اہل سنت و جماعت کا موقف ہے ۔

کھانا سامنے رکھ کر قرآن پڑھنا و ایصال ثواب

محترم قارئینِ کرام : اہلسنت کے معمولات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگ کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ , اخلاص یا پھر قرآن مجید کی دیگر آیات کی تلاوت کرتے ہیں جب کہ ہمارے مخالفین اس جائز عمل کو بدعت سیئہ,مکروہ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم اہلسنت اپنے دیگر معمولات کی طرح اس کا ثبوت بھی قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں,مگر یہ حق والوں یعنی اہلسنت کی عداوت ہی کی سزا ہے کہ ہمارے مخالفین ثبوت و دلائل مل جانے کے بعد بھی ہم پر زبان طعن بلاوجہ دراز کرکے اپنی آخرت خراب کرتے رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ امت محمدیہ میں انتشار و افتراق کی وجہ بنتے ہیں جو کہ نہایت افسوس ناک امر ہے ۔ اب چونکہ کھانا سامنے رکھ کر قرآن ہم پڑھتے ہیں لہٰذا اپنے اس عمل کی تشریح و توضیح کا حق بھی صرف ہم کو ہے ۔

اہلسنت و جماعت کے نزدیک : ⏬

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یونہی وہ لوگ جو اپنے کو حنفی کہتے ہیں اور ایصال ثواب سے انکار کرتے ہیں وہ بھی اس سے باز آجائیں کہ علاوہ حدیث کے کتب معتبرہ مستندہ حنفیہ کی متعدد عبارتیں پیش کر ذی ہیں کہ انکار کی گنجائش باقی نہیں اور غالباً انہیں مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ اپنی طرف سے کچھ باتیں اضافہ کرکے اسے بدعت و ناجائز کہتے ہیں ورنہ ان کے متقدمین تو سرے سے ایصال ثواب سے ہی انکار کرتے تھے اور دلیل وہی پیش کرتے تھے جو معتزلہ پیش کرتے تھے مگر جب اہلسنت کے دلائل باہرہ کا جواب نہ ہوسکا تو عدم جواز کا دوسرا پہلو نکالا کبھی کہتے ہیں کھانے پر فاتحہ پڑھنا ناجائز ہے اور کبھی یہ کہ ہاتھ اثھا کر فاتحہ پڑھ کر دعا کرنا کبھی یہ کہ کھانا سامنے رکھنا کبھی یہ کہ دن کی تخصیص کرنا غرض ایسی ہی باتیں پیش کر کے ایصال ثواب کو روکنا چاہتے ہیں ۔ اقول (میں کہتا ہوں) قرآن مجید کی قرأت وجہ ممانعت ہو جائے یہ عجیب بات ہے جب صدقہ اور قرأت قرآن دونوں چیزوں کا ثواب پہنچ سکتا ہے جیسا کہ کتب معتبرہ فقہ سے ثابت ہے عبارات پہلے گزر چکیں تو اگر یہ دونوں کام ایک وقت میں کئے جائیں تو ناجوازی کی کیا وجہ ہے ؟
کیا اس وقت قرآن پڑھنا ناجائز ہے ؟ یا تصدق ناجائز ہے ؟ اور جب دونوں جائز تو ایک ساتھ بھی جائز ۔ ( فتاویٰ امجدیہ جلد اول صفحہ٣٥٠مطبوعہ دائرہ المعارف الامجدیہ )

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ بھی جواز کے قائل ہیں دیکھیے ۔ (جآء الحق جلد اول صفحہ٢٦١مطبوعہ نعیمی کتب خانہ لاہور)

مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین رضوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کھانا وغیرہ سامنے رکھ کر قرآن مجید میں سے کچھ سورتیں پڑھی جائیں اور اس کے بعد ایصال ثواب اور دعا کی جائے یہ اہلسنت کے نزدیک جائز ہے ۔ ( وقار الفتاویٰ جلد اول صفحہ ١٩٩مطبوعہ بزم وقارالدین کراچی،چشتی)

عصرِ حاضر کی معروف علمی شخصیت امام المناظرین شیخ القرآن علامہ فہامہ امام پروفیسر محمد سعید احمد اسعد صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ایصال ثواب کےلیے کھانا شرط ہے اور کھانے پر قرآن حکیم پڑھنا شرط ہے.ہمارے نزدیک اگر کسی نے صرف کھانا پکا کر کسی کو کھلا کر اس کا ثواب میت کو پہنچایا تب بھی جائزاگر صرف قرآن حکیم پڑھ کر اس کا میت کو ثواب بخشا تب بھی جائزاگر کسی نے قرآن حکیم بھی پڑھا اور کھانا بھی پکایا لیکن کھانے پر قرآن حکیم نہیں پڑھا بلکہ الگ پڑھا اور ان دونوں چیزوں کا ثواب میت کو پہنچایا تب بھی جائزہاں ہاں اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جب تک کھانے پر قرآن حکیم کی چند مخصوص آیات نہ پڑھی جائیں اتنی دیر تک میت کو ثواب پہنچ ہی نہیں سکتا وہ در حقیقت شریعت مطہرہ پر افتراء کرنے والا ہے اس کو اپنے اس گندے عقیدے سے توبہ کرنی چاہیئے۔ اسی طرح  اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اگر صرف کھانے کا ثواب میت کو بھیجا جائے تو پہنچے گا اسی طرح اگر صرف قرآن خوانی کی جائے تو اس کا ثواب بھی پہنچے گا لیکن اگر کھانا سامنے رکھ کر قرآن اوپر پڑھا جائے تو ثواب نہیں پہنچے گا بلکہ ایسا کرنا بدعت اور گناہ ہوگا یہ عقیدہ رکھنے والا بھی شریعت مطہرہ افتراء کرنے والا ہے ایسے شخص کو بھی ایسے گندے عقیدے سے توبہ کرنی لازم ہے ۔ ہاں اگر کوئی اس گندے عقیدے پر اصرار کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن حکیم , احادیث مبارکہ سے ایسی تصریح پیش کرے کہ قرآن حکیم اور طعام کا ثواب الگ الگ ہونے کی صورت میں تو میت کو پہنچے گا لیکن اگر کھانے پر قرآن حکیم پڑھا جائے تو گناہ ہوگا ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ۔ (مسئلہ ایصال ثواب صفحہ نمبر ٥٠ تا ٥٢ مطبوعہ سنی اتحاد شیخ کالونی فیصل آباد،چشتی)

ان بزرگان اہلسنت کی تصریح و تشریح و توضیح سے معلوم ہوا کہ ہم اہلسنت کھانا سامنے رکھ کر قرآن مجید پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں نہ کہ فرض واجب اور ایسے ہی اس عمل کے تارک کو نشانۂ طعن بھی نہیں بناتے البتہ اس عمل کو بدعت وغیرہ کہنے والے حضرات کو شریعت پر افتراء کی وجہ سے قصور وار ضرور ٹھہراتے ہیں علماء اہلسنت کی اس صراحت کے باوجود مخالفین ہمیں کیا کیا الزام دیتے ہیں؟ اس کی جھلک بھی ملاحظہ ہو!

مخالفین کے الزام : حنفیت کے دعویدار علماء دیوبند دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی غیر معمولی شدت اختیار کئے ہوئے ہیں جو عوام الناس کےلیے بہرحال درست نہیں ۔ دیوبندی حضرات کے قطب مفتی رشید احمد گنگوہی اپنی بھڑاس کچھ اندا ز سے نکالتے ہیں : ⏬

سوال : فاتحہ کا پڑھنا کھانے پر یا شیرینی پر بروز جمعرات کے درست ہے یا نہیں ؟
جواب : فاتحہ کھانے یا شیرینی پر پڑھنا بدعت ضلالت ہے ہرگز نہ کرنا چاہیے ۔

اس سے پہلے والے سوال کا بھی کچھ اسی طرح کا جواب ہے جس میں اس عمل کو بدعت سیئہ کہا گیا ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ١٤٢ کتاب العلم مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند)

ایک اور مقام پر یوں ہے سوال اور جواب دونوں ملاحظہ ہوں : ⏬

سوال : فاتحہ,تیجہ,دسواں کرنا کیسا ہے ؟ زید کہتا ہے کہ چنوں پر فاتحہ سوم میں اللہ کا نام پڑھنا موجب ثواب ہے کہ اس سے ایصال ثواب منظور ہے اور یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے اس میں کچھ حرج نہیں ہے اور فتاویٰ عزیزی میں یہ طریقہ لکھا ہے پس زید کا قول تمام ہوا ان چنوں کا کھانا کیسا ہے ۔
جواب : یہ جملہ امور بدعت ہیں صرف ایصال ثواب جائز ہے باقی قیودات بدعت ہیں ۔
اسی طرح اس کے بعد والے سوال کا جواب بھی کچھ یوں ہے کہ یہ سب امور بدعت ہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ١٤٥ مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند)

تعصب و ہٹ دھرمی کی انتہاء ہے کہ سوال میں چنوں پر اللہ عزوجل کا نام پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو جواب آیا کہ بدعت ہے حالانکہ کلام مجید اس بارے میں اس کے بالکل برعکس فرماتا ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے : "فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ"
ترجمہ : تو کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو ۔ (سورہ انعام آیت ١١٨ پارہ  ٨ )

بلکہ اس سے اگلی آیت کریمہ میں گنگوہی اینڈ کمپنی کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : "وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ ۔
ترجمہ : اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا وہ تو تم پر مفصل بیان کر چکا جو کچھ تم پر حرام ہوا مگر جب تمہیں اس سے مجبوری ہو بے شک بہتیرے اپنی خواہشوں سے گمراہ کرتے ہیں بے جانے بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے ۔ (سورہ انعام آیت ١١٩ پارہ ٨)

قارئین کرام سے گزارش ہے کہ گنگوہی صاحب کا فتویٰ سوال جواب دونوں پڑھیں اور پھر مذکورہ بالا آیت کریمہ کو بھی پڑھیں اور پھر فیصلہ اپنے دل سے لیں کیا آیت کا مضمون لمحۂ فکریہ نہیں ؟

قرآن حکیم پہلے حکم فرماتا ہے کہ اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا مگر گنگوہی صاحب اسے بدعت کہتے ہیں اور پھر قرآن حکیم اپنے حکم پر عمل نہ کرنے والوں سے پوچھتا ہے کہ تم اس میں سے کیوں نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اور اگر تم اسے بھی حرام سمجھتے ہو تو تمہارا سمجھنا باطل اور وہم ہے کیونکہ حرام کا ذکر تو تفصیلاً ہو چکا ۔ اگر یہ عمل بھی حرام ہوتا تو حرام کردہ چیزوں میں ضرور بیان ہوتا پھر فرمایا ۔ یہ صرف تمہارا وہمِ باطل ہی نہیں بلکہ تمہاری خواہش نفسانی ہے جس سے تم لوگوں کو ایسے فتوے دیکر گمراہ کرتے ہو ۔ اور پھر ساری زندگی کی پڑھائی لکھائی پر پانی پھیرتے ہوئے فرمایا "بغیر علم" ۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ تم جاہل ہو اور پھر ساتھ ہی فرمایا کہ چند کتابیں پڑھ لینے سے تم عالم نہیں بنے بلکہ اس پڑھائی کے بل بوتے پر جو تم لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو تو تم حدیں پھلانگ رہے ہو تب ہی تو فرمایا : بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے ۔

اسی لیے نائب محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان شیخ الحدیث محمد عبدالرشید صاحب علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : "یعنی جس پاکیزہ چیز پر بھی اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اسے کھانا جائز ہے لہذا تیجا , ساتا , دسواں , چالیسواں , سالانہ , گیارہویں شریف , بارہویں شریف,شب برأت وغیرہا کے کھانے جائز ہوئے کیرنکہ ان کھانوں پر قرآن شریف , درود شریف , ذکر و اذکار پڑھے جاتے ہیں جو انہیں حرام سمجھے وہ شریعت پر زیادتی کرتا ہے ۔ (رشد الایمان صفحہ ١٩٧ مطبوعہ مکتبہ رشد الایمان سمندری)

اس کے علاوہ سائل کے ان الفاظ پر بھی غور ہو کہ یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے ۔ مگر گنگوہی صاحب ہیں کہ بنا اس بات کا ردّ کئے بدعت کا فتویٰ داغ رہے ہیں اب اس فتوے کی زد میں کون کون سے بزرگ آتے ہیں یہ آگے چل کر عرض کروں گا ۔ سوال میں ایک بات اور قابل غور ہے کہ بقول سائل یہ طریقہ فتاویٰ عزیزی میں مذکور ہے مگر اس کے باوجود بھی گنگوہی صاحب کا قلم بدعت لکھے بغیر رہ نہ سکا اور یوں شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جیسی علمی شخصیت کے سر بدعت کا تاج سجا دیا گیا ۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)

وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۔

فتاوٰی رشیدیہ میں پوچھے گئے سوال میں سائل کے سوال میں دوسری بات "یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے" پر کلام ان شاءاللہ آگے چل کر کریں گے ۔ فی الحال سائل کے سوال میں فتاوٰی عزیزی کے حوالے پر کلام پیش خدمت ہے ۔ گنگوہی صاحب نے جس شخصیت کے فتاوٰی عزیزی کا حوالہ آجانے پر بھی بے دھڑک بدعت کا فتویٰ صادر کیا یہ وہی شخصیت ہیں جن کے مدّاح خود علماء دیوبند بھی ہیں ۔ دیوبندی مفتی عزیزالرحمٰن صاحب لکھتے ہیں : حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے علم و فضل و تقویٰ میں کسی کو کلام کی گنجائش نہیں ۔ اس کے بعد اگلے سوال کے جواب میں حضرت شاہ صاحب کو علماء کبار و اولیائے کرام میں سے لکھا ہے ۔ ( فتاوٰی دارالعلوم دیوبند جلد18 صفحہ581 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی،چشتی)

دیوبندی شیخ الحدیث مولوی سرفراز خان صفدر گکھڑوی لکھتے ہیں : بلاشبہ مسلک دیوبند سے وابستہ جملہ حضرات حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا روحانی پدر تسلیم کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں ۔ آگے لکھتے ہیں : بلاشک دیوبندی حضرات کیلئے حضرت شاہ عیدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ (اتمام البرھان فی ردّ توضیح البیان حصّہ اول صفحہ نمبر138 مطبوعہ مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ،چشتی)

لطف کی بات یہ ہے کہ خود گنگوہی صاحب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے جو نظریہ رکھتے ہیں وہ قابل غور ہے.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خاندان کے متعلق لکھتے ہیں کہ : "بندہ خاندان حضرت شاہ ولی اللہ صاحب میں بیعت ہے اور اسی خاندان کا شاگرد ہے گو ان کے عقائد کو حق اور تحقیقات کو صحیح جانتا ہے ۔ پھر آگے شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی تفسیر کا ذکر ہے ۔ (فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 58 مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند )

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی علماء دیوبند کے قلم سے اس قدر تعریف کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ شاہ صاحب کی شخصیت اور ان کی تصانیف کا علماء دیوبند کے ہاں کیا مقام ہے ۔ اور بقول سرفراز صفدر صاحب کے شاہ صاحب کا فیصلہ دیوبندی حضرات کیلئے حکم آخر ہے ۔ (حوالہ پہلے گزر چکا)

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ

اب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ملاحظہ ہو : ایک سوال کے جواب میں شاہ صاحب فرماتے ہیں : جس کھانے کا ثواب حضرت امامین رضی اللہ عنہما کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ و قُل درود پڑھا جائے وہ کھانا تبرّک ہو جاتا ہے اس کا کھانا بہت خُوب ہے ۔ ( فتاوٰے عزیزی صفحہ 189 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )

والحمد للہ علیٰ ذالک ۔

لیجیے محترم قارئین : حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کھانے جس پر صرف فاتحہ ہی نہیں بلکہ قل اور درود بھی پڑھا جائے کو برکت والا کھانا کہہ رہے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اسے کھانے کو خوب کہہ کر یہ واضح کیا جارہا ہے کہ اس کا تعلق کسی بدعت یا ناجائز امر سے قطعاً نہیں اب غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دیوبندی حضرات اپنے اکابر کے قلم سے نکلے ہوئے جملوں کا پاس رکھیں اور شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے اس فیصلے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اس جائز عمل کو بدعت و ناجائز کہنا چھوڑ دیں اور نہ صرف یہ بلکہ خود اس پر عمل کرکے بھی دکھائیں تاکہ ہمیں یقین واثق ہو جائے کہ دیوبندی حضرات کو اپنے اکابر کے قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کی غیرت اور پاس ہے اور یہ حضرات واقعی حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلے کو حکم آخر سمجھتے ہیں ! (فافھم) وگرنہ روحانی باپ اور باپ بھی وہ جس پر بقول سرفراز صفدر دیوبندیوں کو فخر ہے کی نا فرمانی کا سہرا علماء دیوبند کے سر ماتھے ہوگا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...