حدیث لَانُوَرِّثُ مَاتَرَكْنَا فَهو صَدَقَةٌ کتب اہلسنت و شیعہ کی روشن میں حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لَانُوَرِّثُ مَاتَرَكْنَا فَهو صَدَقَةٌ ۔ یعنی ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ متواتر ہے اور بارہ سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کی ہے ۔ حضرت صدیق اکبر ۔ حضرت عمر فاروق ۔ حضرت عثمان غنی ۔ حضرت مولا علی ۔ حضرت عباس ۔ حضرت طلحہ ۔ حضرت زبیر ۔ حضرت الرحمان بن عوف ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ۔ حضرت ابوہریرہ ۔ حضرت حذیفہ ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم ۔ حضرت سیدنا پیر سید مہر علی شاہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اس حدیث لَانُوَرِّثُ مَاتَرَكْنَا فَهو صَدَقَةٌ کے راوی اکیلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ اور لوگ بھی ہیں کتب صحاح ملاحظہ ہوں اسی وجہ سے یہ حدیث مجتمع علیہا ہے ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ 42)
حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يقتسم ورثتي دينارا، ولا درهما ما تركت بعد نفقة نسائي، ومئونة عاملي فهو صدقة ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 2776)
ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں ابوالزناد نے ‘ انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”جو آدمی میرے وارث ہیں ‘ وہ روپیہ اشرفی اگر میں چھوڑ جاؤں تو وہ تقسیم نہ کریں ‘ وہ میری بیویوں کا خرچ اور جائیداد کا اہتمام کرنے والے کا خرچ نکالنے کے بعد صدقہ ہے ۔
حدثنا إسحاق بن محمد الفروي، حدثنا مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن مالك بن اوس بن الحدثان، وكان محمد بن جبير ذكر ليذكرا من حديثه ذلك فانطلقت حتى ادخل على مالك بن اوس فسالته عن ذلك الحديث، فقال مالك: بينا انا جالس في اهلي حين متع النهار إذا رسول عمر بن الخطاب ياتيني، فقال: اجب امير المؤمنين فانطلقت معه حتى ادخل على عمر فإذا هو جالس على رمال سرير ليس بينه وبينه فراش متكئ على وسادة من ادم فسلمت عليه ثم جلست، فقال: يا مال إنه قدم علينا من قومك اهل ابيات، وقد امرت فيهم برضخ فاقبضه فاقسمه بينهم، فقلت: يا امير المؤمنين لو امرت به غيري، قال: اقبضه ايها المرء، فبينا انا جالس عنده اتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان وعبد الرحمن بن عوف والزبير وسعد بن ابي وقاص يستاذنون، قال: نعم فاذن لهم فدخلوا فسلموا وجلسوا، ثم جلس يرفا يسيرا، ثم قال: هل لك في علي وعباس، قال: نعم فاذن لهما فدخلا فسلما فجلسا، فقال عباس: يا امير المؤمنين اقض بيني وبين هذا وهما يختصمان فيما افاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من بني النضير، فقال الرهط: عثمان واصحابه يا امير المؤمنين اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، قال عمر: تيدكم انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث ما تركنا صدقة" يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، قال الرهط: قد قال ذلك فاقبل عمر على علي وعباس، فقال: انشدكما الله اتعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ذلك: قالا: قد قال ذلك، قال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر إن الله قد خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، ثم قرا وما افاء الله على رسوله منهم إلى قوله قدير سورة الحشر آية 6 فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم والله ما احتازها دونكم ولا استاثر بها عليكم قد اعطاكموه وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال ثم ياخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك حياته انشدكم بالله هل تعلمون ذلك، قالوا: نعم، ثم قال: لعلي وعباس انشدكما بالله هل تعلمان ذلك، قال عمر: ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها ابو بكر فعمل فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم والله يعلم إنه فيها لصادق بار راشد تابع للحق، ثم توفى الله ابا بكر فكنت انا ولي ابي بكر فقبضتها سنتين من إمارتي اعمل فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما عمل فيها ابو بكر والله يعلم إني فيها لصادق بار راشد تابع للحق، ثم جئتماني تكلماني وكلمتكما واحدة وامركما واحد جئتني يا عباس تسالني نصيبك من ابن اخيك، وجاءني هذا يريد عليا يريد نصيب امراته من ابيها، فقلت: لكما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا نورث ما تركنا صدقة فلما بدا لي ان ادفعه إليكما، قلت: إن شئتما دفعتها إليكما على ان عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيها بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل فيها ابو بكر وبما عملت فيها منذ وليتها، فقلتما ادفعها إلينا فبذلك دفعتها إليكما فانشدكم بالله، هل دفعتها إليهما بذلك؟، قال: الرهط نعم ثم اقبل على علي وعباس، فقال: انشدكما بالله هل دفعتها إليكما بذلك، قالا: نعم، قال: فتلتمسان مني قضاء غير ذلك فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك، فإن عجزتما عنها فادفعاها إلي فإني اكفيكماها ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 3094)
ترجمہ : ہم سے اسحاق بن محمد فروی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن انس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے مالک بن اوس بن حدثان نے (زہری نے بیان کیا کہ) محمد بن جبیر نے مجھ سے (اسی آنے والی) حدیث کا ذکر کیا تھا۔ اس لیے میں نے مالک بن اوس کی خدمت میں خود حاضر ہو کر ان سے اس حدیث کے متعلق (بطور تصدیق) پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ دن چڑھ آیا تھا اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ‘ اتنے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک بلانے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ امیرالمؤمنین آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں اس قاصد کے ساتھ ہی چلا گیا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ایک تخت پر بوریا بچھائے ‘ بورئیے پر کوئی بچھونا نہ تھا ‘ صرف ایک چمڑے کے تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں سلام کر کے بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے فرمایا ‘ مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے تھے ‘ میں نے ان کے لیے کچھ حقیر سی امداد کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تم اسے اپنی نگرانی میں ان میں تقسیم کرا دو ‘ میں نے عرض کیا ‘ یا امیرالمؤمنین! اگر آپ اس کام پر کسی اور کو مقرر فرما دیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی اصرار کیا کہ نہیں ‘ اپنی ہی تحویل میں بانٹ دو۔ ابھی میں وہیں حاضر تھا کہ امیرالمؤمنین کے دربان یرفا آئے اور کہا کہ عثمان بن عفان ‘ عبدالرحمٰن بن عوف ‘ زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں انہیں اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات داخل ہوئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یرفا بھی تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور پھر اندر آ کر عرض کیا علی اور عباس رضی اللہ عنہما کو بھی اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں انہیں بھی اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات بھی اندر تشریف لے آئے۔ اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ یا امیرالمؤمنین! میرا اور ان کا فیصلہ کر دیجئیے۔ ان حضرات کا جھگڑا اس جائیداد کے بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نضیر کے اموال میں سے (خمس کے طور پر) عنایت فرمائی تھی۔ اس پر عثمان اور ان کے ساتھ جو دیگر صحابہ تھے کہنے لگے ‘ ہاں ‘ امیرالمؤمنین! ان حضرات میں فیصلہ فرما دیجئیے اور ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے بےفکر کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجیے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم (انبیاء) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ “ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اب عمر رضی اللہ عنہ، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم ہی لوگوں کو دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے (جہاد کے سامان فراہم کرنے میں) خیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے ۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم ! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ (دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں!) پھر عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس مخلص) جائیداد پر قبضہ کیا اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں مصارف کیا کرتے تھے ‘ وہ کرتے رہے ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور اب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نائب مقرر ہوا۔ میری خلافت کو دو سال ہو گئے ہیں۔ اور میں نے بھی اس جائیداد کو اپنی تحویل میں رکھا ہے۔ جو مصارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں کیا کرتے تھے ویسا ہی میں بھی کرتا رہا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے اس طرز عمل میں سچا ‘ مخلص اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس مجھ سے گفتگو کرنے آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے کہ دونوں کا مقصد ایک تھا۔ جناب عباس! آپ تو اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنے بھتیجے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث کا دعویٰ میرے سامنے پیش کرنا تھا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کا دعویٰ پیش کرنا تھا کہ ان کے والد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث انہیں ملنی چاہیے ‘ میں نے آپ دونوں حضرات سے عرض کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرما گئے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی میراث تقسیم نہیں ہوتی ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ پھر مجھ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ میں ان جائیدادوں کو تمہارے قبضے میں دے دوں ‘ تو میں نے تم سے کہا ‘ دیکھو اگر تم چاہو تو میں یہ جائیداد تمہارے سپرد کر دیتا ہوں ‘ لیکن اس عہد اور اس اقرار پر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں کرتے رہے اور جو کام میں اپنی حکومت کے شروع سے کرتا رہا۔ تم نے اس شرط کو قبول کر کے درخواست کی کہ جائیدادیں ہم کو دے دو۔ میں نے اسی شرط پر دے دی ‘ حاضرین کہو میں نے یہ جائیدادیں اسی شرط پر ان کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا ‘ بیشک اسی شرط پر آپ نے دی ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ‘ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ میں نے اسی شرط پر یہ جائیدادیں آپ حضرات کے حوالے کی ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے کہا بیشک۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ چاہتے ہو ؟ (کیا جائیداد کو تقسیم کرانا چاہتے ہو) قسم اللہ کی! جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں میں تو اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ اگر تم سے اس کا انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر جائیداد میرے سپرد کر دو۔ میں اس کا بھی کام دیکھ لوں گا ۔
حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يقتسم ورثتي دينارا ما تركت بعد نفقة نسائي ومئونة عاملي فهو صدقة ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 3096)
ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک بن انس نے بیان کیا ‘ انہیں ابوالزناد نے بیان کیا ‘ انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”میرے وارث میرے بعد ایک دینار بھی نہ بانٹیں (میرا ترکہ تقسیم نہ کریں) میں جو چھوڑ جاؤں اس میں سے میرے عاملوں کی تنخواہ اور میری بیویوں کا خرچ نکال کر باقی سب صدقہ ہے ۔
فقال ابو بكر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث ما تركنا فهو صدقة إنما ياكل آل محمد من هذا المال يعني مال الله ليس لهم ان يزيدوا على الماكل" , وإني والله لا اغير شيئا من صدقات النبي صلى الله عليه وسلم التي كانت عليها في عهد النبي صلى الله عليه وسلم , ولاعملن فيها بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فتشهد علي، ثم قال: إنا قد عرفنا يا ابا بكر فضيلتك وذكر قرابتهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم وحقهم فتكلم ابو بكر، فقال: والذي نفسي بيده لقرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي ان اصل من قرابتي ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 3712)
ترجمہ : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرما گئے ہیں کہ ہماری میراث نہیں ہوتی ۔ ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور یہ کہ آل محمد کے اخراجات اسی مال میں سے پورے کیے جائیں مگر انہیں یہ حق نہیں ہو گا کہ کھانے کے علاوہ اور کچھ تصرف کریں اور میں، اللہ کی قسم! آپ کے صدقے میں جو آپ کے زمانے میں ہوا کرتے تھے ان میں کوئی رد و بدل نہیں کروں گا بلکہ وہی نظام جاری رکھوں گا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم فرمایا تھا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم آپ کی فضیلت و مرتبہ کا اقرار کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی قرابت کا اور اپنے حق کا ذکر کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت والوں سے سلوک کرنا مجھ کو اپنی قرابت والوں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ پسند ہے ۔
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان النصري، ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه دعاه إذ جاءه حاجبه يرفا، فقال:" هل لك في عثمان , وعبد الرحمن , والزبير , وسعد يستاذنون؟ فقال: نعم , فادخلهم فلبث قليلا ثم جاء، فقال: هل لك في عباس , وعلي يستاذنان؟ قال: نعم , فلما دخلا، قال عباس: يا امير المؤمنين اقض بيني وبين هذا , وهما يختصمان في الذي افاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من بني النضير فاستب علي , وعباس، فقال الرهط: يا امير المؤمنين اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، فقال عمر: اتئدوا انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث , ما تركنا صدقة" يريد بذلك نفسه، قالوا: قد قال ذلك , فاقبل عمر على عباس , وعلي، فقال: انشدكما بالله هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ذلك؟ قالا: نعم، قال: فإني احدثكم عن هذا الامر إن الله سبحانه كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال جل ذكره: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل ولا ركاب إلى قوله قدير سورة الحشر آية 6 فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم والله ما احتازها دونكم , ولا استاثرها عليكم لقد اعطاكموها وقسمها فيكم حتى بقي هذا المال منها , فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله , فعمل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: فانا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقبضه ابو بكر فعمل فيه بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتم حينئذ , فاقبل على علي , وعباس، وقال: تذكران ان ابا بكر فيه كما تقولان , والله يعلم إنه فيه لصادق بار راشد تابع للحق، ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر , فقبضته سنتين من إمارتي اعمل فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر والله يعلم اني فيه صادق بار راشد تابع للحق، ثم جئتماني كلاكما وكلمتكما واحدة وامركما جميع فجئتني , يعني عباسا، فقلت: لكما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث ما تركنا صدقة" , فلما بدا لي ان ادفعه إليكما، قلت: إن شئتما دفعته إليكما على ان عليكما عهد الله وميثاقه , لتعملان فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر وما عملت فيه منذ وليت وإلا فلا تكلماني , فقلتما ادفعه إلينا بذلك , فدفعته إليكما افتلتمسان مني قضاء غير ذلك , فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيه بقضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة , فإن عجزتما عنه فادفعا إلي فانا اكفيكماه ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 4033)
ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا۔ (وہ بھی امیرالمؤمنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئیے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جلدی نہ کیجیے ۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی ؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مال فئے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ”بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قدیر“ تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما گئے تھے کہ ”ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں ، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا ۔
فقال ابو بكر : سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا نورث , ما تركنا صدقة , إنما ياكل آل محمد في هذا المال" , والله لقرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي ان اصل من قرابتي ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 4036)
ترجمہ : اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔ البتہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس جائیداد میں سے خرچ ضرور ملتا رہے گا۔ اور اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں کے ساتھ عمدہ معاملہ کرنا مجھے خود اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن معاملت سے زیادہ عزیز ہے ۔
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، ان فاطمة عليها السلام بنت النبي صلى الله عليه وسلم ارسلت إلى ابي بكر تساله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم مما افاء الله عليه بالمدينة , وفدك وما بقي من خمس خيبر، فقال ابو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" لا نورث ما تركنا صدقة، إنما ياكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال"، وإني والله لا اغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حالها التي كان عليها في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولاعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فابى ابو بكر ان يدفع إلى فاطمة منها شيئا، فوجدت فاطمة على ابي بكر في ذلك فهجرته، فلم تكلمه حتى توفيت، وعاشت بعد النبي صلى الله عليه وسلم ستة اشهر، فلما توفيت دفنها زوجها علي ليلا، ولم يؤذن بها ابا بكر وصلى عليها، وكان لعلي من الناس وجه حياة فاطمة، فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس فالتمس مصالحة ابي بكر ومبايعته، ولم يكن يبايع تلك الاشهر، فارسل إلى ابي بكر ان ائتنا ولا ياتنا احد معك كراهية لمحضر عمر، فقال عمر: لا والله لا تدخل عليهم وحدك، فقال ابو بكر: وما عسيتهم ان يفعلوا بي، والله لآتينهم، فدخل عليهم ابو بكر فتشهد علي فقال: إنا قد عرفنا فضلك وما اعطاك الله ولم ننفس عليك خيرا ساقه الله إليك، ولكنك استبددت علينا بالامر، وكنا نرى لقرابتنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم نصيبا حتى فاضت عينا ابي بكر، فلما تكلم ابو بكر قال: والذي نفسي بيده لقرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي ان اصل من قرابتي، واما الذي شجر بيني وبينكم من هذه الاموال فلم آل فيها عن الخير، ولم اترك امرا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنعه فيها إلا صنعته، فقال علي لابي بكر: موعدك العشية للبيعة، فلما صلى ابو بكر الظهر رقي على المنبر فتشهد وذكر شان علي، وتخلفه عن البيعة وعذره بالذي اعتذر إليه، ثم استغفر وتشهد علي، فعظم حق ابي بكر وحدث انه لم يحمله على الذي صنع نفاسة علىابي بكر ولا إنكارا للذي فضله الله به ولكنا نرى لنا في هذا الامر نصيبا، فاستبد علينا، فوجدنا في انفسنا، فسر بذلك المسلمون وقالوا: اصبت، وكان المسلمون إلى علي قريبا حين راجع الامر المعروف ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 4241)
ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عروہ نے ‘ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں علی رضی اللہ عنہ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کو گواہ کیا ‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا ہم نے اس میں کوئی ریس بھی نہیں کی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی (کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ان باتوں سے گریہ طاری ہو گئی اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا پھر علی رضی اللہ عنہ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کر لیا تو مسلمان ان سے خوش ہو گئے اور علی رضی اللہ عنہ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کر لی ہے ۔
حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان،" وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذكرا من حديثه، فانطلقت حتى دخلت على مالك بن اوس، فسالته، فقال مالك: انطلقت حتى ادخل على عمر إذ اتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان وعبد الرحمن والزبير وسعد يستاذنون؟ قال: نعم، فاذن لهم، قال: فدخلوا وسلموا، فجلسوا، ثم لبث يرفا قليلا، فقال لعمر: هل لك في علي وعباس؟ قال: نعم، فاذن لهما، فلما دخلا سلما وجلسا، فقال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا، فقال الرهط: عثمان واصحابه يا امير المؤمنين، اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، فقال عمر: اتئدوا انشدكم بالله الذي به تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا نورث ما تركنا صدقة"، يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، قال الرهط: قد قال ذلك فاقبل عمر على علي وعباس، فقال انشدكما بالله، هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك؟ قالا: قد قال ذلك، قال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر إن الله كان قد خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا المال بشيء لم يعطه احدا غيره، قال الله: ما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل إلى قوله: قدير سورة الحشر آية 6 فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم والله ما احتازها دونكم ولا استاثر بها عليكم لقد اعطاكموها وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي، فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، انشدكم بالله، هل تعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، قال لعلي وعباس: انشدكما بالله، هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم، ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله، فقبضها ابو بكر يعمل فيها بما عمل به فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتما حينئذ، واقبل على علي وعباس، تزعمان ان ابا بكر كذا وكذا والله يعلم انه فيها صادق بار راشد تابع للحق، ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، فقبضتها، سنتين اعمل فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر، ثم جئتماني وكلمتكما واحدة وامركما جميع جئتني تسالني نصيبك من ابن اخيك واتى هذا يسالني نصيب امراته من ابيها، فقلت: إن شئتما دفعته إليكما على ان عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل به فيها ابو بكر وبما عملت به فيها منذ وليتها وإلا فلا تكلماني فيها، فقلتما: ادفعها إلينا بذلك، فدفعتها إليكما بذلك انشدكم بالله، هل دفعتها إليهما بذلك؟ فقال الرهط: نعم، قال: فاقبل على علي وعباس، فقال: انشدكما بالله، هل دفعتها إليكما بذلك؟ قالا: نعم، قال: افتلتمسان مني قضاء غير ذلك؟ فوالذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنها فادفعاها فانا اكفيكماها ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 5358)
ترجمہ : ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی (ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ) محمد بن جبیر بن مطعم نے اس کا بعض حصہ بیان کیا تھا، اس لیے میں روانہ ہوا اور مالک بن اوس کی خدمت میں پہنچا اور ان سے یہ حدیث پوچھی۔ مالک نے مجھ سے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے دربان یرفاء ان کے پاس آئے اور کہا عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن، زید اور سعد رضی اللہ عنہم (آپ سے ملنے کی) اجازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اس کی اجازت دیں گے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اندر بلا لو۔ چنانچہ انہیں اس کی اجازت دے دی گئی۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ سب اندر تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یرفاء نے تھوڑی دیر کے بعد پھر عمر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما بھی ملنا چاہتے ہیں کیا آپ کی طرف سے اجازت ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی اندر بلانے کے لیے کہا۔ اندر آ کر ان حضرات نے بھی سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ اس کے بعد عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین میرے اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ دوسرے صحابہ عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بھی کہا کہ امیرالمؤمنین ان کا فیصلہ فرما دیجیے اور انہیں اس الجھن سے نجات دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جلدی نہ کرو میں اللہ کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ، جو کچھ ہم انبیاء وفات کے وقت چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ خود اپنی ذات کی طرف تھا۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا میں اللہ کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ سے اس معاملہ میں بات کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مال (مال فے) میں مختار کل ہونے کی خصوصیت بخشی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اس میں سے کسی دوسرے کو کچھ نہیں دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل» سے «قدير» تک۔“ اس لیے یہ (چار خمس) خاص آپ کےلیے تھے۔ اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اس مال کو اپنے لیے خاص نہیں کر لیا تھا اور نہ تمہارا کم کر کے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لیے رکھا تھا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تم سب میں اس کی تقسیم کی آخر میں جو مال باقی رہ گیا تو اس میں سے آپ اپنے گھر والوں کےلیے سال بھر کا خرچ لیتے اور اس کے بعد جو باقی بچتا اسے اللہ کے مال کے مصرف ہی میں (مسلمانوں کےلیے) خرچ کر دیتے ۔ آپ نے اپنی زندگی بھر اسی کے مطابق عمل کیا۔ اے عثمان! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تمہیں یہ معلوم ہے؟ سب نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے ؟ انہوں نے بھی کہا کہ جی ہاں معلوم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی وفات کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق اس میں عمل کیا۔ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر انہوں نے کہا۔ آپ دونوں اس وقت موجود تھے، آپ خوب جانتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں مخلص، محتاط و نیک نیت اور صحیح راستے پر تھے اور حق کی اتباع کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اور اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشین ہوں۔ میں دو سال سے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لیے ہوئے ہوں اور وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کیا تھا۔ اب آپ حضرات میرے پاس آئے ہیں، آپ کی بات ایک ہی ہے اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے ۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) آئے اور مجھ سے اپنے بھتیجے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وراثت کا مطالبہ کیا اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) آئے اور انہوں نے اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کے ترکہ کا مطالبہ کیا۔ میں نے آپ دونوں سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو یہ جائیداد دے سکتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ پر اللہ کا عہد واجب ہو گا۔ وہ یہ کہ آپ دونوں بھی اس جائیداد میں وہی طرز عمل رکھیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا، جس کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا اور جب سے میں اس کا والی ہوا ہوں، میں نے جو اس کے ساتھ معاملہ رکھا۔ اور اگر یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آپ مجھ سے اس بارے میں گفتگو چھوڑیں۔ آپ لوگوں نے کہا کہ اس شرط کے مطابق وہ جائیداد ہمارے حوالہ کر دو اور میں نے اسے اس شرط کے ساتھ تم لوگوں کے حوالہ کر دیا۔ کیوں عثمان اور ان کے ساتھیو ! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں میں نے اس شرط ہی پر وہ جائیداد علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے قبضہ میں دی ہے نا ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا میں نے آپ دونوں کے حوالہ وہ اس شرط کے ساتھ کی تھی؟ دونوں حضرات نے فرمایا کہ جی ہاں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا آپ حضرات اب اس کے سوا مجھ سے کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں ؟ اس ذات کی قسم ہے جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں اس کے سوا میں کوئی اور فیصلہ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ اب لوگ اس کی ذمہ داری پوری کرنے سے عاجز ہیں تو مجھے واپس کر دیں میں اس اس کا بندوبست آپ ہی کر لوں گا ۔
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان، وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي من حديثه ذلك، فانطلقت حتى دخلت عليه فسالته، فقال: انطلقت حتى ادخل على عمر، فاتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد؟ قال: نعم، فاذن لهم، ثم قال: هل لك في علي، وعباس؟ قال: نعم، قال عباس: يا امير المؤمنين: اقض بيني وبين هذا، قال: انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال" لا نورث ما تركنا صدقة". يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، فقال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل على علي، وعباس، فقال: هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك؟ قالا: قد قال ذلك، قال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر، إن الله قد كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال عز وجل: ما افاء الله على رسوله إلى قوله قدير سورة الحشر آية 6 فكانت خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، والله ما احتازها دونكم، ولا استاثر بها عليكم، لقد اعطاكموها، وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال، فكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله من هذا المال نفقة سنته، ثم ياخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذاك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، انشدكم بالله هل تعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، ثم قال لعلي، وعباس: انشدكما بالله هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم، فتوفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها فعمل بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضتها سنتين اعمل فيها ما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر، ثم جئتماني وكلمتكما واحدة، وامركما جميع، جئتني تسالني نصيبك من ابن اخيك، واتاني هذا يسالني نصيب امراته من ابيها، فقلت: إن شئتما دفعتها إليكما، بذلك فتلتمسان مني قضاء غير ذلك، فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك، حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما فادفعاها إلي فانا اكفيكماها ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 6728)
ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے مالک بن اوس کی اس حدیث کا ایک حصہ ذکر کیا تھا۔ پھر میں خود مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث پوچھی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ان کے حاجب یرفاء نے جا کر ان سے کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن بن زبیر اور سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آنے دو۔ چنانچہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ پھر کہا، کیا آپ علی و عباس رضی اللہ عنہما کو بھی آنے کی اجازت دیں گے؟ کہا کہ ہاں آنے دو۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کر دیجیے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب راہ اللہ صدقہ ہے ؟ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خود اپنی ہی ذات تھی۔ جملہ حاضرین بولے کہ جی ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ پھر عمر، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں اب آپ لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے کچھ حصے مخصوص کر دیے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا «ما أفاء الله على رسوله» سے ارشاد «قدير» تک۔ یہ تو خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ تھا ۔ اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تمہارے لیے ہی مخصوص کیا تھا اور تمہارے سوا کسی کو اس پر ترجیح نہیں دی تھی، تمہیں کو اس میں سے دیتے تھے اور تقسیم کرتے تھے ۔ آخر اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو اللہ کے مقرر کردہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طرز عمل آپ کی زندگی بھر رہا۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ جی ہاں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہو گئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں چنانچہ انہوں نے اس پر قبضہ میں رکھ کر اس طرز عمل کو جاری رکھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی وفات دی تو میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال سے اس پر قابض ہوں اور اس مال میں وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہو۔ آپ دونوں کی بات ایک ہے اور معاملہ بھی ایک ہی ہے۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے ہو اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کا حصہ لینے آئے ہو جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں اسے آپ کو دے سکتا ہوں لیکن آپ لوگ اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، قیامت تک، اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیجئیے میں اس کا بھی بندوبست کر لوں گا ۔
حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يقتسم ورثتي دينارا، ما تركت بعد نفقة نسائي، ومئونة عاملي، فهو صدقة ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 6729)
ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” میرا ورثہ دینار کی شکل میں تقسیم نہیں ہو گا ۔ میں نے اپنی بیویوں کے خرچہ اور اپنے عاملوں کی اجرت کے بعد جو کچھ چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے ۔
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها" ان ازواج النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، اردن ان يبعثن عثمان إلى ابي بكر يسالنه ميراثهن، فقالت عائشة: اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا نورث ما تركنا صدقة ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 6730)
ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی بیویوں نے چاہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں، اپنی میراث طلب کرنے کے لیے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے یاد دلایا ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی ، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے ؟
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني مالك بن اوس النصري، وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذكرا من ذلك، فدخلت على مالك فسالته؟، فقال: انطلقت حتى ادخل على عمر اتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد يستاذنون، قال: نعم، فدخلوا، فسلموا وجلسوا فقال: هل لك في علي وعباس فاذن لهما، قال العباس:" يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين الظالم استبا، فقال الرهط عثمان واصحابه: يا امير المؤمنين، اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، فقال: اتئدوا انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث ما تركنا صدقة، يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، قال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل عمر على علي، وعباس، فقال: انشدكما بالله هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك: قالا: نعم، قال عمر: فإني محدثكم عن هذا الامر إن الله كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا المال بشيء لم يعطه احدا غيره فإن الله يقول: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم سورة الحشر آية 6، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم ولا استاثر بها عليكم وقد اعطاكموها وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال وكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال ثم ياخذ ما بقي، فيجعله مجعل مال الله، فعمل النبي صلى الله عليه وسلم بذلك حياته، انشدكم بالله هل تعلمون ذلك؟، فقالوا: نعم ثم قال لعلي وعباس: انشدكما الله هل تعلمان ذلك؟، قالا: نعم، ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها ابو بكر، فعمل فيها بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتما حينئذ واقبل على علي، وعباس تزعمان ان ابا بكر فيها كذا والله يعلم انه فيها صادق بار راشد تابع للحق ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، فقبضتها سنتين اعمل فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر ثم جئتماني وكلمتكما على كلمة واحدة وامركما جميع جئتني تسالني نصيبك من ابن اخيك واتاني هذا يسالني نصيب امراته من ابيها، فقلت: إن شئتما دفعتها إليكما على ان عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل فيها ابو بكر وبما عملت فيها منذ وليتها وإلا فلا تكلماني فيها فقلتما ادفعها إلينا بذلك، فدفعتها إليكما بذلك انشدكم بالله هل دفعتها إليهما بذلك؟، قال الرهط: نعم، فاقبل على علي، وعباس، فقال: انشدكما بالله هل دفعتها إليكما بذلك؟، قالا: نعم، قال: افتلتمسان مني قضاء غير ذلك فوالذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة فإن عجزتما عنها، فادفعاها إلي فانا اكفيكماها ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 7305)
ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے ، پھر یرفاء نے آ کر پوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجیے ۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم» الآیہ۔ تو یہ مال خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، پھر واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا، یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے ؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہم سے کہا ، میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے تھے ۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے ۔ آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا، کوئی اختلاف نہیں تھا ۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے اور یہ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے ۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کر دیں ۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کر دی تھی ۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی ۔ جماعت نے کہا کہ ہاں ، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگوں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا، کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں ۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں ، اس میں ، اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت آ جائے ۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کر لوں گا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment