Wednesday 27 December 2023

صداقت و شانِ حضرت سیّدُنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

0 comments
صداقت و شانِ حضرت سیّدُنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِی جَٓاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمْ ۔ (سورۃ الزمر۔33)
ترجمہ : اورجونبی سچی بات لیکر آئے اور جس نے ان کی تصدیق کی ، وہی لوگ پرہیزگار ہیں ۔ (سورۃ الزمر:33)

امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان المراد شخص واحد فالذی جاء بالصدق محمد،والذی صدق بہ ہو ابو بکر،وہذا القول مروی عن علی بن ابی طالب علیہ السلام وجماعۃ من المفسرین رضی اللہ عنہم ۔
ترجمہ : اس سے مراد ایک ہی ہستی ہیں ، تو جو سچی بات لے کر آئے وہ سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔اور یہ روایت حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے ۔ (تفسیر کبیر ، تفسیر در منثور ، تفسیر روح البیان ، سورۃالزمر۔ 33)

حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں

عن عروة بن عبد الله قال سألت أبا جعفر محمد بن علي عليهما السلام عن حلية السيوف فقال لا بأس به قد حلى أبو بكر الصديق رضي الله عنه سيفه، قلت فتقول الصديق؟ قال: فوثب وثبة واستقبل القبلة وقال : نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق، فمن لم يقل له الصديق فلا صدق الله له قولا في الدنيا ولا في الآخرة​ ۔
ترجمہ : عروه بن عبدالله سے روایت ہے حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ تلواروں کو زیور لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب دیا : اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کو زیور لگایا ہوا تھا۔ عرض کیا : کیا آپ بھی ان کو صدیق کہتے ہیں۔ اس پر حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھل پڑے اور قبلہ رخ ہو کر فرمایا : ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ۔ جو ان کو صدیق نہیں کہتا اللہ اس کے کسی قول کو نہ دنیا میں سچا کرے نہ آخرت میں ۔​ (كشف الغمة ابن أبي الفتح الإربلي جلد ۳ صفحہ ۳۶۰)

صادق کالغوی معنی ہے ’’سچا‘‘۔اورصادق اس شخص کو کہتے ہیں جوبات جیسی ہو ویسے ہی زبان سےبیان کردے ۔ (التعریفات،ص۹۵)

صدیق اکبر صادق وحکیم ہیں شیخ اکبرحضرت سیدنا محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ اگر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس موطن میں تشریف نہ رکھتے ہوں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام پر صدیق قیام کریں گے کہ وہاں صدیق سے اعلی کوئی نہیں جو انہیں اس سے روکے۔ وہ اس وقت کے صادق و حکیم ہیں ، اور جو ان کے سوا ہیں سب ان کے زیر حکم ۔ (الفتوحات المکیۃ،الباب الثالث والسبعون،ج۳،ص۴۴،فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۸۰)

صدیق کسے کہتے ہیں ؟ (1) صدیق اسے کہتے ہیں جوزبان سے کہی ہوئی بات کو دل اور اپنے عمل سے مؤکد کر دے۔ (التعریفات،ص۹۵) حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو صدیق اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فقط زبان کے نہیں بلکہ قلب وعمل کے بھی صدیق تھے۔

(2) صدیق اسے بھی کہتے ہیں جوتصدیق کرنے میں مبالغہ کرے،جب اس کے سامنے کوئی چیز بیان کی جائے تواوّلا ہی اس کی تصدیق کردے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی ایسے ہی تھے کہ اوّلا ہی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی ہربات کی تصدیق کردیاکرتے تھے ۔

(3) حکیم الامت مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’صدیق وہ کہ جیسا وہ کہہ دے بات ویسی ہی ہوجائے۔ اسی لیے تو حضرت سیدنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ جودوقیدی تھے ان میں سے شاہی ساقی یعنی بادشاہ کو شراب پلانے والے نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صدیق کہا کیونکہ اس نے دیکھا کہ جو آپ نے کہا تھا وہ ہی ہوا ، عرض کیا: یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ ۔حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سیدنا مالک بن سنان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق جو کہا تھا وہ ہی ہوا کہ وہ شہید ہونے کے بعد زندہ ہو کر آئے ۔ (مرآۃ المناجیح، ج۸،ص۱۶۲،چشتی)

صدیقیت کسے کہتے ہیں ؟:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’صدیقیت ایک مرتبہ تلو نبوت ہے کہ اس کے اور نبوت کے بیچ میں کوئی مرتبہ نہیں مگر ایک مقام ادق واخفی کہ نصیبہ حضرت صدیق اکبر اکرم واتقی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہے تو اجناس وانواع واصناف فضائل وکمالات وبلندی درجات میں خصائص و ملزومات نبوت کے سوا صدیقین ہر عطیہ بہیہ کے لائق واہل ہیں اگرچہ باہم ان میں تفاوت و تفاضل کثیرو وافر ہو ۔ (فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۷۸،چشتی)

صدیق اکبر کسے کہتے ہیں ؟: آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ہرمعاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ فرمایا حتی کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کہ جن کو اس وقت کسی کی عقل نےتسلیم نہیں کیا ان میں بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فوراً تصدیق فرمائی ۔ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کی ویسی کسی نے نہ کی اس لیے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو’’ صدیق اکبر‘‘ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ، جلد۱۵، ص۶۸۰پرارشاد فرماتے ہیں :’’سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اکبر ہیں اور سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اصغر، صدیق اکبر کا مقام اعلی صدیقیت سے بلند و بالا ہے ۔‘‘ نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں ہے:’’سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی تخصیص اس لئے کہ وہ صدیق اکبر ہیں جو تمام لوگوں میں آگے ہیں کیونکہ انہوں نے جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کی وہ کسی کو حاصل نہیں اور یونہی سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام صدیق اصغر ہے جو ہرگز کفر سے ملتبس نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے غیر ﷲ کو سجدہ کیا باوجود یکہ وہ نابالغ تھے ۔ (نسیم الریاض فی شرح الشفا، القسم الاول، فی ثناء اللہ۔۔۔الخ، الفصل الاول، ج۱، ص۲۳۴،چشتی)
سبھی علمائے اُمّت کے، امام و پیشوا ہیں آپ۔۔۔بِلاشک پیشوائے اَصفیا صدّیق اکبر ہیں۔۔۔خدا ئے پاک کی رحمت سے انسانوں میں ہر اک سے۔۔۔فُزوں تر بعد از کُل انبیا صدّیقِ اکبر ہیں

لقب ’’حَلِیْم ‘‘( بُرْدبَار) :صدیق اکبر آسمانوں میں حلیم: حضرت سیدناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سیدنا جبریل امین اللہ 1 کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورایک کونے میں بیٹھ گئے، کافی دیر تک وہیں بیٹھے رہے اچانک وہاں سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہگزرے توجبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم ! یہ ابو قحافہ کے بیٹے ہیں ۔‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : ’’اے جبریل! کیا آپ لوگ بھی انہیں پہچانتے ہو ؟‘‘ عرض کیا: ’’اس رب کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے ! ابوبکر زمین کی نسبت آسمانوں میں زیادہ مشہور ہیں ، اور آسمانوں میں ان کا نام ’’حلیم‘‘ ہے ۔ (الریاض النضرۃ، ج۱، ص۸۲)

لقب ’’اَوَّاہٌ‘‘(کثیرُ الدعا ، عاجزی کرنے والے): حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نہایت ہی عاجزی کرنے والے اور کثیر الدعا تھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کئی مخصوص دعائیں بھی منقول ہیں ، حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی انہیں صفات کی بنا پر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہک ا لقب ’’اَوَّاہٌ‘‘کثیر الدعا ، عاجزی کرنے والاپڑگیا ۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ج۳، ص۸۵)۔

حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ایک دن مدینۃ المنورہ میں یہودیوں کے محلے گزر رہے تھے ۔ وہاں بڑی تعداد میں یہودی جمع تھے اس روز یہودیوں کا بہت بڑا عالم فنحاس اس اجتماع میں آیا تھا ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فنحاس سے کہا اے فنحاس ! اللہ سے ڈر اور اسلام قبول کر لے اللہ کی قسم تو خوب جانتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں او تم یہ بات اپنی تورات اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہو اس پر فنحاس کہنے لگا ۔ وہ اللہ جو فقیر ہے بندوں سے قرض مانگتا ہے اور ہم تو غنی ہیں ۔ غرض فحناس نے یہ جو مذاق کیا تو قرآن کی اس آیت پر اللہ کا مذاق اڑایا ۔ من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا ۔ (سورہ البقرہ ٢٤٥)

صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ اللہ کا دشمن میرے اللہ کا مذاق اڑا رہا ہے تو انہوں نے اس کے منہ پر طمانچہ دے مارا اور فرمایا : اس اللہ کی قسم جس کی مٹھی میں ابوبکر کی جان ہے اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑا دیتا ۔ فنحاص دربار رسالت میں آگیا ۔ اپنا کیس سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا کہنے لگا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیکھیے آپ کے ساتھی نے میرے ساتھ اس اور اس طرح ظلم کیا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا : آپ نے کس وجہ سے اس کے تھپڑماراتو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس اللہ کے دشمن نے بڑا بھاری کلمہ بولا -اس نے کہا اللہ فقیر ہے اور ہم لوگ غنی ہیں - اس نے یہ کہا اور مجھے اپنے اللہ کے لئے غصہ آگیا - چنانچہ میں نے اس کا منہ پیٹ ڈالا -
یہ سنتے ہی فنحاص نے انکار کردیا اور کہا : میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی ۔ اب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی دینے والا کوئی موجود نہ تھا ۔ یہودی مکر گیا تھا اور باقی سب یہودی بھی اس کی پشت پر تھے ۔ یہ بڑا پریشانی کا سماں تھا ۔ مگر اللہ نے اپنے نبی کے ساتھی کی عزت و صداقت کا عرش سے اعلان کرتے ہوئے یوں شہادت دی ۔ لَقَد سَمِعَ اَللَّہُ قَولَ الَّذِینَ قَالُو ااِنَّ اللَّہ َ فَقِیر وَنَحنُ اَغنِیَائُ ۔ (آل عمران : ۱۸۱) ترجمہ : اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۔ (تفسیر روح البیان،چشتی)

صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اللہ کی گستاخی پر رب کے دشمن کے طمانچہ مارا اور جب صدیق کی صداقت پہ حرف آنے لگا تو رب تعالیٰ نے صدیق کی صداقت وعزت کی پاسداری کا عرش سے اعلان کردیا -

البدایہ والنھایہ میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ ودلم جنگ کے لیئے جارہے تھے روانہ ہونے سے پہلے مدینہ منورہ کی ایک انصار بڑھیا آئی.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا بیٹا ہاتھ میں تلوار لےکر آپ کے خلاف ورزش کررہا ہے کہتا ہے کہ(نعوذباللہ) محمد کا سر قلم کردونگا. میں آپ کی خادمہ ہوں.اے اللہ کے نبی صہ آپ اسکی ہدایت کی دعا فرمادیجیے. رحمت دوعالم صہ نے دعا فرمائی.وہ نوجوان بیٹا جو گھر میں مالش کرکے اسلام کے خلاف ورزش کر رہا تھا اس کا دل اللہ رب العزت نے بدل دیا وہ وہی تلوار لیکر دوڑ کر آیا اور آقا صہ کی بارگاھ میں حاضر ہوکر عرض کیااے اللہ کے نبی صہ مجھے کلمہ پڑھادیجیے.اس صحابی کا نام مالک رضہ بن سنان تھا. وہ کہنے لگا اے اللہ کے نبی صہ کیا مجھے بھی آنے کی اجازت ہے؟فرمایا آجاؤ.میدان جھاد میں گئے.نیانیا اسلام کا جذبہ تھا لہذا جاتے ہی شھید ہوگئے.کچھ دنوں کے بعد صحابہ کرام واپس آئے مدینہ کی عورتیں استقبال کے لیے نکلیں.اس نوجوان انصاری مالک بن سنان کی ماں بھی باھر نکلی.بھنیں بھائیو سے ملیں،عورتیں خاوند سے ملیں،مائیں بچوں سے ملیں وہ بڑھیا بھی کھڑی ہوگئی.آنحضرت صہ جب تشریف لائے تو اس بڑھیا نے آپ صہ سے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی صہ مجمع میں میرا بیٹا نظر نہیں آرہاوہ کہاں گیا نبی اکرم صہ نے انکا چھرہ بھانپا اور فرمایا اماں ذرا صبر کر پیچھے ابوبکر آرہے ہیں انسے پوچھ لےایک اور صحابی آیا انسے بھی پوچھا انہوں نے بھی فرمایا پیچھے ابوبکر آرہے ہیں ان سے پوچھ لے جو صحابی بھی گذرتا ان سے پوچھتیں سب یہی جواب دیتے وہ وہیں کھڑی رہی جب حضرت ابوبکر گذرنے لگے تو کہنے لگی ابوبکر میرا بیٹا کہا ہے سیدنا ابوبکر خاموش رہے. آپ نے پوچھا اماں اللہ کے نبی صہ گذرے تھے انہوں نے کیا فرمایا تھا. وہ کہنے لگیں آپ صہ نے فرمایا تھا کہ ابوبکر سے پوچھ لینا. یہ سن کر صدیق اکبر رضہ حیران ہوئے وہ سوچ میں پڑگئے کہ اگر میں کہتا ہوں کہ وہ شھید ہوگیا ہے تو شاید وہ برداشت نہ کرسکے. وہ عورت گھبراکر کہنے لگی کیا میرا بیٹا مرگیا ہے.سیدنا صدیق اکبر نے فرمایا اماں ذرہ صبر کر تیرا بیٹا پیچھے پیچھے آرہا ہے. اب وہ تو کھڑی رہی مگر صدیق اکبر چل پڑے اور جھولی پھیلائی اور رب العالمین کے ساتھ تعلق قائم کرلیا آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کہ اے اللہ تو جانتا ہے کہ صدیق کا لقب مجھے تیرے نبی نے دیا تھا. یا اللہ صدیق اسے کہتے ہیں جس نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا ہو.یا اللہ اگر قیامت میں میرا یہ جھوٹ تیرے محبوب صہ نےدیکھ لیا تو میں کیا چہرہ دکھاؤنگا. اے اللہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کے لیے مردوں کو زندہ کرسکتا ہے تو میں بھی تیرے محبوب کا غلام ہوں. اللہ تجھے تیری ذات کا واسطہ مالک بن سنان کو زندگی عطا کردے. روتے بھی جارہے ہیں اور دعا بھی کرتے جارہے ہیں.بڑے غمگین تھے جب مسجد نبوی صہ میں پہچے تو پیچھے جوتوں والی جگہ پر بیٹھ گئے.وہ عورت کھڑی رہی دیکھتی ہے کہ ایک آدمی آرہا ہے جب قریب آیا تو اس نے دیکھا سچ مچ اس کا بیٹا مالک بن سنان انصاری تھاماں نے گلے لگایا بوسہ دیا اور انگلی پکڑ کر وہ بھی مسجد نبوی میں پہنچ گئے صحابہ ان کو دیکھ کر حیران ہوگئے خود نبی صہ بھی حیران ہوگئے کہ یہ تو شھید ہوگیا تھا اور ہم اسکو دفن کرکے آئے تھے اللہ رب العزت نے جبرئیل کو بھیجا اس نے آکر پیغام دیا کہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں.تیرے صدیق کی زبان سے نکل گیا تھا کہ اماں صبر کر تیرا بیٹا پیچھے آرہا ہے. خداوند قدوس نے صدیق کی زبان کو سچا کرنے کے لیے مالک کو دوبارہ زندگی عطا کرکے اور لباس پہناکر آپ کی خدمت میں پیش کردیا ہے . (شفاء الصدور صفحہ نمبر 124)

جب حضرت امیرالمؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جنازہ لے کر لوگ حجرہ منورہ کے پاس پہنچے تو لوگوں نے عرض کیا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ ھٰذَا اَ بُوْ بَکْرٍ یہ عرض کرتے ہی روضہ منورہ کا بنددروازہ یک دم خود بخود کھل گیا اور تمام حاضرین نے قبر انور سے یہ غیبی آواز سنی : اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ ۔ یعنی حبیب کو حبیب کے دربار میں داخل کردو ۔ (تفسیر کبیر،ج۵،ص۴۷۸،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ آپ کو کہاں دفن کیاجائے ؟بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو شہداءے کرام کے قبرستان میں دفن کرناچاہیے اوربعض حضرات چاہتے تھے کہ آپ کی قبر شریف جنت البقیع میں بنائی جائے، لیکن میری دلی خواہش یہی تھی کہ آپ میرے اسی حجرہ میں سپردخاک کئے جائیں جس میں حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی قبرمنور ہے یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا اورخواب میں یہ آوازمیں نے سنی کہ کوئی کہنے والا یہ کہہ رہا ہے کہ ضُمُّوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ (یعنی حبیب کو حبیب سے ملادو) خواب سے بیدارہوکر میں نے لوگوں سے اس آوازکا ذکر کیا تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ آوازہم لوگوں نے بھی سنی ہے اورمسجد نبوی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کے اندربہت سے لوگوں کے کانوں میں یہ آوازآئی ہے ۔ اس کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ آپ کی قبراطہر روضہ منورہ کے اندربنائی جائے۔ اس طرح آپ حضورانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پہلوئے اقدس میں مدفون ہوکراپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے قرب خاص سے سرفراز ہوگئے ۔ (شواہد النبوۃ، رکن سادس دربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۰،چشتی)

حضرت سیدناعروہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدناابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنے مرض وفات میں اپنی صاحبزادی اُمّ المؤمنین حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ’’ میری پیاری بیٹی! آج تک میرے پاس جو میرا مال تھا وہ آج وارثوں کا مال ہوچکا ہے اورمیر ی اولاد میں تمہارے دونوں بھائی عبدالرحمن ومحمداورتمہاری دونوں بہنیں ہیں لہٰذا تم لوگ میرےمال کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق تقسیم کر کے اپنا اپنا حصہ لے لینا۔‘‘ یہ سن کر حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کیا کہ’’ ابا جان! میری تو ایک ہی بہن بی بی اسماءہیں ۔ یہ میری دوسری بہن کون ہے ؟‘‘آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ’’ میری زوجہ بنت خارجہ جو حاملہ ہے اس کے شکم میں لڑکی ہے وہ تمہاری دوسری بہن ہے ۔ (تاریخ الخلفاء، ص۶۳، حجۃ اللہ علی العالمین، الخاتمۃ فی اثبات کرامات الاولیاء الخ، المطلب الثالث فی ذکرجملۃ جمیلۃ۔۔۔ الخ ، ص۶۱۱، المُؤطّا لِلامامِ مالک،کتاب الاقضیۃ، باب ما لا یجوز من النحل، الحدیث ۱۵۰۳، ج۲، ص ۲۷۰ )
اِس حدیث پاک کے تحت حضرتِ سیدنا علامہ محمد بن عبدالباقی زُرقانی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی تحریر فرماتے ہیں :’’ چُنانچہ ایسا ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام’’اُمِّ کُلثُوم‘‘ رکھا گیا۔ ‘‘ (شرح الزرقانی علی المؤطا، کتاب الاقضیۃ، باب ما لا یجوز من النحل، ج۴، ص۶۱،چشتی)

اس حدیث کے بارے میں حضرت علامہ تاج الدین سبکی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے تحریر فرمایا کہ’’اس حدیث سے امیر المؤمنین حضرت سیدناابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی دو کرامتیں ثابت ہوتی ہیں : اَوّل : یہ کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو قبلِ وفات یہ علم ہوگیا تھا کہ میں اسی مرض میں دنیا سے رحلت کروں گا اس لئے بوقت وصیت آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے یہ فرمایا کہ میرا مال آج میرے وارثوں کا مال ہوچکا ہے ۔ دوم:یہ کہ حاملہ کے شکم میں لڑکا ہے یا لڑکی، اورظاہرہے کہ ان دونوں باتوں کا علم یقیناً غیب کا علم ہے جو بلا شبہ وبالیقین پیغمبر کے جانشین امیر المؤمنین حضرت سیدناابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی دو عظیم الشان کرامتیں ہیں ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین، الخاتمۃ فی اثبات کرامات الاولیاء الخ، المطلب الثالث فی ذکرجملۃ جمیلۃ ۔۔۔الخ،ج۲، ص۶۱۲)

خالق ارض و سما نے تخلیق کائنات کے بعد اس ارض گیتی پر لاتعداد افراد کو عدم سے وجود میں لایااور انھوں نے اپنی متعینہ مدت و میعاد گزار کر اس دار ناپائیدار سے دار سکون و قرار کی طرف کوچ کرگئے. مگر اسی دھرتی پر رب دوعالم نے ایک ایسی پاکیزہ جماعت بھی دنیا میں بھیجا اور ایک ایسا عظیم گروہ بھی لوگوں کے رشد و ہدایت کے لیے مبعوث کیا جسے دنیا صحابة الرسول کے نام سے جانتی ہے، انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اس ارض گیتی پر کوئی جماعت سب سے زیادہ لائق تعظیم و تکریم و توقیر ہے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے، جن کی افضلیت کی شہادت خود قرآن مقدس کی متعدد آیات دے رہی ہیں اور جن کی عظمت کی گواہی احادیث رسول دے رہی ہے ۔

ہم اہل سنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ولی، قطب، ابدال، غوثیت کبری پر متمکن اغواث بھی ایک ادنی صحابی کے فضل و کمال کو تک نہیں پہونچ سکتے، کیوں کہ صحابی رسول کو نبی کی قربت کا جو شرف حاصل ہے دنیا کی کوئی دوسری فضیلت و عظمت اس کے مماثل و ہمسر نہیں ہو سکتے ۔ انہیں پاکیزہ نفوس میں ایک عظیم ذات ایسی بھی ہے جن کی زندگی کا ہر لمحہ رسول کی اطاعت و خدا کی عبادت میں گزرا ہے، یہ وہی شخصیت ہے جسے دنیا یار غار مصطفی، ثانی اثنين، رفیق شب ہجرت، خلیفہ أول، امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین سیدنا ابوبکر الصديق العتيق رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے جانتی ہے ، کون ابوبکر ؟ وہی ابوبکر جنھوں نے سب سے پہلے رسالت مصطفی کی تصدیق فرمائی. وہ ابوبکر جنھوں نے سب سے پہلے اپنے اسلام کا اعلان فرمایا، وہ ابوبکر جنہوں نے اپنے مال و جان و اولاد سب کچھ قدم مصطفی پر قربان کردیا، عصمت رسالت کے تحفظ میں ایسی جانثاری کی اور اسلام کی نشو و نما میں آپ نے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں جو رہتی دنیا تک تمام بنی نوع آدم کے لیے قابل رشک ہیں ۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے وہ عظمت و شان عطا فرمائی کہ اس روے زمین پر انبیاء کرام کے بعد سب سے زیادہ افضل و اعلی و صاحب فضائل و خصائص کوئی ذات ہے تو وہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات ہے. کیوں کہ افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقيق، ابی بکر الصديق "جو ہر عوام و خواص کی زبان زد ہے وہ یونہی نہیں بلکہ خود سرور دو عالم، نور مجسم جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اعزاز عطا فرمایا ہے ۔ چنانچہ سیدنا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی کتاب" فضائل الصحابہ "میں نقل کرتے ہیں ۔ فقال لأبي الدرداء لما رآه يمشي أمامه فقال : يا أبا الدرداء أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة؟ ما طلعت الشمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر ۔ (أخرجه أحمد في فضائل الصحابة، ج:١،ص:١٥٢.)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی رسول سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو جناب سیدنا ابو بکر الصديق رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا :اے ابوالدرداء! میرے پیارے صحابی! کیا تم ایسے شخص کے آگے آگے چلتے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سب افضل و اعلی و بہتر ہے، اے ابو الدرداء! سنو اللہ نے میرے صدیق کو وہ رفعت و عظمت عطا فرمائی ہے کہ یہ سورج انبیاء و رسل کے بعد کسی ایسے شخص پر طلوع و غروب نہیں ہوا جو میرے ابوبکر سے بہتر ہو. تو اس روایت سے واضح ہوگیا کہ افضل البشر بعد الانبیاء کوئی ہے تو وہ سیدنا ابو بکر الصديق رضی اللہ عنہ کی ذات ہے ۔

 آپ کو صدیق کیوں کہا جاتا ہے؟ تو اس حوالے سے قرآن مقدس کی آیت کریمہ صاف بتا رہی ہے ۔ والذي جاء بالصدق وصدق به أولئك هم المتقون " أخرج البزار وابن عساكر أن عليا قال في تفسيرها : الذي جاء . بالحق هو محمد صلى الله عليه وسلم ، والذي صدق به أبو بكر . قال ابن عساكر : هكذا الرواية بالحق ۔
ابن عساکر نے بیان فرمایا کہ اس آیت میں" جاء بالصدق" سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے ۔ اور" صدق به "سے امیرالمومنین ابی بکر الصديق رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ اور معرفة الصحابة و المستدرک للصحيحين کے اندر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت موجود ہے جس میں آپ کا لقب صدیق کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج میں راتوں رات مکہ سے بیت المقدس ، بیت المقدس سے ملاء اعلی ، پھر سدرۃ المنتہی، اس کے بعد قاب و قوسین ، دنی فتدلی کی منزل سے گزرتے ہوئے رب کے قرب خاص میں گئے اور اللہ سے لقاء و ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا، اور نماز کا تحفہ لے کر آئے تو وقت صبح جب لوگوں کو پتہ چلا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے قلیل حصہ میں اتنی طویل مسافت طے کرکے تشریف لائے ہیں تو سارے مشرکین مکہ نے ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے، پھر وہ لوگ دوڑے دوڑے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ ابوبکر اگر کوئی یہ کہے کہ میں رات کے مختصر سے حصہ میں مکہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمان بالا اور اس سے بھی آگے جا کر آیا ہوں تو کیا تم اس کی تصدیق کروگے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں! یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ جب کافروں نے دیکھا کہ لوہا گرم ہے تو فوراً کہا : یہ کوئی اور نہیں تمہارے صاحب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں، کیا یہ بھلا ماننے والی بات ہے ؟ جب جناب عبداللہ بن قحافہ نے یہ سنا کہ میرے سرکار ایسا کہہ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا : قال : لئن كان قال ذلك لقد صدق ۔ اگر وہ ایسا کہہ رہے ہیں تو بالکل سچ کہہ رہے ہیں اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں ۔ إني لأصدقه فيما هو أبعد من ذلك أصدقه بخبر السماء في غدوة أو روحة ۔ اس لیے کہ میں اس سے زیادہ تعجب خیز باتیں یعنی روزانہ صبح و شام آسمان کی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں ۔ اگر میرے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تو بالکل صحیح ہے ، کیوں کہ میرے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ : ⏬

تمہارے مُنہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی
 فقط اشارے میں سب کی نجات ہوکے رہی 
کہا جو شب کو کہ دن ہے تو دن نکل آیا
کہا جو دن کو کہ شب ہے تو رات ہو کے رہی

اور قرآن مقدس کے اندر اللہ عزوجل نے آپ کی شان میں متعدد آیتیں نازل فرمائیں ۔ جتنے بھی صحابہ کرام ہیں انہیں لوگوں نے صحابی کہا مگر تنہا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات ہے جنھیں اللہ نے صحابی کہا. وإذ قال لصاحبه لا تحزن ۔ سفر ہجرت کے دوران جب غار ثور میں پہونچے تو کفار مکہ بھی ان کو تلاش کرتے ہوئے غار کے مونہہ تک پہنچ گئے ، لب غار ان کے قدم دیکھ کر آپ تھوڑا گھبرا گئے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے اس رفیق سفر و یار غار کو تسلی دی اور فرمایا. فقال: يا أبا بكر؛ ما ظنك باثنين الله ثالثهما ۔ وهذا لفظ مسلم ۔ اے میرے پیارے صدیق ! تمھارا ان دو لوگوں کے بارے میں خیال ہے جن کے بیچ میں تیسرا اللہ ہے. آپ بالکل بھی نہ پریشان نہ ہوں ہمارے ساتھ تائید غیبی و نصرت ربی ہے, ہمیں کچھ نہیں ہوگا، اللہ ہماری حفاظت فرمائے گا ۔ یہ تو رہے آپ کے فضائل مگر آپ کی جانثاری اور دین کے لیے مال و جان کی جتنی قربانی آپ نے دی ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ، آپ کا شمار رئیس مکہ میں ہوتا تھا، آپ کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں تھی ، مگر جب سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن رسالت سے وابستہ ہوئے پھر تو کچھ بھی ان کا نہ رہا ، آپ نے ذات رسالت پر اتنے اموال خرچ کیے اور حضور علیہ السلام کا اتنا ساتھ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برجستہ ارشاد فرمایا : وما نفعني مال أحد قط ما نفعني مال أبي بكر ۔ (أخرجه الترمذي)
ترجمہ : جتنا فائدہ مجھے ابوبکر کے مال نے دیا ہے اتنا فائدہ کسی اور کے مال سے نہیں ہوا ۔

اور میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لأحد عندنا يد إلا وقد كافيناه ما خلا أبا بكر فإن له عندنا يدا يكافيه الله بها يوم القيامة ۔ (رواه الترمذی)
ترجمہ : جن جن لوگوں نے میری مدد کی تھی، جن جن لوگوں کا مجھ احسان تھا میں نے ان سب کا بدلہ دیا مگر ایک ابو بکر  کہ ان کا میرے اوپر اتنا احسان اور تعاون ہے کہ اس کا بدلہ کل قیامت کے دن اللہ عزوجل اپنے خزانہ قدرت سے پورا فرمائے گا ۔

جناب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب سے ایمان لائے اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن نبوت سے منسلک ہوئے اسی دم سے کیا سفر کیا حضر ، کیا خلوت کیا جلوت ہر لمحہ سایہ کی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ، اسی لیے تو میرے سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنا خلیل بنانے کی خواہش ظاہر فرمائی ۔ ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ألا وإن صاحبكم خليل الله ۔ رواه الترمذي ۔ اگر اس دنیا میں کوئی میرا خلیل بننے کے قابل ہے تو وہ جناب ابو بکر ہیں مگر اے میرے صحابہ ! تمہارے صاحب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا خلیل ہے ۔

جس طرح یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے تھے اسی طرح ہمارے آقا کے نزدیک جناب ابوبکر صدیق بھی غایت درجہ محبوب تھے ۔ پوچھا تھا کسی آنے والے نے یا رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ : (عَائِشَةُ) ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ ؟ ، فَقَالَ : (أَبُوهَا) ، قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : (ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّاب) ، فَعَدَّ رِجَالًا ۔ (رواه البخاري ومسلم في صحيحهما)
ترجمہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کون ہے جو آپ کے نزدیک سب سے عزیز و محبوب ہے؟ تو آپ نے فرمایا. عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔ پھر اس نے عرض کیا : مردوں میں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ تو آپ نے فرمایا : اس کے والد یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔ پھر پوچھا گیا : اس کے بعد تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایمان و ایقان کس قدر مضبوط تھا کہ جب انفاق فی سبیل اللہ کی بات آتی تو گھر کے سارے ساز و سامان نبی کے قدموں میں رکھ دیتے. اور جب کبھی نبی کی رفاقت کی بات آتی تو اپنی جان ہتھیلی پر لیے چلے آتے، پوچھا گیا تھا آپ سے آپ کو کیا پسند ہے تو آپ نے فرمایا تھا. مجھے دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں ۔ (١) الجلوس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔ میری زندگی کا سب محبوب مشغلہ یہ ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا رہوں اور آپ کے نوری لبوں سے نکلے ہوئے کلام رسالت و وحی ربانی کو سنتا رہوں اور اپنے قلب و جگر کو منور کرتا رہوں ۔ (٢) النظر الى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔ ابوبکر کی آنکھیں ہوں اور چہرہ و الضحی سامنے ہو، بس میں رخ حبیب کو دیکھتا رہوں ، یہی میری آرزو ہے ۔ تو اللہ نے یہ موقع عنایت بھی فرمادیا کہ غار ثور میں بس صدیق کی آنکھیں تھیں اور زانوئے صدیق پہ رخ حبیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا ۔ (٣) انفاق مالى على رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ مال میرا ہو اور ذات رسول اللہ کی ہو، میں سب اپنی دولت و ثروت آقا کے قدموں میں نچھاور کردوں ۔ کیوں کہ آپ کی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ : ⏬

رنگ چمن پسند ہے نہ پھولوں کی بو پسند
مجھ کو ہے وہ پسند جسے آے تو پسند

پھر زمانے نے دیکھا کہ ابوبکر صدیق نے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتنا مالی تعاون کیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا ابوبکر کے مال سے فائدہ پہنچا ہے ۔
اللہ عزوجل نے اپنے اس بندہ صدیق و عتیق کے دل میں ایسا ایمانی جذبہ عطا فرمایا تھا کہ آپ کے ایمان کے متعلق نبی نے ارشاد فرمایا : لو وزن إيمان أبي بكر بإيمان أهل الأرض لرجح بهم ۔ (أخرجه البيهقي فى شعب الإيمان و فضائل الصحابة للأمام احمد بن حنبل) ۔ اللہ نے میرے صدیق و حبیب و عتیق کے ایمان کو ایسا مضبوط کیا تھا کہ اگر ابوبکر کے ایمان کو ایک پلے میں رکھو اور روئے زمین کے تمام مومنین کے ایمان کو دوسرے پلے میں تو ابوبکر والا ایمان بھاری ہو جائے گا ۔

صدیق اکبر کا گستاخ بندربن گیا

حضرت امام مستغفری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے ثقات سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ تین آدمی ایک ساتھ یمن جارہے تھے ہمارا ایک ساتھی جو کوفی تھا وہ حضرت سیدناابوبکر صدیق وحضرت سیدناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی شان میں بدزبانی کر رہا تھا ، ہم لوگ اس کو بار بار منع کرتے تھے مگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آتا تھا ، جب ہم لوگ یمن کے قریب پہنچ گئے اور ہم نے اس کو نماز فجر کے لیے جگایا ،تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی یہ خواب دیکھا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے سرہانے تشریف فرما ہوئے اورمجھے فرمایا کہ’’ اے فاسق!خداوند تعالیٰ نے تجھ کو ذلیل وخوار فرمادیا اورتو اسی منزل میں مسخ ہوجائے گا۔‘‘اس کے بعد فوراً ہی اس کے دونوں پاؤں بندر جیسے ہوگئے اورتھوڑی ہی دیر میں اس کی صورت بالکل ہی بند رجیسی ہوگئی ۔ ہم لوگوں نے نماز فجر کے بعد اس کو پکڑ کر اونٹ کے پالان کے اوپر رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا اوروہاں سے روانہ ہوئے ۔ غروب آفتاب کے وقت جب ہم ایک جنگل میں پہنچے تو چند بندروہاں جمع تھے۔ جب اس نے بندروں کے غول کو دیکھا تو رسی تڑوا کر یہ اونٹ کے پالان سے کود پڑا اوربندروں کے غول میں شامل ہوگیا۔ ہم لوگ حیران ہوکر تھوڑی دیروہاں ٹھہر گئے تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ بندروں کا غول اس کے ساتھ کس طرح پیش آتاہے تو ہم نے یہ دیکھا کہ یہ بندروں کے پاس بیٹھا ہوا ہم لوگوں کی طرف بڑی حسرت سے دیکھتا تھا اوراس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ گھڑی بھر کے بعد جب سب بندروہاں سے دوسری طرف جانے لگے تویہ بھی ان بندروں کے ساتھ چلاگیا ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۳،چشتی)

صدیق اکبر کاگستاخ خنزیر بن گیا

اسی طرح حضرت امام مستغفری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے ایک مرد صالح سے نقل کیا ہے کہ کوفہ کا ایک شخص جو حضرات سیدناابوبکر وعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو برا بھلا کہا کرتا تھا ہر چند ہم لوگوں نے اس کو منع کیا مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہا ، تنگ آکر ہم لوگوں نے اس کو کہہ دیا کہ تم ہمارے قافلہ سے الگ ہوکر سفر کرو ۔ چنانچہ وہ ہم لوگوں سے الگ ہوگیا جب ہم لوگ منزل مقصود پر پہنچ گئے اورکام پورا کر کے وطن کی واپسی کا قصد کیا تو اس شخص کا غلام ہم لوگوں سے ملا، جب ہم نے اس سے کہا کہ’’ کیا تم اورتمہارا مولیٰ ہمارے قافلے کے ساتھ وطن جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘ یہ سن کر غلام نے کہا کہ ’’میرے مولیٰ کا حال تو بہت ہی برا ہے، ذراآپ لوگ میرے ساتھ چل کر اس کا حال دیکھ لیجئے ۔ ‘‘غلام ہم لوگوں کو ساتھ لے کر ایک مکان میں پہنچا وہ شخص اداس ہوکر ہم لوگوں سے کہنے لگا کہ مجھ پر تو بہت بڑی افتاد پڑ گئی ۔ پھر اس نے اپنی آستین سے دونوں ہاتھوں کو نکال کر دکھایا تو ہم لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے دونوں ہاتھ خنزیر کے ہاتھوں کی طرح ہوگئے تھے ۔ آخر ہم لوگوں نے اس پر ترس کھا کر اپنے قافلہ میں شامل کرلیا لیکن دوران سفر ایک جگہ چند خنزیروں کاایک جھنڈنظرآیااور یہ شخص بالکل ہی ناگہاں مسخ ہوکر آدمی سے خنزیربن گیااورخنزیروں کے ساتھ مل کر دوڑنے بھاگنے لگا مجبوراً ہم لوگ اس کے غلام اورسامان کو اپنے ساتھ کوفہ تک لائے ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۴،چشتی)

صدیق اکبر کاگستاخ کتابن گیا

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے منقول ہے کہ میں نے ملک شام میں ایک ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جس نے نماز کے بعد حضرت سیدنا ابوبکروعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں بددعا کی۔ جب دوسرے سال میں نے اسی مسجد میں نماز پڑھی تو نماز کے بعد امام نے حضرت سیدنا ابوبکروعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے حق میں بہترین دعا مانگی ، میں نے نمازیوں سے پوچھا کہ تمہارے پرانے امام کاکیا ہوا؟تولوگوں نے کہا کہ:’’ آپ ہمارے ساتھ چل کر اس کو دیکھ لیجئے۔‘‘ میں جب ان لوگوں کے ساتھ ایک مکان میں پہنچا تو یہ دیکھ کر مجھے بڑی عبرت ہوئی کہ ایک کتابیٹھا ہوا ہے اوراس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم وہی امام ہو جوحضرات شیخین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے لئے بددعا کیا کرتا تھا؟‘‘تو اس نے سرہلا کر جواب دیا کہ’’ ہاں ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ۲۰۶)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔