خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی
محترم قارئین : مسلمان خواہ کسی ملک اور خطے کا ہو کسی بھی رنگ اور قبیلے کا ہو کوئی زبان بولتا ہو ان سب کو قرآن مجید نے ایک برادری قرار دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 10)
ترجمہ : مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں ۔
اور
الکفر ملۃ واحدہ ، کافر سب ایک قوم ہیں ۔
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نسَب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رُخصت تو مِلّت بھی گئی
محترم قارئین : اقوام کی تعمیر سونے چاندی اورہیرے جواہرات اور ملکی سرحدوں سے نہیں ہوتی بلکہ اقوام کا وجود فی الحقیقت نظریات سے مستعار ہوتا ہے ۔
گزشتہ انسانی تاریخ کی32 بڑی بڑی تہذیبیں کتابوں میں دفن ہوگئیں۔ان گم شدہ تہذیبوں کے صرف آثارہی آج باقی ہیں یاپھر تاریخ کی کتب میں ان گم گشتہ اقوام کے بھولے بسرے قصے کہیں کہیں سننے یا پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ماضی کی اندھیری بھول بھلیوں میں ان عظیم تہذیب وثقافت کی وارث انسانی بستیوں کے گم ہوجانے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن ان میں سے سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ عدیم الشان اقوام پہلے اخلاقی بے راہ روہی کے نتیجے میں غلامی کے کنویں میں جاگریں اور پھر قیادت کے فقدان نے انہیں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح اس انداز سے مٹا دیاکہ صدیوں نے اپنے ظالم ہاتھوں سے ان پر قرنوں کی خاک ڈال دی جبکہ امت مسلمہ اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ملت ہے کہ دورغلامی جیسا کڑاوقت بھی اس امت کی کوکھ کو بنجرنہ کرسکااوراغیارکے دورِاستبدادمیں بھی یہاں ایسی قیادت نے جنم لیاکہ جس کی اقتدامیں چلتی ہوئی یہ قوم بالآخرگلستانِ آزادی کی منزل سے بہارآشناہوئی۔مشرق تامغرب کُل امت میں کم و بیش ایک ہی وقت پر غلامی کا آسیب حملہ آورہوا اور پھرکل امت میں آزادی کی تحریکیں چلیں اور کہیں کم اور کہیں زیادہ قربانیوں کے نتیجے میں امت کی قیادت نے بے سروسامانی کی حالت میں اس بچے کھچے سرمایہ ایمان کے سفینے کو ڈوبنے سے بچاتے ہوئے کنارے تک لے ہی آئے ۔ کہیں تو یہ قیادت میدانِ سیاست میں نمودار ہوئی تو کہیں مکتب و مدرسہ میں اس قیادت کی رونمائی ہوئی اور کہیں منبر و محراب اور جبہ قبہ و دستار نے اس قیادت کی فراہمی کا فریضہ ادا کیا اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ایوانِ ادب کے شہسواروں نے بھی اپنے قلم کی نوک سے اس میدانِ کارزار میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ۔ اغیارکے رنگ میں رنگ کر ہم دنیامیں کوئی مقام حاصل نہ کرسکیں گے بلکہ اس مکروہ فعل کے نتیجے میں اپنا آپ بھی گنوا بیٹھیں گے ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اقوام کی تعمیر سونے چاندی اورہیرے جواہرات اور ملکی سرحدوں سے نہیں ہوتی بلکہ اقوام کا وجود فی الحقیقت نظریات سے مستعار ہوتا ہے ۔ تحریک پاکستان کی قیادت اور تعمیر پاکستان کاجانگسل مرحلہ اور تکمیل پاکستان کی منزل سب کچھ دوقومی نظریہ سے ہی ممکن ہوا اور ممکن ہو سکے گا ۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ساری شاعری اسی دوقومی نظریے کی معنوی تشریح ہے ۔ اگرچہ دوقومی نظریے کی تجدید 1857ء کی جنگ آزادی میں ہی ہو چکی تھی لیکن اس وقت تک بہت کم لوگ اس نظریے کی حقیقت کا ادراک کر پائے تھے ۔ اس نظریے کی ترویج و تشریح کا اصل فریضہ توعلامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ہی ادا کیا ۔ صرف ہندوستان کی حد تک ہی نہیں بلکہ کل عالم کی اقوام میں اور ایک ہزار سالہ تاریخ سے بھی زائد مدت میں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کو جداگانہ شناخت عطا کردی ۔ آج بھی یہی دوقومی نظریہ مملکت خدادا پاکستان کے وجود کا ضامن ہے ۔ جولوگ اس نظریے سے انکار کرتے ہیں وہ دراصل پاکستان کے جواز سے انکار کرتے ہیں ۔ الکفر ملۃ واحدہ ، کافر سب ایک قوم ہیں اور انماالمومنون اخوۃ ، مسلمان سب بھائی بھائی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر لبرل جمہوریت پسند اور مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلموں کا ساتھ دینے والے کس طرف ہیں ؟
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسوا کرے ، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دورکرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اورجوشخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کاپردہ رکھے گا ۔ ( بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم... الخ، ۲/۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)
حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں ، جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی توسارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگراس کے سرمیں درد ہو تو سارے جسم میں دردہوگا ۔ ( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین... الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۷(۲۵۸۶)،چشتی)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین... الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث : ۶۵(۲۵۸۵)،چشتی)
اِسلام ایک عالمی دِین ہے اور اُس کے ماننے وَالے عرب ہوں یا عجم ، گورے ہوں یا کالے ، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رَکھتے ہوں ، مختلف زبانیں بولنے وَالے ہوں ، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اخوت کی بنیاد ہی اِیمانی رِشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دُوسری جتنی اخوت کی بنیادیں ہیں ، سب کم زور ہیں اور اُن کا دَائرہ نہایت محدود ہے ۔ یہی وَجہ ہے کہ اِسلام کے اِبتدائی اور سنہری دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل و تصادم ہوا تو اخوتِ اِسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی۔
کافر کوئی بھی عقیدہ رکھے ایک ہی ملت ہیں حدیث میں ارشاد ہے کہ اَلْکُفْر مِلَّۃ’‘ وَاحِدَہ ۔ ترجمہ : کفر ایک ملت ہیں۔ اس طرح قرآن و سنت نے دنیا کے تمام انسانوں کو دو الگ الگ ملتوں میں تقسیم کرکے فیصلہ کردیا کہ مسلمان ایک ملت اور کافر دوسری ملت ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کافروں کے ساتھ حسن سلوک ، انصاف ، خیرخواہی ، مدارات تو کرو لیکن محبت و دوستی کسی صورت میں تمہارے لیئے جائزہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کو اپنا راز دار بناؤ اور نہ ہی ان کے طور طریقے اختیار کرو بلکہ جو کفار تم سے لڑے تمہارے دین کے درپے ہوں ان کے ساتھ جنگ کرو ۔
دنیا میں مدینۃُ المنوّرہ پہلی اسلامی ریاست تھی جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اس کے بعد مملکت خداداد پاکستان وہ ریاست ہے جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی ۔ اس وقت دنیا میں جو ممالک موجود ہیں ان سب کی بنیاد جغرافیائی سرحدیں ہیں جو کہ دراصل مغرب کا نظریہ ہے اہل مغرب نے خاندانی، نسلی اور قبائلی بنیادوں میں ذرا وسعت پیدا کرکے قومیت کی بنیادیں جغرافیائی حدود پر استوار کیں ۔ جبکہ پاکستان کی بنیاد نہ تو رنگ زبان و نسل ہے اور نہ ہی جغرافیائی حدود بلکہ اس کی بنیاد لاالہ الا اللہ ہے ۔ کہ ایک عقیدہ اور ایک کلمہ کی بنیاد پر جو قوم بنی ہے یعنی امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ وہ سب اس مملکت کے باشندے ہیں ۔
قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دِیا ہے اور اس اخوت اور محبت کو اللہ کی نعمت قرار دِیا ہے اور اس محبت اور اِتحاد پر اُن کی قوت اور طاقت کا مدار ہے ۔ اس اخوت کو قائم رَکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اُن تمام صفات کو اَپنانا جن سے یہ اخوت کا رِشتہ مضبوط ہوتا ہے ، جیسے خیر خواہی، محبت،اِخلاص، اِیثار، ملنا ملانا،صلح جوئی اور ایک دُوسرے کو سلام اور دُعا پیش کرنا وَغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment