Monday, 11 March 2019

نکاح میری سنت ہے جومیری سنت پرعمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں

نکاح میری سنت ہے جومیری سنت پرعمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں

محترم قارئین : نسل انسانی کی بقا و افزائش کا آسان اور فطری ذریعہ نکاح ہے ، نکاح ایسا عمل ہے جوصرف دنیاوی ہی نہیں بلکہ شریعت محمدیہ میں اسے ایک عبادت کا درجہ دیا گیا ہے حدیث مبارک ہے : نکاح میری سنت ہے جومیری سنت پرعمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔

حدثنا احمد بن الازهر ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا آدم ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا عيسى بن ميمون ، ‏‏‏‏‏‏عن القاسم ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہُِ صَلَّی اللّٰہُُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّی مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ وَمَنْ کَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْیَنْکِحْ وَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَعَلَیْہِ بِالصِّیَامِ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَہُ وِجَاء ٌ ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : نکا ح میری سنت ہے جومیری سنت پرعمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ن کاح کرواس لیئے کہ میں تمہاری کثرت کے سبب دوسری امت پرفخرکروں گا ۔ اورجوخوش حال ہو اسے چاہیئے کہ نکاح کرے اور جونکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ روزہ رکھے اس لیئے کہ روزہ اس کے لیئے بمنزلہ ڈھال کے ہے ۔ اور روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:۱۹۱۹) ، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۴۹)

حَدّّثَنَاحَمِیْدُنِ الْطَوِیْلُ ، أَنَّہٗ سَمِعَ أَنَسَ بْنِ مَالِکٍ یَقُوْلُ جَآئَ ثَلاَثَۃُ رَہْطٍ إِلَی أَزْوَاجِ النَّبِیْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یَسْأَلُوْنَ عَنْ عِبَادَۃِ الْنَّبِیْ صَلَّی اللّٰہُُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، فَلَمَّا أُخْبِرُوْا فَکَأَنَّہُمْ تَقَالُّوْہَا ، قَالُوْاأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ؟ قَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا
تَأَخَّرَ قَالَ أَحَدُہُمَا: أَمَا أَنَا فِإِنِّیْ أُصَلِّی الْلَّیْلَ أَبَدًا، وَقَالَ اْلآخَرُ إِنِّی أَصُوْمُ الْدَہْرَ أَبَداً وَلَا أَفْطِرُ ، وَقَالَ الآخَرُأَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَائَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ، فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم فَقَالَ أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّیْ َلأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ ، وَأَتْقَاکُمْ لَہٗ ، لٰکِنِّیْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ َوأُصَلِّیْ وَأَرْقَدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی ۔
ترجمہ : حضرت حمید الطویل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تین آدمی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس پہنچے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عبادت کے بارے میں ان سے دریافت کریں ۔ جب انہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا تو گویا انہوں نے اسے بہت ہی کم سمجھا ۔ اور کہا کہاں ہم اورکہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ؟ اللہ عزّ و جل نے تو ان کے سبب امتیوں کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیا ہے ۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا ۔ میں ہمیشہ شب بیداررہ کرعبادت کروں گا ، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوںگا ، تیسرے نے کہا میں عورتوں سے کنارہ کش رہوںگا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لائے اورآپ نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے ۔ قسم خدا کی ! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہوں ۔ لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی ترک بھی کرتا ہوں میں رات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں توجومیری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں ۔ (صحیح بخاری:۵۰۶۳،شعب الایمان :۵۲۳۹،چشتی)

یعنی ان تینوں نے سمجھا کہ ہمیشہ شب بیداررہ کرعبادت کرنا ، روزہ رکھنا اور غیر شادی شدہ زندگی گزارنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں بتا دیا کہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا میں ہوں اس کے باوجود میں رات جاگ کرعبادت بھی کرتا ہوں اورسوتا بھی ہوں ۔ روزہ بھی رکھتا ہوں اورکبھی روزہ سے نہیں بھی رہتا ہوں ۔ نکاح بھی کرتا ہوں ۔ اس لیئے امتی ہونے کے ناطے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طریقے سے انحراف نہ کریں اوراچھی طرح سمجھ لیں کہ دنیا سے کنارہ کش ہوکر رہبانیت کی زندگی گزارنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ یعنی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت اورآپ کے طریقے کو چھوڑ کر دوسروں کے طور طریقے اپناتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سے ناراض اوربیزار ہیں ۔

حدثنا محمد بن يحيى ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا سعيد بن سليمان ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا محمد بن مسلم ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا إبراهيم بن ميسرة ، ‏‏‏‏‏‏عن طاوس ، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم :‏‏‏‏ "لم نر للمتحابين مثل النكاح".
ترجمہ : عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : دو شخص کے درمیان محبت کے لیئے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 1847)،(تحفة الأشراف: ۵۶۹۵)

یعنی اکثر دو قوموں میں یا دو شخص میں عداوت ہوتی ہے ، جب نکاح کی وجہ سے باہمی رشتہ ہو جاتا ہے تو وہ عداوت جاتی رہتی ہے ، اور کبھی محبت کم ہوتی ہے تو نکاح سے زیادہ ہو جاتی ہے ، اور یہی سبب ہے کہ قرابت دو طرح کی ہو گئی ہے ، ایک نسبی قرابت ، دوسرے سببی قرابت، اور انسان کو اپنی بیوی کے بھائی بہن سے ایسی الفت ہوتی ہے جیسے اپنے سگے بھائی بہن سے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔

حدثنا ابو مروان محمد بن عثمان العثماني ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا إبراهيم بن سعد ، ‏‏‏‏‏‏عن الزهري ، ‏‏‏‏‏‏عن سعيد بن المسيب ، ‏‏‏‏‏‏عن سعد ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "لقد رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل، ‏‏‏‏‏‏ولو اذن له لاختصينا".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی شادی کے بغیر زندگی گزارنے کی درخواست رد کر دی ، اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں اجازت دی ہوتی تو ہم خصی ہو جاتے ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 1848) ، (صحیح البخاری/النکاح ۸ (۵۰۷۳، ۵۰۷۴)،(صحیح مسلم/النکاح ۱ (۱۴۰۲)،(سنن الترمذی/النکاح ۲ (۱۰۸۳)،چشتی)(سنن النسائی/النکاح ۴ (۳۲۱۴)،(تحفة الأشراف: ۳۸۵۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۷۵، ۱۷۶، ۱۸۳)، سنن الدارمی/ النکاح ۳ (۲۲۱۳)

تبتل کے معنی عورتوں سے الگ رہنے ، نکاح نہ کر نے اور ازدواجی تعلق سے الگ تھلگ رہنے کے ہیں ، نصاریٰ کی اصطلاح میں اسے رہبانیت کہتے ہیں ، تجرد کی زندگی گزارنا اور شادی کے بغیر رہنا شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے ۔

حدثنا بشر بن آدم ، ‏‏‏‏‏‏ وزيد بن اخزم ، ‏‏‏‏‏‏قالا:‏‏‏‏ حدثنا معاذ بن هشام ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابي ، ‏‏‏‏‏‏عن قتادة ، ‏‏‏‏‏‏عن الحسن ، ‏‏‏‏‏‏عن سمرة ، ‏‏‏‏‏‏ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "نهى عن التبتل"، ‏‏‏‏‏‏زاد زيد بن اخزم، ‏‏‏‏‏‏وقرا قتادة، ‏‏‏‏‏‏ولقد ارسلنا رسلا من قبلك وجعلنا لهم ازواجا وذرية سورة الرعد آية 38".
ترجمہ : سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تجرد والی زندگی (بے شادی شدہ رہنے) سے منع فرمایا ۔ زید بن اخزم نے یہ اضافہ کیا ہے : اور قتادہ نے یہ آیت پڑھی ، «ولقد أرسلنا رسلا من قبلك وجعلنا لهم أزواجا وذرية» (سورة الرعد: 38) ” ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور اولاد بنائیں“ ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 1849) ، (سنن الترمذی/النکاح ۲ (۱۰۸۲)،(سنن النسائی/النکاح ۴ (۳۲۱۶)،(تحفة الأشراف: ۴۵۹۰)، مسند احمد (۵/۱۷،چشتی)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تسلی دیتا ہے یا کافروں کے اعتراض رد فرتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کئی شادیاں کیں تو اولاً یہ نبوت کے منافی نہیں ہے ، اگلے بہت سے انبیاء علیہم السّلام ایسے گزرے ہیں جنہوں نے کئی کئی شادیاں کیں ، ان کی اولاد بھی بہت تھی ، بلکہ بنی اسرائیل تو سب یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں جن کے بارہ بیٹے تھے ، اور کئی بیویاں تھیں ، اور ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں ، ایک سارہ ، دوسری ہاجرہ ، اور سلیمان علیہ السلام کی (99) بیویاں تھیں ، الروضہ الندیہ میں ہے کہ مانویہ اور نصاریٰ نکاح نہ کرنے کو عبادت سمجھتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں اس کو باطل کیا ، فطرت اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان نکاح کرے ، اور اپنے بنی نوع کی نسل کو قائم رکھے ، اور بڑھائے ، البتہ جس شخص کو بیوی رکھنے کی قدرت نہ ہو اس کو اکیلے رہنا درست ہے ۔

محترم قارئین : نکاح کے بارے میں عام رجحان یہ ہے کہ نکاح کرنا سنت ہے ، کیوں کہ حدیث میں ہے : النکاح من سنتی، حالاں کہ حدیث میں وارد سنت سے مراد نکاح کاسنت اور مستحب ہونا نہیں ہے ، بلکہ یہاں سنت سے مراد تہذیب ہے ، یعنی نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی لائی ہوئی تہذیب میں شامل ہے ۔ چنانچہ فقہاء کرام علیہم الرّحمہ نے حالات کے اعتبار سے نکاح کرنےاورنہ کرنے کے احکام بیان کئے ہیں ، جو درج ذیل ہیں :

فرض : اگر شہوت بہت زیادہ ہوحتیٰ کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کرلینے کا یقین ہو ، مہر اورنان ونفقہ ادا کرسکتا ہونیز بیوی پر ظلم و ستم کرنے کا خوف نہ ہو ، توایسی صورت میں نکاح کرلینا فرض ہے ۔

واجب : نکاح کرنے کا تقاضہ ہو ، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو ، مہر اور نان و نفقہ ادا کرسکتا ہو نیز بیوی پر ظلم و ستم کرنے کا خوف نہ ہو ، توایسی صورت میں نکاح کرلینا واجب ہے ۔

سنت مؤکدہ : عام حالات میں یعنی مالی اور جسمانی حالت اچھی ہو ، بیوی کے حقوق کو ادا کرسکتا ہو ، بیوی پر ظلم و ستم کرنے کا خوف نہ ہو تو نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔

مکروہ تحریمی : اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کےمالی یا صنفی حقوق ادانہ کرنے کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔

حرام : اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کےمالی یاصنفی حقوق ادانہ کرنے کا اسی طرح عورت پر ظلم کرنے کایقین ہو یا نکاح کرنے کا مقصد بیوی پر ظلم کرنا ہو تو پھر نکاح کرنا حرام ہے ۔ (البحرالرائق ٣/۸٤،درمختارعلی ردالمحتار:٣/۶، فتاویٰ رضویہ ، بہارِ شریعت))

نکاح کرنے کے یہ درجات جس طرح مردوں کے لیئے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیئے بھی ہیں ۔ نکاح میں لڑکے کے اوپر مہر ، ولیمہ مسنونہ اورمستقل طوپر بیوی کے نان ونفقہ کے اخراجات کے علاوہ کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہے ، اس لیئے صرف اس وجہ سے کہ ابھی زیادہ روپیہ پیسہ نہیں ہے ، یاولیمہ میں بھاری بھرکم خرچہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے ، نکاح نہ کرنا یا نکاح کو مؤخر کرنا درست نہیں ہے ، بلکہ اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہوتوایسی صورت میں سخت گناہ ہوگا اور اپنے ذہن اور جسم و روح کے ساتھ نا انصافی بھی ہوگی اللہ تعالیٰ ہمیں احکامِ اسلام پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...