حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا گھر جلایا کا جواب
محترم قارئین : روافض یعنی شیعہ حضرات کے مذھب کی بنیاد جھوٹ یعنی تقیہ پر ہے اگر یہ جھوٹ نہ بولیں تو ان کا خود ساختہ مذھب خود بخود دفن ہو جائے گا ان کے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا گھر جلایا آیئے پہلے شیعہ کے جھوٹے اعتراض کو پڑھتے ہیں پھر اس کا جواب :
شیعہ اعتراض : ایک اعتراض جو شیعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ سقیفہ کے واقعہ کے بعد، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بیعت دینے سے انکار کیا تھا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر اور چند دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر جاؤ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکڑ کرلے آؤ ۔ ذرائع کے مطابق جیسے تاریخ طبری (اور دوسرے ذرائع) میں ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عمر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں گھر کا دروازہ توڑا اور علی رضی اللہ عنہ کو گھسیٹے ہوئے ابو بکر کی طرف لے گئے اور زبردستی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کروائی ۔ یہ واقعہ تمام تاریخ کی کتابوں ، جیسے صحیح البخاری، احمد بن حنبل، سیرہ النبوۃ از ابن ہشام، تاریخ طبری (عربی)، الستیعاب از عبدالبر، تاریخ الخلفاء ابن قتیبہ اور کنز المعال میں درج ہے ۔ وہ علی (رضی اللہ عنہ) کے گرد گھیرا ڈال کے کھڑے ہوئے ، ان کے گھر کا دروازہ جلایا اور ان کی مرضی کے خلاف ان کو گھر سے نکالا ، علی رضی اللہ عنہ کے گھر کی خواتین کی سردار (حضرت فاطمہ علیہ السلام) کو دروازے کے درمیان دبایا اور اسطرح محسن رضی اللہ عنہ (جن سے فاطمہ چھ مہینے کی حاملہ تھیں) کو مار ڈالا ۔
شیعہ اعتراض کا جواب : شیعہ حضرات نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے افعال کے بارے میں دھوکہ دیا۔ یہ واقعہ ایسا نہیں تھا جیسا اس کو بتایا جاتا ہے ۔ جو کچھ بھی اس واقعہ سے متعلق صحیح بخاری، مسند احمد، کنزالاعمال، البدایہ النہایہ، الکامل از ابن اثیر، سیرۃ النبی از ابن ہشام اور تاریخ السلام از لیث سحابی میں موجود ہے، جب کھنگالا جاتا ہے تو وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے انتقال کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ اور انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم ، تدفین کے مراحل میں مشغول تھے ۔ دوسری طرف کچھ انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سقیفہ بنی سعدہ میں اکھٹا ہوئے ۔ ان کا ارادہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کا تھا ۔ کیونکہ یہ اکابر صحابہ اور مہاجرین صحابہ کی باہمی مشاورت کے خلاف تھا اس لئے نہایت ہی نامناسب تھا ۔ اسکو دیکھ کر ایک صحابی فوراً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھرکی طرف روانہ ہوئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا ، جو تدفین کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے ۔ پہلے تو حضرت عمر نے انہماک کی وجہ سے آنے سے انکار کیا ، لیکن جب صحابی نے اس پراسرار کیا اور اس کی اہمیت کے متعلق اطلاع کی تو عمر باہر نکل کر آئے صحابی نے انہیں انصار کے مجمع کے بارے میں بتایا ۔ اس کو سن کر حضرت عمر نے فوراً حضرت ابوبکر کو بلایا جو کہ خود تدفین کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے ۔ جب عمر نے ان کو معاملے کی اہمیت کے بارے میں بتایا ، تو وہ بھی سقیفہ جانے کے لئے تیار ہوگئے اور ان کے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بھی ہولئے ۔
یہاں پر یہ معاملہ صاف ہوگیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت حاصل کرنے کے لئے کوئی ابتدائی قدم نہیں اٹھایا تھا ، اس کے برعکس وہ تدفین کے مراحل میں مصروف تھے ۔ کوئی دوسرے صحابی آئے اور انہوں نے حضرت عمر کو انصار کے جمع ہونے کے بارے میں بتایا ۔
اس واقعے کے بعد کوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہمیت کے بارے میں جان سکتا ہے ۔ نیز حضرت ابوبکر اکیلے سقیفہ بنی سعدہ نہیں گئے تھے ، بلکہ ان کے ساتھ عمر اور عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنھم بھی ساتھ گئے تھے ۔ (یہ تین صحابہ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے ، یعنی ان دس صحابیوں میں سے تھے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنت کی خوشخبری دی تھی) ۔ بظاہر حضرت ابوبکر ، حضرت علی یا حضرت زبیر کو اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے ، کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے نزدیکی رشتہ دار تھے اور ان کا تدفین کے انتتظامات میں رکنا زیادہ مناسب تھا ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو روضہ مبارک میں منتقل کیا کو فرمایا ’’ ایک آدمی کی تدفین کے لئے اسکے اہل خانہ اور قریبی رشتہ دار ذمہ دار ہوتے ہیں ۔‘‘ (سنن ابوداؤد ج 2ص 102،چشتی)
عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اس کی وضاحت کی تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سقیفہ بنی سعدہ اس لئے گئے تھے کہ انصار کو مطلع اور انکو وضاحت کرسکیں۔ انکو اسکا نہیں پتہ تھا کہ اسکے بیچ میں انکو خلیفہ مقرر کرنے کی ذمہ داری دی جارہی ہے۔ شاید اسی وجہ سے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر نہیں گئے تھے۔ جب یہ تینوں صحابہ سقیفہ بنی سعدہ پہنچے تو دیکھا کہ انصارایک بہت جذباتی حالت میں ہیں اور سعد بن عبادہ کو خلیفہ کے طور پر مقرر کرنے والے ہیں۔ یہ کسی بھی حالت میں درست اور مناسب نہیں تھا۔ مہاجرین کے علاوہ ، انصار میں سے کوئی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیعت لینے پر خوش نہیں تھا اور اس کا بہت بڑا خطرہ تھا کہ بغاوت نہ ہوجائے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی نشاندہی بخاری میں موجود میں خطبہ میں کی تھی۔ اسی لئے ابوبکر آگے آئے اور انہوں نے بڑی ذہانت کے ساتھ اس کی وضاحت کی کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے کیونکہ تمام عرب انکی عزت کیا کرتے ہیں۔ اسکے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرات عمر اور ابوعبیدہ بن جراح رضوان اللہ علہم اجمعین کے ہاتھ کھڑا کرکے گذارش کی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو ۔ انصار اس پر راضی نہیں ہوئے لیکن انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ایک امیر انصار میں سے ہونا چاہیے او ر ایک مہاجرین سے۔ لیکن یہ ممکن کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ملک میں ایک ہی وقت میں دو حکمران ہوں؟ اس موقع پر حضرت عمر نے کہا ’’ ایک میان میں دوتلواریں نہیں رہ سکتی‘‘۔ جب حضرت عمر نے دیکھا کہ مسائل حل نہیں ہورہے اور اعتراضات ختم نہیں ہورہے ہیں اور بغاوت کا خدشہ سامنے آرہا ہے تو انہوں نے حضرت ابوبکر کو منبر پر کھڑا کردیا اور اعلان کیا کہ وہ انکے ہاتھوں پر بیعت کرنے جارہے ہیں۔ حضرت عمر کے ہاتھوں بیعت کرنے سے پہلے انصاری صحابہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیعت کرلی ۔ اسکو دیکھنے کے بعد تمام مہاجرین اور انصار جو وہاں موجود تھے ، انہوں نے بھی حضرت ابوبکر کے ہاتھوں بیعت کرلی، سوائے سعد بن عبادہ کے ۔ جب حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کو خلافت کے اہل ہونے کا حقدار ثابت کیا تو انہوں نے کہا ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابوبکر کو اپنی زندگی میں نماز پڑھانے کے لئے آگے کیا تھا اور وہ ہی ثانی اثنین یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غار کے ساتھی تھے۔ عمر انکی موجودگی میں خلیفہ کیسے بن سکتا ہے ؟‘‘ حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے بھی یہی بات کی۔ زید بن ثابت جو ایک انصاری صحابی تھے، انہوں نے بھی کچھ اسی طرح کہا اور مہاجرین کی فضیلت اور اہمیت انصار پر واضح کی۔ اس طرح وہ انصار جنہوں نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے ، اپنی خوشی سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیعت کی ۔
یہ مجمع ایک اتفاقی واقعہ تھا ۔ انصار اس مجمع کے ہونے کے ذمہ دار تھے۔ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھم نے انکو جمع نہیں کیا تھا کہ خلافت حاصل کی جائے ۔ اس کے برعکس انکو سقیفہ بنی سعدہ جانے کے لئے مجبور کیا گیا تھا تاکہ وہ ایک بغاوت کو اٹھنے سے روکیں۔ اگر یہ طریقہ نہیں اختیار کیا جاتا اور یہ تین صحابہ سقیفہ بنی سعدہ سے چلے جاتے، انصار کا ایک گروہ اپنے آپ میں سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کرلیتا کیونکہ وہ ایک جذباتی حالت میں تھے اور خلیفہ مقرر کرنے میں دیر نہیں چاہتے تھے۔ اگر ایک اس وقت ایک انصار صحابی اکابر صحابہ کی غیر موجودگی میں خلیفہ مقرر ہوجاتے تو اس کا ایک قوی امکان تھا کہ عرب ان کی خلافت کو رد کردیتے اور ناتفاقی اور کشت و خون کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصآل کے فوری بعد ہی شروع ہوجاتا ۔ یہی بات وہ صحابی کہہ رہے تھے کہ جب انصار صحابی کو وہ مشورہ دے رہے تھے : تم لوگوں نے پہلے اسلام کو سہار ا دیا اور اسکی مدد دی، اب تم لوگ وہ پہلے افراد نہ بنو جو اسلام کو ختم کرو یعنی لڑائی جھگڑا آپس میں کرکے ۔‘‘
اب اس بات پر کوئی غور کرسکتا ہے کہ یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟ نہ انہوں نے خلافت کا مطالبہ کیا اور نہ ہی خلافت کے حصول کی کوشش کی۔ حضرت ابوبکر نے عمر اور ابوعبیدہ بن جراح کو خلافت کے لئے پیش کیا۔ حضرت عمر نے آپ کو خلافت کے لئے آگے کیا اور تمام مہاجرین اور انصار نے حضرت عمر کی اس دعوت کا قبول کیا۔ یہ کسی مصدقہ روایت سے ثابت نہیں ہے کہ ابوبکر اور عمر کسی سازش کاحصہ تھے۔ اگر کوئی اسکا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اسکا ثبوت لے کر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس خلافت کا اپنی دورِ خلافت میں اتفاقی کہنا بھی اسی لئے تھا، کیونکہ ان کے ذہن میں اس خیال کا آنا ناممکن تھا یا یہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین اس بیعت کا حصہ نہیں بنے تھے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تدفین کے مراحل میں مصروف تھے اور بظاہر انکو نہیں پتہ تھا کہ کون گھر کے باہر ظاہر ہوا۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین نے اس لئے بیعت نہیں کی کہ وہ اس سے متفق نہیں تھے، اسی لئے ان صحابہ کو جو وہاں موجود نہیں تھے ملامت کا شکار نہیں کیا گیا تھا۔ ایک عام مجلس دوسرے دن مسجد نبوی میں منعقد ہوئی جس میں بقایا سب افراد کے لئے بیعت ہوئی تاکہ کسی کو خلافت ابی بکر رضی اللہ عنہ کے خلاف کہنے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ بھی کسی کالزام لگانا غلط ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے حضرت علی اور دوسرے صحابہ کو سقیفہ بنی سعدہ میں مدعو نہیں کیا تھا۔ انکو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے ، نہ ہی وہ اس ارادہ سے گئے تھے کہ خلافت اپنے لئے غضب کرلیں۔ سقیفہ بنی سعدہ میں جوکچھ ہوا وہ ایک اتفاق اور اچانک ہوا تھا۔
یہ کچھ کچھ روایات سے ثابت ہے کہ سقیفہ بنی سعدہ کے واقعے کی بعد ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھر تشریف لے کہ گئے اور تدفین کے بقایا مراحل میں حصہ لیا۔ اگلے دن ابوبکر مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوگئے اور عمر صحابہ کے سامنے کھڑے رہے ، پھر ابوبکر نے کچھ الفاظ ادا کیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد جو انہوں نے کہا تھا ، اس پر معذرت کی ۔ پھر مزید کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوگیا ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے ۔‘‘ ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر کی طرف اشارہ کیا اور انکے فآائل کا اعتراف کیا۔ پھر فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یارِ غار تھے اور خلافت کے کسی اور کی نسبت سب سے زیادہ مستحق تھے اور سب لوگوں کو انکے ہاتھ ہر بیعت کرنا چاہیے۔ تمام صحابہ جو اس وقت مسجد نبوی میں موجود تھے انہوں نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسکو عام بیعت کہا جاتا ہے۔ اس بیعت کے موقع پر دو نہایت اہم اور مشہور صحابی علی اور زبیر رضوان اللہ علیھم اجمعنین موجود نہ تھے۔ یہ ایک الجھاؤ تھا۔ حضرت ابوبکر نے انکے متعلق دریافت کیا۔ کچھ صحابہ کھڑے ہوئے اور علی اور زبیر کو مسجد نبوی میں بلالائے۔ جب یہ صحابہ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : آپ نے بیعت کیوں نہیں لی حالانکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رشتہ دار اور داماد ہیں ؟ کیا آپ مسلمانوں کے درمیان ناتفاقی چاہتے ہو ؟‘‘ حضرت علی یہ سننے کے بعد اس پر معذرت کی اور حضرت ابوبکر کے ہاتھوں بیعت کر لی ۔ حضرت ابوبکر نے حضرت زبیر سے بھی یہی سوال کیا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حواری اور رشتہ دار ہونے کے بعد بھی تم مسلمانوں کے درمیان نااتفاقی پیدا کرنے چاہتے ہو ؟ ‘‘ انہوں نے بھی اس پر اپنی معذرت پیش کی اور ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔
اب جہاں تک کچھ روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ کے گھر اکھٹے ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ادھر گئے تو انکو دھمکایا، میں یہاں پر یہ کہوں گا کہ بظاہر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تدفین کے بعد اور مسجد نبوی میں عام بیعت کے بعد، علی اور زبیر اور کچھ دوسرے مہاجرین ، فاطمہ کے گھر میں اکھٹے ہوئے اور یہ ارادہ کیا کہ چونکہ اب تم عام بیعت منعقد نہیں ہوئی تھی، اس لئے ہم علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنادیتے ہیں۔انہوں نے اس معاملے کو اپنے طور پر طے کیا اور زبیررضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ وہ علی کی مدد تلوار کے ذریعے کریں گے۔ دوسرے طرف بہت سے مہاجرین اور انصار پہلے ہی حضرت ابوبکر کے ہاتھوں سقیفہ بنی سعدہ میں بیعت کرچکے تھے، اب اگر ایک اور خلیفہ مقرر ہوجاتا تو بغاوت کا ایک بہت بڑا خدشہ پیدا ہوتااور انصار ایک بار پھر اپنے لئے الگ خلیفہ اور امیر مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے۔ اس لئے اس بغاوت کو دبانے لئے عمر ، فاطمہ کے گھر گئے جب علی اور زبیر گھر پر نہیں تھے۔ کنز العمال میں یہ درج ہے کہ عمر نے فاطمہ کوکہا کہ ’’ اے دخترِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، تمام لوگوں میں سے کوئی مجھے آپ کے باپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور اس کے بعد آپ سے زیادہ پیارا کوئی نہیں ۔ میرے پاس یہ بری خبر آئی ہے کہ یہ لوگ آپ کے گھر میں جمع ہوئے ہیں اور ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کررہے ہیں ۔ اگر ان لوگوں کو روکا نہیں گیا تو خدا کی قسم میں ان کے گھر جلادوں گا ۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت عمر لوٹ آئے اور جب علی اور زبیر گھر واپس آئے تو فاطمہ نے ان لوگوں سے یہ کہا ’’ کیا آپ کو پتہ ہے کہ عمر یہاں آئے تھے اور مجھ سے ایک عہد لیا کہ اگر تم لوگوں نے ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کی تو تم لوگوں کے گھر جلادیں گے ؟ خدا کی قس م! عمر اپنے عہد کو پورا کریں گے ۔ اس لئے میرے گھر سے اس ارادے سے چلے جائے کہ اپنے ارادے اور خیالات کو ملتوی کردیں اور دوبارہ میرے گھر اس ارادے سے نہیں آئیں ۔‘‘ علی اور زبیر گھر چھوڑ کر آگئے اور دوبارہ وہاں جمع نہیں ہوئے جب تک انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہ کرلی ۔ (کنز العمال ج 5، ص 651،چشتی)
کنز العمال کی اس روایت کے ذریعے کچھ نکات واضح اور صاف ظاہرہوتے ہیں :
جب عمر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی اور حضرت زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین گھر پر نہیں تھے۔اس لئے عمر کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور کوئی جھگڑا ہوا۔
(1) عمر رضی اللہ عنہ ، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نہایت عزت کے ساتھ پیش آئے انکو یہ بھی بتایا کہ آپ رضی اللہ عنہا انکے بچوں سے زیادہ محبوب ہیں ۔
(2) عمر نے فاطمہ کو کسی طور پر دھمکایا نہیں تھا۔
(3) جب عمر نے فاطمہ کا گھر چھوڑا، تو فاطمہ اور انکا گھر بالکل صحیح سالم تھا۔انکو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا۔بعد میں جب علی رضی اللہ عنہ گھر پہنچے تو فاطمہ نے یہ شکایت نہیں کی کہ عمر نے ان سے بدتمیزی کی۔ بجائے اسکے فاطمہ نے انکو مستقبل میں اپنے گھر میں عمر کی کی مخالفت اور ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کرنے سے روکا تھا۔
(4) علی رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر کے ہاتھوں بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے بیعت کرلی تھی۔
یہ الزام حضرت عمر پر لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ کا گھر کا دروازہ توڑا اور علی اور فاطمہ کے پاس ایک غیر مہذبانہ انداز میں گئے، ان کے اس عمل کے نتیجے میں فاطمہ کا حمل ساقط ہوگیا ، یہ تمام الزام ایک جھوٹ اور من گھڑت ہے ۔ حقیقت میں یہ الزام دراصل حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی توہین کرتا ہے اور اسلام کا مذاق اڑاتا ہے ۔ کیا حضرت علی اتنے بزدل تھے کہ نہ اپنے گھر کو بچا سکے اور نہ ہی اپنی بیوی کا انتقام لے سکے ؟ جب حضرت علی خلیفہ بن گئے تو کیوں نہیں انہوں نے حضرت عمر کے خاندان سے اپنے مقتول بچے کا خون بہا لیا ؟ وہ لوگ جنہوں نے یہ روایات گھڑیں ہیں دراصل اسلام کے دشمن تھے ۔ ان لوگوں نے کفار کے سامنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اسطرح گمراہ تصویر کشی کی ہے کہ نعوذ باللہ وہ خلافت کے حصول کے پیاسے تھے ، ان کا کوئی قانونی سسٹم نہیں تھا ، طاقتور کمزو ر کا دبایا کرتا تھا ، سچ بولنا جرم تھا، ظالم کو سزا نہیں ملتی تھی، حکام کو خوش رکھنے کے لئے جھوٹ بولنا پڑتا تھا، جیسے منافق لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی ان کے دلوں میں اپنے حکمرانوں کے لئے برائی چھپی ہوتی ہے۔ استغفر اللہ۔ کیا آپ کا دل یہ الزامات اور خرافات قبول کرے گا ؟ کیا کبار صحابہ ایسا ہی کیا کرتے تھے ؟ کیا یہ صحابہ اس قابل نہیں تھے کہ انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں جیسے قیصر اور کسریٰ جیسوں بغیر سروسامانی کے کو تباہ و برباد کردیا تھا؟ کیا اللہ تعالی ظالموں کی مدد کرتا ہے ؟
یہ دعویٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا اسقاط ہوگیا تھا، ایک من گھڑت قصہ ہے ۔ یہ ایک مصدقہ تاریخی کتاب، البدایہ و النہایہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی میں ، حضرت فاطمہ نے ایک تیسرے بچے جس کا نام محسن تھا، جنم دیا تھا اور یہ بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی ہی میں وفات پا گیا تھا۔ اسی وجہ سے زیادہ تر تاریخ نویسوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صرف دو بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔
حضرت عمر نے ان لوگوں کے خلاف ایک سخت رویہ کیوں اختیار کیا جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہونے کے بعد مخالفت کی، اسکا سبب یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تھا: ’’ خلیفہ ہونے کے بعد کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا، جب اسکو مسلمانوں نے مقرر کرلیا ہو۔ پس جو اسکا دعویٰ کرے اسکو قتل کردو، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔(صحیح مسلم)
جب عام بیعت ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ میں خلیفہ بننا نہیں چاہتا تھا، نہ ہی اسکو خواہش کی تھی۔ اگر آپ لوگ اس نے خوش نہ ہوں ، تو میں معزول ہوجاتا ہوں اور آپ کسی اور کو خلیفہ بنالینا۔‘‘ مہاجرین کی اکثریت، خصوصا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسکا انکار کیا اور کہا ’’ نہیں، آپ (ابوبکر) اس امر کے بنسبت کسی اور کے زیادہ مستحق ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز جیسے اہم امور میں آپ کو آگے کیا، تو اب ہم آپ کو کیسے پیچھے ہٹائیں؟‘‘ جب علی اور زبیر سے پوچھا گیا کہ آپ نے شروع میں بیعت کیوں نہیں کی؟ تو انہوں نے جواب دیاکہ اسکا سبب ہم نے اس معاملے میں مشورہ کیا تھا۔ شیعہ کتاب ’’ احتجاج طبرسی‘‘ کی ایک روایت ہے کہ علی نے ابوبکر کے ہاتھوں بیعت کی اور ان کے پیچھے نماز ادا کی۔ علی نے اس بات کا اپنی خلافت میں اعلان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خلیفہ مقرر کرنے کی اور ہمیں اسکی بیعت کرنے کی کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ اگر میں نے بیعت کی ہوتی تو میں کبھی ابوبکر کو رسول اللہ کے منبر پر چڑھنے کی اجازت نہ دیتا، لیکن ابوبکر خلافت کے اہل تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو آگے بڑھایا، انکے ساتھ کام کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ہم نے عمر اور عثمان کی معاونت کی۔
کوئی اس بات پر غور کرسکتا ہے کہ اگر علی رضی اللہ عنہ نے بیعت لی ہوتی تو وہ اسکو اپنی خلافت میں ضرور بتاتے، جب انکو حکومتی سطح سے کسی کی تنبیہ یا دھمکی کا خطرہ نہ ہوتا۔ اگر ابوبکر یا عمر نے ان پر ظلم کیا ہوتا تو اس کو وہ ضرور بتاتے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ہم نے کافی تفضٰیل کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں بیان کیا ہے۔ کوئی بھی اس کو مصدقہ مان سکتا ہے کیونکہ یہ اسلام اور صحابہ کی نیچر کے مطابق ہے۔ وہ روایات جو صحابہ اور اسلام کی غلط تعبیریں کرتی ہیں انکو قبول نہ کیا جانا چاہیے کیونکہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرتے ہوئے اسلام کی مخالفت کرتے ہیں ، انہوں نے ان جھوٹی روایات کو گھڑا ہے اور اسطرح انکو پھیلایا ہے کہ مسلمانوں میں ناانتفاقی پھیل جائے اور گروہ درگروہ تقسیم ہوکر آپس میں خون بہانے لگیں۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہر بات سچی اور مصدقہ نہیں ہوتی اور اس پر شیعوں سے لڑنا نہیں چاہیے، اس کے برعکس ہمیں ایک عملی مسلمان ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ آپ کو صحابہ کا ذکر ہمیشہ ادب و احترام سے کرنا چاہیے اور ان کے لئے نفرت اور کسی اور صحابی کے لئے انکی برائی نہیں رکھنا چاہیے، نیز تمام صحابہ کے لئے محبت کی تلقین کرنا چاہئے ۔ ان سے محبت کرنا ہمارے ایمان کی نشانی ہے اور ان کی مخالفت کرنا نفاق کی نشانی ہے۔
اگر کوئی شیعہ آپ کو مستقل تنگ کرے تو اس سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ بزدل تھے یا بہادر تھے ؟
اگر وہ بہادر تھے توانہوں نے سچائی کیوں چھپائی ؟
کس چیز نے انکو سچائی چھپانے سے اپنی خلافت میں روکا ؟
اگر تمہارے (شیعہ) عقیدے میں کسی کو خلافت اور حکومتی معاملات میں وصیت ملے اور وہ ان کو کھل کر نہ کہہ سکے ، تو تم اس کو کیسا پاؤ گے؟
اس کی یہ وصیت کہاں ہے اور کس کتاب میں ملے گی ؟
اس کو تم کسی معیاری مصدقہ ذرائع سے ثابت کیوں نہیں کرپارہے ؟
یہ مضمون ہم نے درج ذیل کتب سے تیار کیا ہے تفصیل کےلیئے ان کتب کا مطالعہ فرمائیں : (صحیح البخاری ج 2، ص 1009، 1072)(فتح الباری ج 12، ص 145، حدیث نمبر 6830، ج 13، ص 208، حدیث نمبر 7219،)(مسند احمد بن حنبل ، ج 1، ص 55، حدیث 133، ص 121، حدیث 391)(کنز الاعمال ج 5، ص 635- 637، حدیث نمبر 14131-14156)(رشد الانف ، شرح سیرہ ابن ہاشم ج 4، ص 260)(البدایہ و النہایہ ج 5، ص 245-252 ج 6، ص 301-331)(الکامل فی التاریخ ابن اثیر ج 2ص 189،194)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment