شہزادی رسول حضرت سیدہ بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا
محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ ۔ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ ۔ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 59)
ترجمہ : اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے او پر ڈالے رکھیں ، یہ اس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
مشہور شیعہ تراجم : ⏬
مقبول احمد شیعہ دہلوی نے ترجمہ کیا : اے نبی تم اپنی ازواج سے ، اور اپنی بیٹیوں سے ، اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو ۔ (مقبول ترجمہ قرآن مجید صفحہ 849)
شیعہ عماد علی شاہ تفسیر عمدۃ البیان مطبوعہ لاہور 1290ھ میں اس آیت کا ترجمہ یوں کرتا ہے : اے پیغمبر بلند کہہ تو واسطے عورتوں اپنی کے ، اور بیٹیوں اپنی کے ، اور عورتوں مؤمنین کی کے ۔
غور فرمائیں ، شیعہ سنی تراجم میں "بَنَاتِکَ" کا ترجمہ بصیغہ جمع ہے ، جس سے صاف ظاہر ہے کہ نبی علیہ السلام کی بیٹیاں ایک سے زائد تھیں ۔
یہ آیتِ مبارکہ واضح دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں ، کیونکہ اس میں ’’بنات‘‘کا لفظ مستعمل ہے جو کہ ’’بنت‘‘کی جمع ہے ۔ جمع کے کم سے کم تین افراد ہوتے ہیں ۔ کسی خارجی دلیل کے ملنے پر جمع کے اقل افراد دو ہو سکتے ہیں ۔ ایک فرد کے جمع ہونے کا دنیا میں کوئی بھی قائل نہیں ۔ ایک تو مفرد حقیقی ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی بیٹی صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں تو ’’بنات‘‘ کہنے کا کیا معنیٰ ؟
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں ۔ اور یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چھوٹی ہیں ۔ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نام حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خویلد بن اسد ہے ۔ یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین برس بعد پیدا ہوئیں ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً تینتیس برس تھی ۔ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں پرورش پائی ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر سات سال تھی ۔ جب حضر ت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اسلام قبول کیا ۔ تو ان کے ساتھ آ پ کی صاحبزادیوں نے بھی اسلام قبول کیا ۔ ( طبقات ابن سعد جلد ۸ صفحہ ۲۴)
حضرت سیدہ رقیّہ رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں ۔ آپ بھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن پاک سے پیدا ہوئیں ۔ ان کے بارے میں حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : إِنَّمَا تَغَیَّبَ عُثْمَانُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّہٗ کَانَتْ تَحْتَہٗ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَتْ مَرِیضَۃً، فَقَالَ لَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِّمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا، وَسَہْمَہٗ‘ ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں موجود نہ تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت ِجگر تھیں اور وہ بیمار تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ آپ کےلیے بدر میں حاضر ہونے والوں کی طرح اجر اور حصہ ہے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 442 حدیث نمبر 3130،چشتی)
حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : إِنِّي تَخَلَّفْتُ یَوْمَ بَدْرٍ، فَإِنِّي کُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَیَّۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتّٰی مَاتَتْ، وَقَدْ ضَرَبَ لِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِي، وَمَنْ ضَرَبَ لَہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِہٖ، فَقَدْ شَہِدَ ۔
ترجمہ : میں بدر والے دن پیچھے رہا تھا ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی رقیہ کی تیمارداری کر رہا تھا ، حتی کہ وہ وفات پا گئیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لیے مالِ غنیمت میں حصہ بھی مقرر کیا تھا ۔ جس شخص کا حصہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقرر فرما دیں ، وہ حاضر ہی شمار ہو گا ۔ (مسند الإمام أحمد جلد1 صفحہ 68 حدیث نمبر 490 وسندہٗ حسنٌ)
قبل از اسلام سیدہ کا نکاح : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت رقیہ کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتبہ سے کیا تھا ابھی رخصتی ہونا باقی تھی ۔ جب نبی کریم خاتم النبین کے عظیم منصب پر فائز ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستہ میں رکاوٹ ڈالنے اور پیغام حق کے مقابلہ میں کفر اور شرک کی اشاعت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے و حی کا نزول کر کے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت فرمائی تو ابولہب نے اپنے بیٹوں کو بلا کر کہا اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق دے کر ان سے علیحدگی اختیار نہیں کی تو تمہارا میرے ساتھ اٹھنا بیٹھنا حرام ہے ۔ دونوں بیٹوں نے حکم کی تعمیل کی اور دختران رسول سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم کو طلاق دے دی ۔ (طبقات ابن سعد ، الاصابہ الابن حجر صفحہ ۲۹۷)
سیدہ رقیہ کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے نکاح : ⏬
جب ابولہب کے لڑکوں نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہاکو طلاق دے دی تو اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردیا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی کردی ۔ ( کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۳۷۵)
سیدہ رقیہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کی ہجرت حبشہ : ⏬
جب کفار کے مظالم حد برداشت سے بڑھ گئے تو نبوت کے پانچویں سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ جوڑا خوبصورت ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۳ صفحہ ۶۶،چشتی)
ایک عورت حبشہ سے مکہ پنہچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے ہجرت کرنے والوں کے حال احوال دریافت فرمائے تو اس نے بتایا کہ اے محمد میں نے آپ کے داماد اور آپ کی بیٹی کو دیکھا ہے آپ نے فرمایا کیسی حالت میں دیکھا تھا ؟ اس نے عرض کیا : عثمان اپنی بیوی کو سواری پر سوار کیے ہوئے جا رہے تھے اور خود سواری کو پیچھے سے چلا رہے تھے ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان دونوں کا مصاحب اور ساتھی ہو حضرت عثمان ان لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی ۔ (البدایہ لابن کثیر جلد ۳ صفحہ ۶۶)
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت : ⏬
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے والے ہیں تو حضرت عثمان چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ آئے اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے ۔ ہجرت حبشہ کے بعد حضرت عثمان ہجرت مدینہ کے لئے تیار ہو گئے اور اپنی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف دوسری ہجرت فرمائی ۔ (الاصابہ لابن حجر جلد ۴ صفحہ ۲۹۸،چشتی)
حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی اولاد : ⏬
حبشہ کے زمانہ قیام میں ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا جس کی وجہ سے حضرت عثمان کی کنیت ابو عبد اللہ مشہور ہوئی ۔ عبداللہ کا ۶ سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں انتقال ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ خود پڑھی حضرت عثمان نے قبر میں اتارا ۔ (اسد الغابہ جلد ۵ صفحہ ۴۵۶)
حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی بیماری : ⏬
دو (2) ہجری غزہ بدر کا سال تھا حضرت رقیہ کو خسرہ کے دانے نکلے اور سخت تکلیف ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کی تیاری میں مصروف تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام غزوہ میں شرکت کے لئے روانہ ہونے لگے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تیار ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو خطاب کر کے فرمایا : رقیہ بیمار ہے آپ ان کی تیمار داری کےلیے مدینہ میں ہی مقیم رہیں آپ کے لئے بدر میں شرکت کرنے والوں کے برابر اجر ہے اور غزائم میں بھی ان کے برابر حصہ ہے ۔ (صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۵۲۳،چشتی)
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں جو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تین سال چھوٹی ہیں۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا تینتیس برس تھی ۔ اعلان نبوت کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی والدہ اور بڑی بہن کے ہمراہ اسلام قبول کیا ۔
بعثت سے قبل سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر رخصتی ہونا باقی تھی۔ اعلانِ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام کے راستہ میں رکاوٹ ڈالنے اور پیغام حق کے مقابلہ میں کفر اور شرک کی اشاعت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت فرمائی تو ابولہب نے اپنے بیٹے کو رقیہ بنتِ محمد سے علیحدگی اختیار کرنے پر زور دیا ، اس پر عتبہ بن ابولہب نے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ میں ہی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ ووآلہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی بھی کردی ۔
نبوت کے پانچویں سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا ، اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ جوڑا کس قدر خوبصورت ہے۔‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف دوسری ہجرت فرمائی۔ حبشہ میں قیام کے دوران اس مبارک جوڑے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام عبداللہ رکھا گیا ، جس کی وجہ سے حضرت عثمان کی کنیت ابو عبداللہ مشہور ہوئی ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا وصال 6 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قبر میں اتارا ۔
ہجرت کے دوسرے سال غزوہ بدر رونما ہوا ، اسی دوران سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا خسرہ سے بیمار ہوئیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہا کو سیدہ رقیہ کی تیمار داری کےلیے مدینہ میں ہی مقیم رہنے کا فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوہ بدر کےلیے روانہ ہونے کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال پرملال ہوا ۔ جب جب زید بن حارثہ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد دفن کرنے والے اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے ۔ (ابن سعد طبقات جلد 8 صفحہ 25،چشتی)
چند ایام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے تو جنت البقیع میں قبر رقیہ پر تشریف لے گئے اور حضرت رقیہ کےلیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر جب زید بن حارثہ مدینہ شریف پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد دفن کرنے والے حضرات اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۸ صفحہ ۲۵) ۔ ایک روایت میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت رقیہ کی تعزیت پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا الحمد للہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment