Saturday, 25 May 2019

شہزادی رسول حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

شہزادی رسول حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
نام و نسب : حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں ۔اور یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چھوٹی ہیں۔حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نام حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خویلد بن اسد ہے۔یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین برس بعد پیدا ہوئیں ۔اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا تینتیس برس تھی ۔
ابتدائی حالات : حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں پرورش پائی۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر سات سال تھی۔جب حضر ت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اسلام قبول کیا ۔تو ان کے ساتھ آ پکی صاحبزادیوں نے بھی اسلام قبول کیا ۔ ( طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۲۴ ۔ الاصابہ لابن حجر )
قبل از اسلام سیدہ کا نکاح : نبی کریم نے اپنی بیٹی حضرت رقیہ کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتبہ سے کیا تھا ابھی رخصتی ہونا باقی تھی ۔ جب نبی کریم خاتم النبین کے عظیم منصب پر فائز ہوئے پیغمبر اسلام کے راستہ میں رکاوٹ ڈالنے اور پیغام حق کے مقابلہ میں کفر اور شرک کی اشاعت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے و حی کا نزول کر کے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت فرمائی تو ابولہب نے اپنے بیٹوں کو بلا کر کہا اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق دے کر ان سے علیحدگی اختیار نہیں کی تو تمہارا میرے ساتھ اٹھنا بیٹھنا حرام ہے ۔ دونوں بیٹوں نے حکم کی تعمیل کی اور دختران رسول سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم کو طلاق دے دی ۔ (طبقات ابن سعد ج۔ الاصابہ الابن حجر ص ۲۹۷)
سیدہ رقیہ کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے نکاح : جب ابولہب کے لڑکوں نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہاکو طلاق دے دی
تو اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردیا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی کردی ۔ ( کنزالعمال ج ۶ ص ۳۷۵)
سیدہ رقیہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کی ہجرت حبشہ : جب کفار کے مظالم حد برداشت سے بڑھ گئے تو نبوت کے پانچویں سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جوڑا خوبصورت ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۶۶،چشتی)
ایک عورت حبشہ سے مکہ پنہچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہجرت کرنے والوں کے حال احوال دریافت فرمائے تو اس نے بتایا کہ اے محمد میں نے آپ کے داماد اور آپ کی بیٹی کو دیکھا ہے آپ نے فرمایا کیسی حالت میں دیکھا تھا ؟ اس نے عرض کیا : عثمان اپنی بیوی کو سواری پر سوار کیے ہوئے جا رہے تھے اور خود سواری کو پیچھے سے چلا رہے تھے ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان دونوں کا مصاحب اور ساتھی ہو حضرت عثمان ان لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی ۔ (البدایہ لابن کثیر ج ۳ ص ۶۶)
مدینہ کی طرف ہجرت : جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ نبہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے والے ہیں تو حضرت عثمان چند صحابہ کرام کے ساتھ مکہ آئے اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے ۔ ہجرت حبشہ کے بعد حضرت عثمان ہجرت مدینہ کے لئے تیار ہو گئے اور اپنی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف دوسری ہجرت فرمائی ۔ (الاصابہ لابن حجر ج ۴ ص ۲۹۸)
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی اولاد : حبشہ کے زمانہ قیام میں ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا جس کی وجہ سے حضرت عثمان کی کنیت ابو عبد اللہ مشہور ہوئی ۔ عبداللہ کا ۶ سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں انتقال ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ خود پڑھی حضرت عثمان نے قبر میں اتارا ۔ (اسد الغابہ ج ۵ ص ۴۵۶)
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی بیماری : دو (2) ہجری غزہ بدر کا سال تھا حضرت رقیہ کو خسرہ کے دانے نکلے اور سخت تکلیف ہوئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی تیاری میں مصروف تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام غزوہ میں شرکت کے لئے روانہ ہونے لگے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تیار ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خطاب کر کے فرمایا : رقیہ بیمار ہے آپ ان کی تیمار داری کے لئے مدینہ میں ہی مقیم رہیں آپ کے لئے بدر میں شرکت کرنے والوں کے برابر اجر ہے اور غزائم میں بھی ان کے برابر حصہ ہے ۔ (بخاری ج ۱ ص ۵۲۳،چشتی)
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں جو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تین سال چھوٹی ہیں۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا تینتیس برس تھی۔ اعلان نبوت کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی والدہ اور بڑی بہن کے ہمراہ اسلام قبول کیا ۔
بعثت سے قبل سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر رخصتی ہونا باقی تھی۔ اعلانِ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام کے راستہ میں رکاوٹ ڈالنے اور پیغام حق کے مقابلہ میں کفر اور شرک کی اشاعت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت فرمائی تو ابولہب نے اپنے بیٹے کو رقیہ بنتِ محمد سے علیحدگی اختیار کرنے پر زور دیا‘ اس پر عتبہ بن ابولہب نے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ میں ہی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ ووآلہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی بھی کردی ۔
نبوت کے پانچویں سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا‘ اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’یہ جوڑا کس قدر خوبصورت ہے۔‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف دوسری ہجرت فرمائی۔ حبشہ میں قیام کے دوران اس مبارک جوڑے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام عبداللہ رکھا گیا‘ جس کی وجہ سے حضرت عثمان کی کنیت ابو عبداللہ مشہور ہوئی۔ حضرت عبداللہ کا وصال 6 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قبر میں اتارا ۔
ہجرت کے دوسرے سال غزوہ بدر رونما ہوا‘ اسی دوران سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا خسرہ سے بیمار ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہا کو سیدہ رقیہ کی تیمار داری کے لئے مدینہ میں ہی مقیم رہنے کا فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوہ بدر کے لیے روانہ ہونے کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال پرملال ہوا۔ جب جب زید بن حارثہ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد دفن کرنے والے اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے ۔ (ابن سعد، طبقات، ج: 8، ص: 25،چشتی)
چند ایام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو جنت البقیع میں قبر رقیہ پر تشریف لے گئے اور حضرت رقیہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر جب زید بن حارثہ مدینہ شریف پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد دفن کرنے والے حضرات اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے ۔ (طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۲۵)
چند ایام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو جنت البقیع میں قبر رقیہ پر تشریف لے گئے اور حضرت رقیہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔
ایک روایت میں ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت رقیہ کی تعزیت پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الحمد للہ اللہ تعالیٰ کا شکر شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)







No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...