جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت دیکر علم کو اٹھائے گا ، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
(صحیح بخاری:100)(صحیح مسلم:2673)(سنن ترمذی:2652)(سنن ابن ماجۃ:52)(الجامع - معمر بن راشد:20477)(الزهد والرقائق لابن المبارك:816)(مسند أبي داود الطيالسي:2406)(مسند الحميدي:592)(مسند ابن الجعد:2677)(مصنف ابن أبي شيبة:37590)(مسند احمد:6511+6787)(سنن الدارمي:245)(أخبار مكة - الفاكهي:669)(البدع لابن وضاح:233)(مسند البزار:2422+2423)(السنن الكبرى للنسائی:5876)(شرح مشكل الآثار)(الطحاوي:306، صحيح ابن حبان:4571 + 6719)(المعجم الأوسط للطبراني:55+988+2301+3222+6403،)(المعجم الأوسط للطبراني:459،چشتی)(المُعْجَمُ الكَبِير للطبراني:14210-14233)(المعجم لابن المقرئ:199+306+518+591+1042+1130+1311)(مسند الموطأ للجوهري:774)(السنن الواردة في الفتن للداني:262-266)(مسند الشهاب للقضاعي:1107)(جامع بيان العلم وفضله:951+1003-1011)(السنن الكبرى للبيهقي:20352)(شعب الإيمان للبيهقي:1541)(ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:18) (شرح السنة للبغوی:147)(معجم ابن عساکر:172+265+285+372+765 + 844+1039+1365+1441)(مستخرج أبي عوانة:11729-11742)
محترم قارئین : اللہ عزّ و جل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد علم کی حفاظت اور تعلیم کے قابل ذریعہ علماء کو بنایا ہے ۔ اسی لیے انہیں ہدایت کا امام چنا ۔ (سورۃ السجدۃ:24) اور ان ہی سے پوچھنے کا حکم فرمایا ۔ (سورۃ النحل:43) اور ان شرعی حکم دینے والوں کی (متفقہ باتیں) ماننے کو لازم قرار دیا ۔ (سورۃ النساء:59) اور غیرعالم کی خواہشوں پر چلنے سے روکا ۔ (سورۃ الجاثیۃ:18) اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمان قوم کو ۔ (سورۃ المائدۃ:108 التوبۃ:24+80 الصف:5 المنافقون:6)
علماء کے بغیر کتاب اللہ بے فائدہ ؟ : حضرت ابودرداءُ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر فرمایا یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں سے علم کھینچا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس میں سے کوئی چیز ان کے قابو میں نہیں رہے گی ۔ زیاد بن لبید انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہم سے کیسے علم سلب کیا جائے گا جب کہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور اللہ کی قسم ہم اسے خود بھی پڑھیں گے اور اپنی اولاد اور عورتوں کو بھی پڑھائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : تمہاری ماں تم پر روئے اے زیاد میں تو تمہیں مدینہ کے فقہاء میں شمار کرتا تھا کیا تورات اور انجیل یہود و نصاری کے پاس نہیں ہے ۔ لیکن انہیں کیا فائدہ پہنچا ؟ ۔ (جامع الترمذي:2653)(سنن الدارمی:296،چشتی)(مستدرک حاکم:338)
آج اکثر گھروں میں قرآن مجید گِرد وغبار کے لحاف میں لپٹا ایک کونے میں بس برکت کے نام سے رکھا رہتا ہے اور اسے سمجھنا اور عمل کرنا تو دور اسے صرف بغیر سمجھے پڑھنے کیلئے بھی مولویوں کی ضرورت پڑتی ہے اور لوگ علمِ انبیاء علیہم السّلام کے وارث علماء کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ان سے اتنا دور رہتے ہیں کہ وہ نہ خود عالم بننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد کو عالم بنانے کا شوق دلاتے ہیں ۔ اور جو لوگ جد و جہد کرتے ہیں اللہ عزّ و جل کی رضا حاصل کرنے میں تو اللہ نے یقین دلایا ہے انہیں ہدایت دینے کا ۔ (سورۃ العنکبوت:69)
بس یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کرم ہی ہے کہ ایسے لوگوں کو توبہ کا باربار موقع وڈھیل دیتا رہتا ہے تاکہ وہ سمجھیں اور باز آئیں یا پھر ان کیلئے عذاب کو مزید درد ناک بنانے کیلئے مزید سرکشی کا موقع دے اور ان کی حرکتوں پر صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر دے ۔ (سورۃ الزمر:10)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment