مختار ثقفی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور مرتد ہو کر مرا
محترم قارئین : مختار ثقفی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جنگ میں مارا گیا ۔
مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 5993 وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ يُقَالُ: الْكَذَّابُ هُوَ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ وَالْمُبِيرُ هُوَ الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ وَقَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ: أَحْصَوْا مَا قَتَلَ الْحَجَّاجُ صَبْرًا فَبَلَغَ مِائَةَ ألفٍ وَعشْرين ألفا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ ۔
ترجمہ : روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ ثقیف میں ایک جھوٹا ہوگا اور ایک ہلاک کرنے والا ، عبدالله ابن عصمہ نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ جھوٹا تو مختار ابن ابی عبید ہے اور ہلاک کرنے والا حجاج ابن یوسف ہے ہشام ابن حسان نے کہا کہ انہیں گنو جنہیں حجاج نے باندھ کر قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے ۔ (جامع ترمذی)
محترم قارئین امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بنی ثقیف میں مختار ابن عبید ابن مسعود ثقفی ہوا ہے جو واقعہ کربلا کے بعد شہداء کربلا کا بدلہ لینے کے بہانہ اٹھا لشکر عظیم اس کے ساتھ ہوگیا ، اس نے عبدالله ابن زیاد کو قتل کیا پھر دعویٰ نبوت کیا اور عبدالملک ابن مروان کے زمانہ میں مارا گیا اسی مختار کی قبر کوفہ میں ہے شیعہ لوگ اس قبر کا بڑا احترام کرتے ہیں مگر یہ مرا ہے مرتد ہو کر ۔ مختار کا باپ صحابی تھا، مختار ہجرت کے سال پیدا ہوا،۷۲ بہتّر میں اسے مصعب ابن عمیر نے قتل کیا سولہ مہینے حکومت کی۔(مرقات المفاتیح،چشتی)
حجاج ابن یوسف بادشاہ عبدالملک ابن مروان کی طرف سے عراق اور خراسان کا حاکم تھا ، یہ واسط میں ہلاک ہوا شوال 75 ہجری پچھتر میں مرا عمر چون 54 سال ہوئی ۔ جن مسلمانوں کو حجاج نے قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے اور جو مسلمان معرکہ جنگ میں شہید ہوئے ان کی تعداد پچاس ہزار ہے ۔ (اشعۃ المعات شرح مشکوٰۃ) دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ظالم ہوا ہو ۔ اللہ کی پناہ ۔
مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 5994 وَرَوَى مُسْلِمٌ فِي «الصَّحِيحِ» حِينَ قَتَلَ الْحَجَّاجُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَتْ أَسْمَاءَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» فَأَما الْكذَّاب فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ. وَسَيَجِيءُ تَمام الحَدِيث فِي الْفَصْل الثَّالِث ۔
ترجمہ : مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی کہ جب حجاج نے عبد الله ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو شہید کیا تو بی بی اسماء نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی کہ ثقیف میں ایک جھوٹا ہے اور ایک ہلاک کرنے والا جھوٹے کوتو ہم نے دیکھ لیا لیکن مہلک کو تو میں تجھے نہیں خیال کرتی مگر وہ ہی ۔
مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 5994 وَرَوَى مُسْلِمٌ فِي «الصَّحِيحِ» حِينَ قَتَلَ الْحَجَّاجُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَتْ أَسْمَاءَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» فَأَما الْكذَّاب فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ. وَسَيَجِيءُ تَمام الحَدِيث فِي الْفَصْل الثَّالِث ۔
ترجمہ : مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی کہ جب حجاج نے عبدالله ابن زبیر کو قتل کیا تو بی بی اسماء نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی کہ ثقیف میں ایک جھوٹا ہے اور ایک ہلاک کرنے والا جھوٹے کوتو ہم نے دیکھ لیا لیکن مہلک کو تو میں تجھے نہیں خیال کرتی مگر وہ ہی ۔
حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق حضرت زبیر کی بیوی اور عبد الله ابن زبیر کی والدہ عائشہ صدیقہ ام المؤمنین کی بہن ہیں رضی الله عنہم ۔
مسیلمہ کذاب جس نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا بہت لوگوں کو گمراہ کیا آخر وحشی کے ہاتھوں خلافت صدیقی میں مارا گیا تواریخ اس واقعہ سے بھری ہوئی ہیں ۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس ظالم کا نام نہیں بتایا مگر تیرے کام بتا رہے ہیں کہ تو وہی ہے کہ تو نے امت رسول کو بہت ہی قتل کیا ۔
امام الوہابیہ نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں : یزید ،حجاج اور مختار ثقفی فاسق اور منافق تھے ۔ (مجموعہ رسائل جلد سوم صفحہ نمبر 119)
مختار ثقفی وہ انسان ہے جس کی بابت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں تحت الترجمۃ مختار بن ابو عبید ثقفی لکھتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ، ایسے شخص سے کوئی بھی روایت نقل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ نا صرف خود گمراہ شخص تھا بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا تھا ۔ یہ کہتا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوئے تھے ۔ ( میزان الاعتدال جلد ششم تحت الترجمہ مختار بن ابو عبید ثقفی)
تفسیر ابن ابی حاتم میں جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1379 میں قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ کی تفسیر کے تحت امام ابن ابی حاتم سیدنا عبداللہ بن عمر رض کا صحیح سند سے قول لائے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لابْنِ عُمَرَ: إِنَّ الْمُخْتَارَ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ. قَالَ: صَدَقَ فَتَلا هَذِهِ الآيَةَ: وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ ۔
ترجمہ : ابو اسحاق نے کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک بندے نے کہا کہ مختار اس غلط فہمی میں ہے کہ اس پر وحی آتی ہے ، اس پر عبد اللہ
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا مختار سچ کہہ رہا ہے اور ساتھ یہ آیت بھی پڑھی کہ شیاطین اپنے ساتھیون پر وحی کرتے ہیں ۔
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ مختار بن ابی عبید ثقفی پر لعنت کیا کرتے تھے
امام ابو عبداللہ محمد بن اسحٰق بن العباس المکی الفاکہی علیہ الرحمہ ( المتوفی 272ھ) روایت کرتے ہیں : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: ثنا أَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: ثنا عِيسَى بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: إِنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ قَامَ عِنْدَ بَابِ الْكَعْبَةِ يَلْعَنُ الْمُخْتَارَ بْنَ أَبِي عُبَيْدٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا الْحَسَنِ لِمَ تَسُبَّهُ وَإِنَّمَا ذُبِحَ فِيكُمْ؟ فَقَالَ: " إِنَّهُ كَذَّابٌ عَلَى اللهِ تَعَالَى وَعَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ۔
ترجمہ : سید نا امام محمد بن علی الباقر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا علی ابن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہم (ایک دن ) کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر مختار بن ابی عبید پر لعنت کر رہے تھے تو آپ (رضی اللہ عنہ) سے ایک مرد نے کہا : اے ابوالحسن ( امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت) آپ کیوں اس پر سب کرتے ہیں جب کہ وہ آپ لوگوں کےلیے ہی تو ذبح ( قتل) ہوا ہے ؟ تو اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بہت زیادہ جھوٹ بولتا تھا ۔ (أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه ج 1 ص 232 رقم الحدیث426)(اس روایت کی سند حسن صحیح ہے،چشتی)
اس روایت کی سند کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے : اس روایت کی سند کا پہلا راوی امام عبداللہ بن محمد بن عباس المکی الفاکہی ہے جن کے بارے میں امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:الإِمَامُ، أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ العَبَّاسِ المكِّيُّ، الفَاكِهِيُّ.
سیر اعلام النبلاء ج16 ص 44 رقم 29
امام ذہبی علیہ الرحمہ کے نزدیک لفظ "امام" اعلی درجہ کی توثیق میں سے ہے۔ ملاحظہ ہو (الموقظۃ للذہبی ص 76)
اس سند میں دوسرا راوی یحیی بن ابی طالب جعفر بن الزبرقان ہے جن کی توثیق مندرجہ ذیل ہے:
وقال ابن أبي حاتِم: كتبتُ عَنْهُ مَعَ أبي، وسألتُ أبي عَنْهُ، فقال: محله الصدق
تاریخ بغداد ج 16 ص 323 رقم 7464
وَقَالَ البَرْقَانِيّ: أَمرنِي الدَّارَقُطْنِيّ أَنْ أُخَرِّجَ لِيَحْيَى بنِ أَبِي طَالِبٍ فِي الصَّحِيْحِ.
سیر اعلام النبلاء ج 12 ص 620 رقم 242
وثقه الدارقطني
لسان المیزان ج 8 ص 452 رقم 8475
قال الدارقطني: لم يطعن فيه أحد بحجة، وَلا بأس به عندي
تاریخ بغداد ج 16 ص 323 رقم 7464
وقال مسلمة بن قاسم: ليس به بأس تكلم الناس فيه.
لسان المیزان ج 8 ص 452 رقم 8475
اس راوی پر ایک جرح ہے جس کی نوعیت بھی امام ذہبی علیہ الرحمہ نے بتا دی ہے امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وقال موسى بن هارون: أشهد أنه يكذب. عني في كلامه ولم يعن في الحديث , فالله أعلم , والدارقطني فمن أخبر الناس به.
اور موسی بن ہارون نے کہا: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، (اس کے بعد امام ذہبی کلام کرتے ہیں ) اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی گفتگو میں جھوٹ بولتا ہے ، اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ حدیث بیان کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے ، باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اور امام دارقطنی علیہ الرحمہ تو اس کے بارے میں سب سے زیادہ واقف تھے۔
میزان الاعتدال ج 4 ص 387 رقم 9547
امام دارقطنی علیہ الرحمہ نے توثیق کر دی ہے لہذا اب توثیق ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم ، اس کے علاوہ الکنیٰ والاسماء للدولابی (ج 2 ص 464 رقم الحدیث 835) میں اسی روایت میں اس راوی کی متابعت ثقہ راوی ابوالحسن علی بن معبد بن نوح البغدادی نے کر رکھی ہے اور حافظ دولابی حنفی بھی صدوق اور حسن الحدیث ہے ان پر جو جرحیں ہیں وہ ساری مبہم اور تعصب پر مبنی ہیں۔ (واللہ اعلم)
اس روایت کے تیسرے راوی ابوالمنذر اسماعیل بن عمر الواسطی ہیں جو صحیح مسلم کے راوی بھی ہیں جن کے بارے میں خطیب بغدادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
وكان ثقة
تاریخ بغداد ج 6 ص 241 رقم 3279
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
من تجار أهل واسط، ليس به بأس، وهو إسماعيل بن عمر
تاریخ بغداد ج 6 ص 241 رقم 3279
اس روایت کی سند میں چوتھے راوی عیسیٰ بن دینار الخزاعی ہے جس کی توثیق مندرجہ ذیل ہے
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
ليس به بأس
سوالات ابن الجنید ص 427 رقم 640
عيسى بن دينار ثقة
الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 6 ص 275 رقم 1527
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
عِيسَى بْن دِينَار لَيْسَ بِهِ بَأْس
العلل و معرفۃ الرجال ج 2 ص 339 رقم 2508
امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں:
عيسى بن دينار فقال صدوق عزيز الحديث
الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 6 ص 275 رقم 1527
اس روایت میں پانچویں راوی امام محمد بن علی بن الحسین الباقر علیہ الرحمہ ہیں ویسے یہ بزرگ ہستی توثیق کی محتاج نہیں پھر بھی امام ذہبی سے آپ کی ادنیٰ سی توثیق پیش کر دیتا ہوں۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
هُوَ السَّيِّدُ، الإِمَامُ، أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ الحُسَيْنِ بنِ عَلِيٍّ العَلَوِيُّ، الفَاطِمِيُّ، المَدَنِيُّ، وَلَدُ زَيْنِ العَابِدِيْنَ.
سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 401 رقم 158
امام دارقطنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وَأَبُو جَعْفَرٍ وَإِنْ كَانَ مِنَ الثِّقَاتِ
سنن الدارقطنی ج 5 ص 243 رقم الحدیث 4260
اس روایت کی سند میں سب سے آخری راوی اور بزرگ ہستی حضرت امام علی بن الحسین بن علی زین العابدین علیہ الرحمہ کی ہے ویسے یہ بزرگ ہستی بھی توثیق کی محتاج نہیں پھر بھی ادنی سی توثیق پیش کر دیتا ہوں۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وَكَانَ عَلِيُّ بنُ الحُسَيْنِ ثِقَةً، مَأْمُوْناً، كَثِيْرَ الحَدِيْثِ، عَالِياً، رَفِيْعاً، وَرِعاً.
سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 387 رقم 157
رواۃ کی تحقیق سے واضح ہو گیا کہ اس روایت کی سند حسن صحیح ہے۔
محترم قارئین : یہ شخص یعنی مختار بن عبید ثقفی شیعوں کے ملحد فرقے کیسانیہ کا بانی تھا جن کا ماننا تھا کہ امام معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔ یہ فرقے کے لوگ برخلاف اثنا عشریہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد جناب محمد بن علی الحنفیہ رضی اللہ عنہ کو امام معصوم مانتے تھے اور ان کے متعلق رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ اس فرقے کے بنیادی عقائد میں بداء کا عقیدہ بھی شامل ہے یعنی اللہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور نئے حالات کے پیش نظر قضائے الہٰی بدلتی رہتی ہے ۔ علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ مختار ثقفی نے بداء کا عقیدہ اس لئے اختیار کیا تھا کہ وہ خود پر نازل ہونے والی وحی کے زیر اثر یا امام کے پیغام کی وجہ سے اپنے متبعین کے سامنے ہونے والے واقعات کا دعویٰ کرتا ہے اور اگر وہ واقعات اسی طور سے ظہور پذیر ہوجاتے ہیں تو وہ انہیں اپنے دعویٰ کی دلیل قرار دیتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کہتا تھا کہ اللہ نے اپنا ارادہ بدل لیا (المحلل و النحل) ۔
اس کے علاوہ مختار تناسخ ارواح کا بھی قائل تھا اور کہتا تھا کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی روح جناب محمد بن علی الحنفیہ رضی اللہ عنہما میں حلول کرگئی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment