Friday 17 May 2019

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام نسائی کی شہادت کی جھوٹی داستان

0 comments
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام نسائی کی شہادت کی جھوٹی داستان

محترم قارئین : بعض لوگ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا انکار کرنے کے لیے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے قصے سے دلیل لیتے ہیں ، جس میں مذکور ہے کہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی نفی کی لیکن یہ واقعہ باسند صحیح ثابت نہیں اس کی سند میں مجہول اور غیر معتبر راوی موجود ہیں لہٰذا ایسی بے سروپا روایات کا کوئی اعتبار نہیں ۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی جھوٹی داستان

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کا انکارکرنے کے لیے چھپے رافضی اور کھلے رافضی جھوٹ اور ھٹ دھرمی دیکھاتے ہیں اور انہیں ہم باربار بتا چکے ہیں کہ جوروایات آپ لوگ پیش کر رہے ہیں وہ بے سند ہیں ، ضعیف ہیں اگر ثابت بھی ہیں تو ان کا وہ مطلب نہیں ہے جو آپ لوگ نکالنا چاہتے ہیں لیکن چھپے رافضی اور کھلے رافضیوں کی ہٹ دھرمی کی انتہاء ہے کہ وہی بے سند روایات بار بار بیان کرتے ہیں جیسا کہ : امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی جھوٹی داستان ، چھپے رافضی اور کھلے رافضی کہتے ہیں کہ : امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ دمشق میں گئےوہاں لوگ تین سوسال گزرنے کے بعد منبروں پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہتے تھے ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کو بڑا غصہ آیا ، انہوں نے ارادہ کیا کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے فضائل پر کتاب لکھوں تو وہاں لوگوں نے کہا کہ حضرتِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں بھی کوئی حدیث بیان کریں تو انہوں نے میرے والی بات کہ میری زبان بند ہی رہنے دوتو وہاں کے لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ بتائیں تو امام صاحب نے فرمایا کہ اللہ معاویہ کو صحابی ہونے کی وجہ سے چھوڑ دے تو تمہارے لیے کافی نہیں ؟ اور پھر کہا کہ مجھے تو معاویہ کے بارے میں صرف ایک صحیح حدیث کا پتہ ہے جو صحیح مسلم میں موجود ہے کہ اللہ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے ، پس اتنی بات تھی کہ ناصبی ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو اتنا مارا کہ ان کی شرمگاہ پر بھی زخم بن گئےحتی کہ وہ قریب المرگ ہوگئے پھر ان کو ان کی خواہش کے مطابق مکہ لے کر جایا گیا اور وہاں ہی ان کو دفن کردیاگیا ۔

ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی روایت ہے ، چھپے رافضی اور کھلے رافضی خود کہتے ہیں کہ تاریخ کی جھوٹی روایات کھوٹے سکوں کی مانند ہیں تو ہم پوچھتے ہیں کہ یہ کھوٹے سکے آپ کیوں بیان کرتے ہیں ؟ ہم پہلے بھی کئی بار بیان کرچکے ہیں کہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کا واقعہ ثابت نہیں ہے پھر چھپے رافضی اور کھلے رافضیوں نے ایک ڈھونگ بنانے کی کوشش کی اور کہا کہ” ان کی شہادت کا واقعہ توتواتر کے ساتھ ساری کتابوں میں نقل ہورہا ہے” ۔

واہ چھپے رافضیو اور کھلے رافضیو ہم نے اس پر ایک مضمون لکھا تھا ”ضعیف روایات اور متواتر کا ڈھونگ” اس میں ہم نے بتایا تھا کہ جو روایت ضعیف ہو اور وہ چھپے رافضی اور کھلے رافضیوں کے حق میں ہواس کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ متواتر ہوگئی ہےاور کچھ روایتیں بہت ساری کتابوں میں موجود ہوتی ہیں لیکن ان کو ماننا نہیں ہوتا تو صاف انکار کر دیتے ہیں ۔

ہم نے اس وقت بھی پوچھا تھا کہ اگر آپ اسےمتواتر کہتے ہیں تو متواتر کی شرطیں کیا ہیں ؟ متواتر تو تب ہوگی جب اس کو ہردور مین اتنی بڑی تعداد بیان کرے کہ ان کا جھوٹ پر اکٹھا ہونا ناممکن ہو ۔

چھپے رافضی اور کھلے رافضیو سب کو چھوڑیں ، چھپے رافضیو اور کھلے رافضیو صرف سات ثقہ ایسے بندے پیش کر دیں جو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے دور میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوں ، سات کو چھوڑیں چھپے رافضی اور کھلے رافضیو صر ف تین بندے ہی پیش کردو جو اس واقعہ کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے دور میں بیان کرتے ہوں ، تین کو بھی چھوڑیں ، چھپے رافضی اور کھلے رافضیو صر ف دو بندے ہی ایسے پیش کردو جو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے دور میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوں ، تاقیامت اس کا جواب دینا چھپے رافضیوں اور کھلے رافضیوں پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ، ہم چھپے رافضیوں اور کھلے رافضیوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ آپ اس واقعہ میں متواتر کی شرطیں ثابت کریں یا پھر اس کے ضعیف ہونے پر علی الاعلان توبہ کریں اور اس سے رجوع کریں ، اللہ آپ لوگوں کو توفیق عطافرمائے ۔

اسی طرح امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف یہ قول منسوب ہے : لا يصح عن النبى صلى الله عليه وسلم فى فضل معاوية بن أبي سفيان شيئ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حضرت سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی فضیلت میں کچھ بھی ثابت نہیں ۔ (تاريخ دمشق لابن عساكر : 105/59، سير أعلام النبلاء للذهبي : 132/3)

یہ قول ثابت نہیں ہو سکا کیونکہ اس کی سند میں ابوالعباس اصم کے والد یعقوب بن یوسف بن معقل ، ابوفضل ، نیشاپوری کی توثیق نہیں ملی ۔ بعض کتب میں اس سند سے ابوالعباس اصم کے والد کا واسطہ گر گیا ہے ۔ (ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔