ناصبی کون ؟ اور ا ہلسنّت کو ناصبی کہنے والے رافضیوں کو جواب
ناصبی جس کی جمع نواصب ہے اور اس کے لیئے ناصبہ اور ناصبیہ بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ (القاموس المحیط ص177) (فتح الباری 7:437)
اس کی اصطلاحی تعریفات ایک سے زائد ہیں جن میں سے معروف درج ذیل ہیں
(1) علامہ زمخشری و علامہ آلوسی علیہما لعّحمہ لکھتے ہیں : بغض علی و عداوتہ ۔ ترجمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت کا نام ناصبیت ہے ۔ (الکشاف 4:777) (روح المعانی 30:172)
(2) علامہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بغض علی و تقدیم غیرہ علیہ (ھدی الساری ص 459)۔(ترجمہ مفہوم اوپر گزر چکا ہے)
(3) سیرت نگار ابن اسید الناس رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : النواصب قوم یتدینون ببغضۃ علی ۔ اور اس قول کو معروف لغوی ابن منظور اور فیروزاآبادی نےبھی اختیار کیا ہے ۔ (المحکم والمحیط الاعظم 8:345)
(4) علامہ ابن تیمیہ ممدوح غیر مقلد وہابی حضرت لکھتے ہیں : النواصب : الذین یوذون اہل البیت بقول و عمل ۔ (مجموع الفتاوی 3:154)
محترم قارئین : ان تعریفات کے پڑھنے کے بعد آیئے موجودہ دور کے ناصبیوں کے بارے میں جانتے ہیں :
ممبئی انڈیا سے شائع ہونے والا روزنامہ اردو ٹائمز میں جناب فاروق انصاری صاحب یزید اور کربلا کی جنگ کے تعلق سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’واضح رہے کہ اسلامک ریسرچ فائونڈیشن کی جانب سے سائن سمیہ میدان میں منعقدہ امن کانفرنس میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے سوال وجواب کے سیشن میں یزید کو ’’رضی ﷲ عنہ‘‘ کہا اور کربلاکی جنگ کو سیاسی جنگ بتایا‘‘ (اردو ٹائمز 9 جنوری 2008)
تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ کی تقلید راس نہیں آتی ہے مگر ناصبی مزاج رکھنے والے لوگوں کی تقلید اس قدر خوشگوار لگی کہ ایسے بدبخت شخص کو ’’رضی ﷲ عنہ‘‘ کہنے کے لئے تڑپ گئے ، جس کے ہاتھ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خون سے رنگے ہیں ، جس نے کعبہ معظمہ کا تقدس پامال کیا اور مدینہ منورہ کی حرمت لوٹی ۔ جس کا زمانہ پانے سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رسول نے ﷲ کی پناہ مانگی ہو جس کو ’’امیر المومنین‘‘ کہنے والے شخص پر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے بیس کوڑے لگانے کا فیصلہ صادر فرمایا ہو، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جسے خارج از اسلام قرار دیا ہو ، علماء سلف و خلف نے جس پر لعن و تشنیع کو جائز قرار دیا ہو ، ناصبیوں کے سوا جس کو کبھی کسی نے ایک اچھا آدمی نہ بتایا ہو ۔ اسے آج کے محققین ’’رضی ﷲ عنہ‘‘ سے نوازیں ، تعجب بالائے تعجب! علماء حق کے متفقہ موقف سے متصادم ڈاکٹر ذاکر نائیک کا یہ بیان درحقیقت عصر حاضر میں ناصبی تحریک کی احیاء وتجدید کی کوشش بے جا ہے ۔
خیر چھوڑیئے ڈاکٹر صاحب اور ان کے فکری ہم نواؤں کو صحابہ ، ائمہ ، علماء ، مشائخ اور بزرگوں سے کیا لینا دینا ، سلف و خلف کے آراء و مواقف سے ان کا کیا واسطہ ؟ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ یزید کے اسلام و کفر پر احتیاطا خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسے کافر کہتے ہیں ۔ یہ لوگ کہتے رہیں ! آج کے غیر مقلد محققوں کے سامنے یہ کون ہوتے ہیں جن کی بات میں دم ہو ۔ آج کے یہ محققین تو خود دو کتابیں لکھ کر سب سے بڑے حدیث داں اور قرآن فہم بن چکے ہیں ۔ یہ تو ترقی یافتہ دور کے محققین ہیں ۔ یہ سائنس داں ہیں ، کمپیوٹر والے ہیں ۔ احادیث کے ذخائر ان کے فنگر کے اشارے پر ہیں ۔ کل کے علماء کمپیوٹر کچھ تھوڑی جانتے تھے کہ ان سے بڑے محقق بن جاتے ! یہ سب ڈاکٹر صاحب اور ان جیسے محققوں کے ریمارکس ہیں جو توفیق الٰہی کی حکمتوں سے لاعلم اور روحانیت سے پرے ہیں ۔
یزید پلید کے بھیانک جرائم کی تاریخی جھلکیاں
یزیدکی بداطواری ، شراب نوشی ، ترک صلاۃ کے علاوہ واقعہ کربلا ، واقعہ حرۃ اور واقعہ مکہ جس میں کعبہ کے پردے جل گئے تھے ، یہ چند ایسے تاریخی حقائق ہیں جو یزید کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں ۔ یہ ایسے بھیانک جرائم ہیں جن کے سامنے کوئی بھی صاحب عقل و فراست یزید کو ایک اچھا آدمی نہیں کہہ سکتا ہے چہ جائیکہ ’’رضی ﷲ عنہ‘‘ جیسا دعائیہ تعریفی جملہ ایسے بدبخت کے حق میں استعمال کیا جائے ملاحظہ ہو اس کے گھنائونے کارناموں کی ایک مختصر تاریخی روداد ۔
واقعہ کربلا
سانحہ کربلا ایک مشہور واقع ہے جس کے وقوع پر تمام مورخین کا اتفاق ہے ۔ جس واقعہ میں یزید کے حکم سے حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کو ان کے نوجوان بیٹے ، کم سن بچے ، بھتیجے ، بھانجے اور جاں نثاروں کے ساتھ کربلا میں بھوکے پیاسے بروز جمعہ دس محرم الحرام 61ھ میں نہایت درد ناکی کے ساتھ شہید کردیا گیا ۔ اسلامی تاریخی کا کوئی ایسا مورخ نہیں ہے جس نے سانحہ کربلا کا خونی منظر بیان نہ کیا ہو ۔ طبری ہوں کہ ابن اثیریا پھر ابن کثیر، سیوطی ہوں یا پھر اور کوئی ، سب نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے ۔ سلف و خلف سب کا یزید کی بدبختی پر اتفاق ہے ۔ سوائے ناصبیوں کے جن کے دلوں میں اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے تعلق سے بغض و عناد بھرا ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی اہل ایمان و محبت کے پاس ایسا دل ہی نہیں کہ جس میں نواسہ رسول جگر گوشہ بتول علیہم السّلام کے قاتلوں کے لئے کوئی جگہ ہو جن کے قتل پر آسمان سے خون برسے ہوں ۔ سات دنوں تک آسمان کے کناروں پر اندھیرا پھیلا رہا ہو ۔ انسان تو انسان جناتوں نے بھی جن کی شہادت پر مرثیہ خوانی کی ہو ۔ (دیکھئے تاریخ الخلفاء ص 209،چشتی)
واقعہ حرۃ
حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کو شہید کروانے کے بعد یزید پلید نے 63ھ میں مدینہ طیبہ پر فوج کشی کردی جس کے نتیجے میں مستورات کی عزت بھی سلامت نہ رہ سکی ۔ سینکڑوں صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم شہید کردیئے گئے ۔ مسجد نبوی کی مبینہ بے حرمتی کی گئی ۔ ابن کثیر حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مسند کی ایک روایت کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : حادثہ حرۃ کا سبب یہ تھا کہ اہل مدینہ کا ایک وفد یزید کے پاس دمشق پہنچا ، چنانچہ یزید نے اہل وفد کی تعظیم و تکریم کی ، انعام و اکرام سے نوازا اور امیر وفد حضرت عبد ﷲ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما کے لئے قریبا ایک لاکھ بخشش دی ، مگر جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو اہل مدینہ کو یزید کی شراب خوری اور اس کے نتیجہ میں اس سے سرزد ہونے والی بری عادتوں سے باخبر کردیا جس میں بالخصوص نشہ کی وجہ سے وقت مقررہ پر نماز کی عدم ادائیگی تھی ۔ یہ سنکر اہل مدینہ نے یزید کی رداء بیعت اتار پھینکنے کا فیصلہ کرلیا اور منبر نبوی کے پاس سب نے یزید کی بیعت توڑ دی ۔ یزید کو جب اس کی خبر ملی تو اس نے مسلم بن عقبہ ، کی قیادت میں مدینہ ایک فوجی دستہ روانہ کردیا ۔ یہ دستہ جب مدینہ پہنچا تو تین دنوں تک مدینہ کی حرمت کو پامال کرتا رہا اس دوران بہت سے لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ مدینہ کا کوئی بھی شخص یزیدیوں کے دست غضب سے بچ کر نہیں نکل پایا ۔ (البدایہ النہایہ، 228:6)
علامہ سیوطیرحمۃ اللہ علیہ واقدی کی متعدد طرق سے روایت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن حنظلہ نے فرمایا : وﷲ ماخرجنا علی یزید حتی خفنا ان نرمی بالحجارۃ فی السمائ، انہ رجل ینکح امہات الاولاد،والبنات والاخوات ویشرب الخمر، ویدع الصلوٰۃ ۔
وﷲ ہم نے یزید کی مخالفت اس وقت کی جب ہمیں یقین ہوگیا کہ اب ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوگی کیونکہ یزید محرمات سے نکاح کرتا ہے،شراب پیتا ہے اور نمازیں ترک کرتا ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ص 209،چشتی)
واقعہ مکہ
نواسہ رسول اور ان کے جاں نثاروں کے خون سے ہولی کھیلنے اور مدینتہ الرسول کی دامان عفت کو چاک کرنے کے بعد یزیدیوں نے ایک شرمناک تاریخ اور رقم کی ۔ ان کے ناپاک عزائم کی زد سے حرمت کعبہ بھی نہ محفوظ رہ سکی ۔ علامہ سیوطی نے امام ذہبی علیہما الرّحمہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یزیدی فوج مدینہ طیبہ کی حرمت کو تار تار کرنے کے بعد حضرت عبدﷲ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے معرکہ آرائی کے لئے مکہ شریف روانہ ہوئی ۔ مکہ پہنچ کر حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرلیا اور منجنیق برسایا جس کی وجہ سے کعبہ کے پردے، اس کی چھت اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی جگہ قربان ہونے والے مینڈھے کے دو سینگ جل گئے ۔ یہ حادثہ صفر المظفر 64ھ میں رونما ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ص 209،چشتی)
یزید قرآن و حدیث کی کسوٹی پر
حضرت ابراہیم علیہ وعلی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کو جب ﷲ نے زمیں پر لوگوں کا امام بنایا تو آپ نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی ی اﷲ کیا میری ذریت میں سے بھی کوئی امام ہوگا تو جوابا ﷲ نے ارشاد فرمایا کہ ضرور بشرطیکہ ظالم نہ ہو ۔ ﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔ واذا ابتلی ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما ، قال ومن ذریتی ، قال لاینال عہدی الظالمین ۔
ترجمہ : اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں ۔ فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔ عرض کی اور میری اولاد سے ؟ فرمایا امیر عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا ۔ (سورۂ بقرہ 124)
دیکھئے اس آیت میں صاف طور پر کہا گیا کہ ظالم پیشوا نہیں بن سکتا ۔ پیشوا وہی ہوگا جو خدا ترس ہو ۔ بااخلاق اور لوگوں کا خادم ہو ۔ ایک ظالم شخص جس کی نظر میں لوگوں کی عزت و آبرو اور نفس و مال کی کوئی قدروقیمت نہ ہو ، جو بدکردار ، شرابی اور خدائی احکام کا پابند نہ ہو ۔ اسلام اسے خلافت و قیادت اور امامت کا اہل نہیں سمجھتا ہے ۔ کیونکہ اسلام میں حاکم لوگوں کا خادم ہوتا ہے ، جو لوگوں کے عیش و آرام پر اپنی عیش و آرام قربان کردینے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جس کی نظر اپنی جاہ و ثروت، مال ودولت اور کرسی سلطنت پر نہیں بلکہ عام انسانوں کے سکون و آرام اور فلاح و بہبود پر ہوتی ہے۔ جو تکبر و عناد سے خالی، متواضع منکسر المزاج اور خدا ترس ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی مجاہدین نے ایسے کتنے ظالم بادشاہوںکے خلاف محاذ آرائی کی جن کی رعایا ان کے ظلم و استبداد سے بلک رہی تھی۔ عراق، مصر، تیونس، جزائر اور دنیا کے بیشتر ممالک اسی نقطہ نظر کے تحت فتح کئے گئے تاکہ عام انسانوں کو اسلام کے شہزادے عزت و نفس کی حفاظت کا پروانہ دے سکیں جس کے لئے اسلامی مجاہدین کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ۔
اس آیت کے علاوہ بیشمار نصوص قرآن و احادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ اسلام میں خلافت و امامت کا مستحق صرف وہی شخص ہوگا جو عدل پرست، خدا ترس اور احکام ربانی کا پابند ہو، اور خلافت سازی کا یہ عمل بذریعہ مجلس شوریٰ ہی انجام پائے گا۔ مجلس شوری ہی نے باتفاق رائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کے اندر خلافت کی تمام صلاحیتیں دیکھ کر انہیں خلافت کے لئے نامزد کیا جس پر صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم نے رضا کی مہر ثبت کی ۔ پھر حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی بن ابی طالب رضی ﷲ عنہم کی خلافتیں بھی صحابہ رضی ﷲ عنہم کی مجلس شوریٰ کے ذریعہ عمل میں آئیں۔ حضرت علی کرم ﷲ وجہ الکریم کے بعد مجلس شوریٰ نے حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ کو خلیفہ بنایا مگر آپ نے چھ ماہ کے بعد خلافت حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے حوالے کردی ۔ تقریبا بیس سال حضرت امیر معاویہ نے خلافت کی ذمہ داری نبھائی اور رجب المرجب 60ھ میں آپ کا انتقال ہوگیا ۔ یہ ساٹھ سالہ اسلامی خلافت کا درخشندہ دور تھا ۔ اسی کے بعد امت میں ظلم و فساد کا دور شروع ہوگیا ۔ جیسا کہ حدیث صحیح سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیشین گوئی ثابت ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’ہلکتہ امتی علی یدی غلمۃ‘‘ ’’میری امت کی ہلاکت بچوںکے ہاتھ پر ہوگی‘‘ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے پوچھا یہ بچے کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا اگر چاہو تو میں نام بنام بتادوں ۔ (البدایہ والنہایہ 223/6،چشتی)
اسی لئے حضرت ابوبریرہ رضی ﷲ عنہ یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’ اللھم انی اعوذبک من سنۃ الستین وامارۃ الصبیان‘‘ اے ﷲ میں ساٹھ سال کے بعد کے زمانے سے اور بچوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘ ابویعلی نے اپنی مسند میں حضرت ابو عبیدہ سے روایت کی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’لایزال امر امتی قائما بالقسط حتی یکون اول من یثلمہ رجل من بنی امیۃ یقال لہ یزید‘‘ میری امت ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہے گی یہاں تک کہ بنو امیہ میں یزید نامی شخص ہوگا جو اس عدل میں رخنہ اندازی کرے گا‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’اول من یبدل سنتی رجل من بنی امیۃ، یقال لہ یزید‘‘ میری سنتوں کا بدلنے والا پہلا شخص بنو امیہ سے ہوگا جس کا نام یزید ہوگا‘‘ ابن کثیر کہتے ہیں کہ بیہقی کی اس روایت میں ابو العالیہ اور ابوذر کے درمیان انقطاع ہے مگر بیہقی نے ابوعبیدہ کی دوسری روایت سے اس کی ترجیح کی ہے ۔ (دیکھئے، البدایۃ والنہایۃ 223/6) ابن کثیر بیہقی کے حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ شاید وہ شخص یزید ہی ہو۔
سید الکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مدح کو شرک بتانے والے لوگ یزید کی مدح اس لئے بھی کرتے ہیں کہ اس نے قسطنطنیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔ مگر یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ قسطنطنیہ کی جنگ میں کوئی اور یزید نامی شخص نہیں بلکہ یزید بن معاویہ بن ابی سفیان ہی شریک تھا تو اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اس کا یہ ایک عمل قتل امام حسین رضی ﷲ عنہ اور کعبہ معظمہ و مدینہ منورہ کی بے حرمتی پر بھاری ہے ۔ یزید کی تمام خطائوں سے قطع نظر صرف قتل امام حسین رضی ﷲ عنہ ہی ایک ایسا خطرناک جرم ہے جس کی تعویض ممکن ہی نہیں ۔ کیونکہ قرآن نے عام مومن کے قاتل کو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے والا بتایا ہے ۔ دیکھئے ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : من یقتل مومنا متعمدا فجزائوہ جہنم خالدا فیہا وغضب اﷲ علیہ واعد لہ عذاب عظیما ۔
جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے ۔ اور ﷲ نے اس پر غضب اور لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا ہے بڑا عذاب ۔ (سورہ نساء 93)
اب ذرا غور فرمائیں یہ عام مسلمان کے قتل کا معاملہ ہے تو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قاتل کا کیا حال ہوگا ؟ ایک ایسا عظیم انسان جو اس وقت سے لے کر قیامت تک روئے زمین کا سب سے بہتر انسان ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں : لانہ السید الکبیر وابن بنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فلیس علی وجہ الارض یومئذ احد یسامیہ ولایساویہ، ولکن الدولۃ الیزیدیۃ کانت کلا تناوئہ ۔
کیونکہ وہ سید کبیر اور نواسہ رسول ہیں ۔ ان جیسا پورے روئے زمین پر کوئی نہیں ، ان کا کوئی ہمسر اور ہم پلہ نہیں، لیکن اس کے باوجود یزیدی حکومت ان سے خار کھاتی تھی ۔ (البدایۃ والنہایۃ 144:8،چشتی)
یہ اس عظیم ہستی کا قتل تھا جسے مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے لئے دنیا کی خوشبو بتایا ۔ جس کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا ۔ چنانچہ ترمذی نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اللھم انی احبھما فاحبھما واحب من یحبھما ۔
اے ﷲ میں ان دونوں (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور اس سے محبت فرما جو ان دونوں سے محبت کرے ۔
ترمذی کی ایک دوسری روایت ہے کہ ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : ان الحسن والحسین ہما ریحانتی من الدنیا ۔
حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) میری دنیا کے دو پھول ہیں ۔
ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں حسن صحیح فرمایا ہے۔
کاش ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب اور ان کے فکری ہم نوا ایمان و محبت کی ایک نظر ام سلمہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی ان روایتوں پر بھی ڈال لئے ہوتے جن میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بے انتہا دکھ درد کا احساس ہے ۔ چنانچہ بیہقی دلائل میں حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دوپہر خواب میں دیکھا آپ کا چہرہ انور غبار آلود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاتھوں میں خون سے بھری ایک شیشی ہے ، میں نے پوچھا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ۔ یہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے آج میں دن بھر اکھٹا کرتا رہا ہوں ۔ جب حساب لگایا گیا تو یہ وہی دن تھا جس دن حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا گیا ۔ (البدایہ والنہایہ 225:6، تاریخ الخلفاء ص 209،چشتی)
تاریخی حقیقت سے چشم پوشی کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ امام کے قتل کے ذمہ دار صرف ابن زیاد اور ابن سعد ہی ہیں ۔ یزید اس بات سے راضی نہیں تھا ۔ مگر آپ ذرا یزید کے پہلے خط کا تیور ملاحظہ کریں جسے اس نے اپنے مدینہ کے گورنر کو لکھا تھا : اما بعد، فخذ حسینا وعبد ﷲ بن عمر وعبد ﷲ بن الزبیر بالبیعۃ اخذا شدیدا لیست فیہ الرخصہ حتی یبایعوا والسلام ۔
اما بعد ، تم حسین ، عبد ﷲ بن عمر اور عبد ﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے سختی کے ساتھ بیعت لو ، ان کے ساتھ کسی طرح کی نرمی نہ برتو ، یہاں تک یہ لوگ بیعت کرلیں ، والسلام (البدایہ والنہایہ 139:8،چشتی)
یزید کے اس خطرناک تیور کے بعد بھی اگر لوگ اسے بری الذمہ سمجھتے ہیں تو یہ بتائیں کہ یزید نے امام اور ان کے رفقاء رضی اللہ عنہم کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دی ؟ یا کم سے کم ان لوگوں کو معزول ہی کردیتا ؟ اور بفرض محال اگر ہم یزید کو امام حسین رضی اللہ عنہ کے خون سے بری ہی سمجھ لیں تو بھی واقعہ حرہ میں مدینہ شریف کے ساتھ سو قراء صحابہ رضی اللہ عنہم کا خون کس کے گردن پر ہے ؟ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بے حرمتی کرنے کا سہرہ کس کے سر پر ہے ؟ کاش ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب اپنی حدیث دانی پر اعتماد کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صحیح حدیثوں پر نظر ڈال لیتے تو شاید یزید کو ’’رضی ﷲ عنہ‘‘ کہنے کی جرات نہ کرتے ۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں : من اخاف اہل المدینۃ اخافہ اﷲ، وعلیہ لعنۃ اﷲ والملائکۃ والناس اجمعین ۔
جس نے اہل مدینہ کو ڈرایا دھمکایا ﷲ اسے خوف میں مبتلا کرے گا ۔ اس پر ﷲ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ رواہ مسلم ۔
حضرت سعد رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لایکید اہل المدینۃ احد الا انماع، کما ینماع الملح ۔
اہل مدینہ کے ساتھ سازش کرنے والا نمک کی طرح پگھل جائے گا ۔ (رواہ البخاری)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : یایرید احد اہل المدینۃ بسوء الا اذابہ اﷲ فی النار ذوب الرصاص ۔ (رواہ مسلم)
جو بھی اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا ﷲ اسے آگ میں پگھلائے گا جیسے رانگا پگھلتا ہے ۔
مذکورہ بالا تاریخی حقائق کے پیش نظر اور قرآن و حدیث کے پیش منظر میں یہ بات واضح ہے کہ یزید خلافت کا مستحق نہیں تھا ۔ خلافت پر اس کا قبضہ جابرانہ تھا اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا جہاد ہے ۔ اس لئے کربلا کی جنگ سیاسی نہیں بلکہ اسلام کی راہ میں پیش کی جانے والی وہ عظیم قربانی ہے جس سے بلاشبہ اسلام کی حفاظت ہوئی ہے ۔ قیامت تک لوگوں کو باطل کے سامنے سر نہ جھکانے کا حوصلہ ملا ہے ۔ عملی تحریف و تصحیف سے اسلام کی حفاظت ہوئی ہے ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ دین عیسوی و موسوی میں کوئی حسین نہیں تھا ۔ اس لئے وہ ادیان پہلے قولی پھر عملی تحریف و تصحیف سے نہ بچ سکے ۔ واضح رہے کہ الناس علی دین ملوکھم کے بموجب خلیفہ وامیر کا عمل باعث تقلید ہوتا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ یزید کی بدعملی لوگوں کے لئے قابل نمونہ بنے ، اس لئے یزید کی مخالفت ضروری تھی ۔ جس کے لئے صبر وعزیمت کے شہنشاہ، خانوادہ نبوت کے چشم وچراغ حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کو یزید کی بیعت سے انکار پر مصر ہونا پڑا اور عملی تحریف و تصحیف سے اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے آپ نے کربلا کی دھرتی پر اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔ مذکورہ بالا تاریخی حقائق کے پیش نظر اور قرآن و حدیث کے پس منظر میں یزید لعنت و ملامت کا مستحق ہے یا ’’رضی ﷲ عنہ‘‘ کا ؟ یہ فیصلہ قارئین خود کرلیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment