فضائلِ شبِ قدر ، قدر و منزلت والی رات
محترم قارئین : رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت عظیم الشان اور اہم ہے ۔ شب قدر، قدر و منزلت والی رات ہے۔ اس رات کی بے شمار برکات ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس رات کے بے شمار فضائل و برکات موجود ہیں۔ شب قدر کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ رب تبارک و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے ۔
ترجمہ : بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر (ہے) اس میں فرشتے اور جبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے ۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔ (سورۂ قدر، پارہ 30)
حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : جس نے لیلۃ القدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ قیام فرمایا ، اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔ (بخاری شریف)
قیام کے معنی
قیام کے معنی ایک تو قیام فی الصلوٰۃ کے ہیں یعنی لیلۃ القدر میں نماز پڑھنا یا قیام نیند کے قیام ہے ، یعنی لیلۃ القدر کو جاگ کر گزارنا ، خواہ نماز کے ساتھ یا اذکار کے ساتھ ۔ قیام سے مراد رات کا قیام ہے یا بعض کا ۔ اکثر شارحین نے اس سے بعض رات کے حصہ کا قیام مراد لیا ہے ۔
ایمان و احتساب کے معنی
احادیث میں احتساب کے لفظ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ ہر عمل کا مدار ایمان پر ہے اور اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہے لیکن نیت مرتبہ علم کا ہے اور احتساب علم العلم کا مرتبہ ہے یعنی احتساب کی نیت سے بھی اوپر ایک درجہ ہے اور مراد اس سے نیت کا استحضار اور نیت کی زیادتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال شارع نے ذھول و مشقت کے مواقع پر کیا ہے ۔ مثلا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس کا بچہ مرجائے تو اس کو چاہئے کہ صبرکرے اور احتساب کرے۔ اب دیکھئے بچہ کا مرجانا آفت سماوی ہے۔ اس میں انسان کے اختیار کو کچھ دخل نہیں ہے اور یہ کہ اس مصیبت کے وقت آدمی کو وہم بھی نہیں ہوتا کہ مجھے ثواب مل سکتا ہے تو یہ ذھول کی جگہ تھی ۔ اس لئے شارع نے فرمایا کہ اگرچہ یہ آفت سماوی ہے لیکن خلوص نیت کے ساتھ اگر کوئی اس مصیبت پر صبر کرے تو اس کا ثواب مل جائے گا ۔
شب قدر ملنے کی وجہ
امام مالک رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ کو اپنی اُمّت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی ۔ اس پر ﷲ تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (موطا امام مالک ص 260،چشتی)
حضرت مجاہد رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار ماہ تک راہ خدا کے لئے ہتھیار اٹھائے رکھے ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس پر تعجب ہوا تو ﷲ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اور ایک رات یعنی شب قدر کی عبادت کو اس مجاہد کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قرار دیا ۔ (سنن الکبریٰ، بیہقی جلد 4، ص 306، تفسیر ابن جریر،چشتی)
شب قدر کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ۔ جب شب قدر ہوتی ہے ، جبرئیل امین علیہ السلام ملائکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کے لئے) دعا کرتے ہیں ۔ (بیہقی)
جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شب قدر میں قیام کیا (عبادت کی) تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ (بخاری شریف و مسلم شریف)
شب قدر کو کن راتوں میں تلاش کریں ؟
حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (بخاری، مشکوٰۃ،چشتی)
حضرت عبادہ بن صامت رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا ۔ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاقت راتوں یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29 کی رات میں ہے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے ان رات میں عبادت کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیتا ہے ۔ اسی رات کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ یہ رات کھلی ہوئی اور چمکدار ہوتی ہے ۔ صاف و شفاف گویا انوار کی کثرت کے باعث چاند کھلا ہوا ہے۔ یہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارتے جاتے ۔ اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد صبح کو سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے ۔ بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح جیسا کہ چودھویں کا چاند کیونکہ شیطان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اس دن سورج کے ساتھ نکلے ۔ (مسند احمد، جلد 5ص 324، مجمع الزوائد)
شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں حکمتیں
لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں کیا حکمتیں ہیں ؟
جواب یہ ہے کہ اصل حکمتیں تو ﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہی بہتر جانتے ہیں ۔ یہ وہ جواب ہے جو صحابہ کرام علیہم الرضوان بارگاہ نبوی میں اس وقت دیا کرتے جب انہیں کسی سوال کے جواب کا قطعی علم نہ ہوتا۔ وہ فرماتے ﷲ و رسولہ اعلم ۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے روحانی فیوض و برکات سے اکتساب فیض کرتے ہوئے علمائے کرام نے شب قدر کے پوشیدہ ہونے کی بعض حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں :
(1) اگر شب قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو کوتاہ ہمت لوگ اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے اور دیگر راتوں میں عبادات کا اہتمام نہ کرتے اب لوگ آخری عشرے کی پانچ راتوں میں عبادت کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں ۔
(2) شب قدر ظاہر کردینے کی صورت میں اگر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن و ملال ہوتا اور دیگر راتوں میں وہ دلجمعی سے عبادت نہ کرپاتا ۔ اب رمضان کی پانچ طاق راتوں میں سے دو تین راتیں اکثر لوگوں کو نصیب ہو ہی جاتی ہیں ۔
(3) اگر شب قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ ہے ، اسی طرح اس رات میں گناہ بھی ہزار درجہ زیادہ ہوتا ۔ لہذا ﷲ تعالیٰ نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ اس شب میں عبادت کریں وہ ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ اجروثواب پائیں اور اپنی جہالت وہ کم نصیبی سے اس شب میں بھی گناہ سے باز نہ آئیں تو انہیں شب قدر کی توہین کرنے کا گناہ نہ ہو ۔
(4) جیسا کہ نزول ملائکہ کی حکمتوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ فرشتوں کی عظمت بتانے کے لئے زمین پر نازل فرماتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں پر فخر کرتا ہے ۔ شب قدر ظاہر نہ کرنے کی صورت میں فکر کرنے کا زیادہ موقع ہے کہ اے ملائکہ دیکھو! میرے بندے معلوم نہ ہونے کے باوجود محض احتمال کی بناء پر عبادت و اطاعت میں اتنی محنت و سعی کررہے ہیں ۔ اگر انہیں بتادیا جاتا کہ یہی شب قدر ہے تو ان کی عبادت و نیازمندی کا کیا حال ہوتا ۔
(5) شب قدر کا پوشیدہ رکھنا اسی طرح سمجھ لیجئے جیسے موت کا وقت نہ بتانا ۔ کیونکہ اگر موت کا وقت بتا دیا جاتا تو لوگ ساری عمر نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرتے اور موت سے عین پہلے توبہ کرلیتے ۔ اس لئے موت کا وقت پوشیدہ رکھا گیا تاکہ انسان ہر لمحہ موت کا خوف کرے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیکی میں مصروف رہے ۔ اسی طرح آخری عشرے کی ہر طاقت رات میں بندوں کو یہی سوچ کر عبادت کرنی چاہئے کہ شاید یہی شب قدر ہو ۔ اسی طرح شب قدر کی جستجو میں برکت والی پانچ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے ۔
ﷲ تعالیٰ نے بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کی باعث بہت سی اہم چیزوں کو پوشیدہ رکھا ہے ۔ امام رازی علیہ الرحمہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ :
(1) ﷲ تعالیٰ نے اپنی رضا کو عبادت و اطاعت میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ تمام امور میں ﷲ تعالیٰ کی اطاعت کریں ۔
(2) اس نے اپنے غصہ کو گناہوں میں مخفی (پوشیدہ) رکھا ہے تاکہ لوگ ہر قسم کے گناہوں سے بچیں ۔
(3) اپنے اولیاء کو مومنوں میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ سب ایمان والوں کی تعظیم کریں ۔
(4) دعا کی قبولیت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ﷲ تعالیٰ کے ہر نام مبارکہ کی تعظیم کریں ۔
(5) اسم اعظم کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ﷲ تعالیٰ کے ہر نام مبارک کی تعظیم کریں ۔
(6) صلوٰۃ الوسطیٰ (درمیانی نماز) کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ سب نمازوں کی حفاظت کریں ۔
(7) موت کے وقت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ہر وقت اللہ عزّ و جل سے ڈرتے رہیں ۔
(8) توبہ کی قبولیت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ جس طرح ممکن ہو ، توبہ کرتے رہیں ۔
(9) ایسے ہی شب قدر کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔
ﷲ تعالیٰ کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ رب کریم جل جلالہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے صدقے وطفیل ہمیں شب قدر جیسی نعمت سے نوازا ہے ۔ ہمیں اس رات کی قدر کرنی چاہئے اور اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرنی چاہئے تاکہ ہمیں بھی مغفرت کا پروانہ نصیب ہو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment