خواتین اعتکاف اور نماز کہاں ادا کریں
محترم قارئین : خواتین کے لیے بھی اعتکاف کرنا سنت ہے اور ثواب کا باعث ہے ، عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ تحریمی ہے ، ان کے لیے اعتکاف کی جگہ وہ ہے جسے گھر میں نماز ، ذکر ، تلاوت اور دیگر عبادت کے لیے خاص اور متعین کرلیا گیا ہو ، اور عورتوں کے کے لیے یہ خاص جگہ ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے ، اگر گھر میں عبادت کے لیے پہلے سے خاص جگہ متعین نہیں ہے تو اعتکاف کے لیے گھر کے کسی کونے یا خاص حصے میں چادر یا بستر وغیرہ ڈال کر ایک جگہ مختص کرلے پھر اس جگہ اعتکاف کرے ، اور وہ جگہ عورت کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوگی ، اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ . (سورۃ البقرہ:187)
ترجمہ : اور تم مسجدوں میں اعتکاف کیا کرو ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ متوفی 370ھ فرماتے ہیں : وأما شرط اللبث في المسجد فإنه للرجال خاصة دون النساء ۔
ترجمہ : مسجد میں ٹھہرنے کی شرط (اعتکاف کے لیے) صرف مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے ۔ (احکام القرآن للجصاص جلد نمبر1صفحہ نمبر333)
عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل
جمعہ ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں پر واجب نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بابرکت زمانہ چونکہ شر و فساد سے خالی تھا ، ادھر عورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اَحکام سیکھنے کی ضرورت تھی ، اس لئے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی ، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں ، میلی کچیلی جائیں ، زینت نہ لگائیں ، اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لا تمنعوا نسائکم المساجد ، وبیوتھن خیر لھن ۔
ترجمہ : اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو ، اور ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں ۔ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : صلٰوة المرأة فی بیتھا افضل من صلٰوتھا فی حجرتھا ، وصلٰوتھا فی مخدعھا افضل من صلٰوتھا فی بیتھا ۔
ترجمہ : عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا ، اپنے گھر کی چاردیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶)
اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ارشاد ہے : لو ادرک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل ۔
ترجمہ : عورتوں نے جو نئی رَوش اختراع کرلی ہے ، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے ، جس طرح بنواسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا ۔ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۲۰، صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۸۳، موٴطا امام مالک ص:۱۸۴،چشتی)
عن أم حمید امرأة أبي حمید الساعدي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال لھا: قد علمتُ أنّکِ تحبّین الصلاة معي، وصلاتُکِ في بیتکِ خیر من صلاتِکِ في حجرتِکِ، وصلاتُکِ في حجرتکِ خیر من صلاتِکِ في دارکِ، وصلاتکِ في دارکِ خیر من صلاتکِ في مسجد قومکِ، وصلاتکِ في مسجد قومِکِ خیر من صلاتکِ في مسجدي ۔
ترجمہ : حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ''اے اللہ کے رسول! میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) نماز پڑھوں'' نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا''مجھے معلوم ہے کہ تو میرے ساتھ نمازپڑھنا چاہتی ہے لیکن تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے (اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنانے کا) حکم دیا چنانچہ ان کے لئے گھر کے آخری حصہ میں مسجد بنائی گئی جسے تاریک رکھا گیا (یعنی اس میں روشندان وغیرہ نہ بناگیا) اور وہ ہمیشہ اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ اللہ رب العالمین سے جا ملیں۔(رواہ الإمام أحمد وابن حبان، کذا في کنز العمال و صحیح الترغیب والترہیب حدیث:٣٣٨)
عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر برپا ہونے والے فتنہ کے متعلق یہ حديث صحيح ہے ، اسے ترمذی نے اس لفظ کے ساتھہ ذکر کیا ہے عورت پوشیدہ رکھنے کی چیز ہے ، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے ۔ (سنن ترمذی، جلد 3، صفحہ 476، حدیث نمبر 1173)(صحیح ابنِ خزیمہ، جلد 3، صفحہ 93،94 حدیث نمبر 1687-1685)(صحیح ابنِ حبان، جلد 12، صفحہ 412،413، حدیث نمبر 5599-5598)(طبرانی نے اسے المعجم الکبیر کی جلد 8، صفحہ 101، حدیث نمبر 10115،چشتی)(المعجم الاوسط میں جلد 8، صفحہ 101 حدیث نمبر 8096)(مسند بزار، البحر الزخار، جلد 5، صفحہ 428-427، حدیث نمبر 2061،2062،2065 )(ابنِ عدی نے کتاب الکامل، جلد 3، صفحہ 423 سوید بن ابراہم کی سوانح عمری میں نقل کیا)
مختصر شرح حدیث : عورت جب تک پردہ میں رہے گی یہ اس کے لئے زیادہ بہتر اور حفاظت کا باعث ہے، اور وہ اپنے فتنے اور اپنے ذریعہ دوسروں کو فتنے میں ڈالنے سے دور رہے گی، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس میں راغب ہوتا ہے تو وہ اسے گمراہ کرتا ہے، اور اس کے ذریعہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے، مگر اللہ جس پر رحم کردے، اس لئے کہ اسی نے شیطان کو اپنے اوپر غالب آنے کے اسباب میں سے ایک سبب دیا، اور وہ اس کا اپنے گھر سے نکلنا ہے، مسلمان عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے حق میں مشروع ہے کہ وہ اپنے گھر کو لازم پکڑے رہے، اور گھر سے کسی ضرورت کی بنا پر اپنے پورے جسم کا مکمل پردہ کرکے نکلے، اور زینت اور خوشبو استعمال نہ کرے ، تاکہ اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۔ (الاحزاب ، آیت 33)
ترجمہ : ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻛﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺎؤ کا ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ ۔ پر عمل ہوجائے ۔
اور الله سبحانه و تعالى كا فرمان : وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۔ (الاحزاب آیت 53)
ترجمہ : ﺟﺐ ﺗﻢ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮮ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻞ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ الآيۃ ۔ ورنہ وہ فاسق و فاجر لوگوں کے جال میں پھنس جائیگی، بالخصوص بازاروں اور پارکوں اور مخلوط جگہوں میں ، اور اس زمانے میں تو ایسی جگہیں بہت ہیں : مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ ۔
ترجمہ : میں نے اپنے بعد مرد حضرات کے لئے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۔ (صحيح البخاري ومسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیویاں نماز عید کےلیئے عید گا نہیں جاتی تھیں : (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر 5845 )
حضرت عروہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی گھر کی کسی عورت کو نماز عید کےلیئے عید گاہ نہیں جانے دیتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر 5846 ،چشتی)
حضرت قاسم بن حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی عورتوں کے بارے میں شدید پابندی فرماتے انہیں عیدین کی نماز کے لیئے عید گاہ نہیں جانے دیتے تجھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر 5847 )
جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں عورتوں کو عیدین کی نماز کےلیئے جانا مکروہ ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر 5844 )
امتدادِ زمانہ کی وجہ سے جب حالات بدل گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے مشورہ سے عورتوں کا مردوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا بند کر دیا ۔ (یعنی اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم ہے)
غور کیا جائے تو آج کا زمانہ نہ تو سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد مبارک کے جیسا ہے اور نہ ہی احکامِ شریعت کی پابندی و پاسداری اُس عہد مبارک جیسی ہے ۔ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے فتنہ کو اپنے عہد مبارک میں ہی جان لیا سو عورتوں کی مسجدوں میں نماز پر پابندی لگا دی ۔
ان احادیث مبارکہ سے صراحةً ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا ، محض رخصت و اباحت کی بنا پر تھا ، کسی تاکید یا فضیلت و استحباب کی بنا پر نہیں ، اس رخصت و اباحت کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیم اور ارشاد ، ان کے لیئے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے ، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں۔(رواہ أحمد، مشکواة)
غور کریں اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے، آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں ، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں ، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی ، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اوراسی سزا کی مستوجب ہوتیں ۔
مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی کوٹھری کے اندر کی نماز ، دالان کی نماز سے افضل او ردالان کی نماز ، صحن کی نماز سے افضل اور صحن کی نماز محلہ کی نماز سے افضل ہے ، پس اس میں کیا شبہ رہا کہ عورتوں کو جماعت میں اورمسجد نبوی میں حاضر ہونا کسی استحباب وفضیلت کی وجہ سے نہ تھا ، بلکہ محض مباح تھا ۔
کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اور جماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں ، اورغضب یہ کہ اسے سنت بتاتے ہیں اوراپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں ۔ اگر عورتوں کے لیے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے ۔ کیوں کہ اس صورت میں گھر میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کے لیئے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا ، اور سنت پر عمل کرنے میں ثواب کم ؟ اور کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے ؟
شاید یہ لوگ اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مسجد شریف سے افضل سمجھتے ہیں ۔ جن حدیثوں میں خاوندوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کی ممانعت ہے ، ان حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد میں جانا ، مستحب یا سنت موٴکدہ ہے ، عورتوں کو چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ظاہری حیات مبارکہ کے زمانہ میں مسجدوں میں جانا مباح تھا ، تو اس اباحت و رخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق انہیں حاصل تھا ؛ اس لیے مردوں کو ان کے روکنے سے منع فرمایا کہ ان کا یہ حق زائل نہ ہو ، دوسرے یہ کہ اس وقت عورتوں کے مسجد میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی بہت حاجت تھی ، اور اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے افعال نماز کو دیکھیں اور سیکھیں ۔ کوئی بات پوچھنی ہو تو خود پوچھ لیں ۔
مختصر یہ کہ شریعت نہیں بدلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو شریعت کے بدلنے کا اختیار نہیں ، لیکن جن قیود و شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت دی ، جب عورتوں نے ان قیود و شرائط کو ملحوظ نہیں رکھا تو اجازت بھی باقی نہیں رہے گی ، اس بنا پر فقہائے اُمت نے ، جو درحقیقت حکمائے اُمت ہیں ، عورتوں کی مساجد میں حاضری کو مکروہ قرار دیا ، گویا یہ چیز اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے ، مگر کسی عارضے کی وجہ سے ممنوع ہوگئی ہے ۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ وبا کے زمانے میں کوئی طبیب امرود کھانے سے منع کردے ، کھانے سے منع کردے، اب اس کے یہ معنی نہیں کہ اس نے شریعت کے حلال و حرام کو تبدیل کردیا، بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک چیز جو جائز و حلال ہے ، وہ ایک خاص موسم اور ماحول کے لحاظ سے مضرِ صحت ہے ، اسی لئے اس سے منع کیا جاتا ہے ۔
محترم قارئین : خواتین کے لیے بھی اعتکاف کرنا سنت ہے اور ثواب کا باعث ہے ، خواتین کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ تحریمی ہے ، ان کے لیے اعتکاف کی جگہ وہ ہے جسے گھر میں نماز ، ذکر ، تلاوت اور دیگر عبادت کے لیے خاص اور متعین کرلیا گیا ہو ، اور عورتوں کے کے لیے یہ خاص جگہ ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے ، اگر گھر میں عبادت کے لیے پہلے سے خاص جگہ متعین نہیں ہے تو اعتکاف کے لیے گھر کے کسی کونے یا خاص حصے میں چادر یا بستر وغیرہ ڈال کر ایک جگہ مختص کرلے پھر اس جگہ اعتکاف کرے ، اور وہ جگہ عورت کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوگی ، اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہوگا ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےایک مرتبہ فرمایا کہ میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کروں گا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی (کہ وہ بھی اعتکاف کریں گی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دے دی ۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے بھی اجازت دلا دو ، انہوں نے اجازت دلا دی ۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (خدام کو خیمہ لگانے کا) حکم دے دیا ۔ چنانچہ ان کا بھی خیمہ لگادیا گیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھ کر اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے تو بہت سارے خیموں کو دیکھ کر فرمانے لگے : یہ خیمے کیسے ہیں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن نے لگائے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کیا انہوں نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟ "فامر بخبائہ فقوض" پهر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ خیمے اکھاڑنے کا حکم دیا ۔ (صحیح البخاری: ج1ص274 باب من أراد أن يعتكف ثم بدا لہ أن يخرج) یہی روایت صحیح مسلم میں بهی موجود ہے ۔
محترم قارئین : اس حدیث مبارک سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم نہ دیتے ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو جو اجازت ملی وہ ان کے ساتھ خاص ہے ۔
علامہ ابن عابدین شامی عرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عورتوں کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے ۔ (حاشیہ ابن عابدین جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 440)
علامہ ابن عابدین شامی عرحمۃ اللہ علیہ ردالمحتار میں بدائع الصنائع کے حوالہ سے مزید لکھتے ہیں : صرح فی البدائع بأنہ خلاف الأفضل ۔
ترجمہ : البدائع و الصنائع میں علامہ کاسانی نے تصریح فرمائی ہے کہ مسجد میں عورت کا اعتکاف بیٹھنا خلافِ افضل ہے ۔ (ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2 : 441) ۔ یعنی مسجد کی نسبت عورت کا گھر میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے ۔
اسی طرح فقہاء شوافع علیہم الرّحمہ بهی فرماتے ہیں کہ جوان خاتون کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے ۔ (الموسوعة الفقهية الکویتیة جلد 5 صفحہ 210،چشتی)
جو علماء خواتین کے مسجد میں اعتکاف کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک بهی گهر میں اعتکاف کرنا افضل اور زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے تو کیوں غیر افضل کو افضل پر ترجیح دی جائے ؟
عورت گھر کی مسجد (یعنی نماز کی مخصوص جگہ) میں اعتکاف کرے اور یہ جگہ اس کے حق میں بمنزلی مسجد کے ہوگی ، یعنی کھانا، پینا ، لیٹنا اسی جگہ ہوگا اور کسی طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر اس جگہ سے باہر نکلنے پر اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ اگر گھر میں پہلے سے نماز کی مخصوص جگہ موجود ہو تو اسی میں اعتکاف کرے، اس سے ہٹ کر گھر میں دوسری جگہ اعتکاف جائز نہیں اور پہلے سے کوئی جگہ نماز کے لئے مخصوص نہیں ہے تو اب مخصوص کرلے اور اسی میں اعتکاف کرے، گھر کی بجائے مسجد میں اعتکاف کرنا عورت کے لئے مکروہ ہے ۔ “و المرأة تعتکف فی مسجد بیتها… و لو لم یکن فی بیتها مسجد، تجعل موضعاً منه مسجداً” (ھندیہ:۱؍۲۱۱)
عورت کا دورانِ اعتکاف گھر کا کام کرنا
بیت الخلاء کے تقاضے اور وضوء کے علاوہ اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، لہذا ایسی عورت جس کے گھر میں کوئی اور کام کاج کیلئے نہ ہو وہ مسنون اعتکاف کے لئے نہ بیٹھے ، البتہ اپنے کاموں سے فارغ ہوکر اس مخصوص جگہ پر ذکر و تلاوت و عبادت کے ذریعے اس مقدس مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔ فی الهندیة: “و إذا اعتکفت فی مسجد بیتها، فتلک البقعة فی حقها کمسجد الجماعة فی حق الرجل، لاتخرج منه إلا لحاجة الإنسان” (۱؍۲۱۱)
عورت کو اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے
عورت کو اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے خاوند سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے اور خاوند اسے اعتکاف سے منع بھی کرسکتا ہے ، لیکن جب ایک بار اجازت دے دی تو اب منع نہیں کرسکتا ۔ “فیصح من المرأة…. بإذن الزوج إن کان لها زوج” (ھندیہ: ۱؍۲۱۱)
اجازت کے بعد شوہر بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا
خاوند نے جب اجازت دے دی تو اب اس کے لئے بیوی سے ہم بستر ہونا ، بوس و کنار کرنا یا اس ارادہ سے بیوی کی اعتکاف گاہ میں داخل ہونا جائز نہیں ، تا ہم اس نے ہم بستری کرلی تو بیوی کا اعتکاف فاسد ہوگا ، ہم بستری کے سوا دوسری باتوں سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ۔ ” فإن أذن له الزوج بالاعتکاف، لم یکن له أن یمنعها بعد ذلک، و إن منعها، لا یصح منعه” (ھندیہ: ۱؍۲۱۱،چشتی)
عورت کومسجد میں اعتکاف مکروہ ہے ، بلکہ وہ گھر میں ہی اعتکاف کرے مگر اس جگہ کرے جو اُس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے جسے مسجدِ بیت کہتے ہیں اور عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر کر لے اور چاہیے کہ اس جگہ کو پاک صاف رکھے اور بہتر یہ کہ اس جگہ کو چبوترہ وغیرہ کی طرح بلند کرلے ۔ بلکہ مرد کو بھی چاہیے کہ نوافل کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لے کہ نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے ۔ (""الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۴)
اگرعورت نے نماز کے لیے کوئی جگہ مقرر نہیں کر رکھی ہے تو گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی ، البتہ اگر اس وقت یعنی جب کہ اعتکاف کا ارادہ کیا کسی جگہ کو نماز کے لیے خاص کر لیا تو اس جگہ اعتکاف کر سکتی ہے ۔ (الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۴)
عورت نے اعتکاف کی منت مانی تو شوہر منت پوری کرنے سے روک سکتا ہے اور اب بائن ہونے یا موتِ شوہر کے بعد منت پوری کرے ۔ یوہیں لونڈی غلام کو ان کا مالک منع کر سکتا ہے، یہ آزاد ہونے کے بعد پوری کریں ۔ (""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱،چشتی)
شوہر نے عورت کو اعتکاف کی اجازت دے دی اب روکنا چاہے تو نہیں روک سکتا اور مولیٰ نے باندی غلام کو اجازت دیدی جب بھی روک سکتا ہے اگرچہ اب روکے گا تو گنہگار ہوگا ۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)
شوہر نے ایک مہینے کے اعتکاف کی اجازت دی اور عورت لگاتار پورے مہینے کا اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو شوہر کو اختیار ہے کہ یہ حکم دے کہ تھوڑے تھوڑے کر کے ایک مہینہ پورا کر لے اور اگر کسی خاص مہینے کی اجازت دی ہے تو اب اختیار نہ رہا ۔ (الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)
عورت کا غسل کیلئے مسجدِ بیت سے نکلنا
مرد اصلِ مسجد (یعنی وہ جگہ جو نماز پڑھنے کے لئے خاص کرکے وقف ہوتی ہے) سے متصل وقف جگہ جو ضرویات و مصالحِ مسجد کے لئے وقف ہوتی ہے جسے فنائے مسجد کہا جاتا ہے اس میں بنے ہوئے غسل خانہ میں دورانِ اعتکاف بغیر ضرورت کے بھی غسل کرسکتا ہے فنائے مسجد میں جانے سے اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹتا جبکہ عورت گھر میں متعیّن کردہ جگہ میں اعتکاف کرتی ہے ، جو ”مسجدِ بیت“ کہلاتی ہے اور مسجدِ بیت میں فناکا کوئی تصور نہیں ہوتا اس لئےعورت مسجدِ بیت سے باہر بلا ضرورت نہیں نکل سکتی ، صورتِ مسئولہ میں عورت اگرفرض غسل کے علاوہ کسی غسل مثلاً گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے نکلے گی تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : فِنائے مسجد جو جگہ مسجدسے باہَراس سے مُلحَق ضروریاتِ مسجدکیلئے ہے، مَثَلًاجوتااتارنے کی جگہ اور غُسْل خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اِعتِکاف نہیں ٹوٹے گا۔“مزیدآگے فرماتے ہیں : ”فنائے مسجداس مُعامَلہ میں حکمِ مسجد میں ہے ۔ (فتاوی امجدیہ،کتاب الصوم،۱/۳۹۹،چشتی)
امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب وہ مدارس متعلّقِ مسجد ، حدودِ مسجد کے اندرہیں اُن میں اور مسجد میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل سے صحنوں کا امتیاز کردیاہے تو ان میں جانا مسجد سے باہر جاناہی نہیں یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کوجانا جائز کہ وہ گویا مسجد ہی کا ایک قطعہ ہے ۔ وھذا ما قال الامام الطحاوی انّ حجرۃ امّ المؤمنین من المسجد، فی ردّ المحتار عن البدائع لو صعد ای : المعتکف المنارۃ لم یفسد بلاخلاف لانّھا منہ لانّہ یمنع فیھا من کلّ مایمنع فیہ من البول ونحوہ فاشبہ زاویۃ من زوایا المسجد۔ یعنی یہی بات امام طحاوی نے فرمائی کہ اُمُّ المؤمنینرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا حجرہ مسجد کاحصہ ہے ۔ردالمحتار میں بدائع سے ہے اگر معتکف منارہ پرچڑھا تو بالاتفاق اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا کیونکہ منارہ مسجد کاحصہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر وہ عمل مثلاً بول وغیرہ منع ہے جومسجد میں منع ہے تویہ مسجد کے دیگر گوشوں کی طرح ایک گوشہ ٹھہرا ۔ (فتاوی رضویہ،باب الوتر والنوافل،۷/۴۵۳)
علامہ علاؤ الدّین حصکفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تحریرفرماتے ہیں : ( الخروج الّا لحاجة الانسان) طبيعيّة كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر ۔
ترجمہ : معتکف مسجد سے نہ نکلے مگر حاجت ِ طبعیہ کی وجہ سے جیسے پیشاب ، پاخانہ اور احتلام ہوتو غسل کیلئے جبکہ اُسے مسجد میں غسل کرنا ممکن نہ ہو۔جیسا کہ نہر میں ہے ۔ (در مختار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳/۵۰۱)
عورت کا گھر میں ہی مسجدِ بیت سے باہر کسی کام کیلئےجانا
عورت اعتکاف کیلئے مخصوص کی گئی جگہ سے حاجتِ شرعی و طبعی کے علاوہ نہیں نکل سکتی ، اگر نکلے گی اگرچہ گھر ہی کے کسی دوسرے حصے کی طرف تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ خیال رہے کہ جس طرح مرد کا اعتکاف بلا عذرِ شرعی مسجد سے نکلنے سے ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح عورت بھی اگر بلا عذرِ شرعی اس مسجدِ بیت (گھر میں نماز پڑ ھنے کیلئے مخصوص کی گئی جگہ جہاں اعتکاف کیا جا تا ہے) سے نکلے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
درمختار و ردالمحتار میں ہے : (وحرم علیہ الخروج)ای: من معتَکفہ ولو مسجد البیت فی حقّ المرأ ۃ فلو خرجت منہ ولو الی بیتھا بطل اعتکافھا لو واجباً(الّا لحاجۃ الانسان) ترجمہ : معتکف کاحاجتِ انسانیہ کے علاوہ اپنی اعتکاف کی جگہ سے نکلنا حرام ہے اگر چہ وہ عورت کیلئے مسجدِ بیت ہو،اگر عورت اپنی مسجدِ بیت سے نکلے گی اگر چہ گھر کے دوسرے حصوں ہی کی طرف تو اس کااعتکاف باطل ہو جا ئے گا جبکہ وہ اعتکاف واجب ہو ۔ (در مختار وردّ المحتار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳/۵۰۰-۵۰۱،چشتی)
اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے : اذا اعتکفت فی مسجد بیتھا فتلک البقعۃ ی حقّہا کمسجد الجماعۃ فی حقّ الرجل لاتخرج منہ الّا لحاجۃ الانسان.....ولا تخرج المرأۃ من مسجد بیتہا الی المنزل ھکذا فی محیط السرخسی“۔
ترجمہ : جب کو ئی عورت مسجدِ بیت میں اعتکاف کر لے تو وہ بُقْعۂ زمین اس عورت کے حق میں مرد کیلئے مسجدِ جماعت کی طرح ہے وہ اس سے حاجتِ انسانیہ کے علاوہ نہ نکلے گی.....اور عورت مسجدِ بیت سے گھر کے دوسرے حصوں کی طرف نہیں نکلے گی اسی طرح محیط سرخسی میں ہے ۔ (فتاوی ہندیۃ، کتاب الصوم، الباب السابع فی الاعتکاف، ۱/۲۱۱،۲۱۲)
اعتکاف میں بیٹھنے کیلئے مانعِ حیض ادویات کا استعمال کرنا
عورت کامانعِ حیض گولیوں کا استعمال چاہے اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے ہویا کسی اوروجہ سے دونوں صورتوں میں شرعی اعتبار سے جائز ہے ۔ البتہ طبّی اعتبار سے اگر ان کے استعمال سے عورت کو نقصان ہوتا ہو تو پھر اس سے اجتناب کرنا ہوگا ۔ اوردورانِ اعتکاف حیض آنے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گاجس کی بعد میں قضاواجب ہے ۔ واضح رہے کہ گولیوں کی وجہ سے حیض نہ آئے توحائضہ شمار نہ ہوگی حکمِ طہارت باقی رہے گا ،روزہ رکھ سکتی ہے اور اعتکاف بھی کرسکتی ہے ۔
طحطاوی علی الدرمیں درِّ مختارکے اس قول”فیقضیہ“کے تحت ہے : ’’سواء فسد بصنعہ بغیر عذر کالخروج والجماع، والاکل والشرب فی النہار او فسد بصنعہ لعذر کما اذا مرض فاحتاج الی الخروج فخرج او بغیر صنعہ رأساً کالحیض والجنون والاغماء الطویل بحر‘‘یعنی اعتکاف کافاسدہونا برابرہےکہ قصداًبغیرعذر کے ہوجیسے مسجد سے باہرنکلنا،جماع کرنا،دن میں کھاناپینا ۔ یافاسدکرناقصداًہوعذرکی وجہ سے جیسے بیمارہوا اور مسجدسے نکلنے کی طرف محتاج ہے تووہ مسجدسے نکلا۔یافاسد کرنااصلاًاس کے قصدسے نہ ہوجیسے حیض آجانا ،جنون،اورطویل بے ہوشی طاری ہوجانا ۔ بحر ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۱/۴۷۵)
فتاویٰ شامی میں ہے :” وامّا حکمہ اذا فات عن وقتہ المعیّن، فان فات بعضہ قضاہ لا غیر ولا یجب الاستقبال، او کلّہ قضی الکلّ متتابعاً“ یعنی اس کا حکم(یعنی اعتکاف کو فاسدکرنے یاہوجانے کا حکم ) یہ ہے کہ اگریہ وقتِ معین میں فوت ہوجائے تو اگربعض فوت ہواتوصرف بعض کی قضا کرناہوگی اور دوبارہ نئے سرے سے اعتکاف کی حاجت نہیں اوراگر کُل فوت ہواتولگاتارکُل کی قضاکرناہو گی ۔ (ردّ المحتار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳/۵۰۳-۵۰۴)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اعتکاف توڑنے کی صورت میں اس کی قضا کا حکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اعتکافِ نفل اگر چھوڑ دے تو اس کی قضا نہیں ،کہ وہیں تک ختم ہوگیا اور اعتکافِ مسنون کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کے لیے بیٹھا تھا، اسے توڑا تو جس دن توڑا فقط اس ایک دن کی قضا کرے ، پورے دس دنوں کی قضا واجب نہیں اورمنّت کا اعتکاف توڑا تو اگر کسی معیّن مہینے کی منت تھی تو باقی دنوں کی قضاکرے، ورنہ اگرعلی الاتّصال واجب ہوا تھا تو سِرے سے اعتکاف کرے اور علی الاتصال واجب نہ تھا تو باقی کا اعتکاف کرے ۔
اعتکاف کی قضاصرف قصداً توڑنے سے نہیں بلکہ اگرعذرکی وجہ سے چھوڑا مثلاً بیمارہوگیا یا بلا اختیار چھوٹا مثلاً عورت کو حیض یا نفاس آیا یا جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوئی ، ان میں بھی قضا واجب ہے ۔ (بہارِ شریعت،حصہ پنجم، اعتکاف کا بیان،۱/۱۰۲۸-۱۰۲۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عورت کے گھر کو ہی عورت کی مسجد بتلایا ہے مزید برآں مفسرِقرآن ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۳۷۰ھ) نے فرمایا ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرنے کا حکم فقط مردوں کیلئے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے اس کا بھی حوالہ ھذر چکا ہے ۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں بھی کسی عورت کا عملاً مسجد میں اعتکاف کرنا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حکم دینا کہ عورت مسجد میں اعتکاف کرے کسی صحیح، صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
لیکن اس کے باوجو د عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے بخاری ج۱ص۲۷۱ ،۲۷۳ سے دو حدیثیں دکھاتے ہیں کہ :
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد آپ کی گھر والیوں نے اعتکاف کیا
(2) حضرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لئے خیمے لگائے ۔
کاش کہ یہ لوگ ضد اور تعصب سے بالا تر ہو کر حدیث کو پڑھیں تو بات بہت آسان ہے حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر رمضان میں مسجد نبوی میں مخصوص جگہ بنا کر اعتکاف کرتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی اجازت لی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اعتکاف کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ انھوں نے بھی اپنا خیمہ لگایا پھر ان کی دیکھا دیکھی حضرت حفصہ ، حضرت زینب رضی اللہ عنہما نے بھی اپنا اپناخیمہ لگا لیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب مسجد میں خیمے دیکھے تو تعجباً سوال کیا :
یہ کیوں لگائے گئے ہیں ؟ اور کس چیز نے ان (یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) کو اس نیکی (یعنی مسجد نبوی میں اعتکاف) پر اُبھارا ہے ؟
اور دوسری روایت میں ہے کہ ، یہ خیمے لگا کر اعتکاف کو تم نیکی سمجھتی ہو ؟
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان خیموں کے اکھاڑنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ تو مسجد نبوی سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے (دوران اعتکاف ہی) اکھاڑ دئے گئے اور اس ناراضگی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا اعتکاف بھی توڑ دیا پھر شوال میں اس قضاء فرمائی ۔ اگر عورت کے لئے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے با وجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے اہل بیت کو مسجد میں اعتکاف کیوں نہ کرنے دیا ؟ اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم کیوں دیا ؟ اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے ؟ اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا ؟ اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا ؟ اتنی عام فہم حدیث کے باوجو د بھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کی دعوت دینا یہ اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہیں بلکہ صرف اور صرف نفسانی خواہشات کی اتباع ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عمل کی خلاف ورزی ہے ۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری حضرت ابراھیم بن علیۃ رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں اور مزید لکھتے ہیں : عورت کے لیے افضل بات یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف نہ کرے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے ۔
مردوں کی طرح خواتین بھی اعتکاف کرسکتی ہیں اور اس عبادت کی فضیلت حاصل کرسکتی ہیں ، لیکن عورتیں اپنے گھروں میں اعتکاف کریں اور اس مقصد کے لیے گھر میں اس جگہ کو مخصوص کرلیں جہاں نماز یں پڑھی جاتی ہیں ، اگر گھر میں کوئی ایسی جگہ نہ ہو تو کسی کونے میں بیٹھ جائیں اور اسی جگہ کو اعتکاف کے لیے مخصوص کرلیں مردوں کی بہ نسبت عورتوں کے لئے اعتکاف کی سنت ادا کرنا زیادہ سہل ہے ، وہ بیٹھے بیٹھے گھر کے کاموں کی نگرانی بھی کرسکتی ہیں اور اعتکاف بھی جاری رکھ سکتی ہیں ، اس کے باوجود عورتیں اعتکاف کا اہتمام نہیں کرتیں اور ایک عظیم سنت سے محروم رہ جاتی ہیں ، یہ بڑے افسوس کا مقام ہے ، روایات میں ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے حجروں میں اعتکاف فرمایا کرتی تھیں ، ایک حدیث میں ہے کہ عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کا اندرونی حصہ ہے ۔ (مسند احمد بن حنبل: ۶/۲۹۷، رقم الحدیث: ۲۶۵۸۴، صحیح ابن خزیمہ: ۳/ ۹۲، رقم الحدیث: ۱۶۸۳،چشتی)
فقہاء علیہم الرّحمہ نے قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ لکھا ہے کہ مرد کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لیے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں اعتکاف کرنا افضل ہے ۔ (الہدایہ: ج 1ص209)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۔ (سورۃ البقرہ:187)
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ متوفی 370ھ فرماتے ہیں : وأما شرط اللبث في المسجد فإنه للرجال خاصة دون النساء۔
ترجمہ : مسجد میں ٹھہرنے کی شرط (اعتکاف کے لیے) صرف مردوں کے لیے نہ کہ عورتوں کے لیے ۔ (احکام القرآن للجصاص :ج1ص333)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےایک مرتبہ فرمایا کہ میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کروں گا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی (کہ وہ بھی اعتکاف کریں گی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دے دی ۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے بھی اجازت دلا دو ، انہوں نے اجازت دلا دی ۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (خدام کو خیمہ لگانے کا) حکم دے دیا ۔ چنانچہ ان کا بھی خیمہ لگادیا گیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھ کر اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے تو بہت سارے خیموں کو دیکھ کر فرمانے لگے : یہ خیمے کیسے ہیں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن نے لگائے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کیا انہوں نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟ “فامر بخبائہ فقوض” پهر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ خیمے اکھاڑنے کا حکم دیا ۔ (صحیح البخاری: ج1ص274 باب من أراد أن يعتكف ثم بدا لہ أن يخرج)
محترم قارئین : اس حدیث مبارک سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم نہ دیتے ۔ اور ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو جو اجازت ملی وہ ان کے ساتھ خاص ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بہت زبردست
ReplyDelete