موت کے بعد کی زندگی ، عذابِ قبر اور مسلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أجْسَادَ الْأنْبِيَآءِ، فَنَبِیُّ اﷲِ حَیٌّ يُّرْزَقُ .
ترجمہ : اللہ تعالی نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السّلام کے اجسام کو کھائے ۔ پس اَنبیاء علیھم السلام زندہ ہیں اور اُنہیں رِزق بہم پہنچایا جاتا ہے ۔
(سنن النسائی، کتاب الجمعه، 1 : 204)۔(سنن اَبوداؤد، کتاب الصلوٰة، 1 : 157)
حضرت ابو ایوب اَنصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ
حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان بن الحکم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے ۔ مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے ؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ لَمْ آتِ الْحَجَرَ .
ترجمہ : ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی " پتھر " کے پاس نہیں آیا ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422)(حاکم، المستدرک، 4 : 560، رقم : 8571) (طبراني، المعجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999)
یہ نجدی منافق ہے گندہ ہے واللہ
جہنّم پہ اس کا نام کندہ ہے واللہ
جو مردہ کہے تمکو وہ خود مردہ ہے واللہ ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
جو سُنــی ہـــے وہ تو ہــمیـــــشہ کہے گا
رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
برزخ کا مطلب ہے پردہ ، الحاجز والحد بين الشيئين یعنی دو چیزوں میں حد اور رکاوٹ : البرزخ ما بين الموت الی القيامة ۔ ترجمہ : مرنے سے لے کر قیامت تک کا وقفہ ۔ (مفردات راغب، 43)(روح المعانی، 27: 106)
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ .
ترجمہ : اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے ۔ (سورہ الْمُؤْمِنُوْن، 23: 100)
مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیام قیامت تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے ۔ زندگی تین ادوار پر منقسم ہے : (1) حیات دنیوی ۔ (2) حیات برزخی۔(3) حیات اخروی
سب سے پہلے دنیوی زندگی ہے اس کے اپنے لوازمات ہیں ، پھر حیات برزخی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں پھر حیات اخروی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں ۔ زندگی بمنزلہ جنس ہے اور یہ تینوں قسمیں بمنزلہ نوع ہے، جہاں نوع ہو وہاں جنس ضرور ہوتی ہے‘ لہٰذا زندگی تینوں میں موجود ہے۔ ہاں ہر نوع دوسری نوع سے مختلف ہوتی ہے اسی لئے حیات دنیوی، برزخی اور اخروی کی جنس ایک ہونے کے باوجود اختلاف انواع کی وجہ سے اکثر احکامات الگ الگ ہیں۔ مثلاً احکام شرع کی پابندی حیات دنیا میں ہے، برزخ و آخرت میں نہیں۔ حیات انسانی کی خصوصیات ہیں سمع، بصر، ادراک وغیرہ یہ زندگی کی تینوں انواع میں موجود ہیں بلکہ دنیوی زندگی سے بڑھ کر اخروی زندگی میں ہیں ۔
قبر میں ہونے والے عذاب و ثواب کے بارے میں علمائے اسلام کی تین آراء ہیں : (1) عذابِ قبر صرف روح کو ہوتا ہے ۔ (2) عذابِ قبر صرف جسم کو ہوتا ہے ۔ (3) عذابِ قبر جسم و روح دونوں کو ہوتا ہے ۔
تیسری رائے صحیح تر ہے کہ قبر کی زندگی میں عذاب یا نعمتیں جسم اور روح دونوں کو ملتی ہیں۔ چنانچہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : محله الروح والبدن جميعاً باتفاق اهل السنة ۔ ترجمہ : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عذاب و ثوابِ قبر روح اور جسم، دونوں کو ہوتا ہے ۔ (شرح الصدور، 75)
علامہ ابنِ قیم امام الوہابیہ کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ سے قبر کی زندگی کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : العذاب والنعيم علیٰ نفس و البدن جميعاً باتفاق اهل سنت ۔ ترجنمہ : عذاب و ثواب روح و جسم دونوں کو ہوتا ہے، اسی پر اہل سنت کا اتفاق ہے ۔ (کتاب الروح، 72،چشتی)
روح کے ساتھ جسم کو بھی عذاب و ثواب اس لیے ہوتا ہے کہ روح اور جسم کے درمیان ایک معنوی تعلق ہے۔ اس تعلق کے سبب روح پر وارد ہونے والی کیفیات جسم بھی محسوس کرتا ہے۔ عذاب و ثوابِ قبر کے لیے بدن کا سلامت ہونا ضروری نہیں ہے۔ جسم گل سڑ جائے، آگ میں جلا دیا جائے، سمندر میں غرقاب ہو جائے، درندوں کے پیٹ میں چلا جائے‘ روح کا جسم کے ساتھ تعلق ہونے کے سبب ان تمام صورتوں میں بھی جسم پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی وضاحت امام جلال الدین سیوطی نے ان الفاظ میں کی ہے کہ : عذاب قبر سے مراد عالمِ برزخ کی زندگی کا عذاب ہے۔ اسے عذابِ قبر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو قبروں میں دفنایا جاتا ہے‘ ورنہ ہر میت قبر میں دفن ہو یا نہ ہو جب بھی اللہ اسے عذاب دینا چاہے گا ضرور پہنچائے گا ۔ (شرح الصدور، 75)
قرآن مجید نے فرعونیوں کے عذابِ قبر، یعنی عالم برزخ کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے : فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ. النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ. وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ.
ترجمہ : پھر اللہ نے اُسے اُن لوگوں کی برائیوں سے بچا لیا جن کی وہ تدبیر کر رہے تھے اور آلِ فرعون کو بُرے عذاب نے گھیر لیا۔ آتشِ دوزخ کے سامنے یہ لوگ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت بپا ہوگی (تو حکم ہوگا:) آلِ فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔ اور جب وہ لوگ دوزخ میں باہم جھگڑیں گے تو کمزور لوگ ان سے کہیں گے جو (دنیا میں) بڑائی ظاہر کرتے تھے کہ ہم تو تمہارے پیروکار تھے سو کیا تم آتشِ دوزخ کا کچھ حصّہ (ہی) ہم سے دور کر سکتے ہو ؟ (الْمُؤْمِن، 40: 45-47)
اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کیے جاتے ہیں حالانکہ قیامت قائم نہیں ہوئی۔ اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے۔ فرعونیوں اور اُن جیسے کافروں کو قیامت سے پہلے بھی صبح و شام عذاب ہوتا ہے‘ یہی عذابِ قبر ہے یا برزخ کا عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی منافقینِ مدینہ کے بارے میں بتایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ.
ترجمہ : اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے ۔ (سورہ التَّوْبَة، 9: 101)
یعنی منافقین کے لیے ایک مرتبہ دنیا میں ذلت کا عذاب‘ دوسری مرتبہ عالمِ برزخ کا عذاب اور اس کے بعد جہنم کا عذاب عظیم ہے ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے سوالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : وَيَأتِيهِ مَلَکَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ : مَنْ رَبُّکَ؟ فَيَقُولُ : رَبِّيَ اﷲُ. فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا دِينُکَ؟ فَيَقُولُ : دِينِيَ الإِسْلَامُ. فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيکُمْ؟ قَالَ : فَيَقُولُ : هُوَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَيَقُولَانِ : وَمَا يُدْرِيکَ؟ فَيَقُولُ : قَرَأتُ کِتَابَ اﷲِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ ۔
ترجمہ : اُس (میت) کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اُسے اُٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اُس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اﷲ میرا رب ہے۔ فرشتے اُس سے سوال کرتے ہیں : تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اسلام میرا دین ہے۔ فرشتے اُس سے پوچھتے ہیں : یہ شخص (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جو تمہارے درمیان مبعوث ہوئے کون ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے : وہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ فرشتے اُس سے پوچھتے ہیں : تجھے یہ کیسے معلوم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے : میں نے اﷲ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) پڑھی، لہٰذا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی ۔ (أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 : 239، رقم : 4753،چشتی)
عن أبي هريرة رضی الله عنه قال : شهدنا جنازة مع نبي اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فلمّا فرغ من دفنها، وانصرف النّاس، قال نبی اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إنّه الآن يسمع خفق نعالکم، أتاه منکر ونکير أعينهما مثل قدور النحاس، وانيابهما مثل صياصی البقر، وأصواتهما مثل الرعد، فيجلسانه فيسألانه ما کان يعبد ومن کان نبيه؟ فإن کان ممن يعبد اﷲ قال : کنت أعبد اﷲ والنبيّ محمد صلی الله عليه وآله وسلم جاء بالبينات فآمنّا واتّبعنا فذلک قول اﷲ : {يُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَةِج} فيقال له : علی اليقين حييت وعليه مت وعليه تبعث ثم يفتح له باب إلی الجنّة ويوسع له في حفرته وإن کان من أهل الشّک قال : لا أدري سمعت النّاس يقولون شيئا فقلته فيقال له : علی الشّک حييت وعليه مت وعليه تبعث ثم يفتح له باب إلی النّار ويسلط عليه عقارب وثعابين لو نفخ أحدهم في الدّنيا ما أنبتت شيئا تنهشه وتؤمر الأرض فتضم حتّی تختلف أضلاعه ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک جنازے میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم میت کی تدفین سے فارغ ہوئے اور لوگ واپس جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اب یہ (تمہارے واپس پلٹنے پر) تمہارے جوتوں کی آواز سنے گا، اس کے پاس منکر اور نکیر آئے ہیں جن کی آنکھیں تانبے کے دیگچے کے برابر ہیں، دانت گائے کے سینگ کی طرح ہیں اور ان کی آواز بجلی کی طرح گرج دار ہے، وہ دونوں اس کو بٹھائیں گے اور پوچھیں گے : کس کی عبادت کرتے تھے اور تمہارا نبی کون تھا؟ اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں سے ہوا تو وہ کہے گا : میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی نشانیاں لے کر ہمارے پاس آئے۔ پس ہم ایمان لے آئے اور ہم نے ان کی اتباع کی۔ پس اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اسی بارے میں ہے : (اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)۔) اس سے کہا جائے گا : تو یقین کے ساتھ زندہ رہا اور اسی پر تمہاری موت ہوئی اور اسی پر تم روزِ قیامت اٹھائے جاؤ گے۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس کی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اہلِ شک (منافقین) میں سے ہو تو وہ (ان کے سوالوں کے جواب میں کہتا ہے :) میں نہیں جانتا میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا میں نے بھی وہی کہا۔ اس سے کہا جائے گا : تو شک پر زندہ رہا، اسی پر تمہاری موت ہوئی اور اسی پر روزِ قیامت تمہیں اٹھایا جائے گا۔ پھر اس کے لئے دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اس پر ایسے بچھو اور سانپ مسلّط کر دئیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زمین میں پھونک مار دے تو زمین کے تمام نباتات جل کر راکھ ہو جائیں، پھر زمین کو حکم دیا جاتا اور وہ سکڑ جاتی ہے حتی کہ اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں ۔ (طبراني، المعجم الأوسط، 5 : 44، رقم : 4629)(هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 54)(منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 198، رقم : 5398)
عن عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنهما أنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ذکر فتاني القبر فقال عمر بن الخطاب : وأترد علينا عقولنا يا رسول اﷲ؟ فقال : نعم کهيئتکم اليوم قال : فبفيه الحجر ۔ ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے فرشتوں کا ذکر فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہمیں ہماری یہ سمجھ بوجھ لوٹا دی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بالکل! آج جیسی ہی سوجھ بوجھ (قبر میں) دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : فرشتے کے منہ میں پتھر (یعنی میں اس کو خاموش کرا دوں گا) ۔ (ابن حبان، الصحيح، 7 : 384، رقم : 3115)(أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 172، رقم : 6603)(هيثمي، موارد الظمأن، 1 : 196، رقم : 778)(هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 47)(منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 193، رقم : 5391،چشتی)
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سلسلے میں دارالعلومدیوبند کا ایک مفصل ومدلل فتوی منسلک ہے، ملاحظہ فرمائیں :
فتویٰ دارالعلوم دیوبند : Fatwa ID: 10-10/Sd=1/1436-U ۔
حیاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ
سوال:﴿۸﴾ براہِ کرم”حیات النبی“کی حقیقت اور اس کی تفصیلات کے سلسلے میں احادیث کے حوالے بتائیں؛ کیوں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ نہیں ہیں، میں حوالے اور تفصیلات چاہتا ہوں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق: حامداً ومصلیاً ومسلماً:
مذکورہ بالا مسئلے میں محققین کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی علیہ الصلاة و السلام قبر میں زندہ ہیں اور اس پر بہت سے دلائل قائم ہیں۔ أخرج الإمام أبوداوٴد في أبواب الجمعة: عن أوس بن أوس قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إن من أفضل أیامکم یوم الجمعة، فیہ خلق آدم، إنّ اللّٰہ عزّ وجلّ حرّم علی الأرض أجساد الأنبیاء(وفي شرحہ بذل المجہود:۲/۱۶۰ أبواب تفریع الجمعة) من أن تأکلہا؛ فإن الأنبیاء في قبورہم أحیاء۔ابوداؤد شریف میں حضرت او س بن اوس سے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک طویل حدیث کے ضمن میں)فرمایا: کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے،انبیاء کرام کے اجسام کو زمین پر حرام کردیا، اورابو داؤد کی شرح” بذل المجہود“، میں حدیث مذکور کی تشریح میں لکھا ہے کہ اللہ نے زمین پر، انبیاء کرام کے اجسام کو کھانا حرام کردیا؛ اس لیے کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔اور”شرح الصّدور بشرح حال الموتٰی:۱/۱۸۶، ط:دارالمعرفة لبنان“ میں ہے”أخرج أبویعلی والبیہقي وابن مندہ عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أنّ النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال:الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون۔
ترجمہ:شرح الصدور موٴلفہ علامہ سیوطی میں حضرت انس کی ایک روایت ابو یعلی بیہقی وغیرہ کے حوالے سے نقل کی گئی کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں۔ وفي المہنّد علی المفنّد للعلاّمة خلیل أحمد السّہارنفوري:۴۳، عندنا وعند مشائخنا حضرة الرّسالة صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حي في قبرہ الشّریف، وحیاتہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم دنیویة من غیر تکلیف وہي مختصة بہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم، وبجمیع الأنبیاء صلوات اللّٰہ علیہم، والشّہداء لا برزخیة کما ہي حاصلة لسّائر المسلمین؛ بل لجمیع النّاس کما نص علیہ العلاّمة السّیوطي في رسالتہ”إنباء الأذکیاء بحیاة الأنبیاء“حیث قال: قال الشّیخ تقي الدّین السّبکي: حیاة الأنبیاء والشّہداء في القبر کحیاتہم في الدّنیا ویشہد لہ صلاة موسٰی علیہ السّلام في قبرہ؛ فإنّ الصّلاة تستدعي جسدًا حیًا إلٰی آخر ما قال: فثبت بہذا أن حیاتہ دنیویة برزخیة لکونہا في عالم الأرواح إلخ۔
ترجمہ: حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری فرماتے ہیں: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کے، اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام اور شہداء کے ساتھ، برزخی نہیں ہے جو حاصل ہے تمام مسلمانوں؛بلکہ سب آدمیوں کو ، چنانچہ علامہ سیوطی نے اپنے رسالہ ”إنباء الأذکیاء بحیاة الأنبیاء“میں بتصریح لکھا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا ہے کہ انبیاء وشہداء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے؛ کیوں کہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے الخ۔
پس اس سے ثابت ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی ہے، اور اس معنی کر برزخی بھی ہے کہ عالم برزخ میں حاصل ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
(چند اہم عصری مسائل)(اس فتویٰ کا لنک : http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Islamic-Beliefs/56440)
-------------------------
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالی نے حضرات انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ و السلام کو ساری کائنات میں سب سے افضل اور بزرگ بنایاہے ،انہیں بلندوبالادرجات اور عظیم کمالات عطافرمائے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃو السلام کا سردار وتاجدار بنایا ،اور سلسلۂ نبوت ورسالت آپ کی ذات اقدس پر ختم فرمادیا۔ اہل اسلام کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اپنے مزارات میں زندہ ہیں، اس کا ثبوت کتاب وسنت سے ملتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشادگرامی ہے : وَمَا کَانَ لَکُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّہِ وَلَا أَنْ تَنْکِحُوا أَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللَّہِ عَظِیمًا۔
ترجمہ : تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو تکلیف دو اور نہ یہ درست ہے کہ تم کبھی ان کی ازواج سے نکاح کرو، یقینا یہ اللہ کے پاس بڑا گناہ ہے ۔ (سورۃ الاحزاب۔53)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ نکاح کرنے کی سخت ممانعت فرمائی ،وصالِ اقدس کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح کرنا‘کسی شخص کے لئے جائز نہیں رکھا۔
یہ فقہ اسلامی کا مسلمہ مسئلہ ہے کہ کسی شخص کی موت واقع ہوجائے تو اس کا رشتۂ نکاح منقطع ہوجاتاہے، عدت گزارنے کے بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ کسی اورشخص سے نکاح کرلے ۔ اس کے برخلاف کوئی شخص زندہ ہوتو کسی اور کو اس کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، آیت مذکورہ میں بیان کردہ تاکیدی ممانعت اس بات کا واضح ثبوت اور روشن دلیل ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد برزخ میں خصوصی شان کے ساتھ حیات ہیں ، اس سلسلہ میں متعدد مرفوع احادیث مبارکہ موجودہیں ۔
سنن ابن ماجہ میں حدیث پاک ہے:عن أبی الدرداء قال قال رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم:۔ ۔ ۔ إن اللہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء . فنبی اللہ حی یرزق.
ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء کرام علیھم السلام کے اجسام کو متغیر کردے تو اللہ کے نبی حیات ہیں ،رزق پاتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ، باب ذکر وفاتہ ودفنہ ،صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر1706)
لہٰذا اللہ کے نبی زندہ رہتے ہیں اور رزق پاتے ہیں ، یہ حدیث پاک کلمات کے مختصر سے فرق کے ساتھ سنن ابو داؤد شریف ،سنن نسائی،مستدرک علی الصحیحین ، مسند امام احمد،مصنف ابن ابی شیبہ،سنن کبری للنسائی،معجم کبیر طبرانی،معجم اوسط طبرانی،بیہقی شب الایمان،صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمۃ،سنن صغری للبیھقی،جامع الأحادیث،الجامع الکبیر للسیوطی،سنن دارمی،کنز العمال، جامع الأحادیث اور الجامع الکبیر للسیوطی میں موجودہے۔(سنن ابو داؤد شریف ج 1 کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ص 150-۔سنن نسائی، باب إکثار الصلاۃ علی النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- یوم الجمعۃ،حدیث نمبر: 1385-۔سنن ابن ماجہ، باب فی فضل الجمعۃ، حدیث نمبر1138-۔مستدرک علی الصحیحین ، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر980-۔مسند امام احمد، حدیث أوس بن أبی أوس الثقفی، حدیث نمبر16592-۔مصنف ابن ابی شیبہ،ج2،ص389-۔سنن کبری للنسائی، حدیث نمبر16592-۔معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر588-۔معجم اوسط طبرانی، حدیث نمبر4936-۔بیہقی شب الایمان، حدیث نمبر2894-۔صحیح ابن حبان، باب الأدعیۃ، حدیث نمبر912-۔صحیح ابن خزیمۃ، جماع أبواب فضل الجمعۃ، حدیث نمبر1638-۔سنن صغری للبیہقی، باب فضل الجمعۃ، حدیث نمبر607-۔جامع الأحادیث، حدیث نمبر8441-۔الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر1790-۔سنن دارمی، حدیث نمبر1624-۔کنز العمال، حدیث نمبر2202،چشتی)
سنن ابو داؤد شریف میں مذکورہ حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں :عن اوس بن اوس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم، و فیہ النفخۃ و فیہ الصعقۃ، فاکثروا علی من الصلاۃ فیہ ، فان صلاتکم معروضۃ علی قالوا: یا رسول اللہ و کیف تعرض صلا تنا علیک و قد ارمت؟ فقال : ان اللہ عز و جل حرم علی الارض اجساد الانبیاء ۔
ترجمہ : سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں زیادہ فضیلت والا دن جمعہ ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن وصال فرمائے اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن لوگوں پر بے ہوشی طاری ہوگی ۔ لہٰذا تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود میری بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے،راوی کہتے ہیں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !آپ کی بارگاہ میں ہمارا درود کس طرح پیش کیا جائے گا جبکہ وصال فرماکر آپ پر ایک عرصہ بیت گیاہوگا؟ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیاہے کہ انبیاء کرام کے اجسام کو متغیرکرے۔ (سنن ابو داؤد شریف ج 1 کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ص 150،چشتی)
صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے:عن سلیمان التیمی سمعت انسا یقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مررت علی موسی و ہو یصلی فی قبرہ و زاد فی حدیث عیسی مررت لیلۃ اسری بی ۔
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جبکہ وہ اپنے مزار میں نماز ادا کررہے تھے۔(مسلم شریف، 165، فضائل موسی)
نیزمسند ابو یعلی میں حدیث پاک ہے :عن انس بن مالک قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون۔
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں، اپنے مزارات میں نماز ادا کرتے ہیں۔(مسند ابو یعلی ،حدیث 3331 مسند انس رضی اللہ عنہ)
امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد میں اس حدیث پاک کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:و رجال ابی یعلی ثقات۔
ترجمہ: مسند ابو یعلی کی حدیث شریف کے تمام رواۃ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔(مجمع الزوائد‘ باب ذکر الانبیائ‘ ج 8 ص 210)
61ھ میں جب یزیدی لشکر نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا تو مسجدنبوی شریف میں تین دن اذان واقامت نہیں کہی گئی ، ان دنوں حضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ روضۂ اطہرسے اذان اور اقامت کی آواز سنتے تھے ، جیساکہ سنن الدارمی میں روایت ہے :
عن سعید بن عبد العزیز قال : لما کان أیام الحرۃ لم یؤذن فی مسجد النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- ثلاثا ولم یقم ، ولم یبرح سعید بن المسیب المسجد ، وکان لا یعرف وقت الصلاۃ إلا بہمہمۃ یسمعہا من قبر النبی -صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ : حضرت سعیدبن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اُنہوں نے فرمایا:جب واقعۂ حرہ رونماہوا تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد شریف میں تین دن اذان واقامت نہیں کہی گئی ، حضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ مسجدہی میں رہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ روضۂ اطہرسے اذان واقامت کی آواز آیاکرتی جس کی وجہ سے وہ نماز کا وقت معلوم کرتے تھے ۔ (سنن الدارمی ، کتاب المقدمہ ، باب مااکرم اللہ تعالی نبیہ بعد موتہ،حدیث نمبر:94،چشتی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وصال اقدس کے بعد وہی ہے جو وصال اقدس سے پہلے تھی،امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب لدنیہ میں رقم فرمایا :اذ لا فرق بین موتہ وحیاتہ فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ احوالھم ونیاتھم وعزائمھم وخواطرھم ،وذلک عندہ جلی لا خفاء بہ۔
ترجمہ: امت کا مشاہدہ فرمانے کے لئے اور ان کے حالات ،نیتیں،ارادے اور دلی کیفیات کو جاننے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اور وصال مبارک میں کوئی فرق نہیں۔اور یہ ساری چیزیں آپ پر بالکل عیاں ہیں جس میں کسی قسم کی پوشیدگی نہیں۔(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص195)
اسی وجہ سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خلیفہ ابو جعفرمنصورکو یہی فرمایا تھا کہ جب بارگاہ اقدس میں حاضرہوں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب ہی رخ کرکے دعا کریں،سبل الہدی والرشاد میں روایت ہے:
ولما ناظر أبو جعفر المنصور عبد اللہ بن محمد بن عباس ثانی خلفاء بنی العباس مالکا فی مسجدہ علیہ الصلاۃ والسلام قال لہ مالک: یا أمیر المؤمنین لا ترفع صوتک فی ہذا المسجد، فإن اللہ تعالی أدب قوما فقال: (لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبی) وإن حرمتہ میتا کحرمتہ حیا، فاستکان لہا أبو جعفر، وقال لمالک: یا أبا عبید اللہ أأستقبل القبلۃ وادعوا أم استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فقال لہ: لم تصرف وجہک عنہ وہو وسیلتک ووسیلۃ أبیک آدم إلی اللہ تعالی یوم القیامۃ بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعک اللہ، فإنہ تقبل بہ شفاعتک لنفسک قال اللہ تعالی: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم)
ترجمہ :اور جب بنی عباس کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور عبد اللہ بن محمد بن عباس نے امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں مناظرہ کیا تو امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ان سے فرمایا:اے امیر المؤمنین!اپنی آواز کو اس مسجد میں بلند نہ کرو!کیونکہ اللہ تعالی نے ایک بہترقوم کو ادب سکھاتے ہوئے (قرآن کریم میں )فرمایا:"اپنی آوازوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آواز پر بلند نہ کرو!"بیشک آپ کی ظاہری حیات طیبہ میں جس طرح آپ کاادب واحترام لازم تھا آپ کے وصال مبارک کے بعد بھی اسی طرح ادب واحترام ملحوظ رکھا جائے! تو خلیفہ ابو جعفر باادب ہوگئے اور امام مالک سے دریافت کرنے لگے:اے ابو عبید اللہ!بوقت حاضری ‘میں قبلہ کی جانب رخ کروں اور دعا کروں یا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب رخ کروں؟تو آپ نے فرمایا:آپ اپنے چہر ہ کو حضور کی بارگاہ سے کیسے پھیر سکتے ہو؟جبکہ آپ کی ذات گرامی ہی قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں آپ کے لئے اور آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام کے لئے وسیلہ ہے۔ہر حال میں آپ حضور کی جانب ہی رخ کریں!اور آپ سے شفاعت طلب کریں!اللہ تعالی تمہارے حق میں سفارش قبول کرے گا،کیونکہ یہی وہ ذات بابرکت ہے جس کے طفیل تمہارے حق میں تمہارا معروضہ قبول کیا جائے گا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم۔۔۔۔)(سبل الہدی والرشاد،جماع أبواب بعض ما یجب علی الانام من حقوقہ علیہ الصلاۃ والسلام ، جلد نمبر 11،صفحہ نمبر 423،چشتی)
ان روایتوں سے واضح ہوتاہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باحیات ہیں ، نماز ادافرماتے ہیں ۔ مذکورہ احادیث شریفہ حیات کے متعلق واضح دلیل ہیں ، حیات کے متعلق واضح کلمات وارد ہونے کے باوجود اس کی تاویل کرنا،اس کا کوئی اور مطلب بیان کرنا حدیث پاک کا مفہوم تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور بلاکسی دلیل ظاہر حدیث سے انحراف ہے ۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ بالاحدیث پاک میں ’’حیات ‘‘کی ایک علامت ذکر فرمائی کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام نماز ادافرماتے ہیں۔
صحیح ابن حبان کی طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:فلما دخل صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس و اسری بہ اسری بموسی حتی راہ فی السماء السادسۃ و جری بینہ و بینہ من الکلام ما تقدم ذکرنا لہ ۔
ترجمہ:جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے پھر آپ آسمانوں پر تشریف لائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی آسمانوں پر تشریف لائے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان گفتگو ہوئی (صاحب کتاب کہتے ہیں) جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا۔ (صحیح ابن حبان فصل اول حدیث نمبر:50،چشتی)
اسی روایت میں مذکور ہے کہ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ،تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ،چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ،پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ،چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
مذکورہ احادیث شریفہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام زندہ ‘باحیات ہیں ،جس طرح دنیا میں نماز پڑھتے تھے اسی طرح نماز ادا کرتے ہیں ،ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔
علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی رملیہ کے حوالہ سے مواہب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ہے :و فی الفتاوی الرملیۃ : الانبیاء و الشہداء و العلماء لا یبلون والانبیاء والشہداء یاکلون فی قبورہم و یشربون و یصلون و یصومون و یحجون۔
ترجمہ: فتاویٰ رملیہ میں ہے کہ حضرات انبیاء ، شہداء اور علماء کے اجسام مبارکہ وصال کے بعد بوسیدہ نہیں ہوتے، انبیاء کرام اور شہدائے عظام اپنے مزارات میں کھاتے پیتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔ (شرح الزرقانی علی المواھب‘ ج 7 ص 369،چشتی)
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے حیات انبیاء سے متعلق دلائل ذکرکرنے کے بعد تحریر فرمایا:فحصل من مجموع ہذا النقول والأحادیث أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ وأنہ یتصرف ویسیر حیث شاء فی أقطار الأرض وفی الملکوت وہو بہیئتہ التی کان علیہا قبل وفاتہ لم یتبدل منہ شیء وأنہ مغیب عن الأبصار کما غیبت الملائکۃ مع کونہم أحیاء بأجسادہم فإذا أراد اللہ رفع الحجاب عمن أراد إکرامہ برؤیتہ رآہ علی ہیئتہ التی ہو علیہا لا مانع من ذلک ولا داعی إلی التخصیص برؤیۃ المثال.
ترجمہ: ان حادیث شریفہ اور منقول روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم اطہراور روح مقدس کے ساتھ زندہ ہیں اور یقینا تصرف فرماتے ہیں ، زمین میں اور عالم ملکوت میں جہاں چاہتے ہیں اس حالت وکیفیت کے ساتھ تشریف لے جاتے ہیں جس حالت وکیفیت میں آپ وصال اقدس سے پیشترتھے ‘ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی ، حقیقت یہ ہے کہ آپ عام نگاہوں سے روپوش ہیں جس طرح فرشتے ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں حالانکہ وہ اپنے جسموں کے ساتھ زندہ ہیں ، جب اللہ تعالی آپ کے دیدار سے کسی کو مشرف فرماناچاہتاہے تو اس سے حجاب اُٹھادیتاہے ، وہ آپ کو اس ہیئت پردیکھتاہے جس ہیئت پر آپ ہیں ، اس کے لئے کوئی امر مانع نہیں اور دیدکو مثالی شکل سے خاص کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔(الحاوی للفتاوی ، العجاجۃ الزرنبیۃ فی السلالۃ الزینبیۃ،چشتی)
ملاعلی قاری رحمہ اللہ الباری نے شرح شفا میں لکھا ہے :انہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ کسائر الانبیاء فی قبورھم وھم احیاء عند ربھم وان ۔
ترجمہ : حقیقت یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضۂ اطہرمیں زندہ ہیں جیساکہ تمام انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام اپنے مزارات میں اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کی ارواح مقدسہ کا تعلق عالم علوی وعالم سفلی سے اسی طرح رہتاہے جیساکہ وہ دنیا میں تھے ، لہذا وہ قلب کے اعتبارسے عرشی ہیں اور قالب کے لحاظ سے فرشی ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی ارباب کمال کے احوال کو بہتر جاننے والاہے ۔ (شرح الشفا لعلی القاری بھامش نسیم الریاض)
مذکورہ آیات مبارکہ ، احادیث شریفہ ، فرمودات عالیہ اور اعلامِ امت ‘ ائمۂ حدیث وفقہ کی تصریحات سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضۂ اطہر میں زندہ وحیات ہیں ۔ اللہ تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل سب کو عقائد حقہ پرثابت قدم اور اسلامی تعلیمات کا پابند بنائے ۔ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment