Wednesday, 22 May 2019

مختار بن ابی عبید ثقفی کذاب ، جھوٹا تھا اور امامِ حسن کو بیچنا چاہتا تھا


مختار بن ابی عبید ثقفی کذاب ، جھوٹا تھا اور امامِ حسن کو بیچنا چاہتا تھا

جامع ترمذی حدیث نمبر حدیث نمبر : 2220 باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ
باب : قبیلہ بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک ہلاک کرنے والا ہو گا ۔

حدثنا علي بن حجر، حدثنا الفضل بن موسى، عن شريك بن عبد الله، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في ثقيف كذاب ومبير "، قال ابو عيسى: يقال الكذاب: المختار بن ابي عبيد، والمبير: الحجاج بن يوسف، ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہو گا ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ۔
(تحفة الأشراف: 7283 ، صحیح)

مختار بن ابوعبید بن مسعود ثقفی کی شہرت اس وقت ہوئی جب اس نے شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان محض اس غرض سے کیا کہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کر سکے ، اور امارت (حکومت) کے حصول کا راستہ آسان بنا سکے ، علم و فضل میں پہلے یہ بہت مشہور تھا ، آگے چل کر اس نے اپنی شیطنت کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ اس کے عقیدے اور دین کا بگاڑ لوگوں پر واضح ہو گیا ، یہ امارت اور دنیا کا طالب تھا ، بالآخر 67 ہجری میں حضرت مصعب بن زبیر رضی الله عنہما کے زمانے میں مارا گیا ۔ حجاج بن یوسف ثقفی اپنے ظلم ، قتل ، اور خون ریزی میں ضرب المثل ہے ، یہ عبدالملک بن مروان کا گورنر تھا ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی الله عنہما کا اندوہناک حادثہ اسی کے ہاتھ پیش آیا ۔ مقام واسط پر 75 ہجری میں اس کا انتقال ہوا ۔

جامع ترمذی حدیث نمبر حدیث نمبر : 3944 باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ ۔ حدثنا علي بن حجر، اخبرنا الفضل بن موسى، عن شريك، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " في ثقيف كذاب ومبير ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک تباہی مچانے والا ظالم شخص ہو گا ۔

محترم قارئین : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت سے وصآل فرما چکے تھے ۔ صرف چند نفوس قدسیہ باقی تھے منافقوں کو اسلام کے خلاف زیادہ آزادی سے کام کرنے کا موقع ملا اور مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ خانہ کعبہ کی بے حرمتی کو اپنے انتقامی جذبہ کے مقابلے میں گوارا کیا بلکہ عبد اللہ بن سباء کے بازو ثانی مختار بن عبیدہ ثقفی کی مشرکانہ تعلیم اور کفریہ دعاوی کو بھی جزو اسلام سمجھ لیا ۔ سلیمان بن صرد ہاشمیوں اور شیعان علی کو فراہم کر کے جنگ عین الوردہ میں ہزارہا مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کرا چکا تھا ۔ کہ مختار مذکور نے محمد بن حنفیہ برادر حضرت حسین اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کو دھوکہ دے کر کوفہ میں اپنی قبولیت و رسوخ کے لیے راہ نکالی اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور کربلا کے دلگداز و حسرت ناک تذکرہ کو آلہ کار بنا کر عبداللہ بن سبا نے فتنہ خفتہ کو بیدار کر کے خاندانی امتیازات اور قبائلی عصبیتوں میں جان ڈال دی ۔ پھر اس کے بعد قوت و شوکت اور کوفہ کی حکومت حاصل کر چکا تو بجائے اس کے کہ اپنے ابتدائی دعاوی و اعلانات کی موافق علویوں کو حکومت و خلافت دلاتا ۔ مسلمانوں کو کافر و مشرک بنانا شروع کر دیا ۔ اس نے نہایت چالاکی سے کوفہ والوں کو اپنی کرامتوں اور خوارق عادات طاقتوں کا یقین دلایا ۔ کوفیوں کی مدد سے حاکم کوفہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے خود حاکم کوفہ بن گیا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ جب کوفہ میں قیام پذیر تھے تو ان کی ایک کرسی تھی جس پر وہ اکثر بیٹھتے تھے ۔ وہ کرسی ان کی بھانجی جعدہ بن ام ہانی بنت ابی طالب کے قبضہ میں تھی ۔ مختار نے وہ کرسی ان سے طلب کی ۔ انہوں نے وہ کرسی تو نہ دی مگر ایک دوسری اسی قسم کی کرسی پیش کر دی ۔ مختار نے اس کرسی کو سامنے رکھ کر دو رکعات نماز پڑھی ، پھر بوسہ دیا اور اپنے تمام مریدوں کو جو اس کی فوج کے سپاہی تھے جمع کرکے کہا کہ جس طرح خدا نے تابوت سکینہ کو بنی اسرائیل کے لیے موجب نصرت و برکت بنایا تھا اسی طرح اس کرسی کو شیعان علی کے لیے نشانی قرار دیا ہے ۔ اب ہم کو ہر جگہ فتح و نصرت حاصل ہو گی ۔ لوگوں نے اس کرسی سے آنکھیں ملیں ، بوسے دئیے اور اس کے آگے سجدے کیے ۔ مختار نے ایک صندوق یعنی تابوت نہایت خوبصورت اور مرصع بنوایا ۔ اس کے اندر کرسی رکھی گئی ۔ تابوت میں چاندی کا قفل لگایا گیا ۔ جامع مسجد کوفہ میں تابوت رکھ کر اس کی حفاظت کے لیے ایک فوجی گارڈ مقرر ہوا ۔ ہر شخص جو کوفہ کی جامع مسجد میں نماز پڑھتا اسے بعد نماز اسے ضرور بوسہ دینا پڑتا ۔ اس کے بعد مختار نے نہایت چالاکی سے بتدریج اپنے الہام و وحی کا ذکر لوگوں سے کیا اور پھر بہت جلد نبوت کا مدعی بن کر اپنے نبی ہونے کا اقرار لینے لگا ۔ مختار کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے داماد حضرت مصعب بن زبیر، برادر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم نے بتاریخ 14 رمضان المبارک 67 ہجری کو شکست دے کر کوفہ میں قتل کیا ۔ (تاریخ زوال ملت اسلامیہ،چشتی)(تاریخ ابن خلدون)

ملعون مختار ثقفی سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کو غداری سے بیچنا چاہتا تھا

شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی لکھتا ہے : امام حسن سعد بن مسعود ثقفی کے گھر میں تشریف لے گئے کہ وہ حضرت کی طرف سے والی مدائن تھا ۔ نزول اجلال فرمایا ۔ اور وہ مختار کا چچا تھا ۔ پس مختار اپنے چچا کے پاس آیا اور کہا کہ چلو امام حسن کو ہم معاویہ کو دے دیں ۔ شاید معاویہ اس کے عوض میں ہم کو ولایت دے دے ۔ سعد نے کہا ۔ تیرا برا ہو ۔ یہ کیا بکتا ہے ۔ میں امام حسن اور ان کے پدر بزرگوار کی طرف سے مدائن کا حاکم ہوں ۔ ان کا حق نعمت فراموش کر دوں ۔ اور فرزند رسول خدا کو معاویہ کو دے دوں ۔ جب شیعان امام حسن نے یہ کلام سنا چاہا مختار کو قتل کر دیں ۔ اور آخر بشفاعت عم مختار اس کی تقصیر سے درگزر گیا ۔ (جلاء العیون اردو از ملا باقر مجلسی ۔ جلد 1۔ صفحہ 370)

شیعہ کا ہیرو ملعون مختار سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کو مال ، دولت ، اور امارت کے لئے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے آگے بیچنا چاہتا تھا ۔ اس لعنتی کو شیعہ ہیرو بنائی پھرتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...