خود صاحب قرآں (یعنی اللّه تعالیٰ) ہے مداحِ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
وللاٰخرة خیر لك من الاولیٰ ۔ (سورۃ الضحیٰ آیت نمبر 4)
ترجمہ : اور بے شک بعد والی ساعت آپ کے لئے پہلی ساعت سے بہتر ہے ۔
یعنی اللّه تعالیٰ دن بہ دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عزت اور وجاہت میں اضافہ فرماتا رہے گا اور فراعنہ وقت اور منکروں اور معاندوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غلبہ عطا فرماتا رہے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بہ کثرت فتوحات عطا فرماتا رہے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متبعین اور پیروکار بڑھاتا رہے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علوم اور معارف اور درجات میں ترقی عطا فرماتا رہے گا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہر بعد والا زمانہ پہلے زمانہ سے بڑھ چڑھ کر اور افضل اور اعلیٰ ہوگا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیاوی مہمات کے مقابلہ میں اخروی درجات کی ترقی میں کوشش کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زیادہ لائق ہے ۔
اے رضاؔ خود صاحب قرآں (یعنی اللّه تعالیٰ) ہے مداحِ حضور (ﷺ)
پھر تجھ سے کب ممکن ہے مِدحت رسول اللّه (ﷺ) کی
یہ سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آنے والی ساعت پہلی ساعت سے بہتر ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آخرت دنیا سے افضل ہوگی تو کس اعتبار سے فزوں تر ہوگی ؟ چند ایک وجوھات پیشِ خدمت ہیں :
(1) جنت آپ کی مملوک ہے : ان اللّه اشترٰی من المؤمنین انفسہم و اموالہم بان لھم الجنة ۔ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 111)
ترجمہ : بے شک اللّه نے مؤمنین سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے ۔
زندگی میں اللّه پاک کی عطا ، جنت بھی اللّه کریم کی عطا ہے ۔ کیسا مہربان رب ہے کہ جس نے اپنی عطا کی ہوئی نعمت کا ہی گویا اپنے بندے سے سودا فرمایا اور بدلے میں جنت کا مالک بنایا۔ اسی موقع پر امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ گویا ہوئے کہ :
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
(2) آپ شاھد ہیں : دنیا میں کفار و مشرکین اپنے ناپاک عزائم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے پریشانی کا سامان کرتے ہیں جبکہ قیامت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت تمام امتوں پر گواہ ہوگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام نبیوں اور رسولوں پر گواہ ہوں گے اور اللّه پاک آپ پر گواہ ہوگا۔ اللّه تعالیٰ نے فرمایا : وکفیٰ باللّه شھیدا ۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 28)
ترجمہ : اور اللّه کی گواہی کافی ہے ۔
(3) فنا سے بقا : دنیا کی حسنات اور لذات، آفات اور پریشانیوں سے گھری ہوئی ہیں اور قلیل اور فانی ہیں جبکہ آخرت کی نعمتیں ، پریشانیوں اور افکار سے خالی ہیں اور بہت زیادہ اور دائمی اور غیر منقطع ہیں ۔
ولسوف یعطیك ربك فترضیٰ . (سورۃ الضحٰی، 5)
ترجمہ : اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے ۔
اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں امام ابو منصور بن محمد ماتریدی سمرقندی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 333 ھجری لکھتے ہیں : دنیا میں اللّه تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر اور شرف کو بلند کرے گا اور آپ کو دشمنوں پر غلبہ اور فتح اور نصرت عطا فرمائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دین اطراف عالم میں پھیل جائے گا اور آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام نبیوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائے گا، آپ سے پہلے کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کرے گا، لوائے حمد (حمد کا جھنڈا) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاتھ میں ہوگا اور مقامِ محمود پر آپ ہی فائز ہوں گے، آپ سے پہلے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا، نہ آپ کی امت سے پہلے کوئی امت جنت میں داخل ہوسکے گی، حوضِ کوثر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حوالے ہوگا اور اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عزت اور عظمت دیکھنے والی ہوگی ۔
پھر بریلی کے تاجدار رحمۃ اللہ علیہ کی یاد آئی ، فرماتے ہیں :
عرشِ حق ہے مسند رفعت رسول اللّه (ﷺ) کی
دیکھنی ہے حشر میں عزت رسول اللّه (ﷺ) کی
لا و رب العرش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللّه (ﷺ) کی
بعض مفسرینِ کرام کے مطابق یہ سب سے امید افزا آیہ کریمہ ہے کیونکہ اس میں اللّه تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے وعدہ فرمایا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اتنا دے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم راضی ہو جائیں گے اور حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر میرا ایک امتی بھی دوزخ میں ہوا تو میں راضی نہیں ہوں گا ۔(الجامع لاحکام القرآن، جز 20، صفحہ 85،چشتی)
مقامِ محمود جس دن شان یہ ہوگی کہ : لمن الملك الیوم، للّه الواحد القھار ۔ (المؤمن: 16)
ترجمہ : آج کسی کی بادشاہی ہے ؟ (خود ہی مالک ارشاد فرمائے گا) اللّه کی بادشاہی ہے جو واحد قہار ہے ۔
اس دن جس دن کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں ہوگی اور لوگ نفسی نفسی کہیں گے اور تمام انبیاء (علیھم السلام) کے پاس جائیں گے اور سب شفاعت سے گریز کریں گے تو سب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہِ عالی پناہ میں حاضر ہوں گے : حضرت ابن عمر رضی اللّه عنہما بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ دو زانو بیٹھے ہوں گے ، ہر امت اپنے اپنے نبی کے پاس جائے گی، وہ کہیں گے : فلاں ! شفاعت کیجیئے حتیٰ کہ یہ (طلب) شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آ کر ختم ہوگی ، پس یہی وہ دن ہے جب اللّه تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4718،چشتی)
کہیں گے اور نبی (علیھم السلام) "اذھبو الیٰ غیری"
میرے حضور (ﷺ) کے لب پر "انا لھا" ہوگا
ورفعنالك ذکرك ۔ (سورہ الم نشرح آیت نمبر 4)
ترجمہ : اور ہم نے آپ (ﷺ) کی خاطر آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ۔
اللّه تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کی بلندی اپنے ذمہ کرم پر رکھی ، مخلوق کو اس کا مکلف نہیں کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر کرے کیونکہ اگر مخلوق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر بلند کرتی تو مخلوق کی ایک حد ہے اور وہ اپنی حد تک آپ کا ذکر بلند کرتی ، اللّه تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کو خود بلند کیا اور نہ اللّه تعالیٰ کی کوئی حد ہے اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کی بلندی کی کوئی حد ہوگی ، اللّه عزوجل لا محدود ہے تو آپ کے ذکر کی بلندی بھی لا محدود ہوگی ، نیز مخلوق کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی ہے ، اللّه تعالیٰ ازلی ابدی ہے ، سو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کی بلندی بھی ازلی ابدی ہوگی ۔
اللّه پاک فرماتا ہے : تلك الرسل فضلنا بعضھم علی بعض منھم من کلم اللّه و رفع بعضھم درجت ۔ (پارہ نمبر 3)
ترجمہ : یہ رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض پر فضیلت دی ہے ، ان میں سے بعض سے اللّه نے کلام فرمایا اور ان میں سے بعض کو درجات میں بلندی عطا فرمائی ۔
اللّه تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ کتنی درجات کی بلندی دی کیونکہ عالم عدد میں کوئی ایسا عدد نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درجات کی تعین کر سکے ، سو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درجات غیر متناہی ہیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ شاید اسی مقام پر گویا ہوئے :
فان فضل رسول اللّه لیس له
حد فیعرب عنه ناطق بفم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضل و کمال کی کوئی حد ہے ہی نہیں،
جس کو کوئی بتانے والا بتا سکے ۔
تاجدار گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نعت شریف لکھنے کے بعد اختتام اسی پر فرمایا :
سبحان اللّه ما اجملك
ما احسنك ما کملك
اب چونکہ دیدار کی لذت حاصل ہوچکی تھی حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تو سبحان اللّه کو بطورِ حیرت استعمال فرمایا کہ بنانے والے نے کیسا اجمل ، کیسا احسن، کیسا اکمل بنایا کہ گو میں نے بیان تو کیا نعت میں لیکن بیان کر نہ سکا اور اس بات کی تصدیق آپ کی نعت کا آخری شعر کرتا ہے کہ :
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
درخت قلم اور سمندر روشنائی بنیں تو پھر خدا لم یزل کی نعمت عظمیٰ کا بیان ایسا ہے کہ مکمل نہ ہو۔ یہ ذکر جاری تھا ، جاری ہے اور جاری رہے گا ، ان شاء اللّه ۔ اللہ عزّ و جل ہمیں ہمت دے کہ ہم ، اپنی بشری استعداد کے مطابق، کما حقه اس "فرض" کو ادا کر سکیں ۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment