Wednesday, 21 June 2023

فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ پنجم

فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ پنجم

واقعہ اعرابی اور وسیلہ کا شرعی مفہوم و جواز قرآن و حدیث کی روسشنی میں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں فریاد ،کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء)

معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جائز ہے ۔

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی ۔ (۔تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265 )

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے آستانہ پر آجائیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کا وسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اور نام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہو جائے وہ وسیلہ ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ، اجماعِ امت اور دلائل عقلیہ سے ہے ۔ اوپر دی گئی آیہ کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر مجرم کےلیے ہر وقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اور اجازت عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورة المائدہ ، 35)
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کا وسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اور اس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔ معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۔ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔

معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات اعمال صالحہ طہارت کا کافی وسیلہ نہیں ۔ بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ۔ (سورة البقرہ، 89)

مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہلِ کتاب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیا بلکہ تائید کی اور فرمایا کہ '' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگا کرتے تھے اب ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے ۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۔ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔

بہت سے مفسرین کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرنا تھا ۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انبیائے کرام علیہم السلام کابھی وسیلہ ہیں ۔

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۔ (سورة البقرہ، 144) ۔
ترجمہ : ہم آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔

معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لیے ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ کا محتاج ہے تو دوسروں کا کیا پوچھنا ہے ۔

مسندامام احمدبن حنبل میں حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چالیس (40) ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس (40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں سے عذاب دور ہو گا ۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے وسیلہ سے بارش فتح و نصرت ملتی ہے اور بلا دفع ہوتی ہے ۔ (مشکوٰة باب ذکرِ یمن و شام)

دارمی شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں بارش بند ہوگئی اور قحط پڑ گیا لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاآپ نے فرمایا کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چھت کھول دو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تولوگوں نے ایسا ہی کیا تو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگا اونٹ موٹے ہو گئے گویا چربی سے بھر گئے ۔ (مشکوٰة ،باب الکرامات)

مشکوٰ شریف باب المعراج میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے تو آپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا ؟ فرمایا ہر دن پچاس (50) نمازوں کافرمایا ۔ حضور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں اتنی طاقت نہیں میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں ۔ اپنی امت کےلیے رب سے رعایت مانگیے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اور رحمت ملی کہ پچاس (50) نمازوں کی صرف پانچ باقی رہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کاوسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے ۔

مسلم و بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا '' انما اناقاسم واللہ معطی'' (مشکوٰة ،کتاب العلم) ۔ ترجمہ : ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔

معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تقسیم فرمانے والے ہیں اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتا ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خالق کی ہر نعمت کاوسیلہ ہیں ۔

شرح السنہ میں ہےکہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے ایک اونٹ نے جو کھیت میں کام کر رہا تھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا اور منھ اپنا زانوئے مبارک پر رکھ کر فریادی ہوا کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے مالک کو بلا کر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتا ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم دیتے ہو ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ معلوم ہواکہ بے عقل جانور بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رفع حاجات کےلیے وسیلہ جانتے ہیں ۔ جو انسان ہو کر ان کے وسیلہ کا منکر ہو وہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔ کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کودودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)

معلوم ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کا فائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان تو ان کابندۂ بے دام ہے ۔

اشیاء کا وسیلہ

مسلم شریف میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاجُبہّ شریف تھا ۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کونبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں کہ مدینہ میں جو بیمار ہو جاتا ہے اسے دھو کر پلاتے ہیں اس سے شفا ہو جاتی ہے ۔ (مشکوٰة، کتاب اللباس)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن شریف سے مس کیے ہوئے کو شفا کا وسیلہ سمجھ کر اسے دھو کر پیتے تھے ۔

بخاری شریف کتاب المساجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کوحج کو جاتے ہوئے ہراس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے حج کے موقع پر نمازپڑھی تھی ۔ یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں معلوم ہوا کہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما کو دے کر کہا تھا کی یہ چادر میرے بعد اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لے دعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔

یہ اولیاء اللہ سے وسیلہ کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔

بزرگانِ دین علیہم الرّحمہ کے اقوال

صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک کے تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مخلوق کیلئے وسیلہ ٔ عظمیٰ ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ سے اولیاء اللہ اور علماء بھی وسیلہ ہیں ۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ قصیدہ نعمان میں فرماتے ہیں : ⬇

اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

ترجمہ : یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عطا کا امیدوار ہوں اور مخلوق میں ابوحنیفہ کےلیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا کوئی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا وسیلہ مانتے ہیں ۔

غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ اپنے قصیدہ ٔ غوثیہ میں اپنے خداد اد اختیارات بیان فرما کر ارشاد فرماتے ہیں : ⬇

وکل ولی لہُ قدم وانی
علیٰ قدم النبی بدرالکمال

ترجمہ : میں جو دنیا پر راج کر رہا ہوں اور میرے قبضہ میں زمین و زمان ، مکین و مکان ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پر ہوتا ہے میں نبیوں کے چاند اور رسولوں کے سورج حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں پر ہوں ۔

معلوم ہوا کہ حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسی اہم خلقت ہیں کہ انہیں سارے مراتب عالیہ اسی سرکار سے میسر ہوئے ۔

امام بوصیری رضی اللہ عنہ قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں اور یہ مقبول بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہو چکا ہے : ⬇

ومن تکن برسول اللہ نصرتہ
ان تلقہ الاسدفی احامھابجم

ترجمہ : جس کی مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمادیں وہ شیروں سے بھی بچ جاتا ہے ۔

معلوم ہوا کہ ہربزرگ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوہرمصیبت کے دفع کا وسیلہ مانتے ہیں ۔

مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ اپنی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں : ⬇

اے بسادرگوخفتہ خاک دار
بہ ز صداحیاء بنفع وابتشار

سایہ اوبورخاکش سایہ مند
صدہزاراں زندہ درسایہ دے اند

ترجمہ : بہت سے قبروں میں سونے والے بندے ہزاروں زندوں سے زیادہ نفع پہونچاتے ہیں ان کی قبر کی خاک بھی لوگوں پر سایہ فگن ہے لاکھوں زندے ان قبروالوں کے سایہ میں ہیں ۔ معلوم ہواکہ مولانا علیہ الرحمہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کو بعد وفات زندوں کا وسیلہ مانتے ہیں ۔

عقلی دلائل اور وسیلہ

عقل کابھی تقاضہ یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے حسب ذیل دلائل سے ۔

رب تعالیٰ غنی اور ہم سب فقیر ہیں '' جیسا کہ ارشاد تبارک و تعالیٰ ہے ''اللہ غنی وّ انتم الفقراء ُ '' اور وہ غنی ہمیں بغیر وسیلہ کے کوئی نعمت نہیں دیتا ۔ ماں باپ کے وسیلہ سے جسم دیتا ہے ۔ استاد کے ذریعہ علم ، پیر کے ذریعہ شکل ، ملک الموت کے ذریعہ موت ، غرضیکہ کوئی نعمت بغیر وسیلہ نہیں دیتا تو ہم فقیر و محتاج ہو کر بغیر وسیلہ اس سے کیسے لے سکتے ہیں ۔ اگر اس کو سب کچھ خود کرنا ہوتا تو وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیوں بھیجتا ۔ بلکہ خود ہی سب کو ہدایت دے دیتا ۔

دنیا ادنیٰ اور تھوڑی ہے آخرت اعلیٰ اورزیادہ ہے ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''قل متاع الدنیا قلیل ''اورفرماتاہے ''والاٰ خرة خیروّ ابقیٰ '' جب دنیا جیسی حقیر بغیر وسیلہ نہیں ملتی تو آخرت جو دنیا سے اعلیٰ ہے بغیر وسیلہ کیوں کر مل سکتی ہے ۔ اس لیے قرآن و ایمان دینے کےلیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔ ہمارے اعمال کی مقبولیت مشکوک ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کی مقبولیت یقینی ہے ۔ جب مشکوک اعمال وسیلہ بن سکتے ہیں تو یقینی مقبول بندے بدرجۂ اولیٰ وسیلہ ہیں ۔

اعمال صالحہ وسیلہ ہیں رب سے ملنے کا اور اعمال کا وسیلہ انبیاء ، اولیاء ، علما ء تو یہ حضرات وسیلہ کے وسیلہ ہوئے اور وسیلہ کا بھی وسیلہ ہے لہٰذا یہ حضرات بھی وسیلہ ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے تین سوسال تک خانۂ کعبہ میں بت رکھےگے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستِ اقدس سے کعبہ پاک صاف کیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ کعبہ معظمہ جو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے وہ بھی بغیر وسیلہ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاک نہ ہوسکا تو تمہارے دل بغیر اس ذاتِ کریم کے وسیلہ سے ہرگز پاک نہیں ہو سکتے ۔ اللہ عزوجل فرماتاہے : ''وکونوامع الصادقین'' سچوں کے ساتھ رہو ۔ اور سارے سچے اولیاء علماء وسیلہ کے قائل رہے ۔ لہٰذا وسیلہ کا ماننا ہی سچا راستہ ہے ۔ شیطان نے ہزاروں برس بغیر وسیلہ والی عبادت کیں مگروہ وسیلہ والا ایک سجدہ نہ کیا تو مردود ہو گیا ملائکہ نے وسیلہ والا سجدہ کر کے محبوبیت پائی ۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ والی عبادت تھوڑی بھی ہو تو مقبول بارگاہِ الٰہی ہے ۔

قبرمیں مردہ سے تین سوال ہوتے ہیں پہلا سوال توحید کا اور دوسرا دین کا ۔ مگر ان دونوں سوالوں کے جواب درست دینے پربھی بندہ کامیاب نہیں ہوتا اور جنت کی کھڑکی نہیں کھلتی ۔ سوال تیسرا یہ ہوتا ہے'' ماکنت تقول فی حق ہذاالرجل '' تو اس محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیا کہتا تھا ۔ دیکھ یہ تیرے سامنے جلوہ گرہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرماں بردار بندہ جواب دیتا ہے یہ میرے رسول میرے نبی ہیں اور میں ان کا امتی ہوں ۔

مسجد نبوی شریف میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار ہے ۔ کیوں ؟ کیا دوسری مسجدیں اللہ کا گھر نہیں ہیں ؟ صرف اسی لیے یہ ثواب بڑھا کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آرام فرمارہے ہیں اسی طرح بیت المقدس میں کئی ہزار پیغمبر علیہم السلام جلوہ گرہیں ۔ کعبہ وہاں بھی ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ اس لئے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام پیدائش ہے اور وہاں بیت اللہ چاہ ِ زم زم اورمقام ِ ابراہیم ہے ۔ ان کے وسیلہ سے ثواب زیادہ ہوگا ۔ وسیلہ والی عبادت کادرجہ زیادہ ہے۔ معلوم ہواکہ وسیلۂ انبیاء واولیاء اعلیٰ چیزہے ۔

منکرین وسیلہ کی سوچ کا جواب : وسیلہ کے معانی جو کہ لغت میں بیان کیے گۓ ہیں وہ یہ ہیں ۔ " ذریعہ ، واسطہ ، شفاعت ، دستگیری ، حمایت"

یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کی قران میں وسیلہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔ حالنکہ پورے قران میں نیک اعمال کیا ہیں تفسیل سے بیان کیے گۓ ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ نیک اعمال ہی وسیلہ ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر تلاش کیا کرنا ہے۔ اسی ایت میں جہاد بھی کرنے کو کہا گیا ہے ۔ اگر صرف وسیلہ کو نیک عمل ہی سمجھا جاۓ تو جہاد بھی تو نیک عمل ہے تو ایک ہی ایت میں یہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ۔ علیحدہ آیت میں بھی تو جہاد کا ذکر ہو سکتا تھا ۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وسیلہ نیک عمل کرنے میں جو چیز مدد فراہم کرے وہ وسیلہ ہے اور جب نیک عمل ہو جاۓ گا تو اللہ کا قرب ملے گا ۔

یہ ایسا ہی ہے کہ آپ لاہور سے ملتان میلاد شریف کی محفل کےلیے جا رہے ہوں تو اس میں سواری وسیلہ ہے اور آب کا ارادہ اور سفر نیک عمل ۔ اس میں سواری اور پیٹرول نیک عمل نہیں ہیں بلکہ ذریعہ یا وسیلہ ہیں ۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام اور صالحین علیہم الرحمہ جو کہ نیک عمل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ۔ یہ سب وسیلہ ہیں - نیچے دی گی مثال میں نسبت بھی ایک بہت بڑا وسیلہ ہے کا ثبوت بخاری شریف سے پیش ہے : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔ کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)

معلوم ہوا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان تو ان کابندۂ بے دام ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔

یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔

اب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک کے زمانہ کو سوچ پڑھیں :

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں فرماتے ہیں : ⬇ ( 80ھ تا 150ھ تابعین)

اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

ترجمہ : یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضور کی عطا کا امیدوار ہوں اور مخلوق میں ابوحنیفہ کےلیے آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپناوسیلہ مانتے ہیں ۔

پہلی مثال سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے اور مثال نمبر دو سے نیک لوگوں کو وسیلہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے ۔

استغاثہ مافوق الاسباب کے فریب کا جواب

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔ اس کاثبوت قرآنی آیات ‘ احادیث نبویہ’ اقوال بزرگاں ، اجماع امت اور دلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہرمجرم کےلیے ہر وقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں : ⬇

(1) اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب ۔
(2) اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب ۔

اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ ربانی ہے :وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي.ترجمہ : اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو ۔ (سورہ المائده، 5 : 2)

ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے ۔

اس اِعتراض کا علمی محاکمہ : پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے ۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں ۔

یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں ۔

دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کہہ کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ تیرے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے ۔

تیسرا نکتہ : تفہیمِ مسائل، رفعِ اِلتباس اور بعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کےلیے تقسیمات کی جاتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے ؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ فی الواقع ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے ۔

صحیح اِسلامی عقیدہ

’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی کفالت کے لئے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے ۔ ہم دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے ۔

چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ’’مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب‘‘ اور ’’حقیقت و مجاز‘‘ میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا ۔ مافوق الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے ۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں ۔ جبکہ مافوق الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے ۔

جب انبیاء، علیہم السّلام اولیاء، صلحاء علیہم الرّحمہ یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی ۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجازاً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کےلیے خاص ہے ۔

حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہے

نفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز ہے، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا ؟۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا ؟ ۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں ؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَo ۔ ترجمہ : اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو ۔ (سورہ الانبياء، 21 : 112)

دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا ۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے ۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی ۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے ۔ اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا کیونکر درست ہوگیا ؟

فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور مخلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں ، ۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا ؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا ۔

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جواز

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے ، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔

جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟

حضرت جبرئیل علیہ السلام جب ﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا : اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo
ترجمہ : (جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔ (سورہ مريم، 19 : 19)

مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے ۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے ﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا ۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور ﷲ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے ۔ بندے کا غیرﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ ﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی ؟
جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں ۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے ۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور ﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے ۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔
ترجمہ : بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 49)

اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے : ⬇

1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا
2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج
3۔ سفید داغ (برص) کا علاج
4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)
5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا

یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے ، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے ۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے ۔

حقیقی کارساز اللہ ربّ العزت ہی ہے

مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے ۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے ۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے ۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے ۔

کیا یہ معجزہ نہیں ؟

اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت ﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔
چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ ﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو ﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا ، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ ﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا ۔

پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں ۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ ﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیرﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام علیہم السّلام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے ۔

ﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ ؟

سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي ۔
ترجمہ : اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے ۔ (سورہ المائده، 5 : 110)
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۔
ترجمہ : پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی ۔ (المائده، 5 : 110) ۔

رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے : یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے‘‘۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیرﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی ۔ ﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے ۔ اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کےلیے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جاۓ گا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...