Wednesday 28 June 2023

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیناحصّہ اوّل

0 comments
غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیناحصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : اس مسٸلہ کے بارے میں علما کے دو موقف ہیں جواز اور عدمِ جواز فقیر نے کچھ عرصہ قبل اس پر لکھا تھا ۔ اب احباب کے حکم پر دوبارہ مضمون کو ترتیب دے کر دونوں موقف پیش کر دیے تاکہ فیصلہ کرنا آسان ہو ۔ مشرکین کو قربانی کا گوشت دینا نا جائز ہونے کے سلسلے میں "شعب الایمان" اور "کنز العمال" میں ایک حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکین کو قربانی کا گوشت دینے سے منع فرمایا اس کی عبارت یہ ہے : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ، نُطْعِمُهُمْ مِنْ نُسُكِنَا، قَالَ : لَا تُطْعِمُوا الْمُشْرِكِينَ شَيْئًا مِنَ النُّسُكِ ۔ سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَطَاءٍ ، وَأَبُوهُ ضُعَفَاءُ ، غَيْرَ أَنَّهُمْ غَيْرُ مُتَّهَمِينَ بِالْوَضْعِ ۔ امام بیہقی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "شعب الایمان" میں اس حدیث کو نقل کر کے لکھتے ہیں اس کی سند میں تین راوی ضعیف ہیں ۔ لہٰذا یہ حدیث ثبوت کے اعتبار سے "ظنی" ثابت ہوئی ، اور چونکہ عبارت کے مفہوم میں کوئی تاویل نہیں لہٰذا دلالت کے اعتبار سے "قطعی" ثابت ہوئی ، یعنی یہ حدیث "ظنی الثبوت" اور "قطعی الدلالة" ہے اور اس نوعیت کی حدیث سے "واجب اور "مکروہ تحریمی" ثابت ہوتی ہے ۔ لہٰذا مطلق طور پر مشرکین کو قربانی کا گوشت دینا مکروہ تحریمی ثابت ہونے کےلیے مذکورہ حدیث کافی تھی ۔ لیکن علماء کرام سے یہ بات مخفی نہیں کہ "ذمی کافر و مشرک" کو قربانی کا گوشت دینا جائز ہے ۔ پتہ چلا مذکورہ حدیث اپنے معنی میں مطلق نہیں بلکہ مقید ہے ، کیونکہ اس کے مقابلے میں قرآن کی آیت موجود ہے : لَّیۡسَ عَلَیۡكَ هُدَىٰهُمۡ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ یَهۡدِی مَن یَشَاۤءُۗ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِنۡ خَیۡرࣲ فَلِأَنفُسِكُمۡۚ ۔
ترجمہ : انہیں راہ دینا تمہارے ذمہ لازم نہیں ، ہاں اللہ راہ دیتا ہے ، اور تم جو اچھی چیز دو تو تمہارا ہی بھلا ہے ۔ (یعنی ان کفار کو صدقۂ نافلہ دو ۔ (سُورَةُ البَقَرَةِ آیت نمبر ٢٧٢)

جیساکہ "البانیہ شرح الہدایہ" میں ذمی کو صدقۂ نافلہ دینا جائز ہونے پر اسی آیت کریمہ کو دلیل بنایا گیا ہے ۔ اور یہاں پر "ذمی" کا ذکر قیدِ احترازی نہیں بلکہ قید اتفاقی ہے کیونکہ "مستامن" کو بھی صدقۂ نافلہ دینا جائز ہے ۔ جیساکہ عالمگیری میں لکھا ہے : وَأَمَّا الْحَرْبِيُّ الْمُسْتَأْمَنُ فَلَا يَجُوزُ دَفْعُ الزَّكَاةِ وَالصَّدَقَةِ الْوَاجِبَةِ إلَيْهِ بِالْإِجْمَاعِ وَيَجُوزُ صَرْفُ التَّطَوُّعِ إلَيْهِ كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاج ۔ (فتاویٰ عالمگیری ١٨٨/١،چشتی)

اور قربانی کا گوشت تقسیم کرنا صدقۂ نافلہ ہی ہے جیساکہ شامی میں لکھا ہوا ہے : وَالتَّصَدُّقِ بِاللَّحْمِ تَطَوُّعٌ ۔ (الدر المختار و رد المحتار، ٣٢٨/٦)

"شعب الایمان" اور "کنز العمال" کی مذکورہ حدیث کے مقابلے میں صرف یہی آیت نہیں بلکہ ایک اور آیت موجود ہے : لَّا یَنۡهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِینَ لَمۡ یُقَـٰتِلُوكُمۡ فِی ٱلدِّینِ وَلَمۡ یُخۡرِجُوكُم مِّن دِیَـٰرِكُمۡ أَن تَبَرُّوهُمۡ وَتُقۡسِطُوۤا۟ إِلَیۡهِمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ یُحِبُّ ٱلۡمُقۡسِطِینَ ۔
ترجمہ : اللّٰہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاو کرو ۔ (سُورَةُ المُمۡتَحنَةِ آیت نمبر ٨)

یعنی وہ کفار و مشرکین جو مسلمانوں سے لڑتے نہیں ان کے ساتھ رواداری اور بہتر سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ منع نہیں فرماتا ۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں بھی وضاحت کے ساتھ یہ بات لکھی ہوئی ہے : إذَا كَانَ حَرْبِيًّا فِي دَارِ الْحَرْبِ وَكَانَ الْحَالُ حَالَ صُلْحٍ وَمُسَالَمَةٍ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَصِلَهُ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة ۔
ترجمہ : دار الحرب میں حربی کافر کا حال جب مصالحت اور مسالمت ہو تو ان سے صلہ رحم کے طور پر کچھ دینے میں حرج نہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری ٣٤٧/٥،چشتی)

اور قربانی کا گوشت دینا جب صدقۂ نافلہ ہے تو اس سے بھی کوئی حرج نہیں ۔

پتہ چلا مذکورہ حدیث صرف ان مشرکین کے متعلق ہے جو مسلمانوں سے جھگڑتے اور لڑتے ہیں اور یہ بھی قران ہی میں موجود ہے سورۂ ممتحنہ کی مذکورہ آیت کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا : إِنَّمَا یَنۡهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِینَ قَـٰتَلُوكُمۡ فِی ٱلدِّین ۔
ترجمہ : یقیناً اللہ تعالیٰ تمہیں ان کفار و مشرکین کے ساتھ موالات قائم کرنے سے روکتا ہے جو دین کے معاملے تم سے لڑتے ہیں ۔

مذکورہ بالا حدیث کی تمام شقیں خود قرآن میں موجود ہے اس لیے فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے اس حدیث کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو فتاویٰ رضویہ میں نقل کیا ہے ۔ ورنہ مطلق طور پر کفار کو قربانی کا گوشت دینا ناجائز ثابت کرنے کےلیے یہی حدیث سب سے زیادہ موزون تھی ، اس کے باوجود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے فتویٰ میں اس کو نقل نہیں کیا ۔

واضح رہے کہ قربانی میں واجب اراقہ دم (خون بہانا) ہے ، جو قربانی کا جانور ذبح کرنے سے ادا ہوجا تا ہے ، گوشت تقسیم کرنا واجب نہیں ، بلکہ قربانی کرنے والا خود بھی استعمال کرسکتا ہے اور دوسرے کو بھی ہدیہ کر سکتا ہے ، اور ہدیہ غیر مسلم کو بھی دیا جا سکتا ہے ، جب کہ صدقات واجبہ کا مصرف مسلمان فقیر ہے ، لہٰذا غیر مسلم کو نہیں دے سکتے ، یہی وجہ ہے کہ قربانی کی نذر ماننے کی صورت میں قربانی کا گوشت واجب التصدق ہو جاتا ہے اور اسے امیر یا غیر مسلم کو نہیں دے سکتے ۔

لما في التنوير مع الدر : (وركنها) ذبح (ما يجوز ذبحه) من النعم لا غير .... (فتجب) التضحية: أي إراقة الدم من النعم عملا لا اعتقادا ۔ (كتاب الأضحية: ۵۲۱/۹: دار المعرفة بيروت)

وفي رد المحتار : (قوله:أي إراقة الدم) قال في الجوهرة: والدليل على أنها الإراقة لو تصدق بين الحيوان لم يجز، والتصدق بلحمها بعد الذبح مستحب وليس بواجب.١ھ ۔ (رد المحتار كتاب الأضحية : ٩/٥٢١: دار المعرفة بيروت)
وفيه : (قوله: ويأكل من لحم الأضحية إلخ) هذا في الأضحيه الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر، وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك، ولو أكل فعليه قيمة ما أكل زيلعي.١ھ ۔ رد المحتار كتاب الأضحية : ٩/۵۴۱: دار المعرفة، بيروت لبنان،چشتی)

وفي اعلاء السنن : وللمضحي أن يهب كل ذالك أو يتصدق أو يهدية لغني أو فقير أو كافر ۔ (كتاب الأضحية: باب بيع جلد الأضحية: ٧/٣٥٨: إدارة القرأن والعلوم الإسلامية كراتشي)

قربانی کا گوشت کچا یا پکا ہوا جس طرح سے غریبوں کے علاوه امیروں کو دینا جائز ہے اسی طرح سے قربانی کا گوشت کچا یا پکا ہوا (ہندو یا غیر مسلم) کو دینا جائز ہے ۔ کیونکہ گوشت کا صدقہ کرنا واجب نہیں بلکہ ( ہدیه ، تحفہ ) ہے یا نفلی صدقہ ہے اور یہ دونوں ( کافر و غیرمسلم ) کو دینا درست اور صحیح ہے ۔ ولمافی فتاوی عالمگیریه : ویهب منها ( ای من الاضحیه ) ماشاء للغنی والفقیر والمسلم والذمی ۔

قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے : ⬇

قال الله تعالى : وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ۔ (سورة الحج: ٢٨)

وللمضحي أن یهب کل ذٰلک أو یتصدق به أو یهدیه لغني أو فقیر مسلم أو کافر ۔ (إعلاء السنن/ باب بیع جلد الأضحیة 17/ 262 إدارة القرآن کراچی)

ویهب منها ما شاء للغني والفقیر والمسلم والذمي ۔ (الفتاویٰ الهندیة/ الباب الخامس في بیان محل إقامة الواجب 5/ 300 زکریا)

یجوز أن یطعم من الأضحیة کافرًا ۔ (إعلاء السنن 7/ 288 کراچی)

ویطعم الغني والفقیر، ویهب منها ما شاء لغني ولفقیر ولمسلم وذمي، ولو تصدق بالکل جاز. ولو حبس الکل لنفسه جاز ۔ (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار/ کتاب الأضحیة 4/ 166 کراچی،چشتی)

قربانی کا گوشت صدقاتِ نافلہ سے ہے کیوں کہ وجوب اور اصل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہا دینے سے ہی ادا ہو چکی ہے ۔ صدقات واجبہ یا نافلہ کا کافرِ حربی ، ذمی یا مستامن پر خرچ کرنے کے سلسلے میں علما کے نزدیک یہاں کچھ تفصیل ہے ، پہلے یہاں ان تفصیلات کا ذکر کیا جاتا ہے : ⬇

صاحب الدر علاء الدین حصکفی حنفی علیہ الرحمہ (۱۰۸۸ھ) نے اپنا مذہب اس طرح بیان کیا ہے : (وَجَازَ) دَفْعُ (غَيْرِهَا وَغَيْرِ الْعُشْرِ) وَالْخَرَاجِ (إلَيْهِ) أَيْ الذِّمِّيِّ وَلَوْ وَاجِبًا كَنَذْرٍ وَكَفَّارَةٍ وَفِطْرَةٍ خِلَافًا لِلثَّانِي وَبِقَوْلِهِ يُفْتِي حَاوِي الْقُدْسِيِّ وَأَمَّا الْحَرْبِيُّ وَلَوْ مُسْتَأْمَنًا فَجَمِيعُ الصَّدَقَاتِ لَا تَجُوزُ لَهُ اتِّفَاقًا بَحْرٌ عَنْ الْغَايَةِ وَغَيْرِهَا، لَكِنْ جَزَمَ الزَّيْلَعِيُّ بِجَوَازِ التَّطَوُّعِ لَهُ ۔ (الدر المختار، ۲/۳۸۵)

زکات ، عشر اور خراج کے علاوہ دوسرے صدقات واجبہ جیسے نذر ، کفارہ ، فطرہ وغیرہ اور صدقاتِ نافلہ ذمی کو دینا جائز ہے ۔ لیکن امام ابو یوسف کا مذہب امام ابو حنیفہ اور امام محمد سے الگ ہےاور امام ابو یوسف کے مذہب کو حاوی القدسی نے مفتیٰ بہ قرار دیا ہے ۔ اگرچہ اکثر متون میں اس کے بر خلاف قول کو مفتی بہ قرار دیا گیا ہے ۔

کافر حربی کو اگرچہ مستامن ہو کسی بھی طرح کے صدقات خواہ نافلہ ہو کہ واجبہ ، دینا باتفاق جائز نہیں ہے ۔ لیکن امام زیلعی نے مستامن کو صدقات نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے ۔

علامہ شمس الدين شربينی شافعی علیہ الرحمہ (۹۷۷ھ) کا قول بھی اسی سے قریب ہے ، آپ لکھتے ہیں : قَضِيَّةُ إطْلَاقِهِ الْكَافِرَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْحَرْبِيِّ وَغَيْرِهِ، وَهُوَ مَا فِي الْبَيَانِ عَنْ الصَّيْمَرِيِّ. وَالْأَوْجَهُ مَا قَالَهُ الْأَذْرَعِيُّ مِنْ أَنَّ هَذَا فِيمَنْ لَهُ عَهْدٌ أَوْ ذِمَّةٌ، أَوْ قَرَابَةٌ، أَوْ يُرْجَى إسْلَامُهُ، أَوْ كَانَ بِأَيْدِينَا بِأَسْرٍ وَنَحْوِهِ، فَإِنْ كَانَ حَرْبِيًّا لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ مِمَّا ذُكِرَ فَلَا ۔ (مغنی المحتاج الی معرفۃ معانی الفاظ المنهاج، 4/ 195،چشتی)

صاحب کتاب کا ہر قسم کے کافر کو صدقہ نہ دینے سے منع کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کے نزدیک کافر حربی اور غیر حربی میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اور بیان میں بھی صمیری کے حوالے سے یہی منقول ہے لیکن زیادہ راجح وہی ہے جو امام اذرعی نے کہا کہ صدقہ سے مطلق منع ان کا فروں کے لیے ہے جن سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہ ہو ، نہ ان کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہو اور نہ کوئی قرابت یا رشتہ داری ہو ، نہ جن کے اسلام لانے کی امید ہو ، نہ وہ ہمارے قید میں ہوں ۔ یعنی وہ خالص حربی ہو ، مذکورہ بالا اوصاف میں سے کوئی وصف اس کے اندر نہ ہو تو انھیں کچھ نہیں دیا جائے گا نہ صدقہ واجبہ ، نہ نافلہ ۔

انقاق فی سبیل اللہ چوں کہ ثواب کا کام ہے اور کافرِ حربی پر خرچ کرنے سے ثواب نہیں ملے گا ،اس لیے ان فقہا نے ذمی کےلیے تو جائز قرار دیا ہے لیکن حربی کافر پر مال کے خرچ کرنے کو بے مقصد ہونے کی وجہ سے خلافِ مستحب قرار دیا ہے ، نہ کہ حرام ، اسی بے مقصد اور خلافِ مستحب عمل کو بعض لوگوں نے ناجائز ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔ لیکن متقدمین فقہا علیہم الرحمہ کی ایک جماعت نے تالیفِ قلب ، صلہ رحمی اور دعوتِ حق کے مدِ نظر کافر کو مطلقاً صدقاتِ نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے ، اس میں انھوں نے حربی اور ذمی کا فرق نہیں کیا ہے ۔ مدون و ترجمان فقہ حنفی امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمہ (۱۸۹ھ) لکھتے ہیں : لَا بَأْسَ بِأَنْ يَصِلَ الْمُسْلِمُ الْمُشْرِكَ قَرِيبًا كَانَ أَوْ بَعِيدًا ، مُحَارِبًا كَانَ أَوْ ذِمِّيًّا لِحَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ : صَلَّيْت الصُّبْحَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْت مَسَّ كَفٍّ بَيْنَ كَتِفِي ، فَالْتَفَتّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : هَلْ أَنْتَ وَاهِبٌ لِي ابْنَةَ أُمِّ قِرْفَةَ ؟ قُلْت : نَعَمْ . فَوَهَبْتهَا لَهُ. فَبَعَثَ بِهَا إلَى خَالِهِ حَزَنَ بْنِ أَبِي وَهْبٍ ، وَهُوَ مُشْرِكٌ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ . وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ إلَى مَكَّةَ حِينَ قَحَطُوا ، وَأَمَرَ بِدَفْعِ ذَلِكَ إلَى أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ لِيُفَرِّقَا عَلَى فُقَرَاءِ أَهْلِ مَكَّةَ . فَقَبِلَ ذَلِكَ أَبُو سُفْيَانَ ، وَأَبَى صَفْوَانُ وَقَالَ : مَا يُرِيدُ مُحَمَّدٌ بِهَذَا إلَّا أَنْ يَخْدَعَ شُبَّانَنَا وَلِأَنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحْمُودٌ عِنْدَ كُلِّ عَاقِلٍ وَفِي كُلِّ دِينٍ ، وَالْإِهْدَاءَ إلَى الْغَيْرِ مِنْ مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ . وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { بُعِثْت لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ فَعَرَفْنَا أَنَّ ذَلِكَ حَسَنٌ فِي حَقِّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ جَمِيعًا . (السیر الكبیر، باب صلۃ المشرك، 1/ 96،چشتی)
ترجمہ : امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مسلمان مشرک کے ساتھ صلہ رحمی کرے چاہے و ہ مشرک قریب کا رہنے والا ہو یا دور کا ، حربی ہو یا کہ ذمی ہو جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی ، پھر مجھے اپنے کاندھے پر کسی ہتھیلی کے مس ہونے کا احساس ہوا تو میں پلٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم مجھے ام قرفہ کی بیٹی کےلیے کچھ ہدیہ دوگے میں نے عرض کیا جی ہاں ، اس کے بعد میں نے آپ کو اس کےلیے ہدیہ دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہدیہ لے کر اس کےمامو حزن بن ابی وہب کے پاس بھیجا جو کہ اس وقت مشرک تھا اور ام قرفہ کی بیٹی بھی اس وقت تک مشرک ہی تھی ۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ میں قحط سالی کے وقت پانچ سو دینار بھیجا اور حکم دیا کہ وہ دینار ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کو دے دیا جائے تاکہ وہ دونوں مکہ کے فقراء کے درمیان اس دینار کو تقسیم کردیں ، ابو سفیان نے اسے قبول کر لیا اور صفوان نے انکار کر دیا اور کہا : محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کے ذریعہ ہمارے جوانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ اور کہا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دینار کے ذریعہ ہمارے جوانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس لیے بھی دینا جائز ہے کہ صلہ رحمی ہر مذہب میں اور ہر عقل مند انسان کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے ، نیز دوسرے کو ہدیہ دینا مکارمِ اخلاق میں سے ہے ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مکارم اخلاق کو پورا کرنے کےلیے بھیجا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ ہدیہ کا لین دین مسلم غیر مسلم دونوں کے حق میں یکساں پسندیدہ عمل ہے ۔

علامہ ابن قدامہ حنبلی علیہ الرحمہ نے بھی کافر کو صدقاتِ نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے : وَكُلُّ مَنْ حُرِمَ صَدَقَةَ الْفَرْضِ مِنْ الْأَغْنِيَاءِ وَقَرَابَةِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْكَافِرِ وَغَيْرِهِمْ، يَجُوزُ دَفْعُ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ إلَيْهِمْ، وَلَهُمْ أَخْذُهَا، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا} [الإنسان: 8] . وَلَمْ يَكُنْ الْأَسِيرُ يَوْمَئِذٍ إلَّا كَافِرًا، وَعَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -، قَالَتْ: «قَدِمْتُ عَلَى أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَقُلْت: يَا رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – إنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، صِلِي أُمَّك» .وَكَسَا عُمَرُ أَخًا لَهُ حُلَّةً كَانَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَعْطَاهُ إيَّاهَا ۔ (المغنی لابن قدامۃ،2/ 492)
ہر وہ مالدار ، قرابت دار ، کافر وغیرہ جنہیں صدقہ واجبہ سے محروم کیا گیا ہے انھیں صدقہ نافلہ دینا اور ان کا صدقہ نافلہ لینا جائز ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وہ یتیم ، مسکین ، اور قیدی کو اللہ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں ۔ اور اس وقت قیدی کافر ہی ہوا کرتا تھا ۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ : میری والدہ جس وقت مشرکہ تھی میرے پاس آئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ،تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی ( جب کہ وہ مشرک تھا) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عطا کردہ جبہ پہنایا ۔

ان عباراتِ علما اور نصوصِ شرعیہ سے واضح ہوتا ہے کہ صدقاتِ نافلہ ذمی کافر کو دینا جائز ہے اور دار الحرب میں مقیم ان کافروں کو بھی از راہِ مصلحت جیسے تالیف و دعوت کے طور پر دینا جائز ہے ، ہاں ! ایسے حربی کافر کو کسی بھی طرح کا تعاون کرنا ناجائز ہے جو اس وقت یا مستقبل قریب میں مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ۔ (سورہ الممتحنہ: ۸،۹)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ احسان وسلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے ، اور تمھیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے ، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں سے حسنِ سلوک اور دوستی کرنے سے منع کرتا ہے ، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے لڑائی کی ، تمھیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر لوگوں کی مدد بھی کی ، تو منع کرنے کے باوجود جنہوں نے ان سے دوستی کی وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ۔

یہاں کے کافر حربی نہیں ہیں اور نہ اس ملک کو دار الحرب کہا گیا ہے ۔ آج کی تحقیق کے اعتبار سے تمام جمہوری ممالک کو دار الدعوۃ ، دار المیثاق ، دار المعاہدہ وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ان کے باشندے معاہد کے حکم میں ہوں گے ، کسی ایک فرد یا چند جماعت کی شرکشی کو حکومت کا دستور نہیں مانا جائے گا ۔ اس لیے قربانی کا گوشت جو کہ نفلی صدقہ کے درجہ میں ہے ، غیر مسلم کو بھی دیا جا سکتا ہے ۔ اور خاص طور سے اس غیر مسلم کو جو پڑوسی یا رشتہ دار بھی ہو تو اس کو گوشت دینے سے حسن سلوک کا ثواب ملنے کی بھی امید ہے ۔ اور آج کے دور میں خاص طور سے غیر مسلموں کی وقتاً فوقتاً تالیف کرتے رہنا چاہیے ، تاکہ ان کے دل نرم ہو اور مسلمانوں سے حسنِ ظن پیدا ہو ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔