Sunday, 18 June 2023

فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ دوم

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بھولی بھالی امت کی خدمت میں عرض گذار ہے کہ : سوائے محمد ابن عبد الوہاب نجدی خارجی کے پیروکاروں کے تمام امت مسلمہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کی حاضری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس کو اپنی مغفرت کا آخری اور و قوی سہارا سمجھتے ہیں آئیے مستند دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں گمراہوں کے شر و فتنہ سے بچائے آمین ۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار گہر بار میں حاضری بندۂ مومن کے حق میں نعمت عظمٰی ، امید افزا طاعت اوردرجات عالیہ کے حصول کابڑا وسیلہ ہے ، آپ کے دربار میں حاضر ہونا تقرب الہی کا قریب ترین ذریعہ ہے ، آپ کی بارگاہ کی حاضری گناہوں کی بخشش اور حصول رحمت و مغفرت کا قوی آسرا ہے ۔ زائرین روضۂ اقدس کےلیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شفاعت کا مژدۂ جاں فزا سنایا ، دراقدس کی حاضری کو اللہ تعالی نے معصیت شعار افراد کےلیے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ، توبہ کی قبولیت اور نزول رحمت کا خصوصی مرکز قرار دیا ہے ، سورۂ نساء کی آیت نمبر:64،میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا ۔
ترجمہ : اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ، اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بھی ان کےلیے سفارش کردیں تو وہ ضرور باالضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا‘نہایت رحم فرمانے والا پائیں گے ۔ (سورۃ النساء :64)

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالی نے تین امور کا ذکر فرمایا : (1) جب گناہ کر بیٹھے تو آپ کے دربار میں حاضر ہونا ۔ (2) استغفار کرنا ۔ (3) حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اس کے حق میں سفارش فرمانا ۔
جب یہ تین کام ہوتے ہیں تواللہ تعالی کی جانب سے اس بندہ کیلئے قبولیتِ توبہ کا مژدہ ملتا ہے اوروہ بے پناہ رحمتوں کا حقدار بنتا ہے ۔

تمام محدثین ومفسرین علیہم الرّحمہ کا اتفاق ہے کہ یہ حکم رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ تک ہی محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی یہی حکم ہے ۔

اس سلسلہ میں کم ازکم دو واقعات ملتے ہیں جس سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں وآشکار ہوجاتی ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ کا حکم بعد ازوصال باقی ہے ۔

وصالِ مبارک کے تین دن بعد اعرابی کی حاضری : حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت تفسیر البحرالمحیط اورسبل الہدی والرشاد میں منقول ہے : وروی الحافظ ابن النعمان فی (مصباح الظلام فی المستغيثين بخير الانام) من طريق الحافظ ابن السمعانی بسنده عن علی رضی الله تعالی عنه قال: قدم علينا اعرابی بعدما دفنا رسول الله صلی الله عليه وسلم بثلاثة ايام فرمی نفسه علی القبر الشريف، وحثا من ترابه علی راسه وقال: يا رسول الله، قلت فسمعنا قولک، ووعيت عن الله تعالی ووعينا عنک وکان فيما انزل عليک : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا) وقد ظلمت نفسی، وجئتک تستغفر لی فنودی من القبر: إنه قد غفر لک .
ترجمہ : محدث ابن نعمان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب"مصباح الظلام فی المستغیثین بخیر الانام"میں محدث ابن سمعانی کی وساطت سے روایت ذکر کی ہے ، جسے انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل کی ہے : حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال مبارک کے تین دن بعد ایک اعرابی دراقدس پر حاضر ہوکر گریہ وزاری کرنے لگے اور وہاں کی خاک مبارک کو اپنے سر پر ڈالنے لگے اور عرض گزار ہوئے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! آپ نے ارشاد فرمایا ہم نے آپ کے ارشادِعالی کو سنا ، آپ نے اللہ تعالی سے کلام سنا اور بحفاظت ہم تک پہنچایا اور ہم نے آپ سے اس کلام کو سیکھا اور یادرکھا ، آپ پر نازل کردہ کلام میں یہ آیت کریمہ بھی ہے ۔ ترجمہ : اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا‘ نہایت رحم فرمانے والا پائیں گے ۔ (سورۃ النساء :64) (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!) میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ کے دربار اقدس میں حاضر ہوا تاکہ آپ میرے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں!تو روضۂ اقدس سے آواز آئی:’’یقینا تمہاری بخشش کردی گئی ۔ (تفسیر البحرالمحیط سورۃ النساء۔64۔سبل الھدی والرشاد،جماع أبواب زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ وفضلھا،ج12،ص380،چشتی)

مذکورہ آیت کریمہ کے تحت علامہ ابن کثیر نے بیان کیاہے : وقوله : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.) يرشد تعالی العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان ان يأتوا إلی الرسول صلی الله عليه وسلم فيستغفروا الله عنده، ويسألوه ان يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلک تاب الله عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال : (لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا)
ترجمہ : اللہ تعالی کا ارشاد ہے"اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ کو خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے ۔ (اس آیت مبارکہ کے ذریعہ) اللہ تعالی گنہگاروں اور خطاکاروں کو رہنمائی فرما رہا ہے کہ جب ان سے کوئی غلطی اور گناہ سرزد ہوجائے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور وہاں حاضر ہوکر اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معروضہ کریں کہ آپ ان کے حق میں سفارش فرمائیں،کیونکہ جب وہ لوگ اس طرح کریں گے تو اللہ تعالی ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور ان پرخصوصی رحمت نازل فرمائے گااور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا،اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:"ترجمہ:تو وہ ضرور بضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے ۔
وَقَدْ ذَکَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ:اَلشَّيْخُ اَبُوْ نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِیْ کِتَابِهِ "اَلشَّامِلْ" اَلْحِکَايَةَ الْمَشْهُوْرَةَ عَنِ الْعُتْبِیِّ، قَالَ کُنْتُ جالساً عند قَبْرِ النبیِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ اَعْرَابِیٌّ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَيْکَ ، يَا رَسُولَ اللَّهِ ، سَمِعْتُ اللَّهَ تعالی يَقُولُ : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.)، وقَدْ جِئْتُکَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِیْ مُسْتَشْفِعًا بِکَ إِلَی رَبِّیْ ثُمَّ اَنْشَأَ يَقُولُ ۔
ترجمہ : اور علماء ومفسرین کی ایک جماعت نے بیان کیاہے،ان میں شیخ ابو نصر بن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہیں ‘ اُنہوں نے اپنی کتاب "الشامل"میں حضرت عُتْبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے منقول مشہور حکایت ذکر کی،آپ نے فرمایا:میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضۂ اقدس کے قریب حاضر تھا،ایک اعرابی نے دراقدس پر حاضر ہوکر صلوۃ وسلام پیش کیا اور عرض گزار ہوئے :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !میں نے اللہ تعالی کو (قرآن کریم میں) فرماتے ہوئے سنا : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.... "اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ کو خوب توبہ قبول کرنے والانہایت رحم فرمانے والا پائیں گے۔(سورۃ النساء :64)

نیز اعرابی نے عرض کیا : یقینا میں اپنے گناہوں کی معافی کی خاطرآپ کی ذات ستودہ صفات کو اپنے پروردگار کے دربار میں وسیلہ بناکر آپ کے دربار عالی شان میں حاضر ہوا ہوں، اس کے بعد انہوں نے یہ اشعار کہے :

يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ اَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ القَاعُ وَالاَکَمُ

نَفْسی الفِدَاءُ لِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُهُ
فِيهِ العَفَافُ ، وَفِيهِ الْجُودُ وَالکَرَمُ

ترجمہ : ائے کائنات کی سب سے بہترین ذات !جن کے وجود مقدس کو زمین نے چوما ہے ،آپ کے وجود مقدس کی خوشبوسے میدان اور ٹیلے پاکیزہ ومعطر ہوچکے ہیں ،میری جان قربان اس روضۂ اطہر پر جس میں آپ رونق افروز ہیں ،جس میں پاکیزگی ہے،سخاوت اور کرم نوازی ہے ۔

حضرت عُتبی فرماتے ہیں : ثُمَّ انْصَرَفَ الْاَعْرَابِیُّ فَغَلَبَتْنِیْ عَيْنِیْ، فَرَاَيْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ، فَقَالَ : يَا عُتْبِیُّ ! اِلْحَقِ الْاَعْرَابِیَّ ، فَبَشِّرْهُ اَنَّ اللَّهَ تَعَالی قَدْ غَفَرَ لَهُ ۔
ترجمہ : جب وہ اعرابی واپس ہوگئے تو مجھ پر نیند طاری ہوگئی،خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا،اورآپ نے ارشاد فرمایا:اے عُتْبی!اس اعرابی سے ملاقات کرو!اور انہیں بشارت دو کہ یقینااللہ تعالی نے ان کی بخشش فرمادی ہے ۔ حوالہ جات : (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ النساء ،64۔ج 2،ص384)(معجم ابن عساکر،حدیث نمبر738۔)(شعب الإیمان للبیھقی،فضل الحج والعمرۃ،حدیث نمبر4019۔)(الجواھر الحسان فی تفسیر القر ان للثعالبی،سورۃ النساء ،64۔)(الدر المنثور فی التأویل بالمأثور،سورۃ البقرۃ،203۔)(تفسیر البحر المحیط، سورۃ النساء ،64،چشتی)(الحاوی الکبیرللماوردی،مستوی کتاب الحج۔)(الشرح الکبیر لابن قدامۃ،ج3،ص494۔)(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ،التَّوَسُّل بِالنَّبِیِّ بَعْدَ وَفَاتِہِ۔)(المواھب اللدنیۃ، مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص199۔) (سبل الھدی والرشاد، جماع أبواب زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ وفضلھا،ج12، ص390۔)(مختصر تاریخ دمشق، باب من زار قبرہ بعد وفاتہ کمن زار حضرتہ قبل وفاتہ۔) (خلاصۃ الوفا بأخبار دار المصطفی،ج1،ص57۔)(الأذکار النوویۃ، کتاب أذکار الحج ،حدیث نمبر 574)

اللہ تعالی نے ان مذکورہ اشعار کو ایسی شان عطا کی ہے کہ جالی مبارک سے متصل ستونوں پر آج بھی نقش ہیں اور زائرین کے لئے نور بصارت وبصیرت کا سامان فراہم کررہے ہیں ۔

روضۂ اقدس کی حاضری عین سعادت

شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے "المواھب اللدنیہ" میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت نقل کی ہے : وعن الحسن البصری قال:وقف حاتم الاصم علی قبر صلی الله عليه واله وسلم فقال:يا رب! انَّا زرنا قبر نبيک فلا تردنا خائبين!فنودی :يا هذا ! ما اذنا لک فی زيارة قبر حبيبنا الا وقد قبلناک؛ فارجع انت ومن معک من الزوار مغفورا لکم .
ترجمہ : حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا:حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دراقدس پر حاضر ہوئے ،اور دربار الہی میں معروضہ کیا کہ ائے اللہ! ہم تیرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دراطہر پر حاضر ہوئے ہیں،ہمیں محروم نہ لوٹا!ہاتف غیبی سے آواز آئی :اگر ہمیں تم کو قبول کرنا منظور نہ ہوتا تو تمہیں حاضری کا موقع مرحمت ہی نہ فرماتے! تم اس حال میں واپس لوٹو کہ ہم نے تمہیں اور تمہارے ساتھ تمام زائرین کو بخشش ومغفرت سے مالامال فرمادیاہے ۔ (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص200)

زائرین روضۂ اقدس کےلیے شفاعت کی ضمانت

کتب حدیث وفقہ میں جہاں حج کے مناسک اور اس کے آداب کا ذکر ہے وہیں روضۂ اطہر کی حاضری اور اس کے آداب کا بھی ذکر موجود ہے، اورزائرین روضۂ اقدس کے حق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفاعت خاصہ کا وعدہ بھی فرمایا‘چنانچہ سنن دارقطنی،شعب الإیمان للبیھقی،جامع الأحادیث،جمع الجوامع،مجمع الزوائد اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِیْ .
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے روضۂ اطہر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوچکی ہے ۔ (سنن الدارقطنی: کتاب الحج، حدیث نمبر:2727۔)(صحیح ابن خزیمۃ کتاب الحج او المناسک باب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، حدیث نمبر۔3095۔)(شعب الإیمان للبیھقی، الخامس و العشرین من شعب الإیمان و ھو باب فی المناسک ، فضل الحج و العمرۃ،حدیث نمبر:4159۔)(جامع الأحادیث، حرف المیم، حدیث نمبر: 22304،چشتی)(جمع الجوامع، حرف المیم، حدیث نمبر: 5035۔)(مجمع الزوائد ،ج 4،ص 6،حدیث نمبر:5841۔)(کنز العمال ، زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر: 42583۔)(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص179)

حدیث زیارت صحیح ومستند د‘ محدثین کی صراحت : اس حدیث شریف کو کئی ایک محدثین نے روایت کیا ،اس کے قابل استدلال ہونے سے متعلق ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : رواه الدارقطنی وغيره وصححه جماعة من الائمة ۔
ترجمہ : اس حدیث پاک کو امام دارقطنی اور دیگر محدثین نے روایت کیا اور ائمہ ومحدثین کی ایک جماعت نے اُسے صحیح قرار دیاہے ۔ (شرح الشفا لعلی القاری بھامش نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ، جلد 3، صفحہ 511،چشتی)

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ اور فضیلت : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قیام فرمانے کے بعد سب سے پہلا کام جو فرمایا وہ اس مقدس مسجد نبوی کی تعمیر ہے ۔ زمین کا یہ قطعہ جہاں اب یہ مسجد موجود ہے دو یتیم بچوں حضرت سہل اور حضرت سہیل کی ملکیت تھا ۔ یہ دونوں بچے سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے زیر کفالت تھے ۔ اس جگہ کھجوریں خشک کی جاتی تھیں ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں سے فرمایا یہ زمین مسجد کی تعمیر کے لئے ہمیں فروخت کر دو۔ بچوں نے بصد ادب و نیاز عرض کی : آقا یہ اراضی ہماری طرف سے بطور نذرانہ قبول فرمائیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس پیش کش کو بلا معاوضہ قبول نہ فرمایا۔ بالآخر قیمت ادا کرکے یہ زمین خرید لی گئی جس کے لئے دس ہزار دینار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادا کیے۔

ربیع الاول یکم ہجری بمطابق اکتوبر 622ء مسجد نبوی کا سنگ بنیاد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے رکھا۔ مسجدکی تعمیر شروع کر دی گئی تو اس تعمیر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر کام کیا خود انٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے اور اپنی زبان فیض ترجمان سے یہ بھی فرماتے : اَللَّهمَّ إِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَة، فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَالْمُهاجِرَةِ ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب هجرة النبی صلی الله عليه وآله وسلم واصحابه إلی المدينة، 3 : 1422-1423، رقم : 3694)
اے اللہ!  آخرت کا بدلہ ہی بہتر ہے تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما ۔

یہ مسجد انتہائی سادگی سے تعمیر کی گئی۔ تعمیر میں کچی اینٹیں، کھجور کی شاخیں اور تنے استعمال کیے گئے۔ جب کبھی بارش ہوتی تو چھت ٹپکنے لگتی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم اسی گیلی زمین پر اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہو جاتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس سال تک اس مسجد میں نمازیں ادا فرمائیں۔ یہ مسجد اسلام کا مرکز قرار پائی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صَلَاةٌ فِی مَسْجِدِی هٰذَا خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب التطوع، باب فضل الصلاة فی مسجد مکة والمدينة، 1 : 398، رقم : 21133)(مسلم الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجد مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394،چشتی)
’’میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صَلَاتُهُ فِيْ مَسْجِدِی بِخَمْسِيْنَ أَلْفِ صَلَاةً ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی الصلاة فی المسجد الجامع، 2 : 191، رقم : 1413،چشتی)
’’جس نے میری مسجد (مسجد نبوی) میں ایک نماز پڑھی اسے پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فَإِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجدی مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394)
’’بیشک میں آخر الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد۔‘‘

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَنَا خَاتِمُ الْاَنْبِياءِ وَمَسْجِدِي خَاتِمُ مَسَاجِدِ الْاَنْبِيَاءِ ۔ (ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 45، رقم : 112)
’’میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کرام کی مساجد کی خاتم ہے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ صَلَّی فِی مَسْجِدِی أَرْبَعِيْنَ صَلٰوةً، لَا يَفُوْتُهُ صَلٰوةٌ کُتِبَتْ لَه بَرَاءَ ةٌ مِنَ النَّارِ، وَنَجَاةٌ مِنَ الْعَذَابِ وَبَرِيئَ مِنَ الْنَفَاقِ ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 12590
سمهودی، وفاء الوفا، 1 : 77)
’’جس نے مسجد نبوی میں چالیس نمازیں متواتر ادا کیں اس کے لئے جہنم، عذاب اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔‘‘

مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر سن 7 ہجری کے بعد مسجد نبوی کی از سر نو تعمیر فرمائی اور اسے مزید کشادہ کیا۔ اس کے بعد مسجد نبوی کی توسیع کی تواریخ درج ذیل ہیں : ⬇

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے عہد میں، 17 ہجری۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے عہد میں، 29۔30 ہجری۔
ولید بن عبد الملک کے عہد میں، 88۔91 ہجری۔
مہدی العباسی کے عہد میں، 161۔165 ہجری۔
سلطان اشرف قائتبائی کے عہد میں، 888 ہجری۔
سلطان عبد المجید عثمانی کے عہد میں، 1265۔1277 ہجری۔
الملک سعود کے عہد میں، 1372 ہجری۔
اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودہ توسیع خادم الحرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز کے عہد (1405۔1412ھ) میں مکمل ہوئی۔

مسجد کا موجودہ توسیع شدہ رقبہ 98 ہزار 500 مربع میٹر ہے۔ اس کے علاوہ چھت پر بھی نماز پڑھنے کے لئے 67 ہزار مربع میٹر کی جگہ موجود ہے۔

اس وقت مسجد میں عام دنوں میں 6 لاکھ 50 ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں البتہ حج کے زمانے میں اور رمضان المبارک کے دنوں میں یہ تعداد 10 لاکھ تک بھی ہو سکتی ہے۔

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور دروازوں کے نام

جنوبی سمت چھوڑ کر مسجد نبوی کے تین اطراف میں پر شکوہ، دیدہ زیب دروازے موجود ہیں۔ چند تاریخی دروازے جن سے متعارف ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں۔ مشرقی جانب باب جبریل ں، باب النساء اور باب البقیع، باب جنازہ، مغربی جانب باب السلام، باب ابوبکر ص، باب الرحمۃ اور باب سعود، شمالی جانب باب عثمان ص، باب مجیدی اور باب عمر رضی اللہ عنہ ۔

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہونے کی دعا کیا

مسجد نبوی میں داخل ہوتے وقت درود شریف کا ورد جاری رکھیں اور یہ دعا پڑھیں : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ. اَللّٰهمَّ اغْفِرْلِيْ ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ. اَللّٰهمَّ اجْعَلْنِيْ اَلْيَوْمَ مِنْ اَوْجَهِ مَنْ تَوَجَّهَ اِلَيْکَ وَاَقْرَبِ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَيْکَ وَاَنْجَحِ مَنْ دَعَاکَ وَابْتَغٰی مَرْضَاتِکَ ۔
’’اے اللہ! ہمارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر درود بھیج اور برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اے اللہ! آج کے دن مجھے اپنی طرف متوجہ ہونے والوں میں سب سے زیادہ قریب بنالے اور زیادہ نواز ان میں سے جنہوں نے تجھ سے دعا کی اور اپنی مرادیں مانگیں۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کی فضیلت

بیت اللہ شریف کی زیارت اور حج کے مقدس فریضہ کی بجاآوری کے بعد عشاق اپنے اگلے سفر یعنی مدینہ منورہ کی زیارت کےلیے روانہ ہو جاتے ہیں، اور اس دربار کی حاضری کےلیے مچلتے جذبات، دھڑکتے دلوں اور برستی آنکھوں کے ساتھ کشاں کشاں اپنے آقا و مولا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بصد ادب و احترام حاضر ہوتے ہیں ۔ یہی عشاق کے دلوں کا حج ہوتا ہے ۔

حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کی فضیلت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل ہے : ⬇

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ زَارَ قَبْرِی، وَجَبَتْ لَه شَفَاعَتِيْ ۔ (دار قطنی، السنن، 2 : 447، رقم : 2669،چشتی)
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے خلوصِ نیت سے مدینہ منورہ حاضر ہو کر میری زیارت کا شرف حاصل کیا میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا ۔‘‘ (بيهقی، شعب الايمان، 3 : 490، رقم : 4157)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے میری قبر (یا راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا، اور کوئی دو حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت ایمان والوں کے ساتھ اٹھائے گا ۔ (طیالسی، المسند، 12 : 13، رقم : 65،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ۔ (دارقطنی، السنن، 447، رقم : 2667)

اس حدیثِ پاک میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے روضَۂ اطہر کی زیارت کےلیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔

جلیلُ القدر  محدّث امام تقیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (وفات:756ھ) حدیثِ پاک کے لفظ  ”وَجَبَتْ“ کے تحت فرماتے ہیں: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جو حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبرِ انور کی زیارت کرے  اُس کیلئے شفاعت ثابت اور لازم ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حدیث شريف  کے لفظ ”لَهٗ“ کے فوائد ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں1) :)زائرینِ روضۂ انور کو ایسی شفاعت کے ساتھ خاص کیا جائےگا جو دوسروں کو نہ عمومی طور پر نصیب ہوگی  نہ ہی خصوصی طور پر۔ (2)زائر کو اس شفاعت کے ذریعےدوسروں کوحاصل ہونے والی شفاعت سے ممتاز کردیا جائےگا۔ (3)زیارتِ قبرِ انور کرنے والے شفاعتِ مصطفےٰ کےحقدار قرار پانے والوں میں لازمی طور پر شامل ہوں گے ۔(4)زائر کا خاتمہ ایمان پرہوگا۔

امام تقیُّ الدّین سبکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ”شَفَاعَتِي ۔ یعنی میری شفاعت“کے تحت فرماتے ہیں:شفاعت کی نسبت اپنی جانب فرمانے میں یہ شرف ہے کہ” فرشتے،انبیا اور مؤمنین “بھی شفاعت کریں گے مگر روضَۂ انور کی زیارت کرنے والے کی شفاعت میں خود کروں گا۔ شافع (شفاعت کرنے والے) کی عظمت کی وجہ سے اس کی شفاعت بھی ویسی ہی عظیم ہوتی ہے جیسے ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیائے کرام علیہمُ السَّلام سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی شفاعت بھی دوسروں سے افضل ہے۔(شفاء السقام،ص103)

حاشیہ ابنِ حجر ہیتمی میں ہے: یہ حدیث حیاتِ مبارک میں  نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اور بعد ِوصال قبرِانور کی زیارت کو شامل ہے نیزیہ حکم دور و نزدیک کے ہر مردو عورت کے لئے ہے۔ پس اس حدیثِ پاک سے روضَۂ انور کی طرف سامان باندھنے کی فضیلت اور زیارت کے لئے سفر کے مستحب ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔(حاشیۃ ابن حجر الہیتمی على شرح الایضاح صفحہ 481،چشتی)

پہلے حج یا زیارتِ مدینہ

صدرُالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:حج اگر فرض ہے تو حج کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہو۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوتِ قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادتِ دینی و دنیوی کے لیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کے لیے وسیلہ کرے۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَویٰ(بخاری،ج،ص5،حدیث:1) اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہ ہے، جو اُس نے نیّت کی ۔ (بہارِ شریعت،ج1،ص1222) مزید فرماتے ہیں : زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 1221،چشتی)

حدیث من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی کی تحقیق

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی ، جس نے میری زیارت میری وفات کے بعد کی اس نے میری زندگی میں زیارت کی ، زیارت روضہ اقدس کے منکر کو حدیث سے جواب ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 17 ، 18 حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی)

محترم قارئینِ کرام : بعض لوگوں کی طرف سے اس حدیث مبارکہ پر ضعیف ہونے کا اعراض کیا جاتا ہے آئیے اس کا جواب پڑھتے ہیں :

من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی

کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا تے ہیں : ان کا رد کرنا مناسب سمجھا اور اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے چکر میں یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے مزار مبارک کی حاضری سے روکنا چاہتے ہیں دوستوں اس حدیث کو کبار آئمہ نے متعدد طرق اور مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

امام ابوبکر احمد بن عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کےلیے میری شفاعت واجب ہوگئ ۔

حافظ ابو القاسم بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت یے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا, جو شخص میری زیارت کے ارادے میرے پاس آۓ اور اسکو میری زیارت کے سوا کوی حاجت نہیں ہو مجھ یہ حق یے .میں قیامت کے دن اس کا شفیع ہوگا ۔ (المعجم الکبیر جلد نمبر 12 صفحہ نمبر 235،چشتی)

امام علی بن عمر الدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا , جس نے حج کیا پس میرے وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیاتی میں میری زیارت کی ۔ (سنن بہیقی ج 5 ص 246)

حافظ ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری زیارت نہیں کی تحقیق اس نے مجھ سے جفا کی ۔ (الضعفاءالکامل لابن عدی ج 7 ص 2480،چشتی)

امام سلیمان بن داود الجارود رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں آل عمر سے وہ عمر رضی اللہ عنہ سے رویت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو فرمارہے تھے جس نے میری قبر کی زیارت کی یا میری زیارت کی میں اس کا شفارشی یا گواہ ہوگا اور جو دو حرمین میں سے کسی ایک میں مرجاے اللہ تعالی اسکو قیامت والے دن امن والوں میں اٹھاے گا ۔ (مسند ابوداود الطیالسی جلد اول صفحہ نمبر 49)

امام ابو جعفر بن عمر العقیلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ آل خطاب سے روایت کرتے ییں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس نے قصدا میرک زیارت کی وہ بروز قیامت اللہ کی پناہ میں ہوگا ۔ (الترغیب والترہیب جلد 2 صفحہ 182)

امام علی بن عمر دار القطنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا کے اس نے میری ظاہری حیات میں زیارت کی ۔ (سنن دارقطنی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 531،چشتی)

امام ابوبکر احمد بن حسین بہیقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جو دونوں حرمین میں سے کسی ایک میں انتقال کرجاے اللہ تعالی اسکو بروز قیامت امن والوں میں اٹھاے گا اور جس نے اخلاص کے ساتھ مدینہ میں میری زیارت کی وہ شخص بروز قیامت میری پناہ میں ہوگا ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 490،چشتی)

کڑوڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا سیدی امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنی پوری سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں سنت سے یہ ہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس قبلہ کی جانب سے آے اور اپنی پیٹھ کو قبلہ کی جانب کر اور اپنے چہرہ کے ساتھ قبر مبارک کی طرف رخ کر پھر تو کہہ السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ آپ پر سلام ہو یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے رحمت اور برکت ہو آپ پر ۔ (مسند امام اعظم صفحہ 126)

امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ اپنی پوری سند کے ساتھ عبداللہ بن دینار رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : فرمایا میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آپ درود پڑھ رہے تھے اور ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنھما کی قبر مبارک کے پاس ۔ (مسند امام مالک)

ان تمام دلائل اور احادیث کی روشنی میں زیارت قبر نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم والی حدیث کی صحت ثابت ہوگئ اور وہابی دیابنہ کے فاسد عقیدہ پاش پاش ہوگیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضری کے آداب : ⬇

جب شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخلہ کا وقت آئے تو زائر مدینہ غسل اور وضو کرے، اچھی سے اچھی پوشاک پہنے، نوافل ادا کرے، توبہ کی تجدید کرے اور پیدل چلتا ہوا اندر داخل ہو کر تصویر عجز بن جائے کہ وہ شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کر رہا ہے ۔

علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنے شہرہ آفاق ’القصیدۃ النونیۃ‘ میں زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب بیان کیے ہیں، وہ کہتے ہیں : جب ہم مسجد نبوی میں حاضر ہوں تو سب سے پہلے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کریں۔

پھر باطناً و ظاہراً انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ حضوری کی تمام تر کیفیتوں میں ڈوب کر قبر انور کے پاس کھڑے ہوں۔

یہ احساس دل میں جاگزیں رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبرانور میں زندہ ہیں سماعت بھی فرماتے ہیں اور کلام بھی فرماتے ہیں، پس وہاں کھڑے ہونے والوں کا سر ادباً و تعظیماً جھکا رہے۔

بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں کھڑے ہوں کہ رعبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پاؤں تھر تھر کانپ رہے ہوں اورآنکھیں بارگاہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گریہ مسلسل کا نذرانہ پیش کرتی رہیں اور وہ طویل زمانوں کی مسافت طے کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کھو جائیں۔

پھر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وقار و ادب کے ساتھ ہدیہ سلام پیش کرتے ہوئے آئے جیسا کہ صاحبانِ ایمان و صاحبان علم کا شیوہ ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے قریب آواز بھی بلند نہ کرے، خبردار! اور نہ ہی سجدہ ریز ہو۔

یہی زیارت افضل اعمال میں سے ہے اور روزِ حشر اسے میزانِ حسنات میں رکھا جائے گا۔(ابن قيم، القصيدة النونيه : 181)

اس کے بعد زائر یہ دعا کرے : اَللّٰهُمَّ قَدْ سَمِعْنَا قَوْلَکَ وَأَطَعْنَا أَمْرَکَ وَقَصَدْنَا نَبِيَّکَ مُسْتَشْفِعِيْنَ به إِلَيْکَ مِنْ ذُنُوْبِنَا، اَللّٰهُمَّ! فَتُبْ عَلَيْنَا وَاسْعَدْنَا بِزِيَارِتِه وَادْخِلْنَا فِي شَفَاعَتِه، وَقَدْ جِئْنَاکَ يَا رَسُوْلَ الله ظَالِمِيْنَ أَنْفُسَنَا مُسْتَغْفِرِيْنَ لِذُنُوْبِنَا، وَقَدْ سَمَّاکَ اللهُ تَعَالٰی بِالرُّءُوْفِ الرَّحِيْمِ، فَاشْفَعْ لِمَنْ جَاءَکَ ظَالِمًا لِنَفْسِه مُعْتَرِفًا بِذَنْبه تَائِبًا إِلٰی رَبه ۔
’’اے اللہ ہم نے تیرا فرمان سنا اور تیرے احکام کی تعمیل میں تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہیں، جو تیری بارگاہ میں ہمارے گناہوں کی شفاعت کریں گے، اے اللہ ہم پر رحم و کرم فرما اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی برکت سے ہمیں خوش بخت بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ہمیں نصیب فرما۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وآلک وسلم! ہم آپ کی بارگاہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے حاضر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’روف و رحیم‘ بنایا ہے۔ پس وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنا گناہوں کا اقرار کرکے اس سے معافی مانگتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضر ہوا اس کی شفاعت فرمائیے ۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے لیے ، اپنے ماں باپ ، شیخ ، اساتذہ ، اولاد ، اعزا و اقرباء ، دوستوں اور سب مسلمانوں کےلیے شفاعت مانگیں ، اور بار بار عرض کریں : اَسْئَلُ الشَّفَاعَةَ يَا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليک و آلک وسلم ۔ پھر اگر کسی نے بارگاہ رسالت مآب میں سلام عرض کرنے کےلیے کہا ہو تو شرعاً اس کی طرف سے سلام پہنچانا لازم ہے اور یوں عرض کرے : السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن فلاں بن / بنت فلاں (نام و ولدیت) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...