Thursday, 1 June 2023

چھ کلمے قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ سوم

چھ کلمے قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ سوم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تعلیمِ امت کےلیے عمومی طور پر دعا میں یہ کلمات ارشاد فرما کرتے تھے : اللھم اغفرلی ما اسررت وما اعلنت وما اخطأت وماتعمدت وما جھلت وما علمت ۔ (مسند رومانی، ج1، ص125، الرقم120، مؤسسۃ قرطبہ، القاھرہ)

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا : الا ادلک علی کلمۃ من کنز الجنۃ ؟ قلت : بلی . قال : لاحول ولاقوۃ إلا باللّٰہ ۔
ترجمہ : میں تمہیں ایسے کلمات نہ ارشاد فرماؤں کہ جو جنت کے خزانے میں سے ہے ؟ میں نے عرض کی کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا وہ کلمات یہ ہیں : ”لاحول ولاقوۃ إلا باللّٰہ“ ۔ (صحیح بخاری،ج8، ص87، الرقم6409، دار طوق النجاۃ ، بیروت)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا : والذی نفسی بیدہ الشرک اخفٰی من دبیب النمل الا ادلک علی شیئ اذا قلتہ ذھب عنک قلیلہ وکثیرہ قال : قل : اللھم انی اعوذ بک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک لما لا اعلم ۔
ترجمہ : اس کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! شرک چیونٹی کے چلنے کی آوز سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے. کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم وہ کہو ، تو تم چھوٹے بڑے ہر شرک سے مکمل طور پر پاک ہو جاؤ ؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور وہ چیز ارشاد فرمائیں. تو فرمایا کہ تم یہ کلمات کہو : اللھم انی اعوذ بک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک لما لا اعلم ۔ (الادب المفرد، ص250، الرقم716، دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت،چشتی)

حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد ، خلیفہ راشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کی : یا أبت إنی أسمعک تدعو کل غداۃ ’’ اللھم انی اعوذ بک من الکفر والفقر اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر لا الہ الا انت “ تعیدھا ثلاثا حین تمسی و حین تصبح ثلاثا فقال : نعم یا بنی ! سمعت رسول اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یقول بھن و انا احب ان استن بسنتہ ۔
ترجمہ : اے میرے ابا جان ! میں آپ کو ہر روز ان کلمات کے ساتھ دعا کرتے ہوئے سنتا ہوں ”اللھم انی اعوذ بک من الکفر والفقر اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر لا الہ الا انت“ آپ تین مرتبہ صبح اور تین مرتبہ شام ان کلمات کو دہراتے ہیں فرمایا : ہاں ! میرے بیٹے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ کلمات پڑھتے سنا ہے اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کو محبوب رکھتا ہوں ۔ (الادب المفرد ص244، الرقم701، دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت)

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں : ان رسول اللہ کان یدعو فی الصلاۃ : اللھم انی اعوذ بک من الماثم والمغرم ‘‘ فقالوا ما اکثر ما تستعیذ من المغرم فقال: ان الرجل اذا غرم حدث فکذب و وعد فاخلف ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں ان کلمات کے ساتھ دعا فرماتے : اللھم انی اعوذ بک من الماثم والمغرم “ صحابہ نے عرض کی کہ آپ قرض سے بہت پناہ مانگتے ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو فرمایا کہ جب کسی شخص پر قرض ہو ، تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے ، تو وعدہ خلافی کرتا ہے ۔ (مسند احمد،ج41،ص126، الرقم24578، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کان رسول اللہ اذا صلی اقبل علینا بوجھہ کالقمر فیقول : اللھم انی اعوذ بک من الھم والحزن والعجز والکسل والذل والصغار والفواحش ما ظہر منہا وبطن … الخ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے ، تو اپنا چاند جیسا چہرہ انور ہماری طرف پھیرتے ، تو یہ دعا فرماتے : اللھم انی اعوذ بک من الھم والحزن والعجز والکسل والذل والصغار والفواحش ما ظہر منہا وبطن … الخ ۔ (الدعاء للطبرانی،ص210، الرقم 660، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

اگر بالفرض قرآن و حدیث سے ان چھ کلموں کا ثبوت نہ بھی ہوتا ، تب بھی چونکہ ان میں کوئی خلافِ شرع بات نہیں ہے ، بلکہ اس میں تمام باتیں درست ہی ہیں ، تو انہیں یاد کرنے یا پڑھنے سے منع کرنا درست نہیں ہو گا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ چھ کلمے امت کی عوام و علماء نے اس انداز سے قبول کیے ہیں کہ تمام امت مسلمہ کے افراد اسے اچھا سمجھتے ہیں اور خود بھی یاد کرتے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرواتے ہیں ، جبکہ حدیث پاک میں ہے : ماراہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن ۔
ترجمہ : جس بات کو تمام مسلمان اچھا سمجھیں ، وہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہوتی ہے ۔ (مسند احمد، الرقم 3791)

چونکہ بد مذہبوں کا سب سے بڑا ہتھیار شرک و بدعت ہے لہٰذا بدعت کے بارے میں اختصارًا چند باتیں پیش کی جاتی ہیں تاکہ اصل مضمون چھ کلموں کے بارے میں صحیح طریقہ سے بات کو سمجھا جا سکے ۔ بدمذہب بدعت کے بارے میں یہ بات کہتے ہیں کہ ’’ہر نئی چیز بدعت ہے‘‘ یا تھوڑا اضافہ کر کے یہ کہتے ہیں ۔ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔ اسی طرح کچھ تبدیلی کے ساتھ اس کو اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے ۔ جس چیز کا ثبوت قرآن و سنت میں نہیں وہ بدعت ہے ۔ لہٰذا بدعت کا صحیح مفہوم سمجھنا ضروری ہے ۔
  
بدعت عربی زبان کا لفط ہے جو ’’بدع‘‘ سے مشتق ہے المنجد صفحہ ۷۶ میں ہے : البدعۃ :وہ چیز جو بغیر کسی سابق مثال کے بنائی جائے مذہب میں نئی رسم،بَدُعَ:لاثانی ہونا ،بے مثال ہونا ، بَدَعَ : کوئی شے ایجاد کرنا ، کوئی چیز بغیر نمونہ کے بنانا ،ابتداء کرنا ۔

جس طرح یہ کائنات عدم اور نیست تھی اور اس کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی سابق مثال کے عدم سے وجود بخشا تو لغوی لحاظ سے یہ بھی بدعت کہلائی اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ’’بدیع‘‘ ہے اور اسی شان کی وضاحت اس آیت مقدسہ میں ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : بدیع السمٰوٰت والارض ۔ (سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۰۱)
ترجمہ : یعنی اللہ ہی زمین و آسمان کا مؤجد ہے ۔

اسی طرح بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت اس  آیت مقدسہ سے بھی واضح ہے اللہ تعالیٰ کا ار شاد ہے : قل ما کنت بدعامن الرسل ۔ (سورۃ احقاف آیت نمبر ۴۶)
ترجمہ : یعنی آپ فرما دیجئے کہ میں کوئی انوکھا یا نیا رسول تو نہیں ۔

مندرجہ بالا قرآنی شہادتوں کی بناء پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ کائنات کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق بدعت کہلاتا ہے جیسا کہ فتح المبین شرح اربعین نووی میں ابن حجر مکی علیہ الرحمہ بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بدعت لغت میں اس نئے کام کو کہتے ہیںجس کی مثال پہلے موجود نہ ہو جس طرح قرآن میں شانِ خداوندی کے بارے میں فرمایا گیا کہ آسمان و زمین کا  بغیر کسی مثال کے پہلی بارپیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔

بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ بدعت اصطلاح میں کس چیز کا نام ہے ؟

اصطلاحِ شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کےلیے ائمہ فقہ وحدیث نے اس کی تعریف یوں کی ہے : ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلا واسطہ نہ قرآن میں ہو اور نہ حدیث میں اور اسے ضروریاتِ دین سمجھ کر دین میں شامل کرلیا جائے ۔ یاد رہے کہ ضروریاتِ دین سے مراد وہ امور ہیں جن میں کسی ایک چیز کا انکار کرنے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے ۔ ایسی بدعت کو بدعت سئیہ یابدعت ضلالہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد مبارک ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘سے یہ ہی بدعت مراد ہے ۔ ایسے نئے کام جن کی قرآن و سنت میں اصل موجود نہ ہو وہ اصل کے اعتبا رسے بدعت ہی کہلائیں گے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟

اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات میں سے کم و بیش ستر فی صد حصہ ناجائز ٹھہرتا ہے کیونکہ اس کی مروجہ شکلیں اور بہت سارے دینی امور اور معاملات ایسی ہیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اس کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ تھے ۔

بدعت کا مندرجہ بالا تصور یعنی ہر نئی چیز کو گمراہی پر محمول کرنا نہ صرف ایک شدید غلط فہمی ہے بلکہ ایک مغالطہ ہے علمی اور فکری لحاظ سے باعث ندامت بھی اور خو د دین اسلام کی کشادہ راہوں کو مسدود کر دینے کے مترادف بھی ، بلکہ اپنی اصل میں یہ نقطہ نظر قابل صد افسوس بھی ہے کیونکہ اسی تصور کو حق سمجھ لیا جائے تو یہ عصرِ حاضر اور اس کے بعد ہونے والی علمی و سائنسی ترقی سے آنکھیں بند کر کے ملتِ اسلامیہ کو تمام ا قوام کے مقابلے میں عاجز کر دینے کی سازش قرار پائے گی اور اس طریق پر عمل کرتے ہوئے بھلا ہم کیسے دینِ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے اور اسلامی تہذیب کو ثقافت و تمدن اور مذہبی اقدار اور نظامِ حیات میں بالا تری کی تمام کوششوں کو بار آور کر سکیں گے ؟
اس لیے ضروری ہے کہ اس مغالطے کو ذہنوں سے دور کیا جائے اور بدعت کا حقیقی اور صحیح اسلامی تصور امت مسلمہ کی نئی نسل پر واضح کیا جائے تاکہ ہماری نئی نسل امت مسلمہ کی ترقی کا باعث بنے اور امت مسلمہ کو اس مایوسی کی کیفیت سے نکال سکے ۔

بدعت کا حقیقی تصور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

ام المؤمنین حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من احدث فی أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد ۔
ترجمہ : جو اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو دین میں نہ ہو تو وہ رد ہے ۔ (صحیح بخاری:  ۳/۲۴۱رقم۲۶۹۷)(صحیح مسلم:  ۵ /۱۳۲ رقم۴۵۸۹)(سنن ابوداؤد:  ۴/۳۲۹رقم۴۶۰۸)(سنن ابن ماجہ:۱/۱۰رقم۱۴)(مسند احمد :  ۶/۲۷۰رقم۲۶۳۷۲،چشتی)(صحیح ابن حبان :  ۱/۲۰۹رقم۲۷)(مسند ابی یعلیٰ :  ۸/۷۰رقم۴۵۹۴)(سنن دارقطنی:  ۵/۴۰۳رقم۴۵۳۴)(سنن الکبرٰی بیہقی :  ۱۰ / ۱۵۰رقم۲۱۰۴۱)(مستخرج ابی عوانۃ:  ۷/۲۹۲رقم۵۱۵۷) ۔ اس کے سارے راوی قابل اعتماد اور سچے ہیں اس لیے یہ روایت صحیح ہے ۔

اس حدیث میں لفط ’’احدث‘‘ اور ’’ما لیس فیہ فہو رد‘‘ قابلِ غور ہیں عرف عام میں ’’احدث‘‘ کامعنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور لفظ ’’مالیس فیہ‘‘ احدث کے مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے کہ ’’احدث ‘‘ سے مراد ایسی نئی چیز ہوگی جو اس دین میں نہ ہو ۔ حدیثِ مبارکہ کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر ’’احدث‘‘ سے مراد دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا ہے تو پھر جب ایک چیز نئی ہی پیدا ہو رہی ہے تو پھر ’’مالیس فیہ‘‘ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ وہ اگر اس میں ہی سے تھی یعنی دین کا پہلے سے ہی حصہ تھی تو اسے نیا کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور پھر اکثر اس موقعہ پر آیت مقدسہ ،، الیوم اکملت لکم دینکم ،، کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے اس مغالطے کا جواب ملاحظہ ہو : ⬇

مغالطے کا ازالہ اور ’’فہو رد‘‘ کا صحیح مفہوم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : من عمل عملاًلیس علیہ أمرنا فہو رد ۔
ترجمہ : جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی أمر (حکم) موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔ (صحیح مسلم:  ۵/۱۳۲رقم ۴۵۹۰)(صحیح بخاری:  ۱/۱۳۲)(مسند احمد بن حنبل:  ۶/۱۸۰رقم۲۵۵۱۱)(سنن دارقطنی:  ۵ / ۴۰۶ رقم ۴۵۳۷)(مسند الربیع بن حبیب : ۱/۳۹رقم۴۹)(صحیح کنوزالسنۃالنبویۃ:  ۱/۵۲) ۔ اس کی سند صحیح ہے ۔

اس حدیث میں’’لیس علیہ أمرنا‘‘ سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہے کہ کوئی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلًا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا ایصال ثواب وغیرہ اگر ان پر کوئی قرآن و سنت سے دلیل نہ ہو تو یہ بدعت و مردود ہے یہ مفہوم سراسر باطل ہے کیونکہ اگر یہ معنیٰ لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں موجود نہیں وہ بدعت ضلالہ ہے حرام ہے تو پھر مباحات کا تصور اسلام میں کیا باقی رہ جاتا ؟

کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کے کرنے یا نہ کرنے کا شریعت میں کوئی حکم موجود نہ ہو ، لہٰذا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پہلی روایت میں ،،من احدث فی أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد،، میں ’’فہو رد‘‘ کا اطلاق نہ صرف ’’ما لیس فیہ‘‘ پر ہوتا ہے اور نہ فقط ’’احدث‘‘ پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں یعنی ’’احدث‘‘ اور ’’مالیس فیہ‘‘ یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور اس کی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو اور اس کی دین میں کسی جہت سے بھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو یا کسی جہت سے اس کا تعلق دین سے نہ نظر آتا ہو لہٰذا ان دلائل کی روشنی میں کسی بھی محدثہ ضلالہ ہونے کا ضابطہ دو شرائط کے ساتھ خاص ہے : ⬇

(1) ایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ،مثال یا دلیل موجود نہ ہو ۔

(2) دوسرا وہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف ومتضادہو ،بلکہ دین کی نفی کرنے والا ہو ۔

مباح (بدعت) کا قرآنی تصور

اب اس کے بعد مباح بدعت کی قبولیت کا قرآنی تصور پیشِ خدمت ہے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر بدعت قرآن و سنت کے خلاف ہو بلکہ بے شمار بدعات ایسی ہیں جو قرآن و سنت کے نہ منافی ہیں اور نہ ہی شریعت کی روح کے خلاف ہیں جیسا کہ قرآن نے رہبانیت کی بدعت کے بارے میں فرمایا دیکھیے سورت الحدید آیت ۲۷
میں اگر ہر نیا کام برا ہوتا تو یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟
بالکل اسی طرح مروجہ چھ کلمے بھی بدعتِ سئیہ یا بدعتِ ضلالہ نہیں ہیں بلکہ ان کی اصل شریعت میں موجود ہے اللہ تعالیٰ ایسے گمراہوں سے بچائے آمین ۔

چھ کلموں کے ثبوت میں مزید دلاٸل پیش خدمت ہیں

پہلا کلمہ طیّبہ

پہلا کلمہ طیبہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ۔

اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ملاحظہ فرمائیں : ⬇

اخبرنا ابو عبداللہ الحافظ،حدثنا ابو العباس محمد بن یعقوب،حدثنا محمد بن اسحاق،حدثنا یحییٰ بن صالح الوحاظی،حدثنا اسحاق بن یحییٰ الکلبی،حدثنا الزہری،حدثنی سعید بن المسیب،أن أبا ہریرۃ رضی اللہ عنہ أخبرہ عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قال :  أنزل اللہ تعالیٰ فی کتابہ،فذکر قوما استکبروا فقال  :  انہم کانوا اذا قیل لہم لا الہ الا اللہ یستکبرون، وقال تعالیٰ اذجعل الذین کفروا فی قلوبہم الحمیۃ حمیۃ الجاہلیۃ فأنزل اللہ سکینۃ علی رسولہ وعلی المؤمنین وألزمہم کلمۃ التقوی وکانوا أحق بہاوأہلہا،وہی (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) استکبر عنہا المشرکون یوم الحدیبیۃ  یوم کاتبہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی قضیۃ المدۃ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی قوم کا ذکر فرمایا  : یقینًا جب انہیں لا الہ الا اللہ کہا جاتا ہے تو وہ تکبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کےلیے کلمۃ التقوٰی کو لازم قرار دیا اور (وہ) اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے  اور وہ (کلمۃ التقوٰی) ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے حدیبیہ والے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدت (مقرر کرنے) والے فیصلے میں مشرکین نے اس کلمے سے تکبر کیا تھا ۔ (الأسماء والصفات للبیہقی :  ۱/۲۰۸رقم۱۹۴،۱۹۵)(الایمان لابن مندہ  :  ۱/۳۵۹رقم۱۹۹،۲۰۰)(الایماء الی زوائد الأمالی والأجزاء  :  ۶/۴۵۰رقم۶۰۱۸،چشتی)(مختصر تاریخ دمشق  :  ۸/۸۷)(الدرالمنثور للسیوطی  :  ۱۲/۴۰۱)(تفسیر ابن ابی حاتم  :  ۱۰/۳۲۱۰)(تفسیر الطبری  :  ۲۱/۳۰۸رقم۳۱۸۴۸)(تفسیر قرطبی  :  ۱۵/۷۶)(فتح القدیر للشوکانی  :  ۶/۱۹۷)(فتح البیان فی مقاصد القرآن  :  ۱۱/۳۸۲)

تعارف رجا ل الحدیث

(1) ابوبکراحمد بن الحسین بن علی بن موسیٰ البیہقی : امام ذہبی لکھتے ہیں ’’ہو الحافظ العلامۃ ،الثبت،الفقیہ،شیخ الاسلام‘‘ ۔ (سیراعلام النبلاء :  ۱۸/۱۶۳رقم۸۶)

(2) ابو عبداللہ الحافظ محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نعیم الحاکم : امام ذہبی لکھتے ہیں ’’الامام ،الحافظ،الناقد،العلامۃ،شیخ المحدثین‘‘ ۔ (سیراعلام النبلاء :  ۱۷/۱۶۳رقم۱۰۰)
مزیدان کا ترجمہ درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں
(۱)تاریخ بغداد:  ۵/۴۷۳   (۲)میزان الاعتدال:  ۳/۶۰۸
(۳)تذکرۃ الحفاظ:  ۳/۷۰۰رقم ۹۶۲  (۴)وفیات الاعیان:  ۴/۲۸۰،۲۸۱
(۵)البدایۃ والنہایۃ:  ۱۱/۳۵۵   (۶)لسان المیزان:   ۵/۲۳۲،۲۳۳
(۷)شذرات الذہب:  ۳/۱۷۶   (۸)طبقات السبکی:  ۴/۱۵۵
(۳) ابو العباس محمد بن یعقوب الاصم النیسابوری:
امام ذہبی لکھتے ہیں ’’الامام ،المحدث،مسند العصر،رحلۃ الوقت‘‘ (سیر اعلام النبلاء :  ۱۵/۴۵۲رقم۲۵۸)
مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں دیکھا جاسکتا ہے
(۱)تاریخ دمشق:  ۵۶/۲۸۷     (۲)تذکرۃ الحفاظ :  ۳/۳۹۳رقم۸۳۵
(۳)شذرات الذہب:  ۲/۳۷۳،۳۷۴  (۴)البدایۃ والنہایۃ:  ۱۱/۲۳۲
(۵)الوافی بالوفیات:  ۵/۲۲۳   (۶)المنتظم:  ۶/۳۸۶
(۴)ابو بکر محمد بن اسحاق بن جعفر الصاغانی:
امام ذہبی لکھتے ہیں ’’الامام،الحافظ ،المجود، الحجۃ‘‘  (سیر اعلام النبلاء:  ۱۲/۵۹۳رقم۲۲۴)
امام دار قطنی کہتے ہیں ’’ثقۃ‘‘ ۔ (سیر اعلام النبلاء:  ۱۲/۵۹۴رقم۲۲۴)
مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں
(۱)تاریخ بغداد:  ۱/۲۴۰،۲۴۱   (۲)تہذیب التہذیب:  ۹/۳۵
(۳)شذرات الذہب :  ۲/۱۶۰   (۴) المنتظم:  ۵/۷۸
(۵)الجرح والتعدیل:  ۷/۱۹۵،۱۹۶   (۶) طبقات الحفاظ:  ۲۵۶
(۷)الوافی بالوفیات:  ۲/۱۹۵   (۸)تذہیب التہذیب:  ۳/۱۸۳
(۵)ابوزکریا یحییٰ بن صالح الوحاظی:
امام ذہبی لکھتے ہیں ’’الامام ،العالم،الحافظ، الفقیہ‘‘ ۔ (سیر اعلام النبلاء:  ۱۰/۴۵۴رقم۱۵۰)
امام یحییٰ بن معین  فرماتے ہیں ’’ثقۃ‘‘ ۔ (سیر اعلام النبلاء:  ۱۰/۴۵۴رقم۱۵۰)
مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں
(۱)تاریخ دمشق:  ۱۲/۲۸۸   (۲)تاریخ الکبیر للبخاری:  ۸/۲۸۲
(۳)تذکرۃ الحفاظ :  ۱/۴۰۸   (۴)الکاشف:  ۳/۲۵۸
(۵)تہذیب التہذیب:  ۱۱/۲۲۹   (۶)شذرات الذہب:  ۲/۵۰
(۷) طبقات ابن سعد:  ۷/۴۷۳   (۸)طبقات الحنابلہ:   ۱/۴۰۲
(۶)اسحاق بن یحییٰ بن علقمۃ الکلبی الحمصی:
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں’’صدوق‘‘ ۔ (تقریب التہذیب:  ۱/۸۶رقم۳۹۱)
مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیے
(۱)تہذیب الکمال للمزی:  ۲/۴۹۲رقم۳۹۰  
(۲)تہذیب التہذیب:  ۱/۲۵۵
(۳)الثقات لابن حبان:  ۶/۴۹رقم۶۶۷۰  
(۴)الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:  ۱/۴۰۶
(۵)سوالات الحاکم للدراقطنی:  رقم۲۸۰
(۷)ابوبکرمحمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ الزہری القرشی:
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
’’الفقیہ،الحافظ متفق علی جلالتہ واتقانہ‘‘
’’آپ فقیہ حافظ اور آپ کی جلالت و ثقاہت پر اتفاق ہے‘‘  ۔ (تقریب التہذیب:  ۲/۱۳۳رقم۶۳۱۵)
ان کا مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں دیکھا جا سکتا ہے
(۱)سیر اعلام النبلاء:  ۵/۳۲۶رقم۱۶۰ (۲)تذکرۃ الحفاظ :  ۱/۱۰۸
(۳)التاریخ الکبیر:  ۱/۲۲۰  (۴)تہذیب الاسماء:  ۱/۹۰
(۵)تاریخ الاسلام للذہبی:  ۵/۱۳۶  (۶)شذرات الذہب:  ۱/۱۶۲
(۷)وفیات الاعیان:  ۴/۱۷۷  (۸)تہذیب التہذیب:  ۹/۴۴۵
(۸)سعیدبن المسیب بن حزن القرشی المخزومی:
امام ذہبی  فرماتے ہیں ’’آپ اپنے زمانے میں مدینہ میں اہل علم میں سے تھے اور تابعین کے سردار تھے ‘‘   (سیر اعلام النبلاء :  ۴/۲۱۷رقم۸۸)
آپ کا شاندار ترجمہ درج ذیل کتب میں دیکھ سکتے ہیں
(۱)تقریب التہذیب:  ۱/۳۶۴رقم۲۴۰۳  (۲)تذکرۃ الحفاظ :  ۱/۵۱
(۳)البدایۃ والنہایۃ:  ۹/۹۹   (۴)شذرات الذہب:  ۱/۱۰۲
(۵)تہذیب التہذیب:  ۴/۸۴   (۶)وفیات الاعیان:  ۲/۳۸۵
(۷)تاریخ الاسلام للذہبی:  ۴/۴   (۸)طبقات ابن سعد:  ۵/۱۱۹
(۱۰)حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ : یہ مشہور صحابی رسول ہیں اور تمام صحابہ عادل ہیں ۔ اس روایت کے تمام راوی سچے اور قابل اعتماد ہیں اس لئے یہ روایت صحیح ہے ۔

یہ کلمہ طیب صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اس کو بدعت کہنے والا علم حدیث سے ناواقف ہے جیسا کہ سابقہ مضامین میں قارئین نے ملاحظہ فرمایا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ایسی گمراہیوں سے محفوظ فرمائے اور اہل سنت و جماعت کے راستے پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

دوسرا کلمہ شہادت

دوسرا کلمہ بھی حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :من شہد لا الہ الا اللہ وحدہ ٗلا شریک لہ ٗ،وأن محمد اعبدہٗ ورسولہ ۔
ترجمہ : جس نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ وحدہ لا شریک ہے اور بے شک محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ (صحیح بخاری:  ۴/۲۰۱رقم۳۴۳۵)(مسند احمد:  ۵/۳۱۳رقم۲۲۷۲۷)(السنۃ لابن أبی عاصم: ۲/۴۳۱رقم۸۸۹)(شرح السنۃ للبغوی:  ۱/۱۰۱رقم۵۴)(مسند الشامین:  ۱/۳۱۶رقم۵۵۵)(صحیح ابن حبان :  ۱/۴۳۷رقم ۲۰۷)(مصنف عبدالرزاق:  ۲/۵۶۶رقم۴۴۸۱)(معجم المقریء:  ۲/۲۷۲رقم ۷۶۴)(الدعاء لابن فضیل: ص۱۷۳رقم۱۳،چشتی)(حدیث أبی الفضل الزہری:  ۱/۳۵۷رقم۳۵۶)(حدیث خیثمۃ:  ص۱۸۷)(حلیۃ الاولیاء:  ۵/۱۵۹)(التمہید لما  فی المؤطا:  ۲۳/۲۹۹)(جامع العلوم والحکم:  ۱/۲۰۹) ۔ اس کے سارے راوی سچے ہیں اس لیے یہ سند صحیح ہے ۔

علماء کرام نے من شہد کو اپنی جانب نسبت کرتے ہوئے ’’أشھد أن‘‘ کے الفاظ سے پڑھنا شروع کر دیا جو کہ درست ہے لیکن اگر پھر بھی کسی کے دل میں یہ شبہ ہو کہ وہ جو آپ الفاظ پڑھتے ہیں وہ ہی دکھائیں تو جنا ب وہ بھی الفاظ حدیث ہی ہیں لہٰذا وہ بھی پیش خدمت ہیں :⬇

حضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا : ثم قال أشھد أن لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ وأشھد أن محمدا عبدہٗ ورسولہٗ ۔
ترجمہ : پھر کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ (صحیح مسلم:  ۱/۱۴۵رقم ۵۷۷)(سنن أبی داؤد:  ۱/۲۰۷رقم ۵۲۵)(سنن ترمذی :  ۱/۷۸رقم۵۵)(سنن نسائی:  ۲/۲۷۲رقم ۱۱۷۳)(سنن ابن ماجہ:  ۱/۲۹۷رقم۴۶٤)(مسند احمد بن حنبل:  ۱/۱۹رقم ۱۲۱)(صحیح ابن حبان مع حواشی:  ۴/۵۹۱رقم ۱۶۹۳)(مسند البزار:  ۳/۳۳۲رقم ۱۱۳۰)(مسند ابی یعلیٰ:  ۱/۱۶۲رقم۱۸۰   (۱۰)سنن دارقطنی: ۲/۱۶۲رقم۱۳۳۰)(سنن الکبرٰی للبیہقی:  ۲/۲۹۵۴۱۴۴)(مستخرج أبی عوانۃ:  ۱/۳۰۶رقم ۴۶۴)(معجم الکبیر للطبرانی:  ۶/۷۹رقم ۶۰۴۸)(الاحکام الشرعیۃ للاشبیلی:  ۱/۴۸۰،چشتی)(موطاء امام محمد:  ۱/۲۲۹رقم ۱۴٣)(شرح معانی الآثار للطحاوی:  ۱/۲۶۵رقم ۱۵۷۸) ۔ اس کے سارے راوی بھی سچے ہیں اس لیے یہ روایت بھی صحیح ہے ۔

حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ’’تشھد‘‘ کی تعلیم دیتی ہوئی فرماتی ہیں کہو : أشھد أن لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ وأشھد أن محمدا عبدہٗ ورسولہٗ ۔
ترجمہ : میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ (مؤطا امام مالک روایۃ یحییٰ اللیثی:  ص۹۱رقم۲۰۵)(شرح الزرقانی:   ۱ /۲۷۲)(مسند الصحابۃ فی الکتب التسعۃ:  ۱۰/۳۴۱۴۹۵)

تعارف رجال الحدیث

(۱)مالک بن انس بن مالک المدنی:آپ مشہور فقیہ اور امام مدینہ ہیں امام ذہبی فرماتے ہیں ۔ [ہو شیخ الاسلام ،حجۃ الامۃ،امام دارالہجرۃ]    (سیراعلام النبلاء:  ۸/۴۸رقم۱۰)
امام مالک کا مزیدشاندار ترجمہ درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں
(۱)تذکرۃ الحفاظ: ۱/۲۰۷  (۲)تہذیب التہذیب : ۱۰/۵
(۳) التاریخ الکبیر:  ۷/۳۱۰  (۴)البدایۃ والنہایۃ:  ۱۰/۱۷۴
(۵)الکامل لابن الاثیر: ۶/۱۴۷  (۶)شذرات الذہب  :   ۲/۱۲
(۷)الکاشف:  ۳/۱۱۲   (۸)تاریخ ابن معین:  ۲/۵۴۳
(۲)عبدالرحمن بن القاسم بن محمدبن ابی بکر:
امام ذہبی فرماتے ہیں [الامام،الثبت،الفقیہ] ۔ (سیر اعلام النبلاء:  ۶/۵رقم۱)
ان کا مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں
(۱)تذکرۃ الحفاظ:  ۱/۱۲۶  (۲)تہذیب التہذیب :  ۶/۲۵۴
(۳)التاریخ الصغیر: ۱/۳۲۱  (۴)الجرح والتعدیل:  ۵/۲۷۸
(۳)القاسم بن محمد بن  ابی بکر:
امام ذہبی فرماتے ہیں :الحافظ،الحجۃ،عالم بالوقتہبالمدینۃ ۔ (سیراعلام النبلاء:  ۵/۵۴رقم۱۸)
ان کا مزید ترجمہ درج ذیل کتب ملاحظہ فرمائیں
(۱)طبقات ابن سعد:  ۵/۱۸۷  (۲)حلیۃ الاولیاء:  ۲/۱۸۳
(۳)تہذیب الاسماء واللغات:  ۲/۵۵ (۴)شذرات الذہب  :  ۱/۱۳۵
(۵)تذکرۃ الحفاظ:  ۱/۹۶  (۶)تہذیب التہذیب :  ۸/۳۲۳
(۷)وفیات الاعیان:  ۴/۵۹  (۸)الجرح والتعدیل:  ۷/۱۱۸
(۴)حضرت ام المؤمنین عائشۃ رضی اللہ عنہا : آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں ام المؤمنین ہیں صحابیہ ہیں ۔
اس کے سارے راوی سچے ہیں لہٰذا یہ روایت صحیح ہے ۔

تیسرا کلمہ

تیسر ا کلمہ تمجید کے الفاظ یہ ہیں : سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔

اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں یوں کہا کرو : سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔
ترجمہ : اللہ پاک ہے اور تمام خوبیاں اللہ ہی کےلیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیک کام کرنے کی قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے جو عالی شان اور عظمت والا ہے ۔ (سنن ابوداؤد : ۱/۲۲۰رقم ۸۳۲ مطبوعہ دارالفکر محقق محمد محی الدین عبدالحمید،چشتی)(سنن ابن ماجہ:  ۵/۴۳رقم۳۸۷۸)(موطاء امام محمد:  ۳/۵۱۳رقم۱۰۰۰مطبوعہ دمشق)(أخبار مکۃ للفاکہی:  ۱/۲۸۲رقم۵۷۵)

تعارف رجال الحدیث

(۱)امام ابوداؤدسلیمان بن الأشعث بن اسحاق مصنف السنن:امام ابن حجر فرماتے ہیں [ثقۃ، حافظ] (تقریب التہذیب:  ۱/۳۸۲رقم۲۵۴۱)
(۲)عثمان بن ابی شیبۃ ابراہیم بن عثمان العبسی:امام ذہبی لکھتے ہیں کہ یحییٰ بن معین mفرماتے ہیں [ثقۃ،مامون] ۔ (سیراعلام النبلاء :  ۱۱/۱۵۲رقم۵۸)
(۳)وکیع بن الجراح بن ملیح بن عدی:امام ذہبی فرماتے ہیں[الامام ،الحافظ،محدث العراق] ۔ (سیر اعلام النبلاء:  ۹/۱۴۱رقم۴۸)
محمد بن سعد فرماتے ہیں [کان وکیع ثقۃ ،مامونا،عالیا،رفیعا،کثیر الحدیث،حجۃ] ۔ (سیر اعلام النبلاء:  ۹/۱۴۵)
(۴) ابوخالد الدالانی یزید بن عبدالرحمن الاسدی الکوفی:امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں [لیس بہ بأس] اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (تاریخ ابن معین للدارمی:  ۱/۲۲۸رقم۸۸۰)
ابو حاتم فرماتے ہیں [صدوق]امام احمد فرماتے ہیں[لابأس بہ] ۔ (میزان الاعتدال:  ۴/۴۳۲رقم۹۷۲۳)
(۵) ابو اسماعیل ابراہیم بن عبدالرحمن السکسکی الکوفی:امام ابن حجر عسقلانیفرماتے ہیں [صدوق] سچا ہے (تقریب التہذیب:  ۱/۶۰رقم۲۰۴)
(۶) حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ:یہ صحابی رسول ہیں اور سارے صحابی عادل ہیں ۔
اس کے سارے راوی سچے ہیں اور یہ روایت حسن ہے ۔

تھوڑے سے الفاظ کی تبدیلی سے یہی بات درج ذیل کتب میں موجود ہے وہ الفاظ یہ ہیں : ⬇
سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ (سنن ابوداؤد:  ۴/۴۷۴رقم ۵۰۶۲ بتحقیق البانی)(سنن نسائی:  ۲/۱۴۳رقم ۹۲۴بتحقیق البانی حسن)(مسند احمد:  ۴/۳۵۶رقم۱۹۱۶۱بتحقیق الأرناؤوط حسن)(مسند الطیالسی:  ۲/۱۱۵۷رقم۸۵۱)(سنن دارقطنی:  ۲/۸۸رقم۱۱۹۵)(سنن الکبرٰی للبیہقی:  ۲/۳۸۱رقم۴۱۴۸،۴۱۴۹،۴۸۵۳)(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی:  ۳/۳۲۶رقم ۱۲۷۲)(المنتخب من مسند عبد بن حمید:  ۱/۱۸۶رقم ۵۲۴)(معجم الکبیر للطبرانی:  ۹/۱۸رقم۱۰۲۱۲)(معجم الاوسط للطبرانی:  ۳/۲۳۷رقم ۳۰۲۵،چشتی)(الاحکام الشرعیۃ للاشبیلی:  ۲/۳۶۹)(التوحید لابن مندۃ:  ۱/۲۴۸رقم۲۶۸)(الجامع فی الحدیث لابن وہب:  ص۲۹۱رقم۳۳۲)(اخبار مکۃ للفاکہی:  ۱/۲۸۱رقم۵۷۳)(المستدرک للحاکم:  ۱/۲۴۱رقم ۸۸۰)(شرح السنۃ للبغوی:  ۳/۹رقم۵۵۳)(شعب الایمان:  ۲/۱۳۲رقم ۶۰۹)(صحیح ابن حبان:  ۵/۱۱۶رقم۱۸۱۰)(مصنف ابن ابی شیبۃ:  ۱۰/۲۹۱رقم۳۰۰۳۲)(مختصر قیام اللیل للمروزی:  ص۱۰۹)

چوتھا کلمہ توحید

چوتھا کلمہ توحید کے الفاظ یہ ہیں : لاالہ اللہ وحدہ ٗ لاشریک لہ ٗ لہ الملک ولہ الحمد یحیٖ و یمیت وہو حی لایموت ’ابدا ابداط ذوالجلال والاکرام ، بیدہ الخیر وہو علیٰ کل شیء قدیر ۔

چوتھے کلمے کے الفاظ بھی حدیث سے ثابت ہیں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں : قال من دخل السوق فقال لاالہ اللہ وحدہ ٗ لاشریک لہ ٗ لہ الملک ولہ الحمد یحیٖ ویمیت وہو حی لایموت بیدہ الخیر وہو علیٰ کل شیء قدیر،کتب اللہ لہٗ ألف ألف حسنۃومحا عنہ ألف ألف سیئۃورفع لہ ألف ألف درجۃ ۔
ترجمہ : جوشخص بازار میں داخل ہو تو یہ کلمات کہے ’’ لاالہ اللہ وحدہ ٗ لاشریک لہ ٗ لہ الملک ولہ الحمد یحیٖ ویمیت وہو حی لایموت بیدہ الخیر وہو علیٰ کل شیء قدیر‘‘اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس سے دس لاکھ برائیاں مٹائی جاتی ہیں اور اس کے دس لاکھ درجات بلند کیے جاتے ہیں ۔ (جامع ترمذی:  ۵/۴۹۱رقم۳۴۲۸قال البانی حسن)(مسند البزار:  ۳/۲۶۰رقم۱۰۵۱)(مسند الطیالسی:  ۱/۱۴رقم۱۲)(المنتخب من مسند عبد بن حمید:   ۱/۳۹رقم۲۸)(أخبار مکۃ للفاکہی:  ۴/۵۷رقم۲۳۷۸)(الدعاء للطبرانی:  ص۲۵۱رقم۹۸۷)(المستدرک للحاکم:  ۱/۵۳۸رقم۱۹۷۴)(سنن دارمی :  ۲ / ۳۷۹ رقم ۲۶۹۲،چشتی)(شرح السنۃ للبغوی:  ۵/۱۳۲رقم۱۳۳۸)(أمالی ابن بشران:  ۲/۱۴۴رقم ۶۰۷)(کتاب الآثار لابی یوسف:  ص۴۱رقم۲۱۵)(الاحادیث المختارۃ للضیاء المقدسی:  ۱/۱۱۴رقم۱۸۷)(الاسماء الصفات للبیہقی:  ۱/۲۲۷رقم۲۱۱)(الفوائد لتمام الرازی:  ۲/۱۵۵رقم۱۴۰۹)(الکنی والاسماء للدولابی:  ۴/۲۹۱رقم۹۱۴)(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:  ۱۰/۵۴رقم۱۶۹۳۱)(صحیح کنور السنۃ النبویۃ:  ۱/۱۴رقم۷۱)(کنز العمال:  ۴/۲۷رقم۹۳۲۷) ۔  یہ روایت حسن ہے ۔

اس کے علاوہ ’’ابداًابدا‘‘ کے الفاظ بھی حدیث سے ثابت ہیں دیکھیے : ⬇

قال قیس وقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابداابدا ۔ (مسند ابی یعلیٰ:  ۱/۴۲۱رقم۹۱۲)(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم:  ۱۶/۲۷۷رقم۵۱۵۱)(مجمع الزوائد:  ۳/۱۱۶رقم۴۴۵۴)(مطالب العالیۃللابن حجر:  ۶/۲۰۹رقم۲۰۹۷)(أسد الغابۃ:  ۲/۴۲۴)(روضۃ المحدثین:   ۱۲/۱۱۱رقم۵۶۱۱)

اسی طرح ’’ذوالجلال والاکرام‘‘ کے الفاظ بھی قرآن و سنت سے ثابت ہیں دیکھیے : ⬇

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے : ذوالجلال والاکرام ۔ (سنن ابن ماجہ:  ۵/۲۶رقم۳۸۵۸)(المعجم الکبیر للطبرانی:  ۵/۱رقم ۴۵۸۸)(التوحید لابن مندۃ:  ۱/۲۷۸رقم۳۰۹)(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۰/۲۷۲رقم۲۹۹۷۴)(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم:  ۸/۱۶۶رقم۲۵۳۷)(المستدرک للحاکم :  ۱ / ۵۰۴ رقم ۱۸۵۷)

پانچواں کلمہ استغفار

پانچواں کلمہ استغفار جو ہم پڑھتے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں : استغفر اللہ ربی من کل ذنب اذنبتہٗ عمدًا أو خطائً سرا أو علانیۃً وّ اتوب الیہ من الذنب الذی اعلم ومن الذنب الذی لا اعلم انک انت علام الغیوب وستا ر العیوب وغفار الذنوب ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔
ترجمہ : میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں جو میرا پروردگار ہے ہر گناہ سے جو میں نے کیا جان بوجھ کر یا بھول کر درپردہ یا کھلم کھلا اور میں توبہ کرتا ہوں اس کے حضور میں اس گناہ سے جو مجھے معلوم ہے اور اس گناہ سے جو مجھے معلوم نہیں بے شک تو غیبوں کا جاننے والا ہے اور عیبوں کا چھپانے والا ہے اور گناہوں کا بخشنے والا ہے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیک کا م کی قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے جو عالیشان اور عظمت والا ہے ۔

اس کلمہ میں کون سی ایسی چیز ہے جو خرابی والی ہے کیا اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا غلط ہے ؟ کیا یہ بھی بدعت ہے ؟ اور کیایہ بات اپنے بچوں کو سکھانا بھی غلط ہے؟ جبکہ سید الاستغفار کا ذکر بھی حدیث شریف میں ہے : حدثنی شداد بن اوس،عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید الاستغفار أن تقول اللہم انت ربی لاالہ الا انت ۔ (صحیح بخاری:  ۸/۸۳رقم ۶۳۰۶مطبوعہ قاہرہ،چشتی)(سنن الکبرٰی للنسائی:  ۹/۲۱۶رقم ۱۰۳۴۱)(معجم الکبیر للطبرانی:  ۶/۴۴۹رقم۷۰۲۶)(المعجم الاوسط:  ۱/۳۰۲رقم ۱۰۱۴)(الدعاء للطبرانی:  ص۱۱۹رقم۳۱۵)

چھٹا کلمہ رد کفر

چھٹے کلمے میں بھی اللہ کی پناہ مانگی جاتی ہے اور گناہوں سے توبہ کی جاتی ہے چاہے وہ اس گناہ کے بارے میں علم رکھتا ہو یا نہیں اسی طرح بدعت ،چغلی، کفر و شرک ، بے حیائی کے کاموں سے اور تہمت لگانے سے اور ہر قسم کی نافرمانیوں سے معافی مانگتا ہے اور پھر تجدید ایمان کرتا ہے یعنی کلمہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) پڑھتا ہے تو بتائیے ان میں کون سی ایسی بات ہے جو قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو یا جس کی دین میں اصل موجود نہ ہو یہ سب سلف صالحین علیہم الرحمہ کے طریقہ پر ہی عمل ہے لہٰذا اس کو رد کرنا خود بدعت ضلالہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے جا بجا توبہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور توبہ سے انکار کفر ہے اس کلمہ میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے کا ہی بیان ہے اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : یایھاالذین اٰمنوا اجتنبواکثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۔
ترجمہ : اے ایمان والوں بہت سے گمانوں سے بچو بیشک کچھ گمان گناہ ہیں ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر ۱۲)

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ۔
ترجمہ : گمان سے دور رہو کہ گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے ۔(صحیح بخاری:  ۷/۲۴رقم۵۱۴۳)(صحیح مسلم: ۸/۱۰رقم۶۷۰۱)(موطاء امام مالک:  ۲/۹۰۷رقم۱۶۱۶)(سنن ابوداؤد:  ۴/۴۳۲رقم۴۹۱۹)

لہٰذا مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں بدگمانی سے بچنا چاہیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حق واضح ہو جانے کے بعد اس کو قبول کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ان مضامین کو اپنی بارگاہ میں مقبول فرمائے ۔ فقیر کے والدین ، فقیر کے اساتذہ کرام ، فقیر ، فقیر چشتی کے بیوی بچوں اور میرے بہن بھائیوں اور دوستوں کو ایمان پر سلامت رکھے اور ایمان پر ہی موت عطاء فرمائے  آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...