Tuesday, 27 June 2023

ایامِ تشریق و تکبیرِ تشریق کے فضائل و مسائل

ایامِ تشریق و تکبیرِ تشریق کے فضائل و مسائل

محترم قارئینِ کرام : ایام تشریق وہ یاد گار دن ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے شہزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیئے ہیں جب جب عید الاضحٰی منائی جائے گی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا اللہ جب اپنے محبوب بندوں سے خوش ہوتا ہے تو امت کےلیے ایڈیل (پہچان) بنا دیا جاتا ہے ۔ ہر دن کسی عبادت کے ساتھ خاص ہے اور یومُ النحر ایسی عبادت کے ساتھ خاص ہے جسےحضرت ابراہیم علیہ السلام نےادا کیا یعنی قربانی کرنااورتکبیرپڑھنا (یعنی تکبیرات تشریق)اور اگر انسان کےفدیہ میں کوئی چیز جانور کو ذبح کرنے سے زیادہ افضل ہوتی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسماعیل علیہ السَّلام کے فدیہ میں اسے(یعنی جانور کو) ذبح نہ فرماتے ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے :وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِۚ-وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِۙ-لِمَنِ اتَّقٰىؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ۔ (البقرة آیت نمبر 203)
ترجمہ : اور اللہ کی یاد کرو گنے ہوئے دنوں میں توجو جلدی کر کے دو دن میں چلا جائے اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو رہ جائے تو اس پر گناہ نہیں پرہیزگار کےلیے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اسی کی طرف اٹھنا ہے ۔

کے دنوں سے مراد اَیّام تَشریق ہیں اور ذکراللہ سے نمازوں کے بعد اور جَمرات کی رمی کے وقت تکبیر کہنا مراد ہے۔   (صاوی ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۳، ۱ / ۱۷۱)

اور مراد یہ ہے کہ منیٰ میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہو ۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضوان الله علیهم اجمعین قَالَ: الْأَيَّامُ الْمَعْلُومَاتُ الَّتِي قَبْلَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ وَيَوْمِ التَّرْوِيَةِ وَيَوْمِ عَرَفَةَ، وَالْمَعْدُوْدَاتُ أَيَّامُ التَّشْرِيْقِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ سے مراد یومِ ترویہ سے قبل کے ایام ، یوم ترویہ اور یومِ عرفہ ہیں جبکہ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ سے مراد ایامِ تشریق ہیں ۔ (أخرجه المقدسي في الأحاديث المختارة، 10: 78، الرقم: 70،چشتی )(والبيهقي في السنن الكبرى، 5: 228، الرقم: 9925)(والبيهقي في فضائل الأوقات: 413، الرقم: 219)(وابن عبد البر في التمهيد، 12: 130)(والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2: 292)

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: الأَيَّامُ الْمَعْلُومَاتُ الْعَشْرُ، وَالأَيَّامُ الْمَعْدُودَاتُ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ ۔
ترجمہ :حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ سے مراد (ذی الحجہ کے) دس دن ہیں جبکہ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ سے مراد ایامِ تشریق ہیں ۔ (أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، باب الأيام المعلومات والأيام المعدودات، 5: 228، الرقم: 9927)(البيهقي في شعب الإيمان، 3: 359، الرقم: 3770)

عَنْ نُبَيْشَةَ الْهُذَلِيِّ رضی اللہ عنه ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : أَيَّامُ التَّشْرِيْقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ۔
ترجمہ : حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: ایامِ تشریق (عید الاضحی کے بعد تین دن) کھانے پینے کے دن ہیں ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب تحريم صوم أيام التشريق، 2: 800، الرقم: 1141،چشتی)(وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 75)(والنسائي في السنن الكبرى، 2: 463، الرقم: 4182)(وابن أبي شيبة في المصنف، 3: 94، الرقم: 15268)

عَنْ سَعْدِ بْن أَبِي وَقَّاصٍ رضی اللہ عنه ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُوْلُ الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم أَنْ أُنَادِيَ أَيَّامَ مِنيً: إِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ، وَلَا صَوْمَ فِيْهَا، يَعْنِي: أَيَّامَ التَّشْرِيقِ ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایامِ منٰی میں مجھے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ یہ اَیامِ تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اور ان میں روزہ نہیں ہوتا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1: 169، الرقم: 1456)(أحمد بن حنبل في المسند، 1: 174، الرقم: 1500،چشتی)(والحارث بن أسامة في المسند، 1: 434، الرقم: 350)

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ۔
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عرفہ کا دن ، قربانی کا دن اور ایام تشریق اہل اسلام کےلیے عید اور کھانے پینے کے دن ہیں ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الصوم، باب صيام أيام التشريق، 2: 320، الرقم: 2419)(والترمذي في السنن، كتاب الصوم، باب في كراهية الصوم في أيام التشريق، 3: 143، الرقم: 773،چشتی)(والنسائي في السنن، كتاب مناسك الحج، باب النهي عن صوم يوم عرفة، 5: 252، الرقم: 3004)(والدارمي في السنن، كتاب الصوم، باب في صيام يوم عرفة، 2: 37، الرقم: 1764)(وابن أبي شيبة في المصنف، 3: 394، الرقم: 15270)(وابن خزيمة في الصحيح، 3: 292، الرقم: 2100)

عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنه : أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نَهَى عَنْ صَوْمِ خَمْسَةِ أَيَّامٍ فِي السَّنَةِ: يَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ النَّحْرِ، وَثَلَاثَةِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنه سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سال میں پانچ دن روزوں سے منع فرمایا ہے: عید الفطر کے روز، عید قربان کے روز اور ایام تشریق کے تین دن ۔ (أخرجه الدار قطني في السنن، باب طلوع الشمس بعد الإفطار، 2: 212، الرقم: 34)(وأبو يعلى في المسند، 7: 149، الرقم: 4117)

ایامِ تشریق اور تکبرِ تشریق کتنے ہیں

نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز فرض پنجگانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ایک بار تکبیر بلند آواز سے کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں ، وہ یہ ہے :
اللہُ اکبراللہُ اکبر لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ ُوَاللہُ اکبراللہُ اکبر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ۔ (تنویر الابصار وغیرہ) ۔۔۔۔۔۔ ”تنوير الأبصار”، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۱، ۷۴)

حضرت اِبراہِیم علیہ السلام نے جب حضرت اِسمٰعِیل علیہ السلام کو ذَبح کرنے کےلیے زمین پر لِٹایا  تو اللہ عزوجل کے حکم سے حضرتِ جبرئیل علیہ السلام بَطورِ فِدیہ جَنت سے ایک مینڈھا (یعنی دُنْبہ) لیے تشریف لائے اور دُور سے اُونچی آوازمیں فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہ ُاَکْبَر ، جب حضرت اِبراہِیم علیہ السلام نے یہ آواز سُنی تو اپنا سر آسمان کی طر ف اُٹھایا اور جان گئے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے آنے والی آزمائش کا وَقْت گُزر چُکا ہے اور بیٹے کی جگہ فِدیے میں مینڈھا بھیجا گیا ہے ، لہٰذا خُوش ہوکر فرمایا : لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر ، جب حضرت اِسْمٰعِیل علیہ السلام نے یہ سُنا تو فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْد ، اس کے بعد سے اِن تینوں پاک حضرات کے اِن مُبارَک اَلْفاظ کی اَدائیگی کی یہ سُنَّت قیامت تک کےلیے جاری و ساری ہو گئی ۔ (بِنایَہ شرح ہِدایَہ جلد ۳ صفحہ ۱۳۰) ۔

ان مُبارک کلمات کو تکبیرِ تشریق کہتے ہیں اوریہ نویں (9) ذُوالحِجۃُ الْحَرام کی نمازِ فَجر سے تیرھویں(13) کی نمازِ عصر تک پانچوں وَقْت کی فرض نمازیں جو مسجد کی جماعتِ مُسْتَحَبَّہ کے ساتھ اَدا کی گئیں ان میں ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے اور 3 بار افضل ہے ۔ تکبیرِ تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً کہنا واجِب ہے ۔ تکبیرِ تشریق یہ ہے : اللہُ اَکْبَرُ ، اللہ ُاَکْبَرُ  ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ ، اللہُ اَکْبَرُ ، وَلِلّٰہِ الْحَمْد ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۷۸۴)(تَنوِیرُ الْاَبصار جلد ۳ صفحہ ۷۱،چشتی)(دُرِّ مُختار و رَدُّالْمُحتار جلد ۳ صفحہ ۷۳)

تکبیر تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً واجب ہے یعنی جب تک کوئی ایسا فعل نہ کیا ہو کہ اس نماز پر بنا نہ کر سکے ، اگر مسجد سے باہر ہو گیا یا قصداً وضو توڑ دیا یا کلام کیا اگرچہ سہواً تو تکبیر ساقط ہو گئی اور بلا قصد وضو ٹوٹ گیا تو کہہ لے ۔ (الدرالمختار” و ”ردالمحتار” کتاب الصلاۃ باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل جلد ۳ صفحہ ۷۳)

تکبیرِ تشریق اس پر واجب ہے جو شہر میں مقیم ہو یا جس نے اس کی اقتدا کی اگرچہ عورت یا مسافر یا گاؤں کا رہنے والا اور اگر اس کی اقتدا نہ کریں تو ان پر واجب نہیں ۔ (الدرالمختار کتاب الصلاۃ باب العيدين جلد ۳ صفحہ ۷۴،چشتی)

نفل پڑھنے والے نے فرض والے کی اقتدا کی تو امام کی پیروی ميں اس مقتدی پر بھی واجب ہے اگرچہ امام کے ساتھ اس نے فرض نہ پڑھے اور مقیم نے مسافر کی اقتدا کی تو مقیم پر واجب ہے اگرچہ امام پر واجب نہیں ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الصلاۃ باب العيدين مطلب المختار أن الذبيح إسماعيل جلد ۳ صفحہ ۷۴)

نفل و سنت و وتر کے بعد تکبیر واجب نہیں اور جمعہ کے بعد واجب ہے اور نماز عید کے بعد بھی کہہ لے۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الصلاۃ باب العيدين مطلب المختار أن الذبيح إسماعيل جلد ۳ صفحہ ۷۳)

اور دِنوں میں نماز قضا ہو گئی تھی ایّامِ تشریق میں اس کی قضا پڑھی تو تکبیر واجب نہیں ۔ يوہيں ان دنوں کی نمازیں اور دنوں میں پڑھیں جب بھی واجب نہیں ۔ يوہيں سال گذشتہ کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اس سال کے ایّام تشریق میں پڑھے جب بھی واجب نہیں ، ہاں اگر اسی سال کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اسی سال کے انھيں دنوں میں جماعت سے پڑھے تو واجب ہے ۔ (ردالمحتار کتاب الصلاۃ باب العيدين مطلب المختار أن الذبيح إسماعيل جلد ۳ صفحہ ۷۴،چشتی)

ماہِ ذُوالْحِجَّۃِالْحَرام وہ مُبارَک مہینہ ہے کہ جس میں اللہ عزوجل کے خلیل حضرت اِبْراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اِسْمٰعِیْل ذَبِیْحُ اللہ علیہ السلام کے ساتھ مِل کر صَبْر و رِضا کا ایسا مَنْظر پیش فرمایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ حضرت اِبْراہیم علیہ السلام نے ذُوالْحَج کی آٹھویں (8) رات خواب دیکھا جس میں کوئی کہنے والایہ کہہ رہا ہے : بے شک اللہ عزوجل تمہیں اپنے بیٹے کو ذَبْح کرنے کا حُکم دیتا ہے ۔ نَویں (9) رات پھر وہی خواب دیکھا ، دَسویں (10) رات پھر وہی خواب دیکھنے کے بعد آپ علیہ السلام نےصُبح اس خواب پرعمل کرنے یعنی بیٹے کی قُربانی کا پَکّا اِرادَہ فرمالیا ۔ (تفسیرِ کبیر ، ۹/۳۴۶)

جب حضرت اِبْراہیم علیہ السلام نے یہ سارا ماجرا اپنےکم عُمر بیٹے حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام کو بھی بتادیا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ میں تمہیں ذَبح کروں ، اب تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے ۔ حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام خُود بھی اللہ عزوجل کے ہر حکم پر سَرِتسلیم خَم کرنے والے تھے ، آپ علیہ السلام نے جو جواب دیا اسے قرآنِ پاک نے پارہ 23 سُوْرَۃُ الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 102میں ان الفاظ سے بیان کیا ہے : قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ۔
تَرجَمہ : کہا اے میرے باپ ! کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے ، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابرپائیں گے ۔

تَفسیرِ خازِن میں ہے کہ حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام نے اپنے والدِ مُحْترم سےعرض کی : ابا جان ! ذَبْح کرنے سے پہلے مجھے رَسّیوں سے مَضْبُوط باندھ دیجیے تاکہ میں ہِل نہ سکوں ، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے ثواب میں کمی نہ ہو جائے اور میرے خُون کے چھینٹوں سے اپنے کپڑے بَچا کر رکھیے تاکہ انہیں دیکھ کر میری اَمّی جان غمگین نہ ہوں ۔ چُھری خُوب تیز کر لیجیے تاکہ میرے گلے پر اچھی طرح چل جائے (یعنی گلا فوراً کٹ جائے) کیونکہ موت بَہُت سخت ہوتی ہے ، آپ مجھے ذَبْح کرنے کےلیے پیشانی کے بَل لِٹائیے (یعنی چہرہ زمین کی طرف ہو) تاکہ آپ کی نظر میرے چہرے پر نہ پڑے اور جب آپ میری اَمّی جان کے پاس جائیں تو انہیں میرا سَلام پہنچا دیجیے اور اگر آپ مُناسِب سمجھیں تو میری قمیص انہیں دے دیجیے ، اس سے ان کو تَسلّی ہوگی اور صَبْر آ جائے گا ۔ حضرتِ اِبْراہِیْم علیہ السلام نے اِرْشاد فرمایا : اے میرے بیٹے ! تم اللہ عزوجل کے حکم پر عمل کرنے میں میرے کیسے عُمدہ مَدَدْگار ثابت ہو رہے ہو ! پھر جس طرح حضرتِ اِسْمٰعِیْل علیہ السلام نےکہا تھا ان کو اُسی طرح باندھ دیا ، اپنی چُھری تیز کی ، حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام کو پیشانی کے بَل لِٹا دیا ، ان کے چِہرے سے نظر ہَٹالی اور ان کے گلے پرچُھری چلا دی ، لیکن چُھری نے اپنا کام نہ کیا یعنی گَلا نہ کاٹا ۔ (تفسیر خازن،۴/۲۲)

تکبیر تشریق کی وجہ تسمیہ

حضرت اِبْراہِیْم علیہ السلام نے جب حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام کو ذَبْح کرنے کےلیے زمین پر لِٹایا تو اللہ عزوجل کے حکم سے حضرتِ جبرئیل علیہ السلام بَطورِ فِدْیہ جَنَّت سے ایک مینڈھا (یعنی دُنْبہ) لیے تشریف لائے اور دُور سے اُونچی آوازمیں فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہُ اَکْبَر ، جب حضرت اِبْراہِیْم علیہ السلام نے یہ آواز سُنی تو اپنا سر آسمان کی طر ف اُٹھایا اور جان گئے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے آنے والی آزمائش کا وَقْت گُزر چُکا ہے اور بیٹے کی جگہ فِدیے میں مینڈھا بھیجا گیا ہے ، لہٰذا خُوش ہوکر فرمایا : لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر ، جب حضرتِ اِسْمٰعِیْل علیہ السلام نے یہ سُنا تو فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْد، اس کے بعد سے اِن تینوں پاک حضرات کے اِن مُبارَک اَلْفاظ کی اَدائیگی کی یہ سُنَّت قیامت تک کےلیے جاری و ساری ہو گئی ۔ (بِنایَہ شرح ہِدایَہ ج۳ص:۱۳۰)

تکبیر تشریق کی اصلیت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لٹایا تو اللہ عزوجل نے حضرت جبرئیل  علیہ السلام کو حکم دیا کہ فدیہ لے کر جاؤ ۔ لیکن یہ فدیہ لے کر آئے تو اس ڈر سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمعیل  علیہ السلام کو ذبح کر ڈالیں  گے ، اللہ اکبر اللہ اکبر پکارنے لگے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام  نے جب یہ آواز سنی تو بشارت سمجھ کر پکار اٹھتے ’’ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر‘‘ حضرت اسمعیل علیہ السلام  سمجھے کہ فدیہ آگیا تو اللہ اکبر و للہ الحمد کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرنے لگے ۔ (شامی جلد ۱ صفحہ ۵۸۵)

تکبیرِ تشریق کب سے کب تک ہے ؟

تکبیرِ تشریق نویں ذی الحجہ کی نماز فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے فوراً بعد مردوں کےلیے بآواز بلند اور عورتوں کےلیے ایک مرتبہ آہستہ کہنا واجب ہے ۔

اجْتَمَعَ عُمَرُ وعَلِىٌّ وابْنُ مَسْعُودٍ عَلَى التَّكْبِيرِ فِى دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَأمَّا ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، وَأَمَّا عُمَرُ وَعَلِىٌّ قَالَا: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ۔(الجامع الكبير15/ 290)

عن عبيدةَ قالَ : قَدِمَ عَلينَا علىُّ بنُ أبِى طالبٍ فَكَبَّر يَومَ عرفةَ من صلاةِ الغداةِ إلى صلاةِ العصرِ من آخرِ أيَّامِ التشريقِ يقولُ: أكبرُ، أكبرُ، لاَ إِلَهَ إلاَّ الله، و أَكْبَرُ أكبرُ وِلله الحمدُ ۔ (الجامع الكبير 17/ 631)

أوله من فجر عرفة إلی عصر الیوم الخامس آخر أیام التشریق وعليه الاعتماد (شامی زکریا ۳؍۶۴)

تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں : ⬇

أکبر أکبر لا إله إلا و أکبر أکبر ولله الحمد ۔

تکبیرِ تشریق کتنی مرتبہ پڑھی جائے ؟

تکبیرِ تشریق ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے ، تاہم کوئی شخص ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھ لے تو بھی حرج نہیں ۔ و یجب تکبیر التشریق فی الأصح للأمر به مرة وإن زاد عليها یکون فضلاً ۔ (درمختار 2/177)

تکبیرِ تشریق کن لوگوں پر واجب ہے ؟

تکبیرِ تشریق مقیم ، مسافر ، منفرد ، جماعت ، عورت ، اہلِ شہر اور دیہات کے رہنے والوں پر واجب ہے ۔ ووجوبه علی إمام مقیم بمصر و علی مقتد مسافر أو قروی أو امرأة لکن المرأة تخافت ویجب علی مقیم اقتدی بمسافر، وقالا بوجوبه فور کل فرض مطلقاً ولو منفرداً أو مسافراً أو امرأة لأنه تبع للمکتوبة ۔ (رد المحتار ، زکریا ۳؍۶۴)

تکبیرِ تشریق بھول جانا

تکبیرِ تشریق کہنا واجب ہے اگر کوئی مانع فعل صادر ہو جائے مثلاً مسجد سے باہر نکل گیا یا کوئی بات چیت کرلی یا عمداً وضو توڑ دیا ، تو ان تمام صورتوں میں تکبیرِ تشریق ساقط ہو جائے گی لیکن سہواً وضو ٹوٹ جائے تو تکبیر کہہ لے اور اگر قبلہ سے سینہ پھر گیا تو اس میں دو روایتیں ہیں ؛ لہٰذا احتیاطاً تکبیر کہہ لی جائے ۔ عقب کل فرض عینی بلا فصل یمنع البناء فلو خرج من المسجد أو تکلم عامداً أو ساهیاً أو أحدث عامداً سقط عنه التکبیر وفی استدبار القبلة روایتان ولو أحدث ناسیاً بعد السلام الأصح أنه یکبر ولایخرج للطهارة ۔ (شامی زکریا ۳؍۶۳)

مسبوق پر تکبیرِ تشریق

مسبوق پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے وہ اپنی بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد پڑھے گا۔ والمسبوق یکبر وجوباً کاللاحق ۔ (شامی زکریا ۳؍۶۵)(ہندیہ ۱؍۱۵۲)

عورتوں پر تکبیرِ تشریق

عورتوں پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے ، لیکن وہ بالکل آہستہ آہستہ پڑھیں گی ۔ یجب علی المرأة والمسافر، والمرأة تخافت بالتکبیر ۔ (ہندیہ ۱؍۱۵۲)(شامی زکریا ۳؍۶۴)

واقعۂ قربانی میں ہمیں ، سب سے پہلے تویہ معلوم ہوا کہ حضرت اِبْراہیم اور حضرت اِسْمٰعِیْل علیہما السلام میں اطاعتِ الٰہی کا کیسا جذبہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رِضائے اِلٰہی کی خاطر اپناوہ بچہ جس کو بڑی دُعاؤں کے بعد بڑھاپے میں پایا تھا ، جو آپ کی آنکھوں کا نُور اور دل کا سُرُور تھا ، مگر آپ علیہ السلام اللہ عزوجل کی رِضا کی خاطر اس كی قربانی کےلیے تیار ہو گئے اور بیٹا ہو تو ایسا کہ وہ بھی اللہ عزوجل کا حکم سُن کر غمگین اور خوفزدہ ہونے کے بجائے فَرحَت و مُسرَّت سے گویا جُھومنے لگا کہ میری خُوش قِسمَتی کہ اللہ عزوجل نے میری قُربانی کو طَلَب فرمایا ہےاور بَخُوشی اللہ عزوجل پر قربان ہونے کےلیے تَیار ہو گیا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے ، جو جس قدر مُقرَّب و محبوب ہوتا ہے اس پر آزمائش بھی زیادہ آتی ہے ، تاکہ یہ نُفُوسِ قُدْسِیہ اس کی رضا پر راضی رہتے ہوئے آنے والی آزمائش پر صبر کر کے بطورِ انعام اللہ عزوجل کی بارگاہ سے بُلند مَراتِب حاصل کر سکیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مبارک ہے : جب بندے کا اللہ عزوجل کے ہاں کوئی مرتبہ مقرر ہو اور وہ اس مرتبے تک کسی عمل سے نہ پہنچ سکے تو اللہ عزوجل اسے جسم ، مال يا اولاد کی آزمائش ميں مبتلا فرماتا ہے ، پھر اُسے اِن تکاليف پر صبر کی توفيق عطا فرماتاہے يہاں تک کہ وہ اللہ عزوجل کے ہاں اپنے مقرر درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔ نیز واقعۂ قربانی سے تربیتِ اَولاد اور والدین کی اِطاعت کا بھی درس ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نُورِ نظر کی تربیت کی تو آزمائش کے وَقْت حضرت اسمعیل علیہ السلام بھی اپنے والد کی اطاعت کرتے ہوئے بخوشی قربانی کےلیے تیار ہو گئے ۔ ہمیں بھی اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سُلُوک کرتے ہوئے ان کی اطاعت میں زندگی بسر کرنی چاہیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...