Wednesday 21 June 2023

فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ چہارم

0 comments
فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ چہارم
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورۃ النّساء، 4 : 64)
ترجمہ : اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔

یہاں رسولوں علیہم السلام کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ  تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود گناہوں کے مُرتَکِب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی اطاعت کا طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الٰہی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر قرآن اٹھا کر پھرتا رہے ۔ 

 اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے ۔ آیت کے اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا ، البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ آپ کی بارگاہ میں آجائیں کہ یہ بارگاہ، رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ ہے، یہاں کی رضا، رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہے اور یہاں کی حاضری، رب ِ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی حاضری ہے، یہاں آئیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کے ساتھ حبیب ِ ربُّ العٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھی شفاعت کےلیے عرض کریں اور نبی مُکَرَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ان کےلیے سفارش فرما دیں تو ان لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت و مغفرت کی بارشیں برسنا شروع ہو جائیں گی اور اس پاک بارگاہ میں آکر یہ خود بھی گناہوں سے پاک ہوجائیں گے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ قال تعالٰی : وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾ اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے عالَم حیات ظاہری میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا ، اب حضورِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ مزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی طرف توجہ ، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے تَوَسُّل ، فریاد ، اِستِغاثہ ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ مولانا علی قاری عَلَیْہِ الرَحْمہ شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’ رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ ‘‘ ترجمہ : نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵/۶۵۴)

یاد رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے چلتا آ رہا ہے ۔ چنانچہ ذیل میں ا س سے متعلق چند واقعات ملاحظہ ہوں بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر گناہوں کی معافی چاہنے کے واقعات :

حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے ۔ حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا: اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہتعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر اللہ  تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چنانچہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ  تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبیصلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ۔۔۔ الخ، ۴/۱۳-۱۴، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۷،  ،۲/۱۹۰ ، چشتی)

بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسا بستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ  اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ گدا یہاں کیوں ہے؟ عرض کی: میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کےلیے خریدا تھا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں ۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو۔‘‘ اور ارشاد فرمایا : ’’جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔  (بخاری، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲/۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵)

حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مجن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر وقَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے ۔ چنانچہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ محضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کوواجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے ۔ (معجم الکبیر، ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲/۵۹، الحدیث: ۱۴۲۳ ، چشتی)

حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے ۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرما دیجئے وہ ہلاک ہو رہی ہے ۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا: تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں ۔ حضرت بلال بن حارث  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا: یا رب !عَزَّوَجَلَّ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷/۴۸۲، الحدیث: ۳۵، وفاء الوفائ، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲/۱۳۷۴، الجزء الرابع)

ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا، اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱/۵۶، الحدیث: ۹۲ ، چشتی)

بادشاہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام مالک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے اسے ( ڈانٹتے ہوئے) کہا: اے امیرُ المؤمنین! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ’’ تم اپنی آوازوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی آواز سے بلند مت کرو ۔‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں ۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’ بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔‘‘ بے شک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات میں تھی۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا، پھر دریافت کیا: اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی طرف متوجہ ہو کر؟ فرمایا : تم کیوں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے شفاعت مانگو پھر اللہ  تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرمائے گا ۔ (شفا شریف، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل واعلم انّ حرمۃ النبی۔۔۔ الخ، ص۴۱، الجزء الثانی،چشتی)

مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا : جانتے ہو کیا کر رہے ہو ؟ اس پر ان صاحب  نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے حضور حاضر ہوا ہوں ،۔ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو ، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو ۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے ۔ (مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹/۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶)

یہ آیت ِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں چنانچہ’’ حدائق بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں : ⬇

مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوۡکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اور فرمایا :
 بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں 
اور فرمایا :
 وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا

اس آیت سے معلوم ہوا کہ :

(1) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

(2) قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی ’’ جَآئُ وْکَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے ۔ 

(3) بعد ِوفات مقبولانِ حق کو ’’یا‘‘ کے ساتھ نِدا کرنا جائز ہے ۔

(4) مقبولانِ بارگاہِ الٰہی مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے ۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهٗ شَفَاعَتِي ، یعنی جس نے میری قبرکی زیارت کی اُس کےلیے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔ (سنن دارقطنی جلد 2 صفحہ 351 حدیث نمبر 2669)

اس حدیثِ پاک میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے روضَۂ اطہر کی زیارت کےلیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔

جلیلُ القدر  محدّث امام تقیُّ الدّین سُبْکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 756ھ) حدیثِ پاک کے لفظ  ”وَجَبَتْ“ کے تحت فرماتے ہیں : اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کرے  اُس کےلیے شفاعت ثابت اور لازم ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حدیث شريف  کے لفظ ”لَهٗ“ کے فوائد ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : زائرینِ روضۂ انور کو ایسی شفاعت کے ساتھ خاص کیا جائےگا جو دوسروں کو نہ عمومی طور پر نصیب ہوگی  نہ ہی خصوصی طور پر ۔ زائر کو اس شفاعت کے ذریعے دوسروں کوحاصل ہونے والی شفاعت سے ممتاز کردیا جائے گا ۔ زیارتِ قبرِ انور کرنے والے شفاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےحقدار قرار پانے والوں میں لازمی طور پر شامل ہوں گے ۔ زائر کا خاتمہ ایمان پر ہوگا ۔ شفاعت کی نسبت اپنی جانب فرمانے میں یہ شرف ہے کہ” فرشتے ، انبیا اور مؤمنین “بھی شفاعت کریں گے مگر روضَۂ انور کی زیارت کرنے والے کی شفاعت میں خود کروں گا ۔ شافع (شفاعت کرنے والے) کی عظمت کی وجہ سے اس کی شفاعت بھی ویسی ہی عظیم ہوتی ہے جیسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انبیائے کرام علیہمُ السَّلام سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی شفاعت بھی دوسروں سے افضل ہے ۔ (شفاء السقام صفحہ 103)

حاشیہ ابنِ حجر ہیتمی میں ہے : یہ حدیث حیاتِ مبارک میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اور بعد ِوصال قبرِانور کی زیارت کو شامل ہے نیزیہ حکم دور و نزدیک کے ہر مردو عورت کےلیے ہے۔ پس اس حدیثِ پاک سے روضَۂ انور کی طرف سامان باندھنے کی فضیلت اور زیارت کے لئے سفر کے مستحب ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ۔ (حاشیۃ ابن حجر الہیتمی على شرح الایضاح صفحہ481)

پہلے حج یا زیارتِ مدینہ  صدرُالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حج اگر فرض ہے تو حج کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہو۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوتِ قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادتِ دینی و دنیوی کےلیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کےلیے وسیلہ کرے ۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَویٰ ۔ (بخاری،ج،ص5،حدیث:1) اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر ایک کےلیے وہ ہے ، جو اُس نے نیّت کی ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 1222،چشتی) ۔ مزید فرماتے ہیں : زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 1221)

اہل مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا ارادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، الصحيح کتاب الحج باب من أراد أهل المدينة بسوء أذا به اللہ ، 2 : 1007، رقم : 1386)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر دلنواز مدینہ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا ۔

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبه میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3111،چشتی)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اللہ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3112)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ البَرَكَةِ اے اللہ!جتنی تونےمکہ میں برکت عطا فرمائی ہے ، مدینہ میں اُس سے دو گُنا برکت عطافرما ۔ (بخاری ، 1 / 620 ، حدیث : 1885،چشتی)

مذکورہ  حدیث ِ پاک میں اللہ کے   آخری  نبی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  برکت کی دعا فرمائی ہے ۔ بہت ساری خیر کا نام برکت ہے ۔ (عمدۃ القاری ، 7 / 594)

چونکہ مدینۂ منورہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےشر فِ قیام بخشا ، سرزمینِ مدینہ کو اپنے  قدموں کے بوسے لینےکی سعادت عطا فرمائی ان سعادتوں سے فیضیاب ہو کر شہرِمدینہ نے عظمت و رفعت پائی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے اِس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینے میں رہنا عافیت کی علامت اور مدینے میں مرنا شَفَاعتِ مصطفےٰ کی ضمانت قرارپایا ، یوں یہ شہربہت فضیلت اور دُگنی خیرو برکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کےلیے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے ۔ بخاری  شریف کی اس حدیث  میں برکاتِ مدینہ سے متعلق دعائے مصطفٰےکا ذکر ہے ، اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیاء میں واضح طور پرنظر آتا ہے : ⬇

(1) جب کوئی مسلمان زیارت کی نیّت سےمدینۂ منورہ آتا ہےتو فِرِشتے رَحْمت کے تحفوں سے اُس کا استِقبال کرتے ہیں ۔ (جذب القلوب ، ص211)

ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں دعا فرمائی : اے اللہ ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت دے ، ہمارے مُد اور صاع میں برکت دے ۔ (ترمذی ، 5 / 282 ،  حدیث : 3465)

(2) مسجدِ نبوی میں ایک نمازپڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔ (ابن ماجہ ، 2 / 176 ، حدیث : 1413)

(3) ایمان کی پناہ گاہ مدینۂ منورہ ہے ۔ (بخاری ، 1 / 618 ، حدیث : 1876)

(4) مدینے کی حفاظت پر فرشتے معمور ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ (مسلم ، ص548 ، حدیث : 1374،چشتی)

امام نَوَوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں : اس روایت میں مدینۂ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، کثرت سے فِرِشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عِزَّت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے ۔ (شرح  مسلم للنووی ، 5 / 148)

(5) خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے چنانچہ جب غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان   ملے انہوں نے گرد اُڑائی ، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدرَت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہربیماری سےشفاہے ۔ (جامع الاصول جلد 9 صفحہ 297 ، حدیث : 6962،چشتی)

(6) مدینے کے پھل بھی  بابرکت  ہیں کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے ۔ (ترمذی ، 5 / 282 ، حدیث : 3465)

(7) مدینہ میں جیناحصولِ برکت اورمَرنا شفاعت پانےکاذریعہ ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد  ہے : جو مدینے میں مَرسکے وہ وَ ہیں مَرے کیونکہ میں مدینے میں مَرنے والوں کی شَفاعت کروں گا ۔ (ترمذی ، 5 / 483 ، حدیث : 3943) 

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرفاروق   رضی اللہ عنہ یوں دعا مانگا کرتے تھے : اےاللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور مجھے اپنے رسول کےشہرمیں موت عطا فرما ۔ (بخاری ، 1 / 622 ، حدیث : 1890)

قبرِ انور کی زیارت کی شرعی حیثیت پر اُمتِ مسلمہ کا اِجماع ہے۔ کئی ائمہِ احناف کے نزدیک واجب ہے جبکہ ائمہِ مالکیہ کے نزدیک قطعی طور پرواجب ہے۔ اُن کے علاوہ دیگر اہلِ سنت کے مکاتب و مذاہب بھی اُسے واجب قرار دیتے ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم یوں فرمایا ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔
ترجمہ : اور (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ۔ (سورہ النساء ، 4 : 64)

اس آیتِ کریمہ کو فقط نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات پر محمول کرنا ، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، نصِ قرآنی کا غلط اِطلاق اور قرآن فہمی سے ناآشنائی کی دلیل ہے ۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے محدّثین و مفسرین نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کو مطلق قرار دیا ہے ۔ حافظ ابنِ کثیر  اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں : يُرشد تعالي العصاة والمُذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلي الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، فيستغفروا ﷲ عنده، ويسألوه أن يغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذٰلک تاب ﷲ عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال : ﴿لَوَجَدُوا ﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد ذکر جماعة منهم الشيخ أبومنصور الصبّاغ في کتابه الشامل ’الحکاية المشهورة، عن العتبي، قال : کنتُ جالساً عند قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فجاء أعرابي فقال : السلام عليک يارسول ﷲ! سمعتُ ﷲ يقول : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد جئتُکَ مستغفراً لذنبي مستشفعاً بکَ إلي ربي. ثم أنشأ يقول :
يا خير من دفنت بالقاع أعظمه
فطاب من طيبهن القاع و الأکم

نفسي الفداء لقبر أنت ساکنه
فيه العفاف وفيه الجود والکرم
ثُم انصرف الأعرابيّ، فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم في النوم، فقال : يا عتبي! الحق الأعرابيّ، فبشره أن ﷲ قد غفر له ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے عاصیوں اور خطاکاروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب ان سے خطائیں اور گناہ سرزد ہوجائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرنا چاہیے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیک وسلم ہمارے لئے دعا فرمائیں جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرمائے گا ، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ۔ اِسی لئے فرمایا گیا : لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا (تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے) ۔ یہ روایت بہت سوں نے بیان کی ہے جن میں سے ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب ’الحکایات المشہورۃ‘ میں لکھا ہے : عُتبی کا بیان ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا : ’’السّلام علیکَ یا رسول اﷲ! میں نے سنا ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اُن کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ‘‘ میں آپ صلی ﷲ علیک و سلم کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہوئے اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتے ہوئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے : اے مدفون لوگوں میں سب سے بہتر ہستی! جن کی وجہ سے میدان اور ٹیلے اچھے ہو گئے، میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپ صلی ﷲ علیک وسلم رونق افروز ہیں ، جس میں بخشش اور جود و کرم جلوہ افروز ہے ۔
پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی ، میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے تھے : عُتبی ! اعرابی حق کہہ رہا ہے ، پس تو جا اور اُسے خوش خبری سنا دے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں ۔ (ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 519 - 520)(شعب الإبمان، 3 : 495، 496، رقم : 4178)(المغني، 3 : 298)(کتاب الأذکار : 92، 93)(شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 46. 47)(إمتاع الأسماع، 14 : 615)

اِمام قرطبی علیہ الرحمہ نے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن (5 : 265 ۔ 266)‘‘ میں عتبی کی روایت سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یوں بیان کیا ہے : روي أبو صادق عن علي، قال : قدِم علينا أعرابيّ بعد ما دفّنا رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثلاثة أيام، فرمي بنفسه علي قبر رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وحَثَا علي رأسه من ترابه، فقال : قلتَ يا رسول ﷲ ! فسمعنا قولک، و وَعَيْتَ عن ﷲ فوعينا عنک، وکان فيما أنزل ﷲ عليک : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ﴾ الآية، وقد ظلمتُ نفسي، وجئتُکَ تستغفر لي. فنودي من القبر أنه قد غفر لک ۔
ترجمہ : ابو صادق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد مدینہ منورہ آیا ۔ اس نے فرطِ غم سے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گرا لیا ۔ قبر انور کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیک و آلک وسلم آپ نے فرمایا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیک و آلک وسلم کا قول مبارک سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیک و آلک وسلم نے اللہ سے احکامات لیے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیک و آلک وسلم سے احکام لیے اور اُنہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ’’وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ۔ (اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے) ۔ میں نے بھی اپنے اوپر ظلم کیا ہے ، آپ صلی اللہ علیک و آلک وسلم میرے لیے اِستغفار فرما دیں ۔ اعرابی کی اِس (عاجزانہ اور محبت بھری) التجاء پر اُسے قبر سے ندا دی گئی : ’’بیشک تمہاری مغفرت ہو گئی ہے ۔ (الجامع لأحکام القرآن، 5 : 265)

عتبیٰ کی اس روایت پر اکابر محدّثینِ کرام نے اعتماد کیا ہے ۔ امام نووی نے اسے اپنی معروف کتاب ’’الایضاح‘‘ کے چھٹے باب (ص : 454، 455) میں، شیخ ابوالفرج بن قدامہ نے اپنی تصنیف ’’الشرح الکبير (3 : 495)‘‘ میں اور شیخ منصور بن یونس بہوتی نے اپنی کتاب ’’کشاف القناع (5 : 30)‘‘، جو مذہب حنبلی کی مشہور کتاب ہے، میں اسے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام مذاہب کے اجل ائمہ و علماء کا عُتبی کی روایت کے مطابق دیہاتی کا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر مغفرت طلب کرنا ان کی کتابوں میں زیارۃِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا مناسکِ حج کے ذیل میں بیان ہواہے ۔ جن میں امام ابنِ کثیر ، امام نووی ، امام قرطبی ، امام ابنِ قدامہ ، امام سبکی ، امام سیوطی ، امام زرقانی سمیت کئی ائمہ شامل ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اکابر محدّثین و مفسرینِ کرام نے کفر اور گمراہی کو نقل کیا ہے ؟ یا (معاذ اللہ) وہ بات نقل کی ہے جو بت پرستی یا قبر پرستی کی غماز ہے ؟ اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو پھر کس امام کو معتبر اور کس کتاب کو ثقہ و مستند مانا جائے گا ؟
لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بعد اَز وصال اُمت کےلیے اِستغفار فرمانا ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمت کے حق میں انتہائی شفیق و رحیم ہونا نصوصِ قرآن و سنت سے ثابت اور متحقق ہے تو یہ امر قطعًا و حتماً معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال بھی روضۂ مبارک پر حاضرِ خدمت ہونے والوں کو محروم نہیں فرماتے ۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْم بَيْتِه مُهَاجِرًا إِلَي ﷲِ وَ رَسُوْلِه ثُمَّ يُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُه عَلَي ﷲِ ۔
ترجمہ : اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے ، پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا ۔ (النساء، 4 : 100)

آیتِ مقدسہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد جو شخص اپنے نہاں خانہ دل میں گنبد خضراء کے جلوؤں کو سمیٹنے کی نیت سے سفر اختیار کرتا ہے اس پر بھی اسی ہجرت الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِطلاق ہوتا ہے ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔