Friday 23 June 2023

داڑھی منڈے پیر و نعت خوان اور داڑھی کی شرعی حیثیت حصّہ دوم

0 comments
داڑھی منڈے پیر و نعت خوان اور داڑھی کی شرعی حیثیت حصّہ دوم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو داڑھی رکھنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے اور صحیح احادیث میں اس کی تعبیر بصیغہ امر کی گٸی ہے جو وجوب کی دلیل ہے ۔ واضح رہے کہ مردوں کےلیے داڑھی رکھنا واجب ‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور قومی شعار ، اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل و صورت کی تکمیل اور صورت نورانی ہوتی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہٰذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک روایت فرماتی ہیں : عشر من الفطرة قص الشارب واعفاء اللحیة ․․․ الخ ۔ (صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۱۲۹)
یعنی دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : ۱ مونچھوں کا کتروانا ۔ ۲ داڑھی بڑھانا ۔ ۳ مسواک کرنا ۔ ۴ ناک میں پانی ڈال کرناک صاف کرنا ۔ ۵ ناخن تراشنا ۔ ۶ بدن کے جوڑوں کو دھونا ۔ ۷ بغل کے بال اکھاڑنا ۔ ۸ زیر ناف بال صاف کرنا ۔ ۹ پانی سے استنجاء کرنا ‘ راوی کو دسویں چیز یاد نہ رہی ‘ فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو ۔ اس حدیث میں جو کہ سنداً نہایت قوی حدیث ہے ‘ دس چیزوں کو جن میں سے داڑھی کا بڑھانا اور مونچھوں کا کترانا بھی فطرت بتلایا گیا ہے اور فطرت عرف شرع میں ان امور کو کہا جاتا ہے جوکہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی معمول بہ اور متفق علیہ سنت ہو اور امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہو ۔

صاحب مجمع البحار اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ”عشر من ”الفطرة“ ای من السنة ای سنن الانبیاء علیہم السلام التی بالاقتداء بہم فیہا ای من السنة القدیمة التی اختارہا الانبیاء علیہم السلام‘ واتفقت علیہا الشرائع فکأنہا امر جبلی فطروا علیہ ۔ (مجمع البحار جلد ۴ صفحہ ۱۵۵)
ترجمہ : دس چیزیں فطرت (سنت) میں سے ہیں یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی ان سنتوں میں سے ہیں جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا یعنی اس سنت قدیم میں سے ہے جس کو انبیاء کرام علیہم السلام نے اختیار فرمایا اور اس پر تمام شرائع متفق ہیں‘ گویا کہ وہ امر جبلی ہے جس پر تمام انبیاء علیہم السلام کو پیدا کیا گیا ہے ۔

امام نووی علیہ الرحمہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں: قالوا : ومعناہ انہا من سنن الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم ۔ (شرح مسلم جلد ۱ صفحہ ۱۲۸)
ترجمہ : فطرت کے معنی یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے ۔

اس حدیث شریف سے صاف ظاہر ہوگیا کہ داڑھی بڑھانے کا حکم تمام شریعتوں میں تھا اور یہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت رہی ہے ۔

ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ  رضی اللہ عنہما ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ : ﺧَﺎﻟِﻔُﻮﺍ ﺍﻟْﻤُﺸْﺮِﮐِﮯْﻥَ، ﻭَﻓِّﺮُﻭﺍ ﺍﻟﻠِّﺤَﯽ، ﻭَﺍَﺣْﻔُﻮﺍ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏَ۔ ﻭﻓﯽ ﺭﻭﺍﮮۃ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺍ : ﺍَﻧْﮩِﮑُﻮﺍ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏَ ﻭَﺍﻋْﻔُﻮﺍ ﺍﻟﻠِّﺤٰﯽ ۔ (صحیح ﺑﺨﺎﺭﯼ / ﺑﺎﺏ ﺗﻘﻠﯿﻢ ﺍﻻﻇﻔﺎﺭ ، ﻣﺴﻠﻢ / ﺑﺎﺏ ﺧﺼﺎﻝ ﺍﻟﻔﻄﺮۃ)
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻭ ﯾﻌﻨﯽ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﻮ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮨﯿﮟ : ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﭨﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺅ ۔

ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﻗﺎﻝ ﺫُﮐﺮ ﻟﺮﺳﻮﻝِ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﺍﻟﻤﺠﻮﺱ ﻓﻘﺎﻝ : ﺍِﻧَّﮩُﻢ ﮮُﻭْﻓُﻮْﻥَ ﺳِﺒَﺎﻟَﮩُﻢْ ﻭَﮮُﺣْﻠِﻘُﻮﻥَ ﻟِﺤَﺎﮨُﻢْ ﻓَﺨَﺎﻟِﻔُﻮْﮨُﻢ ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ۸ / ۴۰۸)
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺠﻮﺱ (ﺁﮒ ﮐﯽ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ) ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﻧﮉﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﭘﺲ ﺗﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ۔

ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﺍَﻧَّﮧ ﺍُﻣِﺮَ ﺑِﺎِﺧْﻔَﺎﺀ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏِ ﻭَﺍِﻋْﻔَﺎﺀِ ﺍﻟﻠِّﺤْﮯَۃِ ۔ ( ﻣﺴﻠﻢ / ﺑﺎﺏ ﺧﺼﺎﻝ ﺍﻟﻔﻄﺮۃ )
ترجمہ :ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہم ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﮐﻮ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔

ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﮨﺮﯾﺮۃ رضی اللہ عنہ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ : ﺍِﻥَّ ﺍَﮨْﻞَ ﺍﻟﺸِّﺮْﮎِ ﮮُﻋْﻔُﻮْﻥَ ﺷَﻮَﺍﺭِﺑَﮩُﻢْ، ﻭَﮮُﺣْﻔُﻮْﻥَ ﻟِﺤَﺎﮨُﻢْ ﻓَﺨَﺎﻟِﻔُﻮﮨُﻢْ ، ﻓَﺎﻋْﻔُﻮﺍ ﺍﻟﻠِّﺤٰﯽ ﻭَﺍﺣْﻔُﻮﺍ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏَ ۔ (ﺭﻭﺍﮦ ﺍﻟﺒﺰﺍﺯ ﺑﺴﻨﺪ ﺣﺴﻦ)
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻣﺸﺮﮎ ﻟﻮﮒ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺲ ﺗﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻭ، ﺍﻭﺭﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﻮ ۔

ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﮨﺮﯾﺮۃ رضی اللہ عنہ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ : ﺟُﺰُّﻭﺍ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏَ ﻭَﺍَﺭْﺧُﻮﺍ ﺍﻟﻠِّﺤٰﯽ ﺧَﺎﻟِﻔُﻮﺍ ﺍﻟْﻤَﺠُﻮْﺱَ (صحیح ﻣﺴﻠﻢ ﺑﺎﺏ ﺧﺼﺎﻝ ﺍﻟﻔﻄﺮۃ،چشتی)
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ رضی اللہ عنہ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﻮﺳﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻭ ۔

ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﻠﻤﮧ ﺳﺐ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﯿﮟ : ⬇

ﻭﺍﻋﻔﻮﺍ - ﺍﻭﻓﻮﺍ - ﺍﺭﺧﻮﺍ - ﺍﺭﺟﻮﺍ - ﻭﻓﺮﻭﺍ ﮨﮯ ۔

ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮ ﻭﯼ ﺭحمة ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺷﺮﺡ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻓﺮ ﻣﺎ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻭﻣﻌﻨﺎﻩ ﻛﻠﻬﺎ : ﺗﺮﻛﻬﺎ ﻋﻠﻲ ﺣﺎﻟﻬﺎ ﻫﺬﺍ ﻫﻮ ﺍﻟﻈﺎﻫﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺍﻟﺬﻱ ﺗﻘﺘﻀﻴﻪ ﺍﻟﻔﺎﻇﻪ ۔ (شرح صحیح مسلم ٣ / ١٥١)
ترجمہ : ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻟﻔﺎ ﻅ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﯼ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎﯾﮩﯽ ﮨﮯ ۔

ﺍﯾﮏ ﺷﺒﮧ ﮐﺎ ﺍﺯﺍﻟﮧ

ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﺷﺒﮧ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﮯ ، ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺟﺒﯽ ﺣﮑﻢ ﺳﻨﺖ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔

ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﻓﻘﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺪﺙ ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮﻭﯼ علیہ الرحمہ  ”ﺣﺪﯾﺚ ﺧﺼﺎﻝ ﻓﻄﺮﺕ“ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﺍﻟﻤﺨﺘﺎﺭ ﺗﺮﮐﮩﺎ ﻋﻠﯽ ﺣﺎﻟﮩﺎ ﻭﺍﻥ ﻻﯾﺘﻌﺮﺽ ﻟﮩﺎ ﺑﺘﻘﺼﯿﺮ ﻭﻻﻏﯿﺮﮦ ۔
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﻣﺬﮨﺐ ﻣﺨﺘﺎﺭﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﻮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺘﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮉﻭﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻌﺮﺽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔

ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮﻭﯼ علیہ الرحمہ ﻧﮯﺍﺳﮯ ﺭﺍﺟﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ، ﻧﯿﺰ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ علیہ الرحمہ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺭﺍﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺋﮯ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ۔

ﺟﻤﮩﻮﺭ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﻭ ﻣﺤﻘﻘﯿﻦ ﻭ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻧﯿﺰ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﺋﻤﮧ (ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ، ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ، ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ، ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ علیہم الرحمہ) ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺘﻔﻖ ﮨﯿﮟ ۔ ﻋﺼﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺗﻤﺎﻡ ﻣﮑﺎﺗﺐ ﻓﮑﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﻮﺏ ﮐﮯ ﮨﯽ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺧﯿﺮ ﺍﻟﻘﺮﻭﻥ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﯾﺎ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﯾﺎ ﺗﺒﻊ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺪﺙ ﯾﺎ ﻓﻘﯿﮧ ﯾﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﮯ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﮯ ﻋﺪﻡِ ﻭﺟﻮﺏ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺟﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺏ ﮐﺎ ﮨﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ۔

عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال : قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خالفوا المشرکین اوفروا اللحی واحفوا الشوارب‘ وفی روایة: انہکوا الشوارب واعفوا اللحی متفق علیہ ۔ (مشکوٰة‘ ص:۳۸۰)
ترجمہ : مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں پست کرو (چھوٹی کرو) اور داڑھی کو معاف رکھو (یعنی اسے نہ کاٹو) ۔
ایک اور حدیث میں ”وارخوا اللحی“ کے الفاظ مذکور ہیں ۔ یعنی داڑھی لمبی کرو ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ مونچھوں کو کٹواو اور داڑھی کو بڑھاو ۔ (صحیح مسلم ج ۱) ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مونچھوں کوکٹوانے اور داڈھی بڑھانے کا حکم فرمایا ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مشرکوں کی مخالفت کرو ،داڑھیاں بڑھاو اور مونچھیں کٹواو (مشکوۃ شریف)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : مونچھیں کٹواو اور داڑھی بڑھاو اور مجوسیوں کی مخالفت کرو ۔ (صحیح مسلم ج ۱)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جو مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (رواہ احمد والترمزی،چشتی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ر وایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پرجو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں ،اور اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں ۔ (رواہ البخاری ، مشکوۃ)

پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ مونچھیں کٹانا اور داڑھی بڑھانا انسان کی فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے ، اور مونچھیں بڑھانا اور داڈھی کٹانا خلافِ فطرت ہے ، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ فطرۃ اللہ کو بگاڑتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے کہ شیطان نے اللہ سے کہا تھا کہ میں اولاد آدم گمراہ کروں گا ، اور انہیں حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی تخلیق کو بگاڑا کریں ۔ تفاسیر میں ہے داڈھی منڈوانا بھی تخلیقِ خداوندی کو بگاڑنے میں داخل ہے ۔ کیونکہ اللہ نے مردانہ چہرے کو فطرتاً داڑھی کی ز ینت و وجاہت عطا فرمائی ہے ۔

دوسری حدیث میں مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تکمیل ہر مسلمان پر واجب اور اس کی مخالفت حرام ہے ۔ پس اس وجہ سے بھی داڑھی رکھنا واجب اور اس کا منڈانا حرام ہوا ۔ اور تیسری اور چوتھی حدیث میں فرمایا گیا ہے مونچھیں کٹوانا اور داڑھی رکھنا مسلمانوں کا شعار ہے اس کے بر عکس مونچھیں بڑھانا اور داڑھی منڈانا مجوسیوں اور مشرکوں کا شعار ہے اور ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو مسلمانوں کا شعار اپنانے اور مجوسیوں کے شعار کی مخالفت کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے : من تشبہ بقوم فھو منھم ۔
ترجمہ : جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہو گا ۔(جامع صغیر ج ۲)

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انہ ”لعن المتشبہات من النساء بالرجال والمتشبہین من الرجال بالنساء ۔ (سنن ابوداود : ج : ۲ ص ۲۱۲)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عورتوں میں سے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور مردوں میں سے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں‘ لعنت فرمائی ہے ۔

عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال : قال رسول اللہ ” من تشبہ بقوم فہو منہم ۔ (ابوداود‘ ج:۲‘ص:۲۰۳)
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا ۔

عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال : لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الرجل یلبس لبسة المرأة‘ والمرأة تلبس لبسہ الرجل ۔ (ابوداؤد‘ ج:۲‘ ص: ۲۱۲)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو زنانہ لباس پہنے‘ اسی طرح اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردانہ لباس پہنے ۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : لعن رسول اللہ المخنثین من الرجال والمترجلات من النساء وقال اخرجوہم من بیوتکم ۔ (مشکوٰة:۳۸۰)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ لعنت کرتے ہیں ان مردوں پر (جو داڑھی منڈا کر یا زنانہ لباس پہن کر) عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو ۔

داڑھی کا ایک مٹھی سے پہلے کٹانا یہ بھی یہود و نصاریٰ اور ایرانی پارسیوں کے ساتھ مشابہت ہے ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : حلق کردن لحیہ حرام است وروش افرنج وہنود است وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است واورا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین است یا بہ جہت آنکہ ثبوت آں بہ سنت است ۔ (اشعة اللمعات ج:۱‘ ص:۲۱۲)
ترجمہ : داڑھی منڈانا حرام ہے اور اہل مغرب اور ہندؤں کا طریقہ ہے ‘ داڑھی ایک مشت رکھنا واجب ہے اور اس کو سنت اس اعتبار سے کہا جاتاہے کہ یہ دین میں طریقہ مسلوکہ ہے یا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ سنت سے ثابت ہے ‘ چنانچہ نمازِ عید کو (اسی معنیٰ کے اعتبار سے) سنت کہا جاتا ہے ‘ حالانکہ وہ واجب ہے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے : واما الاخذ منہا وہی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ احد ۔ (کتاب الصوم مطلب فی الاخذ من اللحیة ج:۲‘ ص:۱۵۵)
ترجمہ : داڑھی منڈانے اور کٹوانے کی حرمت پر اجماع کی تصریح ہے ۔

حدیث شریف میں ہے : عن رویفع بن ثابت قال: قال لی رسول اللہ ا یارویفع! لعل الحیوٰة ستطول بک بعد فاخبر الناس ان من عقد لحیتہ او تقلد وترا او استنجی برجیع دابة او عظم فان محمدا منہ برئ ۔ (مشکوٰة‘ ص:۴۳)
ترجمہ : حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے فرمایا کہ : میرے بعد قریب ہے کہ تیری زندگی دراز ہو ‘ لوگوں کو خبر دینا کہ جو شخص اپنی داڑھی میں گرہ لگائے یا داڑھی چڑھائے یا تانت کا قلادہ ڈالے یا گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس سے بری ہیں ۔

الاختیار شرح المختار میں ہے : اعفاء اللحی قال: محمد : عن ابی حنفیة ترکہا حتی تکث وتکثر والتقصیر فیہا سنة‘ وہو ان یقبض رجل لحیتہ فما زاد علی قبضہ قطعہ‘ لان اللحیة زینة وکثرتہا من کمال الزینة وطولہا الفاحش خلاف السنة ۔
ترجمہ : اعفاء اللحی یعنی داڑھی بڑھانا امام محمد کی روایت ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہما الرحمہ نے فرمایا داڑھی کو چھوڑے رکھنا چاہیے ‘ یہاں تک کہ گھنی ہو جائے اور بڑھ جائے اور داڑھی میں قصر سنت ہے اور قصر یہ ہے کہ داڑھی کو مٹھی سے پکڑے جو مٹھی سے بڑھ جائے اس کو کاٹ دیں ۔ داڑھی سنت ہے اور اس کا بھر پور ہونا (گھنی ہونا) کمال زینت ہے اور داڑھی کی غیر معمولی درازی خلاف سنت ہے ۔ (الاختیار شرح المختار ج:۴‘ ص:۲۳۵)

حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : وقد اختلفوا فیما طال منہا فقیل : ان یقبض الرجل علی لحیتہ واخذ ما فضل عن القبضة فلا باس‘ فقد فعلہ ابن عمر وجماعة من التابعین‘ واستحسنہ الشعبی وابن سیرین‘ وکرہہ الحسن وقتادة وقالا: ترکہا عافیة احب لقولہ ا اعفوا اللحی ۔ (احیاء العلوم‘ ج:۱‘ ص:۱۴۸،چشتی)
ترجمہ : لوگوں نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ اگر داڑھی لمبی ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے ؟ بعض کا قول ہے کہ مقدار مشت چھوڑ کر باقی کاٹ ڈالے تو کچھ مضائقہ نہیں اس لیے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور بہت سے تابعین رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا ہے اور امام شعبی اور ابن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا ہے‘ حسن اور قتادہ رضی اللہ عنہم نے اس کو مکروہ فرمایا ہے اور کہا ہے کہ : اس کو لٹکی رہنے دینا مستحب ہے ‘ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ : ”اعفوا اللحی“ داڑھی بڑھاؤ“ ۔ (مذاق العارفین ترجمہ احیاء العلوم‘ ص:۱۵۹‘۱۶۰)

اور نصاب الاحتساب میں ہے : قال علیہ السلام : احفوا لشوارب واعفوا اللحی ای قصوا الشوارب واترکوا اللحی کما ہی ولاتقطعوہا ولاتحلقوہا ولاتنقصوہا من القدر المسنون وہو القبضة ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ مونچھیں کٹاؤ اور داڑھی بڑھاؤ یعنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھی کو اپنی حالت پر بڑھاؤ اور جب تک وہ ایک قبضہ بھر نہ ہوجاوے اس کو نہ کٹاؤ ‘ نہ منڈواؤ ‘ نہ گھٹاؤ اور صحیح مقدار ایک مٹھی ہے ۔

بہرحال یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ داڑھی ایک مشت رکھنا ہی واجب ہے اور داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کتروانا حرام ہے اور اس پر ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کا اتفاق ہے ۔ جیسا کہ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی کتاب الآثار میں ہے : محمد قال اخبرنا ابوحنیفة رحمہ اللہ عن الہیثم عن ابن عمر انہ کان یقبض علی اللحیة ثم یقص ما تحت القبضة قال محمد: وبہ ناخذ وہو قول ابی حنیفة رحمہ اللہ ۔
ترجمہ : امام محمد امام اعظم ابوحنیفہ سے وہ حضرت ہیثم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کرمٹھی سے زائد حصہ کو کاٹ دیا کرتے تھے ‘ امام محمد فرماتے ہیں کہ : ہمارا عمل اسی حدیث پر ہے اور حضرت امام اعظم نے بھی یہی فرمایا ہے ۔

فقہ مالکی کے مشہور فقیہہ علامہ محمد بن محمد غیثنی مالکی علیہ الرحمہ ”المنح الوفیہ شرح مقدمہ العزیة“ میں فرماتے ہیں : ان ترک الاخذ من اللحیة من الفطرة‘ وامر فی الارسال بان تعفی ای تترک ولاحرج علی من طالت لحیتہ بان یأخذ منہا اذا زادت علی القبضة ۔
ترجمہ : داڑھی رکھنا فطرت میں سے ہے اور چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے کہ بڑھائی جائے ‘ لیکن جس شخص کی داڑھی ایک قبضہ سے لمبی ہو جائے تو ایسے شخص کو قبضہ سے زائد حصہ کو کتروا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ۔
مشہور شافعی فقیہ اور محدث امام نووی علیہ الرحمہ ”حدیث خصال فطرت“ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں : المختار ترکہا علی حالہا وان لایتعرض لہا بتقصیر ولاغیرہ ۔
ترجمہ : مذہب مختاریہ ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ کترنے اور منڈوانے کا تعرض بالکل نہ کیا جائے ۔

فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ”کشاف القناع شرح متن الاقناع“ ج:۱‘ ص:۶۰ میں ہے : واعفاء اللحیة ،، بان لایاخذ منہا شیأ مالم یستہجن طولہا ویحرم حلقہا ولایکرہ اخذ ما زاد علی القبضة ۔
ترجمہ : اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت داڑھی کو چھوڑ دینا ہے اس طرح کہ اس میں سے کچھ بھی نہ تراشے جب تک کہ وہ لمبی ہو کر بڑی نہ لگنے لگے اور اس کا منڈانا تو بالکل حرام ہے ‘ البتہ قبضہ سے زیادہ حصہ کا تراشنا مکروہ نہیں ۔

بہرحال مذکورہ تمام احادیث اور فقہاء کرام علیہم الرحمہ کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مشت یعنی قبضہ سے کم کرنا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز اور حرام ہے اور اتنی داڑھی رکھنا کہ لوگوں کی نگاہیں اس پر اٹھیں یعنی صرف یہ معلوم ہو کہ داڑھی رکھی ہوئی ہے ‘ یہ بات قرآن و سنت اور فقہاء کرام علیہم الرحمہ کے اقوال کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے اور اسلام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے جوکہ انتہائی خطرناک ہے ۔ لہٰذا جو لوگ اس قبیح فعل کے مرتکب ہیں یا دوسروں کےلیے اس فعلِ قبیح کا سبب بنے ہیں ‘ سب پر ضروری ہے کہ داڑھی ایک مٹھی رکھیں اور اب تک جو گناہ ہوا ہے اس سے صدق دل سے توبہ و استغفار کریں ۔ ورنہ آئندہ جو بھی ان کی وجہ سے داڑھی ایک مشت سے پہلے کتروائے گا تو ان کا وبال بھی ان ہی پر ہو گا ۔ حدیث شریف میں ہے : من سن فی الاسلام سنة حسنة فعمل بہا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل ولاینقص من اجورہم شیئ‘ ومن سن فی الاسلام سنة سیئة فعل بہا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بہا ولاینقص من اوزار ہم شیئ ۔ (صحیح مسلم‘ ج:۲‘ ص:۳۴۱،چشتی)
ترجمہ : جس نے اسلام میں کسی نیکی کی بنیاد ڈالی اور اس نیکی پر بعد میں بھی عمل ہوتا رہا تو بعد میں عمل کرنے والوں کی نیکیوں کے بقدر بنیاد ڈالنے والے کو ثواب ملے گا ‘ لیکن اس سے عمل کرنے والوں کی نیکیوں میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور جس نے اسلام میں کسی بدی کی بنیاد ڈالی اور اس بدی پر بعد میں عمل ہوتا رہا تو آئندہ عمل کرنے والوں کے گناہ کے بقدر بنیاد ڈالنے والے کو گناہ ملتا رہے گا اور اس کے سبب برائی کرنے والوں کے گناہ میں سے کچھ کمی واقع نہ ہوگی ۔

جو امام ، خطیب ، پیر و نعت خوان داڑھی منڈاتے ہیں یا ایک مٹھی سے پہلے کتراتے ہیں تو وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہیں اور فاسق کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ‘ بلکہ نمازیوں پر ضروری ہے کہ متقی پر ہیزگار عالمِ دین کو امام بنائیں جو شریعت اور سنت کا پابند ہو ‘ البتہ ایسے امام کی اقتداء میں جو نمازیں ادا کی گئی ہیں ان کا اعادہ کرنا ضروری نہیں ‘ وہ نمازیں ہوگئیں باقی ثواب پورا نہیں ملے گا ‘ جیساکہ درمختار میں واجبات صلوٰة میں یہ قاعدہ لکھا ہے : کل صلوٰة ادیت مع کراہة التحریم تجب اعادتہا “ اور رد المحتار میں اس کے عموم پر ایک قوی اعتراض کرکے تصحیح کےلیے یہ توجیہ کی ہے : الا ان یدعی تخصیصہا بان مرادہم بالواجب والسنة التی تعاد بترکہ ماکان من ماہیة الصلوٰة و جزائہا ۔

جو لوگ داڈھی منڈواتے ہیں وہ مسلمانوں کا شعار ترک کر کے اہلِ کفر کا شعار اپناتے ہیں ۔ جس کی مخالفت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم فرمایا ۔ اس لیے ان کو وعید نبوی سے ڈرنا چا ہیے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو داڈھی منڈوانے کے گناہ سے اس قدر نفرت تھی کہ جب شاہِ ایران کے قاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڈھیاں منڈی ہوی اور مونچھیں بڑی ہوئی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی طرف نظر کرنا پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمیں یہ شکل بگاڑنے کا کس نے حکم دیا ہے ۔ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہِ ایران کا حکم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڈھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایا ہی ۔ پس جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر کے مجوسیوں کے خدا کے حکم کی پیروی کرتے ہیں ان کو سو بار سوچنا چاہیے کہ قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں کیا منہ دکھائینں گے ۔ اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرمائیں کہ تم اپنی شکل بگاڑنے کی وجہ سے ہماری جماعت سے خارج ہو تو شفاعت کی امید کس سے رکھیں گے ۔

داڈھی رکھنا واجب ہے مگر اس کا ثبوت سنت یعنی حدیث سے ہے ۔ اسی لیے بعض لوگ سنت کہ دیتے ہیں ۔چناچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ تحریر فر ماتے ہیں ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ داڈھی سنت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلامی طریقہ ہے یا اس کا واجب ہونا حدیث سے ثابت ہوا ہے ۔ بلکہ ہر واجب سنت ہی سے ثابت ہوتا ہی ۔ جیسے کہ در مختار باب وتر میں ہے یعنی نماز وتر کے واجب ہونے کا ثبوت سنت سے ثابت ہوا ہے نہ کہ قرآن سے ۔ (لمعات شرح مشکوۃ)

داڑھی کو سنت کہنا ایسا ہے جیسے کہ قربانی کو سنتِ ابراہیم علیہ اسلام کہا جاتا ہے ۔ پس جب کہ قربانی کو سنت ابرہیمی کہنے سے یہ قربانی فرض ہونے سے نکل کر مستحب نہیں بن جاتی ۔ اسی طرح داڈھی کو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ دینے سییہ واجب ہونے سے نہیں نکل جاتی بلکہ اس کا منڈوانا حرام ہی رہتا ہے ۔ خالقواالمشرکین و وفرواللحی واحفو الشوارب ۔ مسلم ۔ مشرکین کے طریق سے خلاف رہو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو اور کم کرو مونچھوں کو ۔ جز الشوارب وارخو اللحی خالقوا المجوس ۔ بخاری ۔ کتراٶ مونچھوں کو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو ۔ خلاف کرو مجوسیوں کے ۔ من لم یا خذ من شاربہ فلیس منا ۔ ترمذی ۔ جو شخص مونچھیں کم نہ کرائے وہ ہم میں سے نہیں ۔ عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ۔ ابو داؤد وغیرہ ۔ دس چیزیں فطرت سے ہیں مونچھوں کا کٹوانا ، داڑھی کا بڑھانا ، مسواک کرنا وغیرہ ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑ لیتے تھے جو حصہ زائد ہوتا تھا اس کو کتروا دیا کرتے تھے ۔

داڑھی کے وجوب کا استنباط : اگر غور کیا جائے تو اسی سے داڑھی رکھنے کا وجوب بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس پر مواظبت بلا ترک فر مائی ہے یعنی ہمیشگی کے ساتھ داڑھی رکھنے کے عمل کو جاری رکھا ہے جس میں کبھی تخلف نہیں ہوا جو اصولاً وجوب کی علامت ہے اگر مواظبت مع الترک ہو یعنی کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس عمل کو ترک بھی فر مادیا ہو تو وہ عمل سنت کہلاتا ہے ۔ لیکن داڑھی کا رکھنا کبھی ایک ساعت کےلیے بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ترک نہیں فر مایا اس لیے اس مواظبت بلا ترک سے ہم داڑھی رکھنے کے وجوب کا بھی استدلال کر سکتے ہیں ۔

داڑھی کے وجوب پر عملی ثبوت : حضرت حسان بن بلال رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا تو اپنی داڑھی میں خلال بھی کیا آپ سے عرض کیا گیا یہ کیا بات ہے آپ داڑھی میں خلال فر مارہے ہیں ۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ، تو مجھے اپنی داڑھی میں خلال کرنے سے کون سی بات روک سکتی ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما راویت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب وضو فر ماتے تھے تو رخسار مبارک کو کسی قدر ملا کرتے تھے پھر ''ریش مبارک'' میں انگلیاں نیچے کی طرف سے داخل کر کے جال سا بنا کر خلال کیا کرتے تھے ۔ ابن سکن نے اس روایت کی تصحیح فر مائی ہے ۔ نوٹ یہ روایتیں متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی ، دار قطنی وغیرہ محدثین علیہم الرحمہ نے ذکر فر مائی ہیں ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سر مبارک میں اکثر تیل لگایا کرتے تھے ، اور ریش مبارک میں کنگھی کیا کرتے تھے ۔

یزید بن فارسی جو کہ مصاحف لکھا کرتے تھے انہوں نے فر مایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خواب میں دیکھا تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ میں نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خواب میں دیکھا ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فر مایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فر ما یا کرتے تھے کہ ''شیطان میری صورت '' نہیں بنا سکتا اس لیے جس شخص نے بھی مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے مجھ ہی کو دیکھا ۔ کیا تم اس شخص کا جس کو خواب میں دیکھا ہے حلیہ بیان کر سکتے ہو میں نے کہا ہاں ! وہ متوسط بدن اور قامت کے تھے ، گندم گو سفیدی مائل ، سر مگیں آنکھوں والے اچھا ہنسنے والے ، چہرہ کے خوبصورت دائروں والے ان کی داڑھی نے یہاں سے یہاں تک (دائیں سے بائیں تک) کے حصے کو بھر دیا ہے اور سینہ کو بھر دیا ہوا ہے (پہلے کلام میں داڑھی کو چوڑائی اور دوسرے کلام میں لمبائی بتلائی ہے) قال عوف ولا ادری ما کان مع ھذ النعت راوی عوف نے کہا کہ اس کے علاوہ جو چیزیں حلیہ کی ذکر کی تھیں ان کو میں اس وقت بھول گیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فر مایا کہ اگر تم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جاگتے ہوئے دیکھتے تو اس سے زیادہ بیان نہ کر سکتے تھے ۔ (ترمذی فی الشمائل)
یہ روایت صاف بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی داڑھی لمبی اور چوڑی اتنی تھی کہ سینہ مبارک کی لمبائی اور چوڑائی کو اس نے ڈھنک لیا تھا ۔ ان احادیث مبارکہ سے دو باتیں مستنبط ہیں ۔

داڈھی منڈوانے کی تاریخ : تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ عمل قوم لوط علیہ اسلام سے شروع ہوا ۔ اغلب یہی ہے وہ مرد پرست تھے جب ان کے مردوں کی داڑھیاں آجاتی تھیں تو امرد ہی رہنے کی غرض سے وہ داڑھی منڈوایا کرتے تھے ۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ دس برے کاموں کی وجہ سے قوم لوط ہلاک کی گئی ہے ان میں سے ایک لواطت ہے ، شراب پینا ، داڈھی منڈوانا ، اور مونچھیں بڑھانا بھی شامل ہے ۔ (تفسیر در منثور جلد ۴،چشتی)(تفسیر روح المعانی)

آج کل ہمارے معاشرے میں طرح طرح کی باتیں کر کے داڑھی نہ رکھنے کے بہانے بنائے جاتے ہیں مثلا داڑھی رکھ کر کوئی غلط کام کریں گے تو داڑھی والوں کی بدنامی ہو گی ان لوگوں کا جزبہ تو اچھا ہے پر حقیقت میں شیطان کی بڑی چال ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس سنت کو اپنائیں اور کفار کی دینِ اسلام کے خلاف تمام سازشوں کو ناکام بناٸیں ۔ داڑھی تمام انبیاء کرام علیہم الصلواة والتسلیمات کی متفقہ سنت ، مردانہ فطرت اور شعارِ اسلام ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بار بار داڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے او راسے صاف کرانے پر غیظ و غضب کا اظہار فرمایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ داڑھی رکھنا تمام ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کے ہاں متفقہ طور پر واجب ہے اور منڈانا ایک مٹھی سے کم ہونے کی صورت میں کترانا بالاتفاق حرام ، گناہ کبیرہ ، فسق ، فطرتِ انسانی کی خلاف ورزی ، شرافتِ انسانی کی توہین ، جملہ انبیائے کرام علیہم السلام کی مخالفت اور اغوائے شیطان سے الله تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑنا ہے ، عورتوں کے ساتھ مشابہت کی بنا پر موجبِ لعنت ہے ، مجوس ، مشرکین ، یہود و نصاری ، فساق و فجار اور مغاربہ کا شیوہ ہے ، تمام اولیاء الله اور اکابرینِ امت علیہم الرحمہ کی عملاً مخالفت ہے ، نماز ، روزہ ، حج غرض ہر عبادت کے دوران ساتھ رہنے والا گناہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔

باقی یہ کہنا کہ” داڑھی تو اتنی رکھنا ضروری ہے کہ جس کا چالیس قدم کے فاصلے سے پتہ چل جائے اور داڑھی کی کم مقدار متعین نہیں جتنی بھی ہو بس داڑھی ہو اور حضرت عمر رضی الله عنہما کی داڑھی ایک مٹھی سے کم تھی وغیرہ “ بے بنیاد اور بے دلیل ہے ، دشمنانِ دین کا پروپیگنڈہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیہم اجمعین پر بہتان تراشی ہے ۔

جولوگ داڑھی والوں کا مذاق اس لیے اڑاتے ہیں کہ داڑھی رکھنے والوں نے اپنے چہروں پرسنتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سجا رکھا ہے اور وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کا صرف نکاح ہی نہیں ایمان بھی ختم ہو جاتاہے ، ان پرلازم ہے کہ ایمان اور نکاح دونوں کی تجدید کریں اور آئندہ کےلیے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین سے باز رہیں ۔ داڑھی رکھنے والوں پربھی لازم ہے کہ وہ خود بھی داڑھی کا احترام اور لحاظ رکھیں یعنی ایسی حرکات اور ایسے اعمال سے اجتناب کریں جن کی وجہ سے لوگ داڑھی کی توہین کے جرم میں مبتلاء ہوں ۔

داڑھی رکھنے کے طبی فوائد

داڑھی کی مرد ھارمون کی افزائش کےلیے معاون ثابت ہوتی ہے اس کی وجہ سے خون میں نر ہارمون بکثرت پیدا ہوتے ہیں جب کہ داڑھی منڈوانے کی صورت میں خون کے اندر مادہ ہارمون کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس صورت میں چہرہ عورتوں کے مشابہ ہوتا ہے اور مشہور ہے کہ باریش مردوں کی جنسی توانائی داڑھی منڈے ہوئے جوانوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ڈاکٹر میری قبانی نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ داڑھی رہنے سے جنسی عمل کے وقت عورت زیادہ برانگیختہ ہوتی ہے غور کرنا چاہیے کہ داڑھی نہ ہونے سے مردوں اور عورتوں کو کتنا نقصان ہوتا ہے ۔ (سلام اور جدید سائنس)

ان تمام نصوص کے پیشِ نظر فقہائے امت علیہم الرحمہ اس پر متفق ہیں کہ داڑھی بڑھانا واجب ہے ، اور یہ اسلام کا شعار ہے ، اور اس کا منڈانا یا کترانا جبکہ حدِ شرعی سے کم ہو حرام اور گناہ ہے ، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں ۔ اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو اس فعل حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔