Wednesday 21 June 2023

فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ ششم

0 comments

فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ ششم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے : مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِی كَانَ كَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي ۔
ترجمہ : جس نے میری وفات کے بعد حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 489 حدیث نمبر 4154)

روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت بہت بڑی سعادت ، عظیم عبادت ، قُربِِ ربُّ العزت پانے کا ذریعہ اور قریب بواجب ہے جس کا حکم کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے ثابت ہے ۔ (فتح الباری جلد 4 صفحہ 59)(شواھد الحق صفحہ 59،چشتی)(مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری جلد 2 صفحہ 197)

صدرالشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حج اگر فرض ہے تو حج کر کے مدینہ طیبہ حاضر ہو ۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوتِ قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادتِ دینی و دنیوی کےلیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کےلیے وسیلہ کرے ۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَویٰ ۔ اعمال کامدار نیت پر ہے اور ہر ایک کےلیے وہ ہے جو اُس نے نیت کی ۔(بخاری جلد 1 صفحہ 5 حدیث نمبر 1،چشتی)(بہارشریعت جلد 1 صفحہ 1222)

حدیثِ پاک کے الفاظ كَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي کی شرح میں حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : (وصالِ ظاہری کے بعد قبرِ مبارک کی زیارت کو حیاتِ ظاہری میں زیارت کی مثل اس لئے فرمایا کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی قبرِ انور میں حقیقی دنیوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں کہ آپ سے مطلقاً ہر طرح کی مدد و نصرت حاصل کی جاتی ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 5 صفحہ 632 تحت الحدیث 2756)(لمعات التنقیح جلد 5 صفحہ 483 تحت الحدیث 2756)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین علیہم الرحمہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا کرتے تھے ۔

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت  کعبُ  الاحبار رحمۃ اللہ علیہ کو قبولِ اسلام کے بعد زیارتِ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت دی اور انہیں اپنے ساتھ مدینۂ منورہ لائے ۔ (فتوح الشام جلد 1 صفحہ 235)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام حضرت سیّدنا نافع رحمۃ اللہ علیہ نے 100مرتبہ سے بھی زیادہ بار یہ دیکھا  کہ سفر پر آتے اور جاتے وقت حضرت عبداللہ  بن عمر رضی اللہ عنہما روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری  دیا کرتے ۔ (کتاب الشفا جلد 2 صفحہ 86،چشتی)(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 7 صفحہ 359 حدیث نمبر 11915)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضر ہوتے تو کھڑے ہوکر سلام عرض کرتے اور واپس لوٹ جاتے ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 491 حدیث نمبر 4164)

ایک مرتبہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبرِ انور کے قریب رو رہے تھے اور ساتھ ہی عرض کر رہے تھے : یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ میری قبر اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 491 حدیث نمبر 4163)

روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زِیارَت کرنے والے کےلیے فوائد و برکات بے شمار ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں : ⬇

(1) روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری دینے و الے کا سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بِلا واسطہ سنتے اور جواب دیتے ہیں ۔(مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری جلد 2 صفحہ 205)

(2) علما فرماتے ہیں : زیارت قبرِ مبارکہ کمالاتِ حج سے ہے ۔ (فیض القدیر جلد 6 صفحہ 182 تحت الحدیث 8716)

(3) ہلاکت و بَربادی سے محفوظ رہے گا ۔ (4) مشکلات آسان ہوں گی ۔ (5) حادِثات سے حِفاظت ہو گی (6) اُسے آخرت میں اچّھابَدلہ ملے گا ۔ (الروض الفائق صفحہ 307)

(7) خاتمہ بالخیر کی سعادت پائے گا ۔ (8) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شفاعت فرمائیں گے ۔ (شفاء السقام صفحہ 103)

مدینۂ منورہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حاضری کے آداب

رَوْضَۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری کی سعادت پانے والا اِس بارگاہ ِ عالی کےآداب کا خاص خیال رکھے ، کیونکہ ذَرا سی بے اِحتِیاطی سَخْت مَحرومی کا سبب بَن سکتی ہے : ⬇

(1) حاضِری میں خالصتاً قبرِ انور کی زِیارت کی نِیَّت کیجیے ۔ ریاکاری اور تجارت وغیرہ کی نیت قطعاً نہ ہو ۔(مرقاۃ المفاتیح،ج5،ص631،تحت الحدیث:2755)

(2) سفرِ مدینہ میں دُرود شریف کی کثرت کیجیے ۔ (3) جب حَرَمِ مدینہ آئے تو بہتر یہ ہے کہ روتے ہوئے سَر جُھکائے ، دُرود شریف کی کثرت کرتے چلیے ۔(4) نہایت خُشُوع و خُضُوع سے روضۂ اَقْدَس پر حاضری دیجیے ، سلام پیش کیجیے ، رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنالیجیے ۔ (5) اس دوران دل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کیجیے ۔ موبائل چلانے ، سیلفیاں لینے سے بچیے اور سوچیے کہ کس ہستی کی بارگاہ میں حاضر ی ہیں ۔ (6) اگر آپ کو کسی نے روضۂ اطہر پر سلام عرض کرنے کا کہا ہے تو اس کی طرف سے بھی سلام عرض کردیجیے ۔(7) جب تک مدینۂ طَیِّبہ کی حاضری نصیب ہو ، کوشش کرکے اکثر وقت مسجد شریف میں باطَہارت حاضر رہیے ، نماز و تلاوت و دُرود میں وقت گزارئیے ، دُنیا کی بات کسی بھی مسجد میں نہ کرنی چاہیے یہاں تو اور بھی زیادہ احتیاط کیجیے ۔ (8) یہاں ہر نیکی ایک کی پچاس ہزار (50,000) لکھی جاتی ہے ، لہٰذا عبادت میں زیادہ کوشش (Effort) کیجیے ، بھوک سے کم کھانے میں امکان ہے کہ عبادت میں دل زیادہ لگے ۔(9) روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہر گز پیٹھ نہ کیجیے اور حتّی الاِمکان نماز میں بھی ایسی جگہ کھڑے نہ ہوں کہ پیٹھ کرنی پڑے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس سے ہو سکے مدینے میں مَرے ، تو مدینے ہی میں مرے کہ جو شخص مدینے میں مرے گا میں اُس کی شَفاعت کروں گا ۔ (جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 483 حدیث 3943)

اگر مدینے کی پاک سرزمین میں مَدفَن نصیب نہ ہوسکے تو (1) مدینہ منورہ سے واپسی پر روضۂ انور پر حاضر ہو کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں الوداعی سلام پیش کیجیے ۔ (2) دورکعت نماز ادا کیجیے ۔ (3) اللہ کریم سے دوبارہ حاضری کی دعا مانگیے ۔ (4) مدینہ شریف سے واپسی سے قبل قرآن پاک مکل کر لیجیے کہ اسلاف نے اسے پسند فرمایا ہے ۔(5) آسانی ہو تو اپنے احباب کےلیے کھجوروں کا تحفہ ساتھ لائیے ۔ (مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری جلد 2 صفحہ 229 تا 280،چشتی)(احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 345 تا 349)

حج و عمرہ سے قبل یا بعد مدینہ طیبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری عشق کی دنیا کا فرض اولیں ہے ، فقہاء نے اسے قریب ہواجب لکھا ہے ۔ اس حاضری میں نیت خالصتاً آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کےلیے ختمات قرآن ، درود و سلام ، نفلی طواف و عمرے ساتھ لے کر جائیں ۔ سفرِ مدینہ کے دوران مسلسل ذکر و درود میں مشغول رہیں ۔ جیسے جیسے مدینہ منورہ قریب آتا جاۓ ذوق و شوق میں خوب اضافہ ہوتا چلا جائے ۔

جب شہر پاک میں داخل ہوں تو اشک بار آنکھوں کے ساتھ سر جھکاۓ درود و سلام پڑھتے ہوئے داخل ہوں ۔ اس دوران اگر گنبد خضریٰ شریف پر نگاہ پڑے تو فوراً با ادب کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پیش کریں ۔ اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر ضروری امور سے فارغ ہوں ، دانت صاف کریں ، غسل یا وضو کریں ، نیا سفید لباس پہنیں ، سرمہ لگائیں ، خوشبو سے معطر ہوں ، اور پھر ہو سکے تو ننگے پاؤں حرم شریف کی طرف روانہ ہوں ۔

حرم شریف کے قریب پہنچ کر جیسے ہی گنبد خضریٰ شریف پر نظر پڑے تو فوراً وہیں رک جائیں ، با ادب ہاتھ باندھ کر صلوۃ و سلام عرض کریں اور تصور ہی تصور میں حاضری کی اجازت طلب کریں ۔ اس دوران اگر کوئی جان پہچان والانظر آۓ تو اس کی طرف بھی توجہ نہ دیں ، نیز حرم شریف کے نقش ونگار وغیرہ بھی نظر میں نہ لائیں ، دل و دماغ ہر طرح کے غیر متعلقہ خیالات سے پاک ہوں ، لوگوں کی چہل پہل کی طرف قطع متوجہ نہ ہوں ۔

پھر مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (قدیم) میں حاضر ہو کر نوافل ادا کریں ، اگر فرض نماز کا وقت ہو تو وہ بھی ادا کریں ، پھر سجدہ شکر ادا کریں کہ بارگاہِ حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضری کی توفیق ملی ۔ نیز اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ آپ کو با ادب اور مقبول حاضری نصیب ہو ۔ اب نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ ڈرتے جھجکتے ، لرزتے کانپتے ۔ روتے ہوۓ یا رونے کی صورت بنا کر ہاتھ باندھے سر جھکاۓ کل کائنات کی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں با ادب حاضری کےلیے اور اپنا بگڑا بخت سنوارنے کےلیے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوۓ باب السلام کی طرف چلنا شروع کریں ۔

جب باب السلام پر پہنچیں اور دیکھیں کہ عاشقان رسول سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضری کےلیے جا رہے ہیں تو آپ بھی ان میں شامل ہو جائیں ۔ اور اگر وہ راستہ کھلنے کے انتظار میں ہوں تو آپ بھی خاموشی سے ایک طرف ٹھہر جائیں ۔ مسجدِ اقدس اور اس کے آس پاس آپ کی آواز ہرگز ہرگز اونچی نہیں ہونی چاہیے ۔

اب باب السلام سے چلتے چلتے اللہ تعالی کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ کے قریب پہنچیں تو یہ عقیدہ رکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حقیقی دنیاوی جسمانی حیات کے ساتھ جلوہ فرما ہیں ، سب کچھ ملاحظہ فرما رہے ہیں اور آپ کی حاضری ، سلام و قیام اور جملہ حالات وخیالات سے باخبر ہیں ۔

اب کمال ادب کے ساتھ گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ مواجہہ شریف کی طرف منہ کر کے ہاتھ باندھ کر چار ہاتھ کے فاصلے پر بالکل اس طرح ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوں جیسے نماز میں ہاتھ باندھتے ہیں ۔ جالی مبارک کو ہاتھ لگانے یا اندر جھانکنے سے سخت سخت پرہیز کریں کہ خلافِ ادب
ہے ۔ یہ آپ کی عظیم ترین خوش نصیبی ہے کہ اس وقت آپ دو جہانوں کے سردار ، وجہ تخلیق کائنات ، فخر موجودات ، امام الانبیاء ، سیاح لامکاں ، سیدنا محمد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رو برو حاضر ہیں ۔ یہ آپ کےلیے زندگی بھر کا سرمایہ اور سب سے بڑھ کر قیمتی لحات ہیں ۔

اب نہایت ادب و وقار اور روتی ہوئی پست و معتدل آواز کے ساتھ یوں سلام عرض کریں : ⬇

السلام علیک ایها النبي و رحمة الله و بركاته.. السلام علیک یا رسول الله.. السلام علیک یا حبیب الله .. السلام علیک یا نبی الله .. السلام علیک یا نور الله.. السلام علیک یا خیر خلق الله.. السلام علیک یا شفیع المذنبين، وعلی آلک و اصحابک و امتک اجمعین ۔

پھر اس کے بعد زیادہ سے زیادہ جتنی دیر ممکن ہو بارگاہِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں با ادب کھڑے ہو کر صلوۃ وسلام پیش کریں ۔ اپنے والدین ، اساتذہ ، اولاد اور تمام متعلقین کےلیے شفاعت مانگیں ۔ بار بار عرض کریں “اسألک الشفاعة يا رسول الله” پھر جتنے حضرات نے سلام بھیجا ہو ان کے سلام شہنشاہ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مقدس بارگاہ میں عرض کریں ۔

اس کے بعد تھوڑا سا آگے کو پڑھیں اور وزیر رسول، امیر المؤمنين سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے چہرہ انور کے سامنے ٹھہر کر انہیں یوں سلام عرض کریں : ⬇

السلام علیک یا خليفة رسول الله.. السلام علیک یا وزیر رسول الله ـ پھر تھوڑا اور آگے بڑھیں اور مراد رسول خلیفۃ المسلمین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے روبرو کھڑے ہوں اور انہیں یوں سلام عرض کریں : ⬇

السلام علیک یا امیر المؤمنين .. السلام علیک یا خليفة المسلمين ۔

یہ تینوں بارگاہیں قبولیت دعا کی ہیں ، لہٰذا جو کچھ مانگنا چاہیں مانگیں ۔

حاضری کے بعد اس طرح ہا ادب باہر آئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کی طرف ہرگز ہرگز پیٹھ نہ ہو ۔ اگر کوئی شرطہ یا مطوع وغیرہ آپ کے ساتھ الجھنے کی کوشش کرے تو آپ پوری کوشش کریں کہ ان کے ساتھ کوئی بحث مباحثہ نہ ہو ، کیونکہ وہ ایسا کر کے آپ کی توجہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہٹانا اور آپ کا ذوق شوق خراب کرنا چاہتے ہیں ۔

اس کے بعد ریاض الجنۃ میں ہر ہر ستون اور منبر پاک کے پاس نوافل پڑھیں اور دعائیں مانگیں ۔ مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے کوئی ایک سانس بھی ہے کار نہ جانے دیں ، ضروریات کے علاوہ سارا وقت مسجد شریف میں باوضو گزاریں ۔ نوافل ، تلاوت قرآن اور درود پاک کی کثرت کریں ، روزے رکھیں ، صدقہ و خیرات کریں ۔ قرآن حکیم کا کم از کم ایک ختم کریں ۔

جیسے کعبہ شریف اور قرآن حکیم کی زیارت عبادت ہے اسی طرح روضہ پاک کی زیارت بھی عبادت ہے ۔ ہر فرض نماز کے بعد یا کم از کم صبح شام مواجہہ شریف پر حاضر ہو کر با ادب سلام پیش کریں ۔ اگر آپ باہر کہیں کام جا رہے ہوں اور گنبد خضریٰ شریف پر نظر پڑے تو فوراً رک جائیں اس کی طرف منہ کر کے ہاتھ باندھ کر سلام عرض کریں ، اگر ایسا نہ کیا تو یہ خلافِ ادب ہے ۔ جب گنبد خضریٰ شریف سامنے ہو تو آپس میں باتیں ہرگز نہ کریں ، اگر بات کرنا ضروری ہو تو گنبد شریف سے چھپ کر کریں ۔

تمام نمازیں مسجدِ نبوی شریف میں قرب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ادا کریں ، یہاں کی ایک نیکی پچاس ہزار نیکیوں کے برابر ہے ۔ کوشش کریں کہ چالیس نمازیں مسلسل بِلا ناغہ مسجد شریف میں ادا ہوں ۔ روضہ انور کی طرف کسی بھی صورت میں پیٹھ نہیں ہونی چاہیے ۔ نماز میں بھی ایسی جگہ نہ کھڑے ہوں کہ روضہ اقدس کو پیٹھ کرنی پڑے ۔

جب مدینہ منورہ سے رخصت ہونے کا وقت آئے تو شہنشاہ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں ، با ادب سلام عرض کریں ، اجازت کے طلب گار ہوں ، بار بار حاضری کی نعمت کی بھیک مانگیں ، مدینہ طیبہ میں ایمان پر موت اور جنت البقیع میں دفن ہونے کی دعا کریں اور نہایت غمگین کیفیت کے ساتھ واپس لوٹیں ۔

مر کے جیتے ہیں جو ان کے در پہ جاتے ہیں حسن
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر

بارگاہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حاضری اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ

عاشقِ مصطفیٰ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وِصال مبارک کے بعد یہ خیال کرکے شہرِ دلبر مدینہ منورہ سے شام چلے گئے کہ جب یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی نہ رہے تو پھر اِس شہر میں کیا رہنا ۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو سرورِ کل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے خواب میں آئے اور فرمایا : ما هذه الجفوة يا بلال ؟ أما آن لک أن تزورني ؟ يا بلال ۔
ترجمہ : اے بلال ! یہ فرقت کیوں ہے ؟ اے بلال ! کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم ہم سے ملاقات کرو ؟
اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَشک بار ہو گئے ۔ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کو حکم سمجھا اور مدینے کی طرف رختِ سفر باندھا ، اُفتاں و خیزاں روضۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری دی اور بے چین ہوکر غمِ فراق میں رونے اور اپنے چہرے کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ملنے لگے ۔ (شفاء السقام في زيارة خير الأنام صفحہ 39،چشتی)(الجوهر المنظم صفحہ 27)(سير أعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 358)(تاريخ مدينة دمشق جلد 7 صفحہ 137)(نيل الأوطار شوکانی جلد 5 صفحہ 180)

شیخ سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری

امام جلا الدین سیوطہ علیہ لرحمہ فرماتے ہیں کہ : ولی کبیر و امام شہیر حضرت سید احمد ابن رفاعی رضی اللہ عنہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی قبر شریف سے دست مبارک کو باہر نکالنے کے بارے میں سوال ہوا ہے کہ آیا وہ واقعہ ممکن ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس مشہور روایت کی سندیں عالی و صحیح ہیں یا نہیں؟ میں نے اسی سوال کے جواب میں یہ کتابچہ تحریر کیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے ’’الشرف المحتم فیما من اللہ بہ علی ولیہ السید احمد الرفاعی رضی اللہ عنہ من تقبیل ید النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ۔ سب سے پہلے جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات اور تمام دوسرے انبیاء کی حیات قطعی و یقینی ہے اور اس یقین کےلیے ہمارے پاس یقینی دلائل و براہین ہیں ۔ صحیح روایتیں اور متواتر خبریں ہیں، خود میں نے حیات الانبیاء کے موضوع پر ایک خاص کتاب تصنیف کی ہے جس میں دلائل و اخبار کو تفصیل سے ذکر کیاہے ۔ یہاں میں ان دلائل میں سے چند ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔ امام ابو نعیم نے ’’الحلیۃ‘‘ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم مر بقبر موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام وہو قائم یصلی فیہ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرے تو پایا کہ وہ قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ۔

امام ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ : الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون ۔
ترجمہ : انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں ۔

اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے مرتبۂ نبوت و شہادت دونوں اکھٹا کر دیا ہے ، یعنی دونوں مرتبے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات میں جمع ہو گئے ہیں اور اس کی دلیل امام بخاری اور امام بیہقی کی روایت کردہ وہ حدیث ہے جسے ان حضرات نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تخریج کیا ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے مرض وفات میں فرمایا کرتے تھے کہ : لم ازل اجد الم الطعام الذی اکلت بخیبر فہذا او ان انقطاع ابہری من ذالک السم ۔
ترجمہ : میں اب بھی خیبر میں کھائے گئے (زہریلے) کھانے کی تکلیف محسوس کرتا ہوں ، اس زہر کے اثر سے ’’ابہری‘‘ رگ کے منقطع ہونے کا وقت آگیا ہے ۔

لہٰذا نص قرآنی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات ثابت شدہ ہے ، کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ : لاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربہم یرزقون ۔
ترجمہ : اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں ۔

انبیائے کرام علیہم السلام شہداء سے اس بات کے زیادہ حقدار ہیں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انبیاء کرام صلوٰۃ اللہ و سلامہ علیہم اجمعین سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ احقیت ان فضائل و خصائص کے سبب ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عطا کیے ہیں ، نہایت ثقہ محدثین نے انبیاء کی حیات کو مستقلاً موضوع بنایا ہے ، بعض انبیاء علیہم السلام کو خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باحیات دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہی ہمیں خبر دی ہے اور بلاشبہ ان کی خبر سچی ہے کہ ہمارے درود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پیش کیے جاتے ہیں اور ہمارے سلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچائے جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کا جواب دیتے ہیں جو سلام پیش کرتا ہے ۔

البارزی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باحیات ہیں ، ایام حرہ میں حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ قبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک گونج سن کر ہی نماز کے اوقات کو جانتے تھے ۔

’’احبار مدینہ‘‘ میں زبیر بن بکار نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : میں ایام حرۃ میں مزار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اذان و اقامت کی آواز سنتا رہتا تھا، یہاں تک کہ لوگ واپس آگئے ۔

عفیف الدین یافعی فرماتے ہیں کہ : یہ طے شدہ ہے کہ جو چیز انبیائے کرام کیلئے بطور معجزہ جائز ہے وہ سب اولیاء کے لئے بطور کرامت بلا شرط چیلنج جائز ہے ۔ اور فرماتے ہیں کہ  اور یہ ایسی بات ہے کہ اس بات کا انکار صرف جاہل شخص ہی کرے گا، حیات انبیاء کے سلسلے میں علماء کے بے شمار اقوال ہیں لیکن میں اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں ، چونکہ حیات انبیاء ثابت ہے اور اولیاء کا انبیائے کرام کے کلام کو سننا اور ان کی زیارت کرنا بھی صحیح ہے ، لہٰذا سیدی سید احمد ابن رفاعی رضی اللہ عنہ کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک کا قبر شریف سے باہر آنا بھی ممکن ہے اور اس میں یا تو کجی و گمراہی والا شبہ کرے گا یا ایسا منافق جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے ، اس صفت و خوبی یا س کے مثل کا انکار سوئے خاتمہ کا سبب ہوتا ہے ۔ اللہ عزوجل ہماری حفاظت فرمائے آمین ، کیونکہ اس میں دائمی معجزہ اور کھلی کرامت کا انکار ہے ۔

ہم سے ہمارے شیخ ، شیخ الاسلام کمال الدین امام کاملیہ نے روایت کی ہے ، انہوں نے ہمارے مشائخ کے شیخ امام علامہ شیخ شمس الدین جزری سے ، انہوں نے اپنے شیخ امام زین الدین مراعی سے، انہوں نے شیخ الشیوخ شجاع و محدث و واعظ و فقیہ و مقرر و مفسر، امام و مقتدا و حجت شیخ عزالدین احمد فاروقی سے، انہوں نے اپنے والد استاد اصیل علامہ جلیل شیخ ابو اسحاق فقرائے ابراہیم فاروقی سے، اور انہوں نے اپنے والد امام فقہاء و محدثین شیخ فقرائے اکابر و علمائے عاملین شیخ عز الدین عمر ابوالفرج قدس اللہ سرہم اجمعین سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ 555ھ کے حج میں، میں اپنے شیخ و ملجا اور اپنے سردار ابو العباس قطب و غوث شیخ سید احمد رفاعی حسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ تھا۔ اس سال آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی، جب حضرت رفاعی مدینہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حجرے کے سامنے کھڑے ہوکر لوگوں کی موجودگی میں بلند آواز سے عرض کیا۔ السلام علیک یا جدی یعنی اے میرے جد آپ پر سلام ہو تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا وعلیک السلام یا ولدی اے میرے بیٹے تم پر بھی سلامتی ہو اور اس (جواب) کو مسجد نبوی میں موجود ہر شخص نے سنا اور یہ سن کر سیدنا احمد رفاعی پر جذب طاری ہو گیا ۔ آپ تھرا اٹھے ، آپ کا رنگ زرد پڑ گیا ، گریہ و زاری کرتے ہوئے گھٹنے کے بل کھڑے ہو گئے اور دیر تک سسکیاں لیتے رہے پھر عرض کیا اے جد کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ⬇

فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلہا
تقبل الارض عنی وہی نائبتی
وہذہ دولۃ الاشباح قد حضرت
فامدد یمینک کی تحظی بہا شفتی

ترجمہ : اے جد کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوری کی حالت میں اپنی روح و خیال کو بھیجا کرتا ہے جو میری نیابت میں آستاں بوسی کرتے تھے اور آج یہ دور افتادہ خود در دولت پر حاضر ہے لہٰذا آپ اپنے دست کرم کو دراز فرمائیں تاکہ میرے لب دست بوسی کی سعادت حاصل کرسکیں ۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے معطر دست مبارک کو قبر انور شریف سے باہر نکالا، جسے نوے ہزار زائرین کے ہجوم میں امام رفاعی نے چوما، یہ سارے لوگ دست مبارک کو دیکھ رہے تھے، اس وقت مسجد میں حجاج کرام کے درمیان شیخ حیات بن قیس حرانی، شیخ عبدالقادر جیلی (حضرت غوث اعظم مقیم) بغداد، شیخ خمیس اور شیخ عدی بن مسافر شامی وغیرہ بھی موجود تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو ان حضرات کے علوم و اسرار سے نفع بخشے، ہم نے بھی ان حضرات کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاکیزہ دست مبارک کی زیارت کی اور اسی دن شیخ حیات بن قیس حرانی نے سید احمد کبیر رفاعی سے خرقہ خلافت حاصل کیا اور آپ کے مریدین و مسترشدین میں شامل ہو گئے ۔

ایک دوسرے طریقے سے مجھ سے روایت کیا ہے ۔ شیخ محمد علی نے ان سے شیخ ابی الرجال یونینی بعلبکی نے ، ان سے شیخ عبد اللہ بطائحی قادری نے، ان سے شیخ علی بن ادریس یعقوبی نے اور ان سے ان کے شیخ قطب یگانہ و غوث زمانہ شیخ عبدالقادر جیلی بغدادی نے روایت کیا ہے۔ فرمایا کہ اس محفل کرامت میں، میں بھی موجود تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دست بوسی کے ذریعہ شیخ احمد کبیر رفاعی کی کرامت و بزرگی کا اظہار کیا۔ یعقوبی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ حضرت جیلانی سے عرض کیا: حضور حاضرین کو اس کرامت و بزرگی سے حسد نہیں ہوا تو یہ سوال سن کر حضرت غوث صمدانی رونے لگے اور جواب دیا۔ اے ابن ادریس اس پر تو ملاء اعلیٰ (فرشتوں) نے بھی رشک کیا ہے۔ ایک اور طریقے سے، مجھ سے امام قوصی نے بیان کیاہے۔ ان سے شیخ قطب الدین خزانچی نے، ان سے شیخ رکن الدین سنجاری نے، ان سے ان کے شیخ عدی بن مسافر نے اور ان کے خادم شیخ علی بن موہوب نے بیان کیا ہے، دونون فرماتے ہیں کہ : حج والے سال ہم مسجد نبوی میں تھے تو دیکھا کہ شیخ احمد بن رفاعی رضی اللہ عنہ حجرہ طیبہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہیں اور کچھ عرض کررہے ہیں جسے بہت سے حضرات نے یاد رکھا اور نقل کیا ہے اور جیسے ہی آپ کی گفتگو ختم ہوئی، فورا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دستِ مبارک قبر شریف سے باہر نکلا اور شیخ رفاعی نے اس کا بوسہ دیا۔ ہم جملہ حاضرین کے ساتھ اس (روح پرور اور ایمان افروز) منظر کو دیکھ رہے تھے (شیخ عدی کے خادم) ابن موہوب کہتے ہیں کہ : خدا کی قسم! گویا اب بھی وہ نظارہ میرے سامنے ہے، جب سفید گورا معتدل ہاتھ قبر مبارک سے باہر نکلا جس کی انگلیاں خوب لمبی لمبی تھیں، گویا بجلی چمک رہی ہو، حرم و اہل حرم گویا سبھی رقص کناں ہوں ۔ لوگ سلطان محمدی اور جلال احمدی سے اس قدر مرعوب و لرزاں و ترساں تھے اور (اس معجزۂ گرامی) سے اس طرح حیرت زدہ تھے گویا قیامت آنے والی ہو۔ لوگ حیرت و دہشت میں بے قرار و بے اختیار اٹھ بیٹھ رہے تھے۔ کبھی اللہ کی تکبیر وبڑھائی بولتے تو کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجتے ۔
یہ بات معروف ہے کہ حضرت رفاعی کی یہ منقبت مسلمانوں کے درمیان درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے ۔ اس کی سندیں عالی اور بلند مرتبہ ہیں اور اس کی روایتیں صحیح ہیں۔ تمام راویوں کا اس کی صحت و صداقت پر اتفاق ہے، اور اس کا انکار منافقت کی نشانیوں میں سے ہے ۔

فائدہ : اگر یہ کہا جائے کہ کیا اس فضل و منقبت کے سبب سید احمد (رفاعی) رضی اﷲ عنہ اور دوسرے زائرین صحابہ کے زمرے میں داخل ہوگئے؟ کیونکہ ان حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رویت حاصل ہوئی ہے ۔

جواب : ہمارے اساتذہ کے موقف کے مطابق زمرۂ صحابیت میں ان کا دخول محل نظر ہے اور صحیح تر یہ ہے کہ یہ لوگ داخل نہیں ہیں۔ یہی رائے سنجاوی وغیرہ کی ہے کیونکہ صحابیت کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری دنیوی حیات سے متعلق ہے اور یہ حیات اخروی ہے، دنیوی نہیں ہے اور دنیا کے احکام بھی اس سے متعلق نہیں ہیں ۔ یہ واقعہ بھی ثابت شدہ ہے کہ جب سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے دوبارہ حج فرمایا اور اسی سال میں ان کا وصال بھی ہوا تھا تو انہوںنے روضہ مبارک علی ساکنہا افضل الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کھڑے ہوکر انتہائی عاجزی و خاکساری سے عرض کیا یعنی اگر کہا گیا کہ تم نے زیارت کی تو کیا لے کر لوٹے ؟ تو اے بزرگ ترین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم کیا جواب دیں گے؟ تو قبر انور سے ایک آواز آئی جسے مسجد میں موجود ہر شخص نے سنا ۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر ایک کو اس کی زبان میں مخاطب کرتے تھے، جب حمیری نے پوچھا ’’ہل من امبر صیام فی امسفر‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی حمیری لہجے میں جواب دیا اور لام تعریف کی جگہ میم استعمال فرمایا تھا اور یہ مشہور و معروف بات ہے، سید احمد رفاعی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جواب اسی قبیل سے تھا ۔
میں (امام سیوطی) اللہ تعالیٰ کےلیے جس بات کو مانتا ہوں اور جس پر عقیدہ رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ سید احمد ابن رفاعی فاطمی حسینی رضی اﷲ عنہ معرفت الٰہی میں پائیدار پہاڑ کی مانند تھے، عظیم ترین سردار تھے، بہت بڑے ولی تھے اور سنت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحر بے کنار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ اولیاء اللہ اور گروہ صوفیا کے ایسے مستند سردار تھے جن کی ذات پر طریقت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ، جن کی عظمت پر علماء والیاء کا اجماع واقع ہے۔ ان کے تمام معاصر اولیاء نے ان کی سربراہی میں اور ان کے تقدم کا اعتراف کیا ہے ۔ آپ کے زمانے کے اکابر مشائخ نے آپ کے پرچم رشد وہدایت کے نیچے راہ سلوک طے کیا ہے ۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر پختگی کے ساتھ کاربند اور ان کی اتباع میں خوب راسخ قدم تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر تواضع اور حسن اخلاق کا خاتمہ ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ حضرت سید احمد ابن رفاعی رضی اللہ عنہ کے علومِ روحانی امداد سے اور حال و قال سے مستفیض فرمائے اور ہمیں ان کے اور ان کے ولی دوستوں کے زمرے میں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لواء کے سائے میں رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔