Saturday 24 June 2023

داڑھی منڈے پیر و نعت خوان اور داڑھی کی شرعی حیثیت حصّہ چہارم

0 comments

داڑھی منڈے پیر و نعت خوان اور داڑھی کی شرعی حیثیت حصّہ چہارم

شرعاً ایک مشت تک داڑھی بڑھانا واجب ہے چونکہ اس کا وجوب سنت سے ہے اس لیے عام طور پر لوگ اسے سنت کہہ دیتے ہیں در مختار میں ہے یحرم علی الرجل قطع لحیتہ ۔ یعنی مرد کو داڑھی منڈانا حرام ہے اور بہار شریعت جلد شانزدہم صفحہ نمبر  ١٩٧ میں ہے داڑھی بڑھانا سنن انبیائے سابقین علیہم السلام سے ہے منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے ۔

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمة اللہ علیہ تحریر فرما تے ہیں : حلق کردن لحیہ حرام ست و رَوِش افرنج و ہنود و جوالقیان ست کہ ایشاں را قلندریہ گویند و گزاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست و آں کہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین ست ۔ یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ :  داڑھی منڈانا حرام ہے اور انگریزوں ۔ ہندوں اور قلندریوں کا طریقہ ہے ۔ اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے اور جن فقہاء نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو یہاں سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے اور یا تو اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ بہت سے علماء کرام نے نماز عید کو مسنون فرمایا
(حالانکہ نماز عید واجب ہے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ نمبر ٢١٢
اور در مختار مع شامی جلد دوم صفحہ نمبر ١١٦)(رد المحتار جلد دوم صفحہ نمبر ١١،چشتی)(بحرالرائق جلد دوم صفحہ نمبر ٢٨٠)(فتح القدیر جلد دوم صفحہ نمبر ٢٧۰)

اور طحطاوی صفحہ نمبر ٤١۱ میں ہے : واللفظ للطحاوی الاخذ من اللحیت و ھو دون ذلک (ای القدر المسنون و ھو القبضہ) کما یفعلہ بعض المغاربت و مخنثت الرجال لم یجہ احد اخذ کلھا فعل یھود الھند و مجوس الاعاجم ۔
ترجمہ : داڑھی جبکہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کاٹنا جس طرح بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک حلال نہیں ۔ اور کل داڑھی کا صفایا کرنا یہ کام تو ہندوستان کے یہودیوں اور ایران کے مجوسیوں کا ہے ۔

ارشاداتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ⬇

اوفروااللحی ؛ داڑھیاں کثیرو وافر رکھو ۔ بخاری و مسلم شریف
اعفوااللحی ؛؛ داڑھیاں بڑھاؤ ۔ مسلم ؛ ترمذی و ابن ماجہ ؛ طحاوی
ارخوااللحی ؛ داڑھیاں بڑھنے دو ؛  مسند احمد ؛ مسلم ؛ شرح معنی الاثار
اوفوااللحی ؛ داڑھیاں پوری کرو ؛ طبرانی کبیر ۔

لہٰذا مذکورہ احادیثِ مبارکہ قبضہ کے وجوب پر دال ہیں ۔ مذکورہ بالا احادیث کتب فقہ و فتاوی و اقوال علما سے یہ ثابت ہو گیا کہ داڑھی رکھنا واجب ہے ۔

داڑھی کم ازکم ایک مٹھی رکھنا واجب ہے اور کتروا کر ایک مٹھی سے کم کرنا ناجائز و گناہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم ارشاد فرمایا : انھکوا الشوا رب واعفوا اللحی ۔
ترجمہ : مونچھیں مٹاؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔ (صحیح البخاری جلد 20 نمبر 875)

دو جلیل القدر صحابہ حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم نے ایک مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ کر اس مجمل کی تفسیر کر دی کہ احادیث میں جو داڑھی بڑھانے کا امر فرمایا گیا وہ کم از کم ایک مٹھی تک ہے ۔ سنن ابو داؤد میں مروان بن سالم سے مروی ہے فرماتے ہیں : اللهم رایت ابن عمر رضی اللہ عنہما یقبض علی لحیتہ فیقطع مازادعلی الکف ۔
ترجمہ :میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھا کہ اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر زائد بالوں کو کاٹ ڈالا کرتے تھے ۔ (سنن ابو داود جلد 1 صفحہ نمبر 321 مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور)

یہ حدیث پاک صحیح بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ ہے : عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین و فروا اللحی واحفوا الشوارب وکان ابن عمر اذاحج اواعتمر قبض علی لحیتہ فمافضل اخذہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ نمبر 396 مکتب مطبوعہ لاہور)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : کان ابوھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یاخذ مافضل عن القبضۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑ کر مٹھی سے زائد حصہ کو کتر ڈالتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 8 صفحہ نمبر 374 ادارۃ القرآن کراچی،چشتی)

یہ بات ذہن نشین رہے کہ مقدار کا بیان غیر قیاسی ہے یعنی قیاس و عقل سے بیان نہیں ہو سکتا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ایسا قول یا فعل جو غیر قیاسی ہو حدیث مرفوع کے حکم میں ہے گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ داڑھی کو بڑھاؤ اور دوسرے مقام پر اس کی تفسیر کر دی کہ یہ بڑھانے کا حکم ایک مٹھی تک ہے بلکہ ایک مٹھی سے زائد کو کرنا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے جیسا کہ ان آثار کو نقل کرنے کے بعد صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں : انہ روی عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے ۔ (فتح القدیر جلد 2 صفحہ نمبر 270 مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)

حاصل یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گویا ایک مٹھی داڑھی رکھنے کا امر ارشاد فرمایا اور الامر للوجوب یعنی امر وجوب کےلیے آتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالاحوالہ جات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ ایک مشت داڑھی رکھنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے اب لوگوں کو یہ کہنا کہ ایک مٹھی کی قید صرف شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے لگائی بے سرو پا اور بے بنیاد ہے ۔

ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اعفو االحیۃ و قصوا الشوارب ۔ یعنی تم لوگ داڑھی کو معافی دو یعنی داڑھی مت تراشو اور مونچھیں تراشو ۔

صحیح مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے : جزوا الشوارب وارخواللحیۃ و خالفو ا المجوس ۔
ترجمہ : تم لوگ مونچھیں تراشواور داڑھی کو لمبی کرو اور مجوس کی مخالفت کرو ۔

دوسری روایت میں ہے : خالفوا المجوس جزوا الشوارب واوفروا اللحی ۔
ترجمہ : مجوس کی مخالفت کرو، مونچھیں تراشواور داڑھیاں بڑھاؤ ۔

احادیثِ مذکورہ میں اعفوا ، ارخو ا ، اور اوفروا ، امر کا صیغہ ہے جس کا مقتضیٰ وجوب ہے اور یہاں وجوب سے پھیرنے والا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ لہٰذا داڑھی بڑھانا واجب ہے ۔ اگرچہ احادیث مذکورہ میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیاگیا ہے لیکن داڑھی بڑھانے کی مقدار مجہول ہے ۔ ان احادیث میں اس طرح داڑھی بڑھانا مراد نہیں ہے کہ داڑھی کو بالکلیہ تراشا نہ جائے ۔ اس لیے کہ داڑھی بہت زیادہ دراز ہونے کے بعد بد نما ہو جاتی ہے اور اس سے چہرہ کا حسن ختم ہو جاتا ہے ۔ حالاں کہ داڑھی چہرہ کا جما ل ہے ۔

البحرالرائق میں ہے : لان اللحیۃ فی اوانھا جمال فیلزمہ منہ کما ل الدیۃ کما لو قطع الاذنین الشاخصین و الدلیل علیٰ انہ جمال قولہ علیہ الصلوٰۃ و السلام: ان للہ ملٰئکۃ تسبیحھم ”سبحٰن من زین الرجال باللحاء والنساء بالقدود و الذوائب ۔
ترجمہ : اس لیے کہ داڑھی اپنے وقت میں جما ل ہے ۔ پس اس کو کاٹنے سے پوری دیت لازم آئے گی جیسا کہ اگر دونوں کان کی لو کاٹ دی جائے ۔ داڑھی کے جمال ہونے پر دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جن کی تسبیح یہ ہے ۔ اس ذات کےلیے پاکی ہے جس نے مردوں کو داڑھیوں سے اور عورتوں کو بال کی چوٹی اور گیسو سے مزین فرمایا ۔

اگر چہ مذکورہ احادیثِ مبارکہ میں داڑھی بڑھانے کی مقدار مجہول ہے لیکن اس کا بیان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فعل ہے ۔ کیوں کہ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم داڑھی تراشتے تھے ۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی بھی داڑھی تراش کر ایک مشت سے کم نہیں کیا ہے ۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ فعل احادیث مذکورہ میں داڑھی بڑھانے کی اجمالی مقدار کا بیان ہے ۔

مواھب لدنیہ میں مذکور ہے : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داڑھی مبارک سینہ انور تک دراز تھی ۔

شرعۃ الاسلام میں ہے : کان یاخذ لحیتہ طولا و عرضا علیٰ قدر القبضۃ ۔
ترجمہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم داڑھی مبارک کو طول اور عرض میں قبضہ کی مقدار تراشتے تھے ۔

مصنف ابن ابو شیبہ میں حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان ابو ھریرۃ یقبض علیٰ لحیتہ ثم یاخذ ما فضل عن القبضۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے تھے اور مٹھی سے زائد داڑھی کا کاٹ دیتے تھے ۔

بخاری شریف میں ہے : کان ابن عمر اذا حج او اعتمر قبض علیٰ لحیتہ فما فضل اخذ منہ ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑتے اور مشت سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مذکورہ فعل کو داڑھی بڑھانے کے خلاف قرینہ قرار دیا ہے جو کہ اُن کا تساہل ہے ۔ اس لیے کہ ان کے قول سے لازم آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم داڑھی نہیں بڑھایا کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قول ”اعفوا اللحیۃ“ ”اوفروا اللحیۃ“ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو داڑھی بڑھانے کا حکم دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود داڑھی نہیں بڑھاٸی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے داڑھی بڑھاٸی ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کا فقہائے کرام کے قول ”والسنۃ فیہ القبضۃ“ اور اس جیسی عبارت سے مشت بھر داڑھی رکھنے کو سنتِ غیر مؤکدہ ہونے پر استدلال کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس عبارت کا تعلق ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے کے مسنون ہونے سے ہے ۔ نہ کہ ایک مشت داڑھی رکھنے کے مسنون ہونے سے ہے جیسا کی اس پر فقہائے کرام کی عبارت دلالت کر رہی ہے : ⬇

در مختار میں ہے : ولا باس بنتف الشیب و اخذ اطراف اللحیۃ ،، یعنی سفید بال کو اکھاڑنے اور داڑھی کے اطراف کو تراشنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داڑھی کے اطراف کو کتنی مقدار میں تراشنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس کوصاحبِ درمختار نے اپنے قول ”والسنۃ فیہ القبضۃ“ سے واضح کیا ہے ۔

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ”و السنۃ فیہ القبضۃ“ کی تشریح میں لکھتے ہیں : و ھو ان یقبض الرجل لحیتۃ فما زاد علیٰ قبضۃ قطعہ کذ ا ذکرہ محمد فی الآثار عن الاما م وقال بہ ناخذ ۔
ترجمہ : و السنۃ فیہ القبضۃ یہ ہے کہ آدمی اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑے اور جو داڑھی مٹھی سے زائد ہے اس کو کاٹ دے ۔

اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اسی طرح ذکر کیا ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ مسنون ہونے کا تعلق ایک مشت داڑھی کے رکھنے سے نہیں ہے بلکہ ایک مشت سے زائد داڑھی کو تراشنے سے ہے ۔

الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے : اما اللحیۃ قد ذکر محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی الآثار عن الامام ان السنۃ ان یقطع مازاد علی قبضۃ یدہ ۔
ترجمہ : رہی داڑھی تو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کیا ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنا سنت ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری کی عبارت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ مسنون ہونے کو تعلق ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے سے ہے نہ کہ ایک مشت دارھی رکھنے سے ہے ۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : والسنۃ فیہ القبضۃ وھو ان یقبض الرجل لحیتہ فان زاد منھا علیٰ قبضۃ قطعہ کذا ذکرہ محمد فی کتاب الآثار عن ابی حنیفۃ وقال بہ ناخذکذا فی محیط السرخسی ۔
ترجمہ : دارھی میں مسنون ایک مشت ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑے اور اس کے مشت جو داڑھی زائد ہے اس کو کاٹ دے ۔ اسی طرح امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں ذکر کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ ایسا ہی محیط السرخسی میں ہے ۔

چوں کہ ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کو کاٹنے کے متعلق فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ بعض فقہائے کرام نے ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کے کاٹنے کو واجب قرار دیا ہے ، بعض نے مکروہ لکھاہے ، اور بعض نے حرام کہا ہے ۔ فقہائے احناف کے نزدیک مختار یہ ہے کہ ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کا کاٹنا مسنون ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کو کاٹا کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے القدر المسنون فیہ القبضۃ لکھا ہے کہ داڑھی بڑھانے کی مقدار جو سنت سے ثابت ہے وہ ایک مشت ہے ۔

فقہائے کرام کی اس جیسی عبارت سے ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے کا مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ ایک مشت داڑھی رکھنے کا سنت غیر مؤکدہ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ یہی موقف شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے مشکوٰۃ شریف اشعۃ اللمعات میں لکھتے ہیں : وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است وآنکہآنرا سنت گویند بمعنی سلوک در دین است یا بجہت آں کہ ثبوت آں بسنت است چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ : ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ جو لوگ ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت کہتے ہیں وہ اس بنا پر کہ ایک مشت داڑھی رکھنا دین رائج ہے یا اس بنا پر کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے ۔ جیسا کہ فقہائے کرام نماز عید کو سنت کہتے ہیں (حالانکہ عید کی نماز واجب ہے) ۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ جلد سوم میں ہے : والمسنون فی اللحیۃ القبضۃ اما الاخذ من دون ذالک او اخذھا کلھا فلا یجوز ۔
ترجمہ : داڑھی میں مسنون ایک مشت ہے ۔ رہا داڑھی کو تراش کر ایک مشت سے کم کرنا یا پوری داڑھی تراشنا تو یہ جائز نہیں ہے ۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ کی مذکورہ عبارت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا سنت غیر مؤکدہ نہیں ہے بلکہ واجب ہے ۔ اس لیے کہ اگر ایک مشت داڑھی رکھنا سنتِٖٖ غیر مؤکدہ ہوتا اور داڑھی کو تراش کر ایک مشت سے کم رکھنا جائز ہوتا تو تو داڑھی تراش کر ایک مشت سے کم رکھنا جائز ہوتا ، اس لیے کہ سنتِ مؤکدہ کا ترک جائز ہے ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ مطلقاً داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنتِ غیر مؤکدہ اور مستحب قرار دیتے ہیں ۔ وہ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں : چوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے داڑھی منڈانے پر انکار کیا ہے اور داڑھی منڈانے سے داڑھی بڑھانے کے حکم کی بالکلیہ مخالفت ہوتی ہے اس لیے ہمارے نزدیک داڑھی منڈانا مکروہ تحریمی یا حرام ؓظنی ہے اور مطلقاً داڑھی رکھنا واجب ہے ۔

جب علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان میں مذکورہ ”اعفوا اللحیۃ“ اوفروا اللحیۃ وغیرہ کے امر کے صیغہ کو وجوب کےلیے نہیں مانتے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فعل یعنی ایک مشت داڑھی رکھنے کو ایک مشت داڑھی رکھنے کے واجب ہونے کی دلیل نہیں مانتے ہیں تو کیا ان پر مطلقاً داڑھی رکھنے کے واجب ہونے پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان ”اعفوا اللحیۃ ٗ اوفروا اللحیۃ“وغیرہ سے اگر ایک مشت داڑھی رکھنے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا ہے تو اس سے مطلقاً داڑھی رکھنے کا وجوب بھی ثابت نہیں ہوگا ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ وہ اتنی مقدار داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیتے ہیں جسے عرفاً و عادتاً داڑھی رکھنا تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ان کے نزدیک خشخشی یا فرنچ کٹ داڑھی رکھنا شرعی داڑھی رکھنا نہیں ہے ۔ کیا ان کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک مشت داڑھی رکھنا اور فقہائے کرام کا ایک مشت داڑھی رکھنے کو مسنون قرار دینا عرف و عادت کے خلاف ہے ۔ انہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات سے قطع نظر کرتے ہوئے شریعتِ مطہرہ پر مکمل طور پر عمل نہ کرنے والے چند لوگوں کے عمل کو عرف و عادت کا معیار بنا لیا ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ انہوں نے نور الانوار کی عبارت ”ولا یثبت الوجوب الا من الامر دون الفعل“ سے یہ سمجھ لیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی فعل سے بھی کسی صورت میں وجوب ثابت نہیں ہو سکتا ہے ۔ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ فعل موجب ہے جس پر آپ نے مداومت فرمائی ہے ۔ اور اس کے ترک سے انکار فرمایا ہے ۔

البحر الرائق جلد اول میں ہے : والذی ظھر للعبد الضعیف ان السنۃ ما واجب النبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ لٰکن ان کا ن لا مع الترک فھی دلیل السنۃ المؤکدۃ وان کانت مع الترک احیانا فھی دلیل غیر المؤکدۃ وان قرنت بالانکار علیٰ امر فعلہ فھی دلیل الوجوب فافھم ۔
ترجمہ : وہ چیز جو اس کمزور بندے کےلیے ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سنت وہ ہے جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشگی فرمائی ہے ۔ لیکن اگر ترک نہ کرنے کے ساتھ ہے تو وہ سنتِ مؤکدہ ہونے کی دلیل ہے ۔ ا گر کبھی ترک کرنے کے ساتھ ہے تو وہ سنتِ غیر و مؤکدہ ہے ۔ اگر اس فعل کو ترک کرنے سے انکار کرنا شامل ہے تو یہ وجوب کی دلیل ہے۔ پس تم اچھی طرح سمجھ لو ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مشت داڑھی رکھنے پر مداومت فرمائی ہے اور اپنے فرما ن ”اوفروا اللحیۃ“ وغیرہ داڑھی رکھنے کو ترک کرنے سے انکار بھی فرمایا ہے ۔ داڑھی کاٹنے کا حکم دینا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ پس ایک مشت داڑھی رکھنے اور مشت بھر داڑھی رکھنے کے واجب ہونے کا انکار کرنا جس دلیل پر مبنی تھا اس کا باطل ہونا ظاہر ہو گیا ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور علمائے کرام علیہم الرحمہ کو اپنی رائے سے شریعت گڑھنے والا کنایۃً قرار دیا ہے جو ایک مشت داڑھی رکھنے کے وجوب کے قائل ہیں اور وجوب پر ان لوگوں نے بہت سی دلیلیں قائم کی ہیں ۔ علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب مسلم شریف کی شرح میں ایک مشت داڑھی رکھنے والوں کے قول کو رد اور باطل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے ۔ یاد رکھیے ! ہم مبلغ ہیں شارع نہیں ہیں ۔ ہمارا کام احکامِ شریعت کو جوں کا توں پہنچانا ہے اور پس ہم اپنی طرف سے کسی حکم کو وضع کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔