فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
مدینہ منورہ کائنات ارض و سماوات کا وہ نگینہ ہے ، جہاں ہر لمحہ آسمان سے رحمت کی رم جھم برستی رہتی ہے ، ساکنانِ مدینہ سائبان کرم میں رہتے ہیں اہل مدینہ کو مدینہ کا شہری ہونے کے باعث بے پناہ فضیلت حاصل ہے ۔ یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جن کے شب و روز کا ہر لمحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادرِ رحمت کے سائے میں گزرتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کا حصار انہیں اپنے دامنِ عطاء و بخشش میں چھپا لیتا ہے ۔ اہل مدینہ کو بتقاضائے بشریت اگر کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حرف شکوہ زبان پر نہیں آنے دیتے تو ایسے اہل مدینہ کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب الترغيب فی سکنی المدينة والصبر علی لاوائها، 2 : 1004، رقم : 1377)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالَم حیات ظاہری میں حضور (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا ، اب حضورِمزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی طرف توجہ ، حضور سے تَوَسُّل ، فریاد ، اِستِغاثہ ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ امام علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں : رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵/۶۵۴)
قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ نقل کرتے ہیں کہ : حضرت عمرو بن دینار رحمة ﷲ علیہ نے فرمایا : ان لم یکن فی البیت احد فقل : السلام علی النبی و رحمة ﷲ و برکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت و رحمة ﷲ وبرکاتہ "
ترجمہ : اگر کوئی گھر میں نہ ہو تو (داخل ہوتے وقت) یوں کہو : السلام علی النبی و رحمةﷲ وبرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت ورحمتہﷲ وبرکاتہ ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الجزء الثانی صفحہ ٣٠٧ القاضی ابی الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض المالکی ٥٤٤ھ الیحصُبی الاندلسی ثم المراکشی مطبوعہ دارالحدیث القاھرہ مصر،چشتی)۔(کتاب الشفاء مترجم اردو جلد دوم صفحہ 64 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
شفاء شریف کی شرح کرتے ہوئے امام ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمتہ اس مقام پر آکر یوں فرماتے ہیں : لان روحہ علیہ السلام حاضر فی بیوت اھل الاسلام ۔
ترجمہ : (یعنی السلام علی النبی ورحمةﷲ وبرکاتہ کا حکم اس لیے کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح ہر مسلمان کے گھر میں حاضر ہوتی ہے ۔ (شرح الشفاء الجزء الثانی صفحہ ١١٨ الملا علی قاری الھروی الحنفی علیہ الرحمہ (متوفی ١٠١٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
الحمد للہ اہلسنت کے وہی عقائد ہیں جو اکابرین اہلسنت کے تھے : حیرت والی بات یہ ہے کہ اکابرین و سلف صالحین علیہم الرّحمہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر مسلمان کے گھر جلوہ فرما مانیں تو ان کے ایمان کی بنیاد مضبوط کی مضبوط ہی رہتی ہے اور اگر متاخرین بزرگانِ اہلسنت اسی عقیدے کو " حاضر و ناظر " کے عنوان سے بیان فرمائیں تو شرک کے فتوے صادر فرما دیئے جاتے ہیں ۔ مخالفین کا یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے ۔
یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے چلتا آ رہا ہے ۔
حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا : جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا ، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا ، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا : اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کےلیے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا ، میں نہیں کھولوں گا ۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی ، نہ پی ، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پرغشی طاری ہو گئی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا ۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ۔۔۔ الخ، ۴/۱۳-۱۴)(خازن، الانفال الآیۃ: ۲۷، ۲/۱۹۰،چشتی)
بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسا بستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے ، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں ۔ ارشاد فرمایا : یہ گدا یہاں کیوں ہے ؟ عرض کی : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے خریدا تھا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو ۔ اور ارشاد فرمایا : جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲/۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵،چشتی)
حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر وقَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کےلیے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کو واجب کرلیتے ، میرے پاس جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے ۔ (معجم الکبیر ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲/۵۹ الحدیث: ۱۴۲۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے ۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اپنی امت کےلیے بارش کی دعا فرما دیجیے وہ ہلاک ہو رہی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا : تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں ۔ حضرت بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا : یا رب عَزَّوَجَلَّ ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷/۴۸۲، الحدیث: ۳۵، وفاء الوفائ، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، الفصل الثالث، ۲/۱۳۷۴، الجزء الرابع،چشتی)
ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا ، اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے ، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے ۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد موتہ، ۱/۵۶، الحدیث: ۹۲)
بادشاہ ابو جعفرمنصور نے حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا ، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ نے اسے (ڈانٹتے ہوئے) کہا : اے امیرُ المؤمنین! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ’’ تم اپنی آوازوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند مت کرو ۔‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں ۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’ بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ۔‘‘ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں تھی۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا، پھر دریافت کیا : اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر ؟ فرمایا : تم کیوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت مانگو پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرمائے گا ۔ (شفا شریف، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل واعلم انّ حرمۃ النبی ص۴۱، الجزء الثانی،چشتی)
مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا : جانتے ہو کیا کر رہے ہو ؟ اس پر ان صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضر ہوا ہوں ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو ۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ تھے ۔ (مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹/۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں فریاد ، کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء،چشتی)
معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جائز ہے ۔
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی ۔ (۔تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265،چشتی)
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال شریف کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو آپ نے فرمایا ، ہم نے سنا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ، اس میں یہ آیت بھی ہے ’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا‘‘ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔ اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخش دیا گیا ۔ (مدارک، النساء الآیۃ: ۶۴، صفحہ ۲۳۶)
یہ آیتِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں ۔ چنانچہ’’ حدائق بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں : ⬇
مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوۡکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اور فرمایا : ⬇
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
اور فرمایا : ⬇
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
اس آیتِ مبارکہ معلوم ہوا کہ : ⬇
(1) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے ۔
(2) قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی ’’ جَآئُ وْکَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے ۔
(3) بعد ِوفات مقبولانِ حق کو ’’یا‘‘ کے ساتھ نِدا کرنا جائز ہے ۔
(4) مقبولانِ بارگاہِ الٰہی مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے ۔
اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔
اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تو اتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔
معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصودِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔
وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ۔ (سورة البقرہ، 89)
مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب معلم و مقصودِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل کفار پر فتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیا بلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں نہیں لاتے ۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۔ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔
بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرنا تھا ۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں ۔
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ ۔ (سورة البقرہ، 144) ۔
ترجمہ : ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔
معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لیے ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ کامحتاج ہے تودوسروں کا کیا پوچھنا ہے ۔
مسندامام احمدبن حنبل میں حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چالیس (40) ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس (40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں سے عذاب دور ہوگا ۔ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے وسیلہ سے بارش فتح ونصرت ملتی ہے اوربلادفع ہوتی ہے ۔ (مشکوٰة باب ذکریمن وشام)
دارمی شریف میں ہے کہ ایک بار مدینہ شریف میں بارش بند ہوگئی اور قحط پڑگیا لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا آپ نے فرمایاکہ روضۂِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھت کھولدو کہ مزارِ انور اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تو لوگوں نے ایساہی کیا تو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگااونٹ موٹے ہوگئے گویا چربی سے بھرگئے ۔ (مشکوٰة ،باب الکرامات،چشتی)
مشکوٰ شریف باب المعراج میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے توآپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا؟ فرمایا ہردن پچاس (50) نمازوں کافرمایا ۔ حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں اتنی طاقت نہیں میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں ۔ اپنی امت کےلیے رب سے رعایت مانگیے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اور رحمت ملی کہ پچاس (50) نمازوں کی صرف پانچ باقی رہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کا وسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے ۔
مسلم و بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''انما اناقاسم واللہ معطی'' ۔ (مشکوٰة ،کتاب العلم)
ترجمہ : ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے ہیں اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتا ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالق کی ہر نعمت کا وسیلہ ہیں ۔
شرح سنہ میں ہےکہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے ایک اونٹ نے جوکھیت میں کام کر رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور منہ اپنا زانوئے مبارک پر رکھ کر فریاد ی ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے مالک کو بلاکر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتا ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم دیتے ہو ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ معلوم ہوا کہ بے عقل جانور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کورفع حاجات کےلیے وسیلہ جانتے ہیں ۔ جو انسان ہوکر ان کے وسیلہ کا منکر ہووہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف کتاب الرضاع،چشتی)
معلوم ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کا فائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂِ بے دام ہے ۔
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاجُبہّ شریف تھا۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں کہ مدینہ میں جو بیمار ہو جاتا ہے اسے دھو کر پلاتے ہیں اس سے شفا ہو جاتی ہے ۔ (مشکوٰة، کتاب اللباس)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن شریف سے مس کیے ہوئے کو شفا کا وسیلہ سمجھ کر اسے دھو کر پیتے تھے ۔ بخاری شریف کتاب المساجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حج کو جاتے ہوئے ہر اس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حج کے موقع پر نماز پڑھی تھی ۔ یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں معلوم ہوا کہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment