سیرت و فضائل حضرت ابراہیم علیہ السَّلام حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو تمام انبیاء ومرسلین میں ایک خاص مقام ومرتبہ حاصل ہے ۔ نزول قرآن کے وقت جو قومیں قرآن کی براہ راست مخاطب تھیں ان سب کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ہیں ۔ قرآن مجید کی بہت سی سورتوں میں آپ کا تذکرہ مبارک آیا ہے ، کہیں اختصار کے ساتھ تو کہیں تفصیل کے ساتھ ۔ اس قدر کثرت کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جانا آپ کی شان وعظمت کو ظاہر کرتا ہے ۔ قرآن مجید کی سورۃ نمبر 14 آپ کے نام مبارک پر ہے جس میں آپ کی سیرت اور بالخصوص آپ کی دعاؤں کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیاہے ۔ آپ کا اسم گرامی پہلے ’ابرام‘ تھا،جب اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی ذریت کی کثرت کا عہد کیا تو آپ کا نام ’ابرہام‘ قرار پایا۔ابراہیم یا ابرہام عبرانی زبان کا لفظ ہے ۔ یہ نام دو کلموں سے مرکب ہے ۔’اب‘بمعنی باپ اور ’راہام‘ بمعنی جماعت یعنی بڑی جماعت والا۔ایک قول یہ ہے کہ یہ سریانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ’اب راحم‘ یعنی رحم دل باپ حقیقت میں آپ اپنے ان دونوں ناموں میں اسم با مسمیٰ ہیں یعنی آپ بڑی ذریت والے بھی ہیں یہاں تک کہ ہزاروں انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ نسب آپ ہی سے چلتا ہے اور آپ انتہائی مہربان بھی ہیں ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ (۶۹) فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةًؕ-قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ (۷۰) وَ امْرَاَتُهٗ قَآىٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَۙ-وَ مِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ (۷۱) قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ هٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًاؕ-اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ (۷۲) قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِؕ-اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (۷۳) فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ (۷۴) اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ (۷۵) یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاۚ-اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَۚ-وَ اِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ (۷۶) ۔ (پارہ 12 سورہ ھود :69 تا 76)
ترجمہ : اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے ”سلام“ کہا تو ابراہیم نے ”سلام“ کہا ۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے ۔ پھر جب دیکھا کہ ان (فرشتوں) کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو ان سے وحشت ہوئی اور ان کی طرف سے خوف محسوس کیا۔انہوں نے کہا: آپ نہ ڈریں۔ بیشک ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ اور ان کی بیوی (وہاں) کھڑی تھی تو وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی ۔ کہا : ہائے تعجب ! کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور یہ میرے شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں۔ بیشک یہ بڑی عجیب بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا : کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ بیشک وہی سب خوبیوں والا، عزت والاہے ۔ پھر جب ابراہیم سے خوف زائل ہوگیا اور اس کے پاس خوشخبری آگئی تو ہم سے قوم ِلوط کے بارے میں جھگڑنے لگے ۔ بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا، بہت آہیں بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔ (ہم نے فرمایا)اے ابراہیم! اس بات سے کنارہ کشی کرلیجیے، بیشک تیرے رب کا حکم آچکا ہے اور بیشک ان پرایسا عذاب آنے والا ہے جو پھیرا نہ جائے گا ۔
سورۂ ہودکی ان آٹھ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ فرشتے حسین و جمیل نوجوان لڑکوں کی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے پاس آئے اور سلام عرض کیا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام نے سلام کا جواب دیا اور انہیں مہمان خیال کرتے ہوئے ایک بھنا ہوا بچھڑا کھانے کے لئے لے آئے ، لیکن مہمانوں نے کھانے کی طرف اصلاً ہاتھ نہ بڑھایا۔ اس پر آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو گھبراہٹ اور خوف ہوا کہ یہ کوئی نقصان نہ پہنچادیں۔ فرشتوں نے خوفزدہ دیکھ کر عرض کی کہ آپ نہ ڈریں، ہم کھانا اس لئے نہیں کھا رہے کہ ہم فرشتے ہیں اور قومِ لوط پر عذاب نازل کرنے کےلیے بھیجے گئے ہیں ۔ اِس گفتگو کے دوران حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کی زوجہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا بھی پس ِپردہ کھڑی یہ باتیں سن رہی تھیں، بیٹے کی بشارت یا کسی اور بات پر وہ ہنس پڑیں۔ فرشتوں نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بیٹے اسحاق اور ان کے بعد اسحاق کے بیٹے یعقوب علیہما الصلٰوۃ والسَّلام کی ولادت کی خوشخبری دی۔ بشارت سن کر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے تعجب سے کہا:کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کی عمر 120سال اور حضرت سارہ کی 90 سال تھی ۔(جلالین مع صاوی،ج3،ص923) ۔ فرشتوں نے جواب دیا کہ آپ کے لئے اس امرِ الٰہی پر کیا تعجب کیونکہ آپ کا تعلق اس گھرانے سے ہے جو معجزات اور عادتوں سے ہٹ کر کاموں کے سرانجام ہونے، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ بنا ہوا ہے ۔
بہرحال جب فرشتوں سے کلام کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کا خوف زائل ہوگیا تو آپ علیہ السَّلام قومِ لوط کے بارے میں فرشتوں سے سوال و جواب کی صورت میں کلام کرنے لگے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ سے بیان فرمایا کہ ابراہیم ہم سے قوم ِ لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کا مقصد یہ تھا کہ عذاب مؤخر ہوجائے اور بستی والوں کو ایمان و توبہ کے لئے کچھ اور مہلت و موقع مل جائے۔آپ علیہ السَّلام کی اس رحمت و شفقت پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدح فرمائی کہ بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے، خدا سے بہت ڈرنے والے، اس کے سامنے بہت آہ و زاری کرنے والے ہیں اور اس کے علاوہ ” مُنِیْبٌ“ یعنی خدا کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ جو شخص دوسروں پر عذاب ِ الٰہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا اورا س کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ اپنے معاملے میں کس قدر خدا سے ڈرنے والا اور رجوع کرنے والا ہوگا۔ قوم ِ لوط کے متعلق جب حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کا کلام طویل ہوا تو فرشتوں نے عرض کی: اے ابراہیم! عذاب مؤخر کرنے کی درخواست چھوڑ دیں کیونکہ رب العالمین کی طرف سے اِس قوم پر عذاب نازل ہونے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے لہٰذا اس عذاب کے ٹلنے کی اب کوئی صورت نہیں اور یوں اِس کے بعد قومِ لوط پر عذاب آگیا۔
ان آیات سے درس ٭ملاقات کے وقت سلام کرنا فرشتوں اور نبیوں کی سنت ہے ٭نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواج ِمطہرات اہل ِبیت میں داخل ہیں کیونکہ یہاں حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو اہل بیت کہا گیا ہے ٭حضرت ابراہیم اور ان کی زوجہ کو بیٹے اور پوتے کی بشارت دینے سے مستقبل کے غیب کی خبر معلوم ہوگئی اور بتانے والے فرشتوں کو بھی یقیناً یہ غیب کا علم تھا ٭تحمل، بردباری، خوفِ خدا، گریہ و زاری، خدا کی طرف رجوع کرنا، اللہ کریم کو بہت پسند ہے ٭کفار کے ساتھ یہ رحمت و شفقت کی جائے کہ ان کےلیے دولت ِ ایمان کی کوشش کی جائے تاکہ وہ ابدی عذاب سے بچ جائیں ٭انبیاء علیھم السَّلام کا بارگاہِ خداوندی میں بہت بلند مقام ہے کہ اُس عظمت والی بارگاہ میں بھی یہ تکرار و اصرار کرسکتے ہیں، گویا نیاز بھی ہے اور ناز بھی ٭فرشتوں کے صحیفوں میں لکھی کسی چیز پر معلق تقدیر دعاؤں یا نیکیوں سے ٹل جاتی ہے جبکہ ظاہری مُبرَم و قطعی تقدیر انبیاء علیھم السَّلام اور خواص اولیاء کی دعاؤں سے بدل سکتی ہے لیکن حقیقی قطعی مبرم تقدیر ہرگز نہیں بدلتی ، حتی کہ انبیاءِ کرام علیھم السَّلام بھی اس کے متعلق دعا کرنے لگیں تو انہیں دعا کرنے سے روک دیا جاتا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان و عظمت بہت بلند ہے اختصار کے پیش نظر صرف چند نمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی ۔ آپ علیہ السلام حسن وجمال اور اخلاق کریمہ کے جامع مرکب تھے ۔ حضور نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر و بیشتر آپ کا تذکرہ فرماتے تھے ۔ خاتم النبیین آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بہت زیادہ انس تھا،اس لئے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک بیٹے کا نام بھی اپنے جد امجد کے نام پر ابراہیم رکھاتھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت وجیہ انسان تھے ۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا،مجھے ان کے ساتھ قریبی مشابہت تمھارے صاحب میں نظر آئی یعنی اپنی طرف اشارہ کیا(صحیح مسلم: 423،چشتی)
اسی طرح حضورنبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مختلف انبیاء کا حلیہ بیان فرمایا تو صحابہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلیہ مبارک کے حوالے سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے دیکھ لو یعنی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشابہ ہوں ۔ (مسند احمد 10349)
حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی شان و عظمت بہت بلند ہے ، جیسا کہ خاتم النبیین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے مقام ومرتبہ کے متعلق بیان فرمایا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا ’یاخیر البریۃ‘اے مخلوق میں سب سے بہترین انسان! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ تو ابراہیم علیہ السلام ہیں یعنی یہ تو ان کا لقب ہے ۔ (صحیح مسلم: 6138،چشتی)
راہ خدا میں ہجرت کرنا بہت بڑی فضیلت والا عمل ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ عمل اپنی زندگی میں مسلسل کرتے رہے ۔پہلے آپ نے ’بابل‘سے ’شام‘ کی طرف ہجرت کی۔وہاں سے ’اردن‘چلے گئے ۔ پھر ’مصر‘ کی طرف ہجرت کرگئے ۔مصر سے پھر دوبارہ شام کی طرف لوٹ گئے پھر فلسطین کی طرف چلے گئے اسی طرح مکہ کی طرف بھی ہجرت کرکے تشریف لے گئے ۔ مکہ سے دوبارہ فلسطین تشریف لے گئے حتیٰ کہ آپ کی پوری زندگی راہ خدا میں ہجرت کرتے کرتے گزری گئی ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 40)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: يَأَيُهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ مَحْشُوْرُوْنَ إِلَی اللهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ثُمَّ قَالَ: {کَمَا بَدَأَنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيْدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلَيْنَ} [الأَنبياء، 21:104]، ثُمَّ قَالَ: أَلاَ وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُکْسَی يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيْمُ الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ ۔
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم روزِ حشر الله تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں حاضر کیے جاؤ گے کہ برہنہ پا، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے ہو گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ساری مخلوق میں سب سے پہلے جنہیں لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے ۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں ۔ (أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: تفسير القرآن، باب: وکنت عليهم شهيدا مادمت فيهم، 4/ 1691، الرقم: 4349، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجنة وصفة نعيمها وأَهلها، 4/ 2194، الرقم: 2860، والترمذي في السنن، کتاب: صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: ماجاء في شأَن الحشر، 4/ 615، الرقم: 2423، وقال: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: البعث، 4/ 114، الرقم: 2081. 2083، وأَحمد بن حنبل في المسند، 1/ 223، الرقم: 1950، وابن حبان في الصحيح، 16/ 323، الرقم: 7328، والدارمي في السنن، 2/ 419، الرقم: 2800)
عَنْ أَمِّ شَرِيْکٍ رضي الله عنها : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ: وَکَانَ يَنْفُخُ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ عليه السلام ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ ۔
ترجمہ : حضرت اُمِ شریک رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کےلیے (نمرود کی) جلائی گئی آگ میں (اسے بھڑکانے کے لئے) پھونکیں مارتی تھی۔‘‘اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأَنبياء، باب: قول الله تعالی: واتخذ الله إبراهيم خليلا، 3/ 1226، الرقم: 3180، وأَحمد بن حنبل في المسند، 6/ 200، الرقم: 25684، وابن راهويه في المسند، 2/ 530، الرقم: 1113، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 450، الرقم: 1559، والبيهقي في السنن الکبری، 8/ 316، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3/ 380، الرقم: 4516،چشتی)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَةِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ذَاکَ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنِّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وفي روية لإبن وعساکر: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: يَا خَيْرَ النَّاسِ قَالَ: ذَاکَ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَالَ: يَا أَعْبَدَ النَّاسِ، قَالَ: ذَاکَ دَاوُدُ عليه السلام ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا خیر البریۃ! (اے مخلوق میں سب سے زیادہ بہتر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب ہے)۔‘‘اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود، نسائی، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
اور ابن عساکر کی روایت میں ہے: ’’ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا خیر الناس! (اے لوگوں میں سب سے زیادہ بہتر)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب ہے)۔ پھر اس آدمی نے عرض کیا: یا اَعبد الناس! (یعنی اے سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ حضرت داود علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب ہے) ۔ (أَخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: من فضائل إبراهيم الخليل عليه السلام، 4/ 1839، الرقم: 2369، وأَبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في التخيير بين الأَنبياء عليهم السلام، 4/ 218، الرقم: 4672، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 520، الرقم: 11692،چشتی، وأَحمد بن حنبل في المسند، 3/ 178، 184، الرقم: 12849، 12930. 12931، وابن أَبي شيبة في المصنف، 6/ 329، الرقم: 31816، وأَبو يعلی في شعب اليمان، 2/ 183، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 6/ 220، 7/ 86)
عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إِنَّ لِکُلِّ نَبِيٍّ وُلَاةً مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ وَلِيِّي أَبِي وَخَلِيْلُ رَبِّي (وفي رواية للحاکم: وَأَنَّ وَلِيِّي، وَخَلِيْلِي، أَبِي إِبْرَاهِيْمُ) ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا وَاللهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ}، [آل عمران، 3: 68]. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا أَصَحُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر نبی کے انبیاء کرام میں سے دوست ہوتے ہیں اور بے شک میرے دوست، میرے والد اور میرے رب کے دوست ہیں (اور حاکم کی روایت میں ہے: اور بے شک میرے دوست اور میرے خلیل میرے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: (بیشک سب لوگوں سے بڑھ کر ابراہیم ( علیہ السلام ) کے قریب (اور حقدار) تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان (کے دین) کی پیروی کی ہے اور (وہ) یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور (ان پر) ایمان لانے والے ہیں، اور اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے)۔‘‘اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ترین ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (أَخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: ومن سورة آل عمران، 5/ 223، الرقم: 2995، وأَحمد بن حنبل في المسند، 1/ 400، 429، الرقم: 3800، 4088، والحاکم في المستدرک، 2/ 320، 603، الرقم: 3151، 4030. 4031، والبزار في المسند، 5/ 345، 351، الرقم: 1973، 1981،چشتی،وابن منصور في السنن، 3/ 1047، الرقم: 501، سنده صحيح)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: لَمَّا بَنَی إِبْرَاهِيْمُ الْبَيْتَ أَوْصَی اللهُ إِلَيْهِ أَنْ أَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ قَالَ: فَقَالَ إِبْرَاهِيْمُ: أَلاَ إِنَّ رَبَّکُمْ قَدِ اتَّخَذَ بَيْتًا وَأَمَرَکُمْ أَنْ تَحُجُّوْهُ فَاسْتَجَابَ لَهُ مَا سَمِعَهُ مِنْ حَجَرٍ، أَوْ شَجَرٍ، أَوْ أَکَمَةٍ، أَوْ تُرَابٍ لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ.رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.وَقَالَ الْحَاکِمُ:هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ لوگوں میں حج کی ندا دیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پکارا: جان لو! بے شک تمہارے رب نے ایک گھر بنایا ہے اور تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم اس کی زیارت (حج) کرو۔ پس ان کی ندا پر پتھروں، درختوں، ٹیلوں اور مٹی میں سے جس جس نے اس ندا کو سنا {لَّبيْک اللّٰهمَّ لبَّيْک} ’’اے اللہ ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں‘‘ کہا۔‘‘اس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 601، الرقم: 4026، والبيهقي في السنن الکبری، 5/ 176، الرقم: 9613، وفي شعب اليمان، 3/ 439، الرقم: 3998، والطبري في جامع البيان، 17/ 144، وفي تاريخ الأَمم والملوک، 1/ 156، والزيلعي في نصب الرأَية، 3/ 22)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: الإِْسْلَامُ ثَـلَاثُوْنَ سَهْمًا وَمَا ابْتُلِيَ بِهَذَا الدِّيْنِ أَحَدٌ فَأَقَامَهُ إِلَّا إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَالَ اللهُ تَعَالَی: {وَإِبْرَاهِيْمُ الَّذِي وَفّٰی} [النجم، 53:37] فَکَتَبَ اللهُ لَهُ بَرَائَةً مِنَ النَّارِ.رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ مُخْتَصَرً.وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے تیس حصے ہیں اور کوئی شخص ایسا نہیں جسے اس دین کے ذریعے آزمایا گیا اور وہ اس آزمائش پر پورا اترا ہو سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جنہوں نے (اللہ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا۔‘‘ پس (اسی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے آپ کےلیے آگ سے براء ت مقدر کر دی۔‘‘اس حدیث کو امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے مختصرا روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 602، الرقم: 4027، وابن أَبي شيبة في المصنف، 6/ 331، الرقم: 31829، والطبري في جامع البيان، 1/ 524، وفي تاريخ الأَمم والملوک، ا/ 168، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 6/ 194)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : فَيَقُولُوْنَ : يَا إِبْرَاهِيْمُ، أَنْتَ خَلِيْلُ الرَّحْمٰنِ، قَدَ سَمِعَ بِخُلَّتِکَ أَهْلُ السَّمَاوَاتِ وَأَهْلُ الْأَرْضِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (روزِ حشر) لوگ کہیں گے : اے ابراہیم ! آپ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور آپ کی دوستی کا آسمان والوں اور زمین والوں نے بھی خوب سن رکھا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 599، الرقم: 4017، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 395، الرقم: 3181،چشتی)
عَنْ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کُلُّ اثْنَيْنِ مِنْهُمْ خَلِيْلَانِ دُوْنَ سَائِرِهِمْ قَالَ : فَخَلِيْلِي مِنْهُمْ يَومَئِذٍ خَلِيْلُ اللهِ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک انبیاء کرام علیھم السلام میں سے ہر دو نبی دوسرے تمام لوگوں کے علاوہ روزِ قیامت آپس میں دوست ہوں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس اس دن ان میں سے میرا دوست وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا بھی دوست ہے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ ‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أَخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7/ 258، الرقم: 7052، والذهبي في ميزان الاعتدال، 6/ 397، والعسقلاني في لسان الميزان، 6/ 15، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 201)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : إِنَّ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ دُرٍّ لَا صَدْعَ فِيْهِ وَلَا وَهْنٌ أَعَدَّهُ اللهُ لِخَلِيْلِهِ إِبْرَاهِيْمَ عليه السلام . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ بِنَحْوِهِ وَرِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک جنت میں موتیوں سے بنا ہوا ایک محل ہے جس میں نہ تو کوئی شگاف ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی کمزوری، اس گھر کو الله تعالیٰ نے اپنے دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام کےلیے تیار کیا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام بزار نے بھی اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے اور ان دونوں کے رجال رجالِ صحیح ہیں جیسا کہ امام ہیثمی نے بیان کیا ہے ۔ (أَخرجه الطبراني في المعجم الأَوسط، 6/ 329، الرقم: 6543، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 201،چشتی،وقال: ورواه البزار بنحوه، وابن کثير في قصص الأَنبياء، 1/ 179)
آپ علیہ السلام کی شان وعظمت اس قدر بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بار بار اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جب ابراہیم نے کہا تھا میرے مالک مجھے دکھا کہ تو مردوں کو زندہ کیسے کرتا ہے ؟ فرمایاکیا تو ایمان نہیں رکھتا،آپ نے عرض کی ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان مطلوب ہے ۔فرمایا اچھا تو پھر چار پرندے لیں اور ان کو اپنے آپ سے مانوس کریں پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پہاڑ پر رکھ دیں۔پھر ان کو پکاریں توآپ کے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے ۔ خوب جان لیں! کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکمت والا ہے ۔(سورۃ البقرہ:260)
مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے یہ جاننے کی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ حشر میں مردوں کو زندہ کیسے کرے گا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں قیامت پر ایمان نہیں تھا یا انہیں مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر شک تھا بلکہ وہ اس سلسلے میں شرح صدر اور اطمینان قلب کے خواہش مند تھے ۔ آپ علیہ السلام ہمہ وقت اطاعت الٰہی اور رضائے الٰہی میں سر گرداں رہتے تھے ۔حتی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بار بار مختلف موقعوں پر آزمایا، ہر بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کامیابی سے ہم کنار ہوئے ۔ سب سے بڑی آزمائش بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے متعلق تھی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ’’اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وفا کا حق ادا کردیا‘‘ ۔ (سورۃ النجم آیت:37)
سیرت ابراہیمی کا ایک نمایاں پہلو حلم و بردباری ہے ۔ ’’حلم‘‘ سے مراد یہ ہے کہ آدمی غیظ و غضب کے موقع پر اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھے اور ’’بردباری‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بد سلوکی کرے تو جواب میں وہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ۔حلم وبرباری کی یہ صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے ’’حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام بڑے حلیم اور نرم دل آدمی تھے اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتے تھے ۔‘‘ (سورۃ ہود، آیت:75)
سیرت ابراہیمی کا ایک اور مرکزی پہلو آپ کامہمان نواز ہونا تھا۔آپ علیہ السلام مہمان کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے حتی کہ بعض اوقات مہمان کی تلاش میں دو دو میل دور تک نکل جاتے تھے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر قرآن مجید میں کئی بار کیا گیا ہے ۔ شرک کے خلاف جہاد اوراللہ کی وحدانیت کو قائم کرنا سیرت ابراہیمی کا سب سے نمایاں پہلو ہے ۔آپ علیہ السلام جس دور میں مبعوث کیے گئے وہ دور شرک اور بت پرستی کے عروج کا دور تھا ہر طرف شرک،بت سازی،بت پرستی،ستارہ پرستی،آگ پرستی یعنی ہر طرف شرک کا دوردورہ تھا۔ آپ نے ہر طرح کے شرک کے خاتمے کے لئے بڑی جدوجہد کی۔آپ نے نہ صرف زبان سے بت پرستی کی مذمت کی بلکہ جب موقع ملا تو خود اپنے ہاتھوں سے بھی ان بتوں کو پاش پاش کیا، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بت شکنی کا تذکرہ فرمایا۔جب سب لوگ میلے میں چلے گئے تھے تو آپ نے ان کے تمام بتوں کو پارہ پارہ کردیا تو لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ یہ بت کس نے توڑے ہیں تو آپ نے جواب دیا ’’یہ سب کچھ ان کے سردار نے کیا ہے انھیں سے پوچھ لو اگر یہ بولتا ہو ۔‘‘ (سورۃالانبیا: 63)
مزید فرمایا ’’پھر کیوں تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ کچھ نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔تف ہے تم پر اور تمھارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کررہے ہوکیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے ؟ ۔ (سورۃ الانبیا : 67-66)
قرآن مجید میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی بہت سی مقبول دعاؤں کا تذکرہ ہے جس میں ہمارے لیے پیغام یہ ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے برگزیدہ بندوں کی طرح رجوع کریں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر نبی اور بر گزیدہ بندے ہیں ان کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و عبادت اور محبت سے سرشار نظر آتی ہے آپ نے محبت خدا وندی کی ایک ایسی مثال قائم فرمائی جس کی نظیر صبح قیامت تک روئے زمین پر نہیں مل سکتی ۔ واقعہ یہ ہے کہ بڑی خواہش و تمنا کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں اولاد عطا فرمائی تھی پھر اللہ کہ مشیت کہیے کہ آپ کو حکم ہوا کہ اپنے چہیتے بیٹے کو محض اللہ کے حکم پر اس کی رضا کےلیے قربان کر دیں جسے آپ نے پورا کر دیکھایا اور صبح قیامت تک کےلیے محبتِ خداوندی کی وہ داستان رقم کر دی جس کی نظیر و مثال اب نہیں ہو سکتی ۔
عجیب خواب : حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تواللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم دیا کہ وہ اپنے لخت جگر کو ذبح کریں ۔ (تفسیر مظہری ، جلد ۵ صفحہ ۱۳۵)
آپ نے ترویہ کی شب یہ خواب دیکھا ۔ کہنے والا کہہ رہا تھا ’’ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا بیٹا ذبح کریں ۔ صبح ہوئی آپ نے اس خواب میں غور و فکر کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے ہے ۔اس لیے اس دن کو یوم ترویہ کہا جاتا ہے ۔ دوسری رات پھر یہی خواب دیکھا ۔ تب آپ نے جان لیا کہ یہ خواب اللہ رب العزت کی طرف سے ہے ۔اس دن کو یوم عرفہ کہا گیا ۔ تیسری رات پھر یہی خواب دیکھا اس دن آپ اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کےلیے تیار ہو گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے آپ کو فرزند کی بشارت دی تھی اس وقت آپ نے فرمایا تھا ’’ پھر اسے اللہ تعالیٰ کےلیے ذبح کر دیا جائے گا ۔ جب حضرت اسماعیل دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو آپ سے کہا گیا ’’ اپنی نذر پوری کریں ۔ (تفسیر روح المعانی جلد ۱۳ ، ۱۴ صفحہ ۱۲۸) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment