Wednesday 28 June 2023

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیناحصّہ دوم

0 comments

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیناحصّہ دوم

دوسرا موقف : ارشادِ باری تعالیٰ ہے ہے : اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْۚ ۔وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (سورة الممتحنہ : 9)
ترجمہ : اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے پر (تمہارے مخالفین کی) مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ظالم ہیں ۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں کفار کے ساتھ دوستی سے منع کیا گیا ، یہاں ان سے دوستی سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے کلام کا خلاصہ ملاحظہ ہو : ⬇

مُوالات (یعنی کفار کے ساتھ دوستی) کی دو قسمیں  ہیں  :

(1) ۔ حقیقی موالات : اس کی ادنیٰ صورت قلبی میلان ہے ، یہ تمام صورتوں میں ہر کافر سے مُطْلَقاً ہر حال میں حرام ہے البتہ طبعی میلان جیسے ماں باپ ، اولاد یا خوبصورت بیوی کی طرف غیر اختیاری طور پر ہوتا ہے یہ اس حکم میں داخل نہیں پھر بھی اس تَصَوُّر سے کہ یہ اللّٰہ و رسول کے دشمن ہیں اور ان سے دوستی حرام ہے ، اپنی طاقت کے مطابق اس میلان کو دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کر دینا لازم ہے ، اس میلان کا آنا بے اختیار تھا اور اسے زائل کرنا قدرت میں  ہے تو اسے رکھنا دوستی کو اختیار کرنا ہوا اور یہ حرامِ قطعی ہے اسی لئیے جس غیر اختیاری چیز کے ابتدائی اُمور کسی شخص نے اپنے اختیار سے پیدا کیے تو اس میں  اس کا کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا جیسے شراب سے عقل زائل ہو جانا اختیار میں نہیں  لیکن جب اختیار سے پی تو عقل کا زوال اور اس پر جو کچھ مُرَتَّب ہوا سب اسی کے اختیار سے ہو گا ۔

(2) ۔ صورۃً مُوالات : اس کی صورت یہ ہے کہ بندے کا دل کافر کی طرف اصلاً مائل نہ ہو لیکن اس سے برتاؤ ایسا کرے جو بظاہر محبت و میلان کا پتا دیتا ہو ۔ یہ ضرورت اور مجبوری کی حالت میں صرف ضرورت و مجبوری کی مقدار مُطْلَقاً جائز ہے اور بقدرِ ضرورت یہ کہ مثلاً صرف عدوات کااظہار نہ کرنے سے کام نکلتا ہو تو اسی قدر پر اِکتفاء کرے اور اظہارِ محبت کی ضرورت ہو تو حتّی الامکان پہلودار بات کہے ، صراحت کے ساتھ اظہار کرنے کی اجازت نہیں ، اور اگر اس کے بغیر نجات نہ ملے اور دل ایمان پر مطمئن ہو تو صراحت کے ساتھ اظہار کی رخصت ہے اور اب بھی عزیمت یہی ہے کہ  ایسا نہ کرے ۔ (فتاوی رضویہ ، رسالہ : المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۶۵-۴۶۷،چشتی)

تفسیر دونوں  آیات کا خلاصہ ملاحظہ ہو ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  ان کافروں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں  کرتا جنہوں نے تم سے دین میں  لڑائی نہیں کی اورنہ تمہیں  تمہارے گھروں سے نکالا ، بیشک اللّٰہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں  سے محبت فرماتا ہے اور وہ تمہیں  صرف ان کافروں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے اور انہوں  نے تمہیں  تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں  نکالنے پر تمہارے مخالفین کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ (تفسیر خازن، الممتحنۃ الآیۃ: ۸-۹، ۴ / ۲۵۸)

قربانی کا گوشت مسلمانوں میں سے جسے چاہیں دیں اس کے مصارف کوئی محدود ومتعین نہیں ہیں ہاں کفار حربی کو دینا جائز نہیں کیونکہ قربانی کا گوشت غریبوں کے علاوہ متعلقین ہی کو دیاجاتاہے ، یہ آپس میں محبت و انسیّت کو بڑھانےکا ایک اہم ذریعہ ہے اور کفار حربی سے ایسے تعلقات ناجائز حرام ہیں ۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْۚ ۔وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (سورة الممتحنہ : 9)
ترجمہ : اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے پر (تمہارے مخالفین کی) مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ظالم ہیں ۔

کافر کی تین قِسمیں ہیں : ⬇

(1) حربی (2) مستامن (3) ذِمی

حربی : وہ کافر جس نے مسلمانوں سے جزیہ کے عِوَض عقد ذمہ ( یعنی اپنی جان اور مال کی حفاظت کا عہد) نہ کیا ہو ۔(الموسوعۃ الفقہیة، جلد7، صفحہ 104، مطبوعہ بیروت،چشتی)

مستامن : وہ جو غیر قوم کی سلطنت میں اَمَان لیکر گیا جیسے حربی دار الاسلام میں اَمَان لیکر گیا تو مستامن ہے ۔ (الدُّر المختار، کتاب الجھاد، بابُ المستامن، جلد 6، صفحہ 262، مطبوعہ بیروت)(بہارِشریعت، جلد 2، صفحہ 443,، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی شریف)

ذِمی : اس کافر کو کہتے ہیں جس کی جان و مال کی حفاظت کا بادشاہِ اسلام نے جزیہ کے بدلے ذِمہ لیا ہو ۔ (فتاویٰ فیضُ الرّسول، جلد 1،صفحہ 501، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور)

ان میں سے صرف ذِمی کو گوشت دینا جائز ہے جیسا کہ فتاویٰ ھندیہ میں ہے : یھب منھا ماشاء للغنی والفقیر والمسلم و الذِمی ۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد5، صفحہ 2644، مطبوعہ مصر،چشتی)
ذِمی کو گوشت دینا جائز ہے ۔ پاکستان دار السلام ضرور ہے مگر یہاں کے سارے کافر شرائط مفقود ہونے کی وجہ سے حربی ہیں کوئی بھی کافر ذِمی نہیں لہذا ان حربی کافروں کو قربانی گوشت دینا جائز نہیں ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں وہ خاص مسلمانوں کا حق ہے : الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ - (فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 457، مطبوعہ رضا فاؤنڈیش لاھور،چشتی)(تلخیص فتاویٰ رضویہ، صفحہ 3077، ناشر اکبربکسیلز لاھور)

مزید لکھتے ہیں کہ : لہذا انہیں(گوشت) دینا خلافِ مستحب ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 456، مطبوعہ رضا فاؤنڈیش لاھور)(تلخیص فتاویٰ رضویہ، صفحہ 3077، ناشر اکبربکسیلز لاھور)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ : کسی کافر کو اصلاً نہ دے کہ یہ کفّار ذِمی نہیں تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ کوئی صدقہ اصلاً کچھ ثواب نہیں رکھتا جیسا کہ دُرِّ مختار میں ہے : امّا الحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لا تجوز لہ اتّفاقاً بحر عن الغایة وغیرھا ۔ الخ ۔ (فتاویٰ افریقہ، صفحہ 19,20 ، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لاھور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : قربانی کا گوشت کافر کو نہ دے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں  (بہارِ شریعت، جلد 3، صفحہ 345، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی شریف،چشتی)

فتاویٰ حنفیہ میں ہے کہ : قربانی کا گوشت کافر کو دینا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ حنفیہ، صفحہ 261، اکبر بُکسیلرز لاھور)

اسی طرح فقیہِ ملت میں ہے : یہاں کافر کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ فقیہِ ملت، جلد 1، صفحہ501، مطبوعہ شبیر برادز لاھور)

یہی بات فتاویٰ امجدیہ میں مرقوم ہے : غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا ناجائز ہے ۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 3، صفحہ 318، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور)

فقیہِ ملت حضرت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ : قربانی کا گوشت کافر کو دینا شرعاً جائز نہیں ۔ (فتاویٰ فیضُ الرّسول، جلد 2، صفحہ 457, 468، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور،چشتی)

مجموعہ فتاویٰ بریلی شریف میں درج ہے کہ : انما ینھٰکم اللہ عن الذین قتلوا کم ۔ (سورة الممتحنہ : 9) ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ : انہیں قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ۔ (مجموعہ فتاویٰ بریلی شریف، صفحہ 251، مطبوعہ اکبر بکسیلرز لاھور)

قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو نہیں دے سکتے ۔ (جن کو دے سکتے ہیں وہ قسم پائی ہی نہیں جاتی لہٰذا ان حربیوں کو دینا ناجائز ٹھہرا) ۔ ہاں اگر کافر مسلمان کا نوکر ہے اور اس کی اجرت میں قربانی کا گوشت دے دے تو حرج نہیں کہ وہ اس کے اپنے ہی صرف میں آیا ہے ۔ یونہی اگر اسے بطورِ انعام اس اُمید پر دے کہ مزدور خوش دل کندکار بیش تو حرج نہیں ۔ (فتاویٰ مصطفویہ، صفحہ 450، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور)

درمختار میں ہے : وأما الحربي ولو مستأمنا فجميع الصدقات لا تجوز له اتفاقا ۔ (الدر المختار مع حاشية ابن عابدين ,2/352)
یعنی حربی کافر اگرچہ دار الاسلام میں امان لے کر داخل ہوا ہو مگر اسے کوئی بھی صدقہ دینا جائز نہیں ۔ (ماخوذ از فتاویٰ بحر العلوم، كتاب الاضحية، ج:5، ص: 203)

اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کفار حربی کو تحفہ دینا جائز نہیں ۔ (فتاوی رضویہ مترجم جلد 14 صفحہ 121)

مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : تو حربی کافر کو قربانی کا گوشت دینا چاہیے نہ کوئی اور شئی ۔ (فتاوی مصطفویہ صفحہ 450 )۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔