ذکر علی کرنا و چہرہ علی رضی اللہ عنہ دیکھنا عبادت ہے مکمل تحقیق
محترم قارئینِ کرام : ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں : میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھا کرتے ۔ پس میں نے آپ سے پوچھا ، اے ابا جان ! کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف تکتے رہتے ہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے میری بیٹی ! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو تکنا بھی عبادت ہے ۔ (ابن عساکر في تاريخه، 42 / 355)(الزمخشري في مختصر کتاب الموافقة : 14)
ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں : کان ابوبکر يکثر النظر الي وجه علي فساله عائشة فقال سمعت رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم النظر الي وجه علي عبادة ۔
ترجمہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے ۔
(الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر 177)
یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا ذکر جمیل بھی عبادت ہے پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ماننے والوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیروکاروں میں یہ دوریاں کیوں ؟ یہ فاصلے کیوں ؟ علی رضی اللہ عنہ کو ماننے والو ! تم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ماننے والوں سے دور کیوں ہو گئے ہو ؟ ان مقدس ہستیوں میں کوئی مغائرت اور دوری نہیں تھی وہ توایک ہی مشعل کی نورانی کرنیں تھیں مگر آج مسلمانوں نے خود ساختہ ترجیحات نکال نکال کر کئی گروہ تشکیل دے رکھے ہیں اور آئے روز ان کے درمیان خون ریزی کا بازار گرم رہتا ہے ۔
عن عبد الله عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال النظر الي وجه علي عبادة ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔ (المستدرک للحاکم، 3 : 141 - 142،چشتی)(المعجم الکبير للطبراني، 10 : 77، ح، 32895،چشتی)(فردوس الاخبار للديلمي، 5 : 42، ح : 1717)(کنز العمال، 11 : 60، ح : 32895)(مجمع الزوائد، 9 : 111، 119)
حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے ۔ (ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے ۔ (أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353)
حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے ۔ (ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353،چشتی)
حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔ (ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 351)
ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کا ذکر بھی عبادت ہے ۔ (الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 244، الحديث رقم : 1351)
حضرت طلیق بن محمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے ۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے ۔ (الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 109، الحديث رقم : 207، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 109)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے ۔ (الحاکم في المستدرک، 3 / 52، الحديث رقم : 4681، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 294، الحديث رقم : 6866)
حضرت عبد ﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے ۔ (الحاکم في المستدرک، 3 / 152، الحديث رقم : 4682)(الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 76، الحديث رقم : 10006)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119،قال الهيثمي وثقه ابن حبان و قال مستقيم الحديث)(الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 294،الحديث رقم 6865،چشتی)(أبونعيم في حلية الأولياء، 5 / 58)
یہ حدیث علامہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق (ج:42،ص:350،ط: دارالفکر بیروت) میں ذکر کی ہے، اور اس کے علاوہ درج ذیل کتب میں بھی ذکر کی گئی ہے ۔
1۔المعجم الكبير للطبراني(ج:10،ص: 76، ط:مكتبة ابن تيمية )
2۔ المجالسة و جواہر العلم للدینوری(ج:8،ص:214،ط:جمعیة الشریعة الإسلامية )
3۔شرح مذاهب أهل السنة لابن شاھین(ص:145، ط:مؤسسة قرطبة )
4۔المستدرک علی الصحیحین للحاکم (ج: 3، ص: 152،ط:دارالکتب العلیمہ)
5۔حلية الأولياء لأبی نعيم الأصبهاني(ج:2،ط:182،ط:دار الكتاب العربي )
6۔ فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعيم الأصبهاني(ص:56،ط:دار البخاری )
7۔معرفة الصحابةلأبی نعيم الأصبهاني(ج:4 ،ص: 211،ط:دار الوطن )
8۔الفردوس بمأثور الخطاب للديلميّ(ج:4 ،ص:294،ط:دار الكتب العلمية )
9۔ الریاض النضرة لمحب الدین الطبری(ج:3ص:197،ط: دارالکتب العلمیہ بیروت )
10۔ کنزالعمال لعلی المتقی (ج:11،ص:601،ط: موسسة الرسالة،چشتی)
مذکورہ بالا روایت پر محدثین کا کلام
امام حاکم اس نے روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا : هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ " وَشَوَاهِدُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ صَحِيحَةٌ " ، یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور اس حدیث کے شواھد جو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہیں، وہ بھی صحیح ہیں ۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے۔)
علامہ ذھبی نے حافظ حاکم کا تعقب کرتے ہوئے اس حدیث کو موضوع(من گھڑت ) قرار دیا۔النظر إلى علي عبادة". قال: صحيح. قلت: موضوع.(مختصرتلخیص الذھبی، ج:3، ص:1505، ط: دارالعاصمہ)
ابونعیم اصبھانی نے اس روایت کو ذکرکرنے کے بعد فرمایا:
غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَلَمْ نَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُبَادَةَ۔
یہ حدیث ھشام بن عروہ کے غرائب میں سے ہے اور ہم نے اس کو حدیث عبادہ سے لکھا ہے۔
علامہ ذھبی میزان الاعتدال میں کئی مقامات پر اس حدیث کو باطل قرار دیا۔
عمران بن خالد بن طليق بن عمران بن حصين الخزاعي.]
عن آبائه حديث: النظر إلى على عبادة.رواه عنه يعقوب الفسوي.وهذا باطل في نقدي (ميزان الاعتدال ج:3، ص: 236، ج: 4،ص: 283، ط: دارالمعرفة)
علامہ ابن جوزی نے اس حدیث کو کئی صحابہ سے نقل کیا اور تفصیلا کلام کرنے کے بعد فرمایا : هَذَا حَدِيث لَا يَصح من جَمِيع طرقه . اس حدیث کے تمام طرق غیر صحیح ہیں ۔
علامہ ھیثمی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ [بَابُ النَّظَرِ إِلَيْهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ]
14694 - عَنْ عَبْدِ اللَّهِ - يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ - أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: " النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ عِبَادَةٌ ". رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ أَحْمَدُ بْنُ بَدَيْلٍ الْيَامِيُّ، وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ: مُسْتَقِيمُ الْحَدِيثِ، وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَفِيهِ ضَعْفٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ. «وَعَنْ طُلَيْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: رَأَيْتُ عِمْرَانَ بْنَ الْحُصَيْنِ يَحِدُّ النَّظَرَ إِلَى عَلِيٍّ، فَقِيلَ لَهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: " النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ عِبَادَةٌ» ". رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ عِمْرَانُ بْنُ خَالِدٍ الْخُزَاعِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ۔(مجمع الزوائد ومنبع الفوائدللهيثمي، ج:9، ص: 119، ط: مكتبة القدسي،چشتی)
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے "تعقبات السيوطي على موضوعات ابن جوزي" میں اس حدیث کو موضوع (من گھڑت) قرار دینے پر تعقب کرتے ہوئے لکھا ہے : النظر إلى علي عبادة " أورده من حديث أبي بكر وعثمان وابن مسعود وابن عباس ومعاذ وجابر وأنس وأبي هريرة وثوبان وعمران وعائشة ووهاها كلها قلت المتروك والمنكر إذا تعددت طرقه ارتقى إلى درجة الضعف القريب بل ربما ارتقى إلى الحسن وهذا ورد من رواية أحد عشر صحابيا بعدة طرق وتلك طرق عدة التواتر في رأي جماعة و قد أخرج الحاكم في المستدرك من حديث عمران بن حصين ثم أخرج حديث ابن مسعود شاهدا له ۔ (تعقبات السيوطي على موضوعات ابن جوزي،ص: 341، ط:دارمکة المكرمة،چشتی) ، متروک اور منکر حدیث کے طرق جب متعدد ہوں تو وہ ضعیف قریب کے درجے تک پہنچ جاتی ہے ، بلکہ بعض دفعہ حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہے اور یہ روایت گیارہ صحابہ کرام سے متعدد طرق سے مروی ہے اور یہ متعدد طرق محدثین کی ایک جماعت کی رائے کے مطابق متواتر کی قبیل سے ہے اور حافظ حاکم نے بھی مستدرک میں عمران بن حصین کی سند سے تخریج کی ہے اور بطور شاھد ابن مسعود کی روایت نقل کی ہے ۔
علامہ سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں اس روایت کو حسن قرار دیا ہے : وأخرج الطبراني والحاكم عن ابن مسعود -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "النظر إلى علي عبادة" . إسناده حسن، وأخرجه الطبراني ، والحاكم أيضًا من حديث عمران بن حصين.
(تاريخ الخلفاء للسيوطي، ص:134،ط: مكتبة نزار) ، علامہ ابن عراق کنانی نے اس حدیث پر علامہ ابن جوزی کا کلام نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ حافظ علائی شافعی فرماتے ہیں کہ بعض شہسواران حدیث سے نقل کیا گیا ہے کہ اس حدیث پر بطلان کا حکم لگانا بعید ہے ، لیکن یہ حدیث غریب ہے ، جیسا کہ خطیب نے کہا ہے ۔
والْحَدِيث مُنكر إِذا تعدّدت طرقه ارْتقى إِلَى دَرَجَة الضَّعِيف الْقَرِيب بل رُبمَا يرتقي إِلَى الْحسن، وَهَذَا الحَدِيث ورد من رِوَايَة أحد عشر صحابيا بعدة طرق وَتلك عدَّة التَّوَاتُر فِي رأى قوم (قلت) : وَقَالَ الْحَافِظ العلائي الشَّافِعِي ۔بعد أَن حكى عَن بَعضهم أبطال الحَدِيث: الحكم عَلَيْهِ بِالْبُطْلَانِ فِيهِ بعد، وَلكنه كَمَا قَالَ الْخَطِيب غَرِيب وَالله أعلم ۔ (تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة للابن عراق الکنانی ،ج:1،ص:383،ط:دار الكتب العلمية)
علامہ شوکانی نے تفصیلا کلام کرنے کے بعد اس حدیث کو حسن لغیرہ کہا ہے ۔
فظهر بهذا أن الحديث منقسم الحسن لغيره لا صحيحًا، كما قال الحاكم، ولا موضوعًا، كما قال ابن الجوزي.(الفوائد المجموعة للشوكاني،ص: 361،ط دار الكتب العلمية)
اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ یہ حدیث نہ تو صحیح ہے ، جیسا کہ حاکم نے کہا اور نہ ہی موضوع ہے ، جیسا کہ ابن جوزی نے کہا ، بلکہ حسن لغیرہ ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment