حالتِ روزہ میں انجکشن لگوانے کا حکم
محترم قارئینِ کرام : روزے کی حالت میں انجکشن لگوانا ’’مختلف فیہ‘‘ یعنی اس میں اختلاف ہے ۔ بعض علماء کے نزدیک انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا لیکن اکثر علماء کے نزدیک انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوتا فقیر نے دونوں مؤقف پیش کر دیئے ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کے نزدیک انجکشن لگوانے سے روزہ نہ ٹوٹنے کا مؤقف زیادہ صحیح ہے اور فقیر اسی پر عمل کرتا ہے آئیے مزید تفصیل پڑھتے ہیں :
حالتِ روزہ میں انسولین کا انجکشن لگانا جائز ہے ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ عمومی طور پر انجکشن کی سوئی جوف (معدہ یا معدہ تک جانے والے راستوں کے اندرونی حصے) یا دماغ تک نہیں پہنچائی جاتی اور جوف تک جانے کا کوئی عارضی راستہ بھی نہیں بنتا کہ جس کے ذریعے دوائی جوف تک پہنچ سکے لہٰذا یہ انجیکشن روزہ ٹوٹنے کا سبب نہیں ۔ مسامات کے ذریعے کسی چیز کا داخل ہونا ویسے ہی روزے کے منافی نہیں جیسا کہ جسم پر تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کہ تیل اگرچہ جسم کے اندر جاتا ہے لیکن مسامات کے ذریعے اور یہ روزے کے خلاف نہیں ۔ روزے کی حالت میں انجکشن لگوانا جائز ہے ، خواہ رگ میں لگوایا جائے یا گوشت میں ؛ کیوں کہ انجکشن کے ذریعہ جو دوا بدن میں پہنچائی جاتی ہے وہ اصلی راستوں (Opening) سے نہیں ، بلکہ رگوں یا مسامات کے ذریعہ بدن میں جاتی ہے ، جب کہ روزہ فاسد ہونے کے لیے ضروری ہے کے بدن کے اصلی راستوں سے کوئی چیز معدے یا دماغ تک پہنچے اور انجکشن میں ایسا نہیں ہوتا ، لہٰذا آپ دوران روزہ انجکشن لگوا سکتے ہیں ۔ یہی حکم ڈرپ کا بھی ہے ، یعنی روزے کی حالت میں ڈرپ لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ۔ البتہ بلا ضرورت روزے کا احساس نہ ہونے کے لیے طاقت کا انجکشن یا ڈرپ لگانا مکروہ ہے ۔
حالتِ روزہ میں انسولین کا انجکشن لگانا جائز ہے ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ عمومی طور پر انجکشن کی سوئی جوف (معدہ یا معدہ تک جانے والے راستوں کے اندرونی حصے) یا دماغ تک نہیں پہنچائی جاتی اور جوف تک جانے کا کوئی عارضی راستہ بھی نہیں بنتاکہ جس کے ذریعے دوائی جوف تک پہنچ سکے لہٰذایہ انجکشن روزہ ٹوٹنے کا سبب نہیں ۔ مسامات کے ذریعے کسی چیز کا داخل ہونا ویسے ہی روزے کے منافی نہیں جیسا کہ جسم پر تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کہ تیل اگرچہ جسم کے اندر جاتا ہے لیکن مسامات کے ذریعے اور یہ روزے کے خلاف نہیں ۔
مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا محمد مصطفی رضانوری (متوفی 1402ھ) رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں : فی الواقع انجکشن سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ انجکشن سے دواجوف میں نہیں جاتی ، انجکشن ایسا ہی ہے جیسے سانپ کاٹے ، بچھو کاٹے ، جیسے ان کے دانت یا ڈنک جوف میں نہیں جاتے اور روزہ فاسد نہیں ہوتا یوں ہی انجکشن ۔ (فتاوی مفتی اعظم، کتاب الصوم،۳/۳۰۲،چشتی)
فقیہِ اعظم مفتی نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں : اگر کوئی ٹیکہ جوف میں کیا جائے یعنی سوئی جوف تک پہنچا کر دوائی جوف میں ڈالی جائے تو ایساٹیکہ ضرور مُفْسدِ صوم ہوگا ،..... یونہی جوف تک پہنچنے والے کسی اصلی راستے (حلق، کان، ناک ، مَبْرَز، مَبالُ المرأۃ) کے اندرونی حصہ میں یا دماغ میں حسبِ دستور سوئی کے خود ساختہ راستہ سے دوائی پہنچانا بھی مفسد ہے کیونکہ دماغ اور اصلی راستوں کے اندرونی حصے بھی جوف ہی کے حکم میں ہیں ، اس لئے کہ ان راستوں کے خلاء ، خلاءِ پیٹ سے ملے ہوئے ہیں اور دماغ و جوف کے مابین بھی چونکہ قدرتی راستہ ہے تو جو چیز دماغ میں پہنچے وہ جوف میں پہنچ جاتی ہے لہٰذا دماغ اور اصلی راستوں کے اندرونی حصے جوف کے کونوں کی طرح ہیں ..... ایسے عام ٹیکے جن میں دوائی جوف و دماغ تک بذریعہ سوئی نہیں جاتی بلکہ سوئی رہتی ہی جوف سے بالائی یا زیریں حصوں میں ہے روزہ فاسد نہیں کرتے کَمَا مَرَّ اَوَّلاً ایضاً کہ اس صورت میں تو جوف و دماغ تک عارضی راستہ بنتا ہی نہیں تو دوائی پہنچنے کا کوئی احتمال ہی نہیں ۔ (فتاوی نوریہ، کتاب الصیام، رسالہ: روزہ وٹیکہ، ۲/۲۱۹-۲۲۳)
فتاویٰ فیض الرسول میں ہے : تحقیق یہ ہے کہ انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہے رَگ میں لگایا جائے چاہے گوشت میں ۔ (فتاوی فیض الرسول، کتاب الصوم، ۱/۵۱۶)
فتح القدیرمیں ہے : والمفطرالداخل من المنافذکالمدخل والمخرج لا من المسام“
یعنی روزہ وہ چیز توڑتی ہے جو کسی منفذ کے راستے جسم میں داخل ہو جیسے مَدخل (یعنی منہ ، ناک وغیرہ) ومَخرج (یعنی پاخانے کا مقام وغیرہ) ۔ مسام کے ذریعے داخل ہونے والی چیز روزہ نہیں توڑتی ۔ (فتح القدیر کتاب الصوم باب ما یوجب القضاء والکفارۃ ۲/۲۵۷،چشتی)
علامہ ابنِ نجیم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں : والداخل من المسام لا من المسالک فلا ینافیہ کما لو اغتسل بالماء البارد ووجد بردہ فی کبدہ ، یعنی جو چیز مسام کے ذریعے داخل ہو راستوں کے ذریعے داخل نہ ہوتو وہ روزہ کے منافی نہیں جیسے اگر ٹھنڈے پانی سے نہایا اور اس کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس کی (تو روزہ نہیں ٹوٹے گا) ۔ (بحر الرائق، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ۳/۴۷۶)
فتاویٰ عالمگیری میں شرح المجمع کے حوالے سے ہے : وما یدخل من مسام البدن من الدھن لا یفطر“یعنی جو تیل بدن کے مسام کے ذریعے جسم میں داخل ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاوی ہندیۃ ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لایفسد، ۱/۲۰۳)
فتاوی شامی میں ہے : قَالَ فِي النَّهْرِ:؛ لِأَنَّ الْمَوْجُودَ فِي حَلْقِهِ أَثَرٌ دَاخِلٌ مِنْ الْمَسَامِّ الَّذِي هُوَ خَلَلُ الْبَدَنِ وَالْمُفْطِرُ إنَّمَا هُوَ الدَّاخِلُ مِنْ الْمَنَافِذِلِلِاتِّفَاقِ عَلَى أَنَّ مَنْ اغْتَسَلَ فِي مَاءٍ فَوَجَدَ بَرْدَهُ فِي بَاطِنِهِ أَنَّهُ لَايُفْطِرُ ۔ ( ٢ / ٣٩٥)
روزہ کی حالت میں رگ میں یا گوشت میں انجکشن یاڈرپ لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ انجکشن یاڈرپ کے ذریعہ جو دوا بدن میں پہنچائی جاتی ہے وہ اصلی راستوں سے نہیں بلکہ رگوں یا مسامات کے ذریعہ بدن میں جاتی ہے جبکہ روزہ فاسد ہونے کےلیے ضروری ہے کہ بدن کے اصلی راستوں مثلاًمنہ یا ناک وغیرہ کے ذریعہ کوئی چیز معدے یا دماغ کے اندر پہنچے اور انجکشن یاڈرپ میں ایسا نہیں ہوتا لہٰذا انجکشن یاڈرپ لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، تاہم اگر حاجت زیادہ نہ ہو تو پھر افطاری کے بعد لگوانے میں زیادہ احتیاط ہے ۔ حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 395)
قَالَ فِي النَّهْرِ؛ لِأَنَّ الْمَوْجُودَ فِي حَلْقِهِ أَثَرٌ دَاخِلٌ مِنْ الْمَسَامِّ الَّذِي هُوَ خَلَلُ الْبَدَنِ وَالْمُفْطِرُ إنَّمَا هُوَ الدَّاخِلُ مِنْ الْمَنَافِذِلِلِاتِّفَاقِ عَلَى أَنَّ مَنْ اغْتَسَلَ فِي مَاءٍ فَوَجَدَ بَرْدَهُ فِي بَاطِنِهِ أَنَّهُ لَا يُفْطِرُ
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري – (2 / 293،چشتی)
(قوله أو ادهن أو احتجم أو اكتحل أو قبل) أي لا يفطر؛ لأن الادهان غير مناف للصوم، ولعدم وجود المفطر صورة ومعنى والداخل من المسام لا من المسالك فلا ينافيه كما لو اغتسل بالماء البارد، ووجد برده في كبده، وإنما كره أبو حنيفة الدخول في الماء والتلفف بالثوب المبلول لما فيه من إظهار الضجر في إقامة العبادة لا؛ لأنه قريب من الإفطار كذا في فتح القدير ۔
انسولین چوںکہ کھال میں لگانے کا انجکشن ہے اور روزہ کی حالت میں گوشت میں انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اس لیے روزہ کی حالت میں انسولین لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ فتاویٰ شامی میں ہے : قال في النهر؛ لأن الموجود في حلقه أثر داخل من المسام الذي هو خلل البدن والمفطر إنما هو الداخل من المنافذ للاتفاق على أن من اغتسل في ماء فوجد برده في باطنه أنه لايفطر ۔ (الفتاوی الشامية، ج:۲،ص:۳۹۵)
روزے کی حالت میں گلوکوز چڑھوا نے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ؛ کیوںکہ دوا براہِ راست دماغ یا معدہ تک نہیں پہنچتی ؛ بلکہ رگوں کے واسطے سے جاتی ہے ؛ لیکن بلاعذر ایسا نہیں کرنا چاہئے ۔ (تاتارخانیۃ زکریا ۳؍۳۷۹، شامی ۳؍۳۷۶، بدائع الصنائع ۲؍۲۴۳)
روزہ کی حالت میں ڈائلیسس (گردہ کی دھلائی) کے عمل سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛ کیوںکہ اس عمل کا تعلق صرف خون کی صفائی سے ہے ، اور براہِ راست جوفِ معدہ میں اس کے سبب کوئی چیز داخل نہیں ہوتی ۔ (تاتارخانیۃ زکریا ۳؍۳۷۹، شامی زکریا ۳؍۳۷۶ وغیرہ)
اگر روزہ کے دوران انجکشن لگوایا یا ٹیکہ لگوایا ، تو اس سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑا (لیکن اگر ایسا انجکشن ہو کہ دوا براہِ راست دماغ یا معدہ تک پہنچتی ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا) واما ما وصل الی الجوف اوالی الدماغ عن غیر المخارق الاصلیۃ بان داوی الجائفۃ والاٰمۃ، فان داواہا بدواء یابس لایفسد ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۲۴۳،چشتی)
روزے کی حالت میں خون نکال کر ٹیسٹ کرانے سے روزہ فاسد نہ ہوگا ؛ لیکن اتنا زیادہ خون نہ نکلوائیں کہ کمزوری غالب ہوجائے ۔ ولا بأس بالحجامۃ إن أمن علی نفسہ الضعف اما اذا خاف فانہ یکرہ ۔ (عالمگیری ۱؍۱۹۹، قاضی خاں ۱؍۲۰۸، ومثلہ فی المراقی الفلاح ۳۶۱)
مفتی منیب الرحمٰن صاحب لکھتے ہیں :
(1) بلڈ ٹیسٹ کے لئے اپنا خون نکلوانے یا کسی شدید ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ فقہی اصول یہ ہے کہ ’’اَلْفِطْرُ مِمَّادَخَلَ وَلَیْسَ مِمَّا خَرَجَ‘‘ (بدن میں کوئی چیز داخل ہونے سے روزہ ٹوٹتا ہے ، خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا)
حدیث پاک میں ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فصد (یعنی حِجَامہ) لگوائی اورآپ مُحرم تھے اور آپ نے فصد لگوائی اور آپ روزہ دور تھے ۔ (بخاری : 1938)
(2) کان میں دوا یا تیل ٹپکانے یا دانستہ پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
(3) ہماری تحقیق کے مطابق آنکھ میں دواڈالنے یا کسی بھی قسم کا انجکشن لگانے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے ، بعض علماء کے نزدیک اِس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ جس مسئلے کے بارے میں قرآن وحدیث میں صریح حکم نہ ہو ، وہ مسئلہ اجتہادی کہلاتاہے ، اس میں لوگوں کو جس عالم پر اعتماد ہو ، اُس کے فتوے پر عمل کریں ۔ اجتہادی مسائل میں فقہاء کا اختلاف ایسا ہی ہے ، جس طرح ہمارے اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا ماخَذ آئین ، قانون اور مُسلَّمہ عدالتی نظائر ہوتے ہیں ، لیکن بعض اوقات اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے فیصلے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ اجتہادی مسائل میں فقہاء کے اختلاف کی صورت بھی یہی ہے ۔ شام کے مشہور حنفی فقیہ ڈاکٹر وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں : انجکشن پٹھوں میں جلد کے اندرلگانا ہو یا رگوں میں لگانا ہو ، بہتر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں نہ لگائے اور افطار کے وقت تک انتظار کرے ، اگر رگوں میں خون لگائے گا ، توروزہ فاسد ہوجائے گا ۔ (فقہ الاسلامی وادِلّتہ،جلد3،ص: 1412)۔(تفہیم المسائل)
استاذی المکرّم علاّمہ مفتی وقارالدین رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : روزے کی حالت میں انجکشن لگوانا ’’مختلف فیہ‘‘ یعنی اس میں اختلاف ہے ۔ ہماری رائے کے مطابق ، اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ لہٰذا روزے دار کو انجکشن لگوانے سے بچنا چاہئے ۔ انجکشن دن میں لگوانا ضروری نہیں ، رات میں بھی لگوایا جاسکتا ہے،اس لئے رات میں لگوائیں ۔ (وقارُالفتاویٰ ، جلد2،ص:429) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment