Monday, 10 May 2021

غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ سوم

 غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ سوم

محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے حصّہ اوّل و دوم پڑھ لیا ہوگا آٸیے اب حصّہ سوم پڑھتے ہیں :
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا ارشاد فر ماتی ہیں : نکاح کے چند دن بعد ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا : آپ راہِ خدا میں جو کچھ خرچ کریں چاہے وہ صدقہ خیرات ہو یا کسی غریب کی مدد ، اس میں یہ نیت ضرورکر لیا کریں کہ آدھا آپ کی طرف سے اور آدھا میری جانب سے ، یونہی میں بھی جو راہِ خدا میں دوں گا اس میں آدھا حصہ آپ کا رکھوں گا ، مزید فرماتی ہیں کہ میں اب تک اس بات پر قائم ہوں اورجو بھی راہ خدا میں دیتی ہوں اس میں حضرت کا آدھا حصہ ضرور رکھتی ہوں ۔ ویسے بھی جو آمدنی ہوتی وہ میرے ہاتھ پر رکھ دیتے اپنے پاس کوئی پائی پیسہ نہ رکھتے ، جب ضروت پڑتی مجھ سے مانگ لیتے ، یہاں تک کہ حجام کی اجرت بھی مجھ سے لے کر دیتے ، چونکہ میں کچھ رقم بچا کر رکھ لیا کرتی تھی اسی لئے کبھی کبھار حساب دینا بھی چاہتی تو حساب نہ لیتے اور منع فرما دیتے ، دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں جہاں کہیں سفر پر تشریف لے جاتے تومیری دل جوئی کی خاطر وہاں کی مشہور سوغاتیں بطورِ تحفہ اپنے ہمراہ ضرور لاتے ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۲۰۰،چشتی)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ دینی مصروفیات کے باوجود اپنے بچوں سے بے حد محبت فرماتے تھے ، ان کی اخلاقی تربیت فرماتے ، مطالعہ وغیرہ کے دوران اگر کوئی بچہ دور کھڑا ہو کردیکھتا تو اسے پاس بلا لیتے ، شفقت سے سر پر ہاتھ پھىرتے اور پىشانى چومتے پھر اپنے پاس بٹھالیتے ، اگر کچھ تناول کررہے ہوتے تو اپنے ہاتھ سے بچوں کو بھی کھلاتے ، جب گھر تشرىف لاتے تو اىک دستر خوان پر سب گھر والوں کو جمع کرتے اور ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر اىک پر انفرادى توجہ دیا کرتے تھے ، کسى کى پلىٹ مىں کوئى چىز کم نظر آتی تو خود اپنے ہاتھ سے ڈال دیا کرتے ، پھل تقسیم کرنے کے بجائے کا ٹ کر اس کی قاشیں ہر بچے کو خود کھلایا کرتے ، اتنی مصروف زندگی گزارنے کے باوجود بھی ہر ہر بچے کى خواہش کو یوں جانتے تھے کہ گوىا اس کے دل مىں چھپے بىٹھے ہىں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ بچوں کے چہرے کا رنگ دیکھ کر سمجھ جایا کرتے تھے کہ کیا ماجرا ہے ، محبت اور شفقت کا تو یہ عالم تھا کہ جب کوئی ان سے بات کرنا چاہتا تو اس کی بات توجہ کے ساتھ سنا کرتے ، پوری زندگی یہ کہتے ہوئے کبھی نہیں سنا کہ میں ابھى جلدی میں ہوں یا میرے پاس وقت نہیں ہے اور یہ بات پھر کرلیں گے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ جب بچوں کے ساتھ دسترخوان پر تشریف فرما ہوتے تو مستقل آدابِِ نبوی سے روشناس کرواتے رہتے ۔ بچوں کو آپس کے حقوق بتاتے اور ایک دوسرے سے محبت کا درس دیتے ۔ ہمیشہ یہی درس دیتے کہ وہ کام کریں جس سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا حاصل ہو ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے خوف کے ساتھ ساتھ اس کی رضا اور کریمی کے حصول کی ترغیب بھی دیتے ۔ (حیات غزالئ زماں،ص۳۴۰)،(علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات، ص۳۵،حیات غزالئ زماں ،ص۳۴۴)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ سادگی کا ایک اعلی نمونہ تھے بارہا ایسا ہوا کہ گرمی کے موسم میں پسینے سے شرابور ہوتے تو کرتہ اتار دیتے اور اپنے کپڑے خودہی دھونا شروع کردیتے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے (مجھ فقیر جیسے نکمے) اور دیگر قابل ترین شاگرد جب اصرار کرتے کہ ہمیں خدمت کا موقع دیجئے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ مسکرا کرارشاد فرماتے : اپنا کام اپنے ہاتھ سے ہی اچھا لگتاہے ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات، ص۵۷٧،چشتی)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ ہر پہلو سے طلبہ کى تربیت و اصلاح فرماتے ۔ اطاعتِ خداوندی اور اِتِّباعِ سُنّتِ نبوی کى ترغىب دىتے ۔ اندازِ تدریس تو دل موہ لینے والا تھا ۔ دورانِ درسِ حدىث طلبہ سے عبارت پڑھواتے اور نہاىت نرم خوئى اور نرم مزاجى کا مظاہرہ فرماتے ۔ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ طلبہ کا بہت خىال رکھتے تھے ، اور ہمیشہ ان سے حسنِ سلوک سے پىش آتے اور تعلیمی لحاظ سے درپىش مشکلات مىں پورى توجہ کے ساتھ تشفى و تسلى کا سامان فرماتے ، چنانچہ ایک طالب عِلْم پہلی مرتبہ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بخارى شرىف کى عبارت پڑھنے لگا ، ہچکچاہٹ اور خوف کی وجہ سے کچھ غلطی ہو گئی ، غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے نہ ڈانٹا اور نہ ہی جھڑکا بلکہ نہاىت شفقت اور نرمی سے فرمایا : بىٹے ایسے نہىں اور پھر خود عبارت پڑھی اور جو غلطی تھی اس کے بارے میں اچھی طرح سمجھایا ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات، ص۱۱۷)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ بیعت بھی فرمایا کرتے تھے ۔ مریدین کی تربیت کرنا پیرِ کامل کی ذمہ داری بھی ہے اس لئے غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ وقتاً قوقتاً مریدین و متعلقین کی تربیت فرماتے رہتے تھے ایک بار فرمایا : ہم سب اس بات کا عہد کریں کہ اگر کسى مىں نماز کى کوتاہى ہے تو اس کوتاہى کو دور کریں ، پانچ وقت کا نمازى ہونا ہر مسلمان کا فرض ہے ، میں سب پىر بھائیوں سے کہتا ہوں کہ وہ پانچ وقت نماز کى پابندى کریں اور روزے رکھیں ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس فقىر نے اب تک اپنے مرشدِ کریم کى برکت سے ہر سال پورے رمضان کے روزے رکھے اور ہر سال پورى تراویح پڑھیں اور ہر سال قرآنِ کریم کا درس دیا میں اس قابل تو نہ تھا ، یہ میری طاقت نہ تھى میرے مرشد کریم کا فیض تھا ، بہرنوع میرے پیر بھائى وہ ہیں جن کو اللہ تعالىٰ نے توفیق بخشى ہے کہ وہ پانچ وقت کے نمازى ہیں پورے مہینے کے روزے رکھتے ہیں ، اگر خدا نخواستہ کسى بیمارى کى وجہ سے یا شرعى عذر کى بنا پر نہیں رکھ سکتے تو اور دنوں میں ادا کریں ۔ ہم سب عہد کریں گے کہ نماز کی پابند ى کریں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہم پر جو فرائض عائد کیے ہیں وہ تمام فرائض بھی بجالائیں گے ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۱۹۸)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ طلبہ کے حوالے سے بہت حساس تھے اسی وجہ سے ان پر بہت شفقت فرماتے تھے ۔ اگر کبھی طبیعت شریف ٹھیک نہ ہوتی تو طلبہ کو گھر پر بلا لیتے اور پڑھاتے مگر سبق کی چھٹی گوارا نہ فرماتے ۔ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد حافظ حبیب اللہ صاحب نابىنا تھے ۔ اىک دفعہ حافظ حبیب اللہ صاحب کو کسى نے بتایا کہ آج غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ اپنے دولت خانے پر پڑھائیں گے ۔ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کے درِدولت سے جامعہ تقریباً تىن کلو مىٹر کے فاصلے پر تھا ۔ انہوں نے رکشہ کیا اور گھر پہنچ گئے ۔ وہاں کسى نے کہہ دیا کہ جامعہ میں پڑھائىں گے یہ رکشہ میں بىٹھے جامعہ آگئے ، پھر پتا چلا کہ نہیں گھر پر ہی پڑھائىں گے ۔ یہ رکشہ مىں بىٹھے پھر گھر پہنچ گئے ۔ یوں آنے جانے کی وجہ سے انہیں دیر ہوگئى اور دوسرے سبق یعنى ترمذى شرىف میں شامل نہ ہوسکے ۔ درس کے بعد وہ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت سراپا شفقت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : حضرت میں چونکہ نابینا ہوں مجھے آنے جانے میں تکلیف بھى ہوئى اور بارہ روپئے بھى خرچ ہوئے آپ فرمادیا کریں کہ سبق کہاں ارشاد فرمائیں گے ۔ یہ سن کر غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے کمال شفقت فرمائی اور اپنى جىب سے دس دس روپے کے چار نوٹ نکال کر حافظ صاحب کو دیئے اور تکلىف پر معذرت بھی کى اور فرمانے لگے کہ یہ کراىہ میرى طرف سے قبول کرلیں اور آئندہ جب بھى آپ آئیں کرایہ مجھ سے وصول کرلیا کریں ۔ ان ہى حافظ صاحب کے کان میں اىک مرتبہ تکلىف ہوگئى تو غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو ایک سو روپئے بغرض علاج عطا فرمائے ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ،ص۱۱۸،چشتی)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ طلبہ اور ان کی تعلیم کا کس قدر خیال فرماتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں : ابا جی قبلہ جب بیماری کی شدت ، ضعف اور گھٹنوں کے درد کے باعث جامعہ تشریف نہ لے جا سکتے تھے تو سبق کا ناغہ کرنے کی بجائے طلبہ کو گھر بلوا لیا کرتے تھے ، جب دل کے عارضے کے باعث ہسپتال میں داخل تھے تو فرمایا : اگر ڈاکٹر اجازت دیں تو طلبہ کو گھر کی طرح ہسپتال بلوا لیا جائے تاکہ ان کا حرج نہ ہو ۔ (غزالئ زماں کا طرز استدلال، ص۲۲)
ایک مرتبہ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ عقیدت مندوں کی بزم میں شمع کی مثل اپنی روشنی بکھیر رہے تھے اتفاق سے کسی نے غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ایک شخص کی بدگوئی کی ۔ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے سخت ناپسندی کا اظہار فرمایا ، اچانک محفل کا انداز بدل گیا ، غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً ایک گھنٹے تک قرآن و سنت کی روشنی میں غیبت کی مذمت اور اس کے دینی و معاشرتی نقصانات پر بیان فرمایا نیز اس سے بچنے پر گفتگو فرمائی ۔ مسلمان کو ہمیشہ اپنے دوسرے بھائیوں کے بارے میں حسنِ ظن سے کام لینا چاہیئے ۔ وقتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر دین کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کرنے کی یہ شاندار مثال تھی جو غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عمل سے پیش فرمائی ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۴۴۸)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کا ہر مرید اور شاگرد (فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی یہی سمجھتا تھا جب جب ملاقات ہوتی اور جامعہ میں بھی) یہى کہتا ہے کہ آپ کو سب سے زیادہ میرے ساتھ محبت تھى ۔ ہر امیر وغریب جس کو بھی غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ملاقات ہوا وہ یہی کہتا ہے کہ سب سے زیادہ اچھے تعلقات میرے ساتھ تھے ۔ مولانا اللہ وساىا سعیدى رحمۃ اللہ علیہ بىان فرماتے ہىں : اىک مرتبہ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے مکان تبدىل کیا تو نئے مکان میں جانے کى تىاریاں شروع ہوئیں بعض اہل خانہ پرانے گھر کا سامان اکٹھا کرتے رہے اور بعض نئے گھر میں اسے ترتىب دیتے رہے اور میں بیل گاڑى پر اُسے پہنچانے میں مصروف رہا ۔ ان دنوں غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کو گھٹنوں میں شدید درد کى شکایت تھى ۔ نماز عشاء کے قرىب جب میں آخری پھیرا لے کر جانے لگا تو غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تانگے کا انتظام کر کے بچوں کو واپس بھىج دىنا اور آپ وہیں سوجانا ہم اِنْ شَآءَ اللہ صبح آجائیں گے ۔ اس مصروفىت میں گھر والوں کو میرا کھانا یاد نہ رہا اور میں نے بھى جان بوجھ کر نہ مانگا ۔ واپسى پر مجھے بھوک کا احساس ہوا کہ اَب تو سارى رات بھوکا ہی رہنا پڑے گا ۔ یہی سوچتے ہوئے سامان لے کر نئے مکان میں پہنچا اور اُسے اتارنا شروع کردیا کہ اچانک حضرت غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کى رس گھولتى ہوئى آواز سنائى دى ۔ اللہ وسایا ! میں حیران و پرىشان سڑک کى طرف دوڑا ۔ کىا دیکھتا ہوں کہ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے بڑى تکلیف سے سائىکل رکشے سے اُترتے ہوئے فرماىا : میں تمہارا کھانا لے کر آیا ہوں ۔ میں نے عرض کىا : حُضور آپ تکلىف نہ کرتے تو فرمایا : میاں تمہیں بھوک ہو یا نہ ہو ہمیں تو تمہارى بھوک کا خىال ہے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۰۴،چشتی)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۵۷ھ بمطابق 1948ء میں پہلی بار حج کےلیے گئے تو مدینہ شریف میں اُستاذالعلماء ، عالمِ باعمل حضرت علامہ مولانا فىض محمد شاہ جمالى رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی ۔ قبلہ جمالی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بعض علماء فرماتے ہیں کہ بندہ جب حج بیت اللہ کےلیے جائے تو پہلے حج کرے اور پھر دربارِ رسالت میں حاضرى دے جب کہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ پہلے درِ نبى صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پرحاضر ہو بعد میں حج کرے اب آپ بتائىں کہ ہمیں کس پر عمل کرنا چاہیئے ؟ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حضرت دونوں قول درست ہیں اور عاجزی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حج کےلیے آنے والا مجھ جیسا گنہگار و خطا کار ہو تو پہلے حج کرے بیت اللہ شرىف میں حاضرى دے اپنے گناہ بخشوائے اور جب حج کى برکت سے اس کے گناہ دھل جائیں اور پاک و صاف ہوجائے تو پھر بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں حاضر ہو اور اگر آنے والا آپ سا متقى و پارسا ہو ، آپ سا عاشق صادق اور مقبولِ بارگاہ رسالت ہو تو پہلے درِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر حاضر ہو ، سرکار سے اپنے درجات میں اضافہ کروائے اور پھر حج کى سعادت حاصل کرے تاکہ حج کا لطف دوبالا ہوجائے ۔ یہ جواب سن کر حضرت قبلہ شاہ جمالى رحمۃ اللہ علیہ پر وجدانى کىفىت طارى ہوگئى اور آپ مُرغِ بسمل کى طرح تڑپنے لگے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۳۳)
ایک مرتبہ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں کسی نے عرض کیا حُضور ! حرمین شرىفین کى پہلى حاضرى کا کوئى واقعہ یاد ہے ؟ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا : سبھى کچھ یاد ہے ، محبوبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کى نوازشات بھلا کب بھول سکتى ہیں ، پھر فرمایا : پہلى حاضرى کے وقت باقاعدہ سڑکوں پر بسوں کاروں کى سہولت نہیں تھی اور قافلے مکہ مُکَرَّمہ اور مدینہ مُنَوَّرہ کے درمیان پیدل بھی چلا کرتے تھے ۔ اسى مقدس سفر میں میرے پاؤں میں کانٹے چبھ گئے جو تکلىف دے رہے تھے ۔ میں انہیں نکالنے لگا تو اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کى رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کى سرزمىن کے کانٹوں سے محبت یاد آگئى تو میں نے وہ کانٹے اسى طرح رہنے دیئے ، اگرچہ کئى دن تک تکلىف رہى مگر طبىعت نے اس راہِ مقدس کے مبارک کانٹے جسم سے باہر نکال پھیکنے کى اجازت نہ دى ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۳۵،چشتی)
پھول کیا دیکھوں میرى آنکھوں میں
دشتِ طىبہ کے خار پھرتے ہیں
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ اعزہ اقارب سے بہت محبت کرتے تھے اور صلہ رحمی کے جذبہ سے بھرپور تھے مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت سب سے مقدم تھی چنانچہ ایک بار غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادے حضرت علامہ سیّد مظہر سعید کاظمى دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو شدید حادثہ پىش آیا ۔ ان کی حالت بہت نازک تھی ، زىادہ خون بہہ جانے کى وجہ سے حالت اور بھى تشوىش ناک صورت اختىار کر گئى ۔ جبکہ اگلے ہی دن غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کی مدینہ شریف روانگی تھی تو لخت جگر کى طرف دىکھا اور فرمایا : بیٹا ! صبح گیارہ بجے میرى فلائٹ ہے ، جہاں جارہا ہوں دعاؤں کےلیے اس سے بہتر کوئى جگہ نہیں“ اور آپ حج پر روانہ ہوگئے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۳۶)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ قول و فعل ہر طرح سے رضویت کا نمونہ تھے اور امام اہلسنت اعلیٰحضرت کا امام اَحْمَد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات و نظریات پر کار بند تھے ۔ اعلیٰحضرت کا رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کو ہرگز گوارا نہ تھی ۔ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کی اعلیٰ حضرت اور مسلکِ اعلیٰحضرت سے عقیدت ان اقتباسات سے عیاں ہے :
۹ جنورى ۱۹۸۰ء کو مجلسِ رضا کے زیرِ اہتمام منعقد یوم رضا کے موقع پر غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کرتے ہوئے اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کچھ یوں کیا : اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کى مقدس شخصىت کوئى غیر معروف نہیں آپ دنیائے عِلْم کے آفتاب اور ماہتاب ہیں ۔ آپ کے مخالفىن نے بھی آپ کے عِلمى و تحقىقى مقام کو تسلىم کیا ہے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۵۰،چشتی)
ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کارناموں کا ہم احاطہ نہیں کرسکتے ، ان کى قابلىت ، تقوىٰ ، ذہانت کسى ایک پر بھى گفتگو کى جائے تو ختم نہ ہو ، اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ دنىا کے تمام علوم پر حاوى تھے ، علوم عقلىہ ہوں یا نقلىہ ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تمام علوم آپ کى بارگاہ میں دست بستہ کھڑے ہیں ، اعلى حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے علوم کى کوئى انتہا نہیں ، آپ کى کتابوں کو پڑھا جائے اور بالخصوص فتاوىٰ رضویہ کو ہمارے مدارس میں پڑھا دیا جائے تو ایسے ایسے عالم نکلیں گے کہ ان کا کوئى جواب نہیں ہوگا ، کیونکہ خود فتاوىٰ رضویہ کئى علوم کا خزانہ ہے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۵۰)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے اس قدر عقیدت رکھتے تھے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے کسی بھی فتوىٰ پر کسى قسم کى تنقىد نہ فرماتے تھے ایک عالم دین کا بیان ہے کہ میں حضرت علامہ سَیّد اَحْمَد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ اس دوران داڑھى کی شرعی حد کے حوالے سے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ایک فتوی کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی ۔ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی ہے کہ جو شخص داڑھى ایک مشت سے کم کرواتا ہے وہ فاسق معلن ہے اس کے پىچھے نماز مکروہ تحرىمى واجب الاعادہ ہے ۔ کسی نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ آپ کے جامعہ کے فلاں مدرس اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اس فتوی سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ لیٹے ہوئے تھے یہ سنتے ہی اٹھ بیٹھے اور جلال میں فرمانے لگے : اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے فتوے پر تنقىد ہم سے برداشت نہیں ہوگى ، یہ مدرسہ اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نظریاتِ حقہ کا عَلم بردار ہے ہم کیا ہیں ؟ سب کچھ اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، سب کچھ انہیں کا صدقہ ہے ، ہم انہیں کے ریزہ خوار ہیں ، ہم انہیں کے نام لیوا ہیں ، جو شخص اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات و تحقىقاتِ شریفہ سے متفق نہیں ہم اسے برداشت نہیں کرسکتے ، ہمارے مدرسہ میں ایسے شخص کى کوئى گنجائش نہیں ، مزید فرماىا : ہم سب اہلِ سنّت اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی عظمتِ فکر کے مدح خواں ہیں اور جو علمائے اہل سنت مىدانِ تحقىقات میں جولانیاں دکھاتے یا فضائے تدقیق میں پرواز کرتے ہیں ، یہ اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہى کے فیوضات ہیں جس سے کوئى سنى عالم بے نیاز نہیں رہ سکتا ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۵۱،چشتی)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے برادرِ اکبر، پىر و مرشِد حضرت علامہ سیّد محمد خلىل شاہ کاظمى محدث امروہی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۱۳۹۰ھ مطابق 1970ء) کے عرس مبارک کے موقع پر اپنے مریدىن کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اپنے مذہب پر قائم رہو ، میں آپ کو بتادوں کہ امامِ اہلِ سنت مجدد دىن و ملت شاہ اَحْمَد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک میرا مسلک ہے مىرے تمام مریدىن اسى مسلک پر قائم رہیں جو اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک سے ایک قدم بھى باہر رکھے گا وہ میرا مرید نہىں ، ہاں وہ میرا مرید نہیں ، ہاں وہ میرا مرید نہىں ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۵۶)
مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کوئی نیا مسلک یا فرقہ نہیں بلکہ اہل سنت و جماعت ہی ہے جس کی صحیح تعلیمات کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اجاگر فرمایا ۔ علماء و مشائخِ اہل سنت اسی لیے اپنے مریدین و معتقدین کو مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر قائم رہنے کی نصیحت فرماتے ہیں ۔
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ سیدنا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کا نعتیہ کلام بہت پسند فرماتے ایک بار ارشاد فرمایا : نعت گو شعراء کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی حدائق بخشش بار بار پڑھنی چاہیے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی نعتوں میں بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جو ادب و احترام ہمیں ملتا ہے ، جو احتیاطیں نظر آتی ہیں وہ دوسرے شاعروں کے ہاں بہت کم نظر آتی ہیں ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مقامِ نبوت اور نبوی جلالتِ شان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شناسا ہیں ۔ اس شناسائی اور معرفت کے بغیر نعت لکھنی ممکن نہیں ہے ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات، ص٤١٤)۔(مزید حصّہ چہارم میں)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...