درسِ قرآن موضوع : فضیلتِ شبِ قدر ۔ حصّہ دوم
محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے اس موضوع کا پہلا حصّہ پڑھ لیا ہوگا آئیے اب اس موضوع کا دوسرا حصّہ پڑھتے ہیں :
” لیلۃ القدر “ میں قرآن مجید کا آسمان دنیا کی طرف نازل ہونا ۔ القدر : 1 میں ” ازلناہ “ کی ضمری منصوب قرآن مجید کی طرف راجع ہے، ہرچند کہ اس سورت میں اس سے پہلے قرآن مجید کا ذکر نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید کا معنی ہر پڑھنے والے کو معلوم ہے اور اس کا ذکر اس کے ذہن میں مرتکز ہے، درج ذیل آیات میں قرآن مجید کے نزول کا ذکر ہے : (اورہ البقرہ : 185) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا ۔
(سورہ الدخان : 3-1) حامیم ۔ کتاب مبین کی قسم ۔ ہم نے اس کتاب کو برکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔
اس آیت میں ” لیلۃ مبارکۃ سے مراد ” لیلۃ القدر ‘ ہے ۔ شعبی نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو نازل کرنے کی ابتدائ ” لیلۃ القدر “ میں کی ہے، ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) امین (علیہ السلام) نے پورے قرآن مجید کو لیلتہ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف بیت العزۃ میں نازل کیا، پھر حضرت حضرت جبریل (علیہ السلام) اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل کرتے رہے اور یہ مدت تئیس (23) سال ہے ۔
الماوردی نے کہا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : قرآن مجید رمضان کے مہینہ میں لیلتہ القدر اور لیلتہ مبارکہ میں اللہ کی طر سے آسمان دنیا میں مکمل نازل ہوا، پھر مکرم فرشتوں نے اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے بیس راتوں میں حضرت جبریل (علیہ السلام) پر نازل کیا، پھر حضرت جبریل (علیہ السلام) نے تھوڑا تھوڑا کر کے بیس سال میں ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل کیا اور حضرت جبریل (علیہ السلام) مختلف مہینوں اور مختلف ایام میں حسب ضرورت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل کرتے تھے ۔ (النکث و العیون ج 6 ص 311، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
علامہ ابن العربی نے کہا ، (رح) یہ قول باطل ہے ، حضرت جبریل (علیہ السلام) اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کسی فرشتے کا واسطہ نہیں ہے اور نہ حضرت جبریل (علیہ السلام) اور سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے درمیان کوئی واسطہ ہے ۔ (احکام القرآن ج 4 ص 328، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1408 ھ)
صحیح بات یہ ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف مکمل نازل ہوا ، پھر امر اور نہی اور حلال اور حرام اور مواعظ اور قصص اور لوگوں کے سوالات کے جوابات میں حسب ضرورت سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر تئیس (23) سال تک تھوڑا تھوڑا کر کے حضرت جبریل کے واسطے سے نازل ہوتا رہا ۔
امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی 235 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ پورا قرآن ساتویں آسمان سے آسمان دنیا کی طرف رمضان میں نازل ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ جس چیز کو نازل فرمانا چاہتا، نازل فرما دیتا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 6 ص 44 ۃ رقم الحدیث :30178 دارالکتب العلمیہ، بیروت 1416 ھ)
ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ آسمانی کتابیں چوبیس رمضان کو نازل ہوئی ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :30180)
ابوالعالیہ ابوالجلد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) کے صحیفے یکم رمضان کی شب میں نازل ہوئے اور زبور چھ رمضان کو نازل ہوئی اور انجیل اٹھارہ رمضان کو نازل ہوئی اور قرآن چوبیس رمضان کو نازل ہوا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :30182)
ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ تورات اس دن نازل ہوئی جب رمضان میں چھ دن رہتے تھے اور قرآن چوبیس رمضان کو نازل ہوا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :30179)
بعض مقامات اور بعض اوقات میں عبادت کے اجر میں اضافہ
اس رات میں جو فضیلت رکھی گئی ہے ، ہم کو معلوم نہیں کہ وہ اس رات میں عبادت کی وجہ سے فضیلت ہے یا اس رات میں فرشتوں کے نزول کی وجہ سے فضیلت ہے، یا اس رات میں طلوع فجر تک سلامتی کے نزول کی وجہ سے فضیلت ہے یا اس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتداء کی وجہ سے فضیلت ہے یا فی نفسہ اس رات میں فضیلت رکھی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات پر عبادت کرنے کی فضیلت رکھی ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا دوسری جگہ ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کے برابر ہے اور میری مسجد ، مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا، دوسری جگہ سوا مسجد حرام کے ایک ہزار نمازیں پڑھنے کے برابر ہے ۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث :1406) ، ان مقامات اور جگہوں کو عبادات کے لئے خاص کرلیا گیا اور ان مقامات پر عبادات کرنے کے ثواب کو بڑھا دیا گیا، اسی طرح بعض اوقات کو بھی عبادات کے لئے خاص کرلیا گیا اور ان اوقات میں عبادات کے اجر وثواب کو بڑھا دیا گیا، جیسے رمضان کے مہینہ میں نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ہے اور فرائض کے ثواب کو ستر درجہ بڑھا دیا گیا، اسی طرح لیلتہ القدر کی عبادت کو ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ کردیا گیا ۔
لیلتہ القدر میں ” قدر “ کے معانی
القدر : 3-2 میں فرمایا اور آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے ؟ ۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو لیلتہ القدر کی تعیین کا علم تھا یا نہیں ؟
امام بخاری فرماتے ہیں کہ امام ابن عینیہ نے کہا : قرآن مجید کی جس آیت میں کسی چیز کے متعلق فرمایا : ” وما ادرک “ اس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم دے دیا ہے اور جس کے متعلق فرمایا ہے :” وما یدریک “ اس کا علم آپ کو نہیں دیا ۔ (صحیح البخاری ص 418، شرکتہ دارالارقم، بیروت، لبنان)
ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے لیلتہ القدر کے متعقل سوال کیا، جو میرے دوست تھے ، انہوں نے کہا : ہم نے رمضان کے متوسط عشرہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھ اعتکاف کیا ، آپ بیس رمضان کی صبح کو باہر آئے اور آپ نے ہمیں خطبہ دیا اور آپ نے فرمایا : مجھے لیلتہ القدر دکھائی گی تھی ، پھر بھلا دی گئی، اب تم اس کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں ، پس جس نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھ اعتکاف کیا تھا وہ لوٹ جائے ، ہم لوٹ گئے اور ہم آسمان میں کوئی بادل نہیں دیکھتے تھے ، پھر اچانک بادل آیا اور بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکنے لگی اور اس کی چھت میں کھجور کی شاخیں تھیں ، اور نماز کی اقامت کہی گئی ، پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہے تھے ، حتیٰ کہ میں نے آپ کی پیشانی پر مٹی کا نشان دیکھا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2016، سنن ابو دائود رقم الحدیث : 1382، سنن نسائی رقم الحدی :1356 السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : 3342، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1775)
حضرت عبادہ بن الصامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمیں لیلتہ القدر کی خبر دینے کے لئے باہر آئے اس وقت دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ نے فرمایا : میں تمہیں لیلتہ القدر کی خبر دینے کے لئے آیا تھا ، پس فلاں اور فلاں آپس میں لڑ پڑے تو لیلتہ القدر کی تعیین اٹھا لی گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہ، پس تم اس کو انتیسویں شب، ستائیسویں شب اور پچیسویں شب میں تلاش کرو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2023
شارحین نے کہا ہے کہ صرف اس سال ننبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے لیلتہ القدر کی تعیین کا علم اٹھا لیا گیا تھا اور دوسرے سال آپ کو پھر اس کا علم عطا کردیا گیا ۔ (فتح الباری ج 4 ص 778، عمدۃ القاری ج 11 ص 197 فیضا لباری ج 3 ص 183،چشتی)
اس سال شب قدر کی تعیین کے علم کو اٹھانے کی حکمت یہ تھی کہ آپ کے لئے لیلتہ القدر کی تعیین کو مخفی رکھنے کا عذر ہوجائے کیونکہ اگر آپ کو علم ہوتا اور آپ نہ بتاتے تو یہ آپ کی رحمت کے خلاف تھا اور اگر بتا دیتے تو یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ لیلتہ القدر کی تعیین کو مخفی رکھا جائے تاکہ اللہ کے بندے لیلتہ القدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرہ کی ہر طاق رات جاگ کر عبادت میں گزاریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا عبادت میں جاگنا پسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی چیزوں کو مخفی رکھا ہے ، مثلاً اللہ کے ولی کو مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ ہر شخص کے متعلق یہ گمان کر کے کہ ممکن ہے یہی اللہ کا ولی ہو، اس کی تعظیم اور تکریم کریں، جمعہ کی جس ساعت میں دعا قبول ہوتی ہے، اس کو مخفی رکھا تاکہ مسلمان جمعہ کی ہر ساعت میں دعا کرتے رہیں کہ ممکن ہے یہی قبولیت کی ساعت ہو، موت کے وقت کو مخفی رکھا تاکہ انسان ہر وقت نیک کاموں میں مشغول رہے اور برے کاموں سے مجتنب رہے تاکہ اس کو موت آئے تو نیک کام کرتے ہوئے آئے نہ کہ خدا نخواستہ برے کام کرتے ہوئے اس کو موت آئے، اسی طرح قیامت کے وقت کو بھی مخفی رکھا، تاکہ ہر لمحہ لوگ ڈرتے رہیں کہ کہیں اسی وقت قیامت نہ آجائے اور لیلتہ القدر کو بھی مخفی رکھا تاکہ کوئی عادی مجرم اس رات کو بھی گناہوں میں گزار دے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ نہ لکھا جائے کہ اس نے اس عظیم رات کی دانستہ بےتوقیری کی ہے ۔
لیلتہ القدر کے فضائل
امام مالک بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے معتمد اہل علم سے سنا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں تو آپ نے اپنی امت کی عمروں کو کم سمجھا اور یہ کہ وہ اتنے عمل نہیں کرسکیں گے جتنے لمبی عمر والے لوگ کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلتہ القدر عطا کی ، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (موطاء امام مالک رقم الحدیث :721 باب الیلتہ القدر)
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا، جو اللہ کی راہ میں ایک ہزار سال ہتھیار پہنے رہا، مسلمانوں کو اس پر بہت تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :” انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ۔ وما ادرک مالیلتہ القدر ۔ لیلۃ القدر خیر من الف شھر ۔ “ (سورہ القدر : 3-1) ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :19424، تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 593)
علی بن عرروہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ذکر کیا کہ بنی اسرائیل کے چار شخصوں نے اسی سال تک اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کی کہ پلک جھپکنے کی مقدار بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی ، اور ان کے نام بتائے، حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حزقیل بن العجوز اور حضرت یوشع بن نون علیہم السلام ، یہ سن کر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اصحاب کو تعجب ہوا، تب آپ کے پاس حضرت جبریل (علیہ السلام) آئے اور کہا : اے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ آپ کی امت کو اس پر تعجب ہے کہ ان لوگوں نے اسی سال عبادت کی اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی نافرمانی نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز نازل کی ہے، پھر آپ کے سامنے سورة القدر : 3-1 آیات تلاوت کیں اور کہا : یہ اس سے افضل ہے جس پر آپ کو اور آپ کیا مت کو تعجب ہوا، پھر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور آپ کے اصحاب خوش ہوگئے ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :19426 تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 593)
امام ویلمی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کو لیلتہ القدر عطا کی ہے اور اس سے پہلی امتوں کو عطا نہیں کی ۔ (الدرالمنثور ج 8 ص 522 داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ)
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزے رکھے، اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے اور جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے لیلتہ القدر میں قیام کیا تو اللہ سبحانہ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2014، سنن نسائی رقم الحدیث :2206 مسند احمد ج 2 ص 503،چشتی)
رمضان کی ستائیسویں شب کے لیلتہ القدر ہونے پر دلائل
زربن جیش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے کہا : اے ابوالمنذر ! ہمیں لیلتہ القدر کے متعلق بتایئے کیونکہ حضرت ابن معسود یہ کہتے ہیں کہ جو شخص پورا سال قیام کرے گا، وہ لیلتہ ال قدر کو پالے گا، حضرت ابی بن کعب نے کہا : اللہ ابوعبدالرحمان پر رحم فرمائے، ان کو خوب معلوم ہے کہ لیلتہ القدر رمضان میں ہے ، لیکن انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ وہ تم کو اس کی تعیین بتالئیں اور تم اس پر تکیہ کرلو، اور اس ذات کی قسم جس نے قرآن کو سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل کیا ہے، لیلتہ القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے، ہم نے پوچھا : اے ابوالمنذر ! آپ کو اس کا کیسے علم ہوا ؟ انہوں نے کہا : اس علامت سے جس کی ہم کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے خبر دی ہے ، ہم نے اس کو یاد رکھا اور اس کا شمار کیا ، ہم نے پوچھا : وہ کیا علامت ہے ؟ انہوں نے کہا : اس کی صبح کو سورج بغیر شعائوں کے طلوع ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 220 صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : 2101 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :3689 سنن ابو دائود رقم الحدیث :1378 سنن ترمذیر قم الحدیب :793 سنن بیہقی ج 4 ص 312)
حضرت ابی بن کعب، امام حمد بن حنبل اور جمہور علماء کا یہ نظریہ ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے اور امام ابوحنیفہ اور بعض شافعیہ سے بھی یہی روایت ہے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ انشاء اللہ کہے بغیر قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ یہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے۔ حضرت عبدا للہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عدد طاق ہے اور طاق اعداد میں سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سات زمینیں اور سات آسمان بنائے، سات اعضاء پر سجدہ مشروع کیا، طواف کے ساتھ پھیرے مقرر کئے اور ہفتہ کے ساتھ دن بنائے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے تو پھر یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی ساتویں رات ہونی چاہیے۔ حافظ ابن حجر اور امام رازی نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ استدلال بھی نقل کیا ہے کہ لیلتہ القدر کے حرف نو ہیں اور یہ لفظ قرآن مجید میں تین بار ذکر کیا گیا ہے، جن کا حاصل ضرب ستائیس ہے، اس لئے یہ رات ستائیسویں ہونی چاہیے۔ امام رازی نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید کی اس سورة مبارکہ میں ” ھی حی مطلع الفجر “ (القدر : 5) میں ” ھی ‘ ضمیر لیلتہ القدر کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہ اس سورت کا ستائیسواں کلمہ ہے، اس اشارے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے ۔
لیلتہ القدر میں عبادت کا طریقہ
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :” من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ “ جس شخص نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اجر وثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ اس حدیث کی روشنی میں لیلتہ القدر کی اصل عبادت قیام نماز ہے، اس لئے اس رات زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے اور توبہ و استغفار میں کوشش کرنی چاہیے، بندہ خضوع و خشوع اور سوز گداز سے نماز پڑھے ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں اپنی کو تاہیوں، تقصیروں اور گناہوں کو یاد کر کے روئے اور گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور بار بار استغفار کرے ۔
بعض صالحین نے اس رات کی عبادت کے مخصوص طریقے بتائیے ہیں ۔ علامہ اسماعیل حقی (رح) لکھتے ہیں : بعض صالحین لیلتہ القدر میں لیلتہ القدر کے قیام کی نیت سے دس دو گانے پڑھتے تھے۔ بعض اکابر سے یہ بھی مقنلو ہے جس شخص نے ہر رات لیلتہ القدر کی نیت سے دس آیات تلاوت کیں، وہ لیلتہ القدر کی برکات سے محروم نہیں ہوگا۔ امام ابواللیث نے بیان کیا کہ لیلتہ القدر کی کم از کم نماز دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ ہزار رکعات ہیں اور متوسط سو رکعات ہیں اور ہر رکعت میں متوسط قرأت یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے بعد سو مرتیہ ” انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ‘ کی سورت پڑھے، اس کے بعد تین بار ” قل ھو اللہ احد “ کی سورت پڑھے پھر دو رکعات کے بعد سلام پھیر دے اور درود شریف پڑھ کر دوسرے دو گانے کے لئے اٹھے، اس طرح جتنے نفل چاہے پڑھے، علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں کہ نوافل کی جماعت بلا کراہیت جائز ہے بشرطیکہ فرئاض کی طرح اذان اور اقامت نہ کریں۔ ” شرح نقایہ “ وغیرہ میں ” محیط “ کے حالے سے یہ عبارت ہے :” لیلۃ القدر صلوۃ الرغائب “ اور شعبان کی پندرہویں شب میں نوافل میں امام کی اقتداء کرنا مطلقاً مکروہ نہیں ہے کیونکہ جو چیز مومنوں کے نزدیک حسن ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی حسن ہوتی ہے، اس لئے اس پر اعتراض کرنے والے ان لوگوں کے قول کی طرف بالکل توجہ نہ کرو، جن کو عبادت کا ذوق ہے نہ دعائوں کا شوق ہے۔ (روح البیان ج 10 ص 581، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1421 ھ)
امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی 235 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : عامر بیان کرتے ہیں کہ لیلتہ القدر کا دن اس کی شب کی مثل ہے اور اس کی شب اس کے دن کی مثل ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 253 رقم الحدیث : 8693 دارالکتب العلمیہ، بیروت 1416 ھ،چشتی)
پاکستان میں جس تاریخ کو شب قدر ہوتی ہے ، سعودی عرب میں اس سے ایک دن یا دو دن پہلے شب قدر ہوتی ہے ، میرا گمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ملک کے رہنے والوں کو ان کے حساب سے شب قدر کی عبادت کا اجر عطا فرمائے گا ۔ ابن المسیب نے کہا : جس شخص نے لیلتہ القدر میں مغرب اور عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی ، اس نے لیلتہ القدر سے اپنا حصہ پا لیا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : 8694 دارالکتب العلمیہ، بیروت)
ثواب میں اضافہ
شب قدر میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادتوں سے زیادہ دیا جاتا ہے ، اس سلسلہ میں یہ سوال کیا جاتا ہے : کیا اس ایک رات میں بعادت کرنے کے بعد انسان ایک ہزار ماہ کی عبادتوں سے آزاد ہوجاتا ہے ؟ اسی طرح ایک نماز کا ثواب دس نمازوں کے برابر ہے اور کعبہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے تو کیا کعبہ میں ایک نماز پڑھنے سے ایک کم ایک لاکھ نمازیں انسان سے ساقط ہوجاتی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شب قدر کی عبادت نفلی ہے اور ہزار ماہ میں جو فرائض اور واجبات ہیں، یہ نفلی عبادت ان کے قائم مقام نہیں ہوسکتی رہا یہ کہ ایک فرض کا ثواب اس فرض کی دس مثلوں کے برابر ہوتا ہے یا کعبہ کی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے مساوی ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اس فرض کے ادا کرنے کا مکلف ہے جو دس مثلوں کے یا ایک لاکھ مثلوں کے مساوی ہے، ان مثلوں میں سے کوئی ایک مثل اس فرض کے مساوی نہیں، جو دس یا ایک لاکھ مثلوں کے برابر ہے، لہٰذا ان مثلوں سے فرض کی تکلیف ساقط نہیں ہوسکتی اس لئے ایک نماز پڑھ کر انسان دس نمازوں سے بری ہوسکتا ہے، نہ شب قدر کی عبادت سے ہزار ماہ کی عبادتوں سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے ۔
گناہ میں اضافہ
ایک بحث یہ بھی غور طلب ہے کہ جس طرح شب قدر میں عبادت کرنے سے ثواب بڑھ جاتا ہے، کیا اس طرح شب قدر میں گناہ کرنے سے سزا بھی زیادہ ہوتی ہے، اس کی تحقیق یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو قطعی طور پر شب قدر کا علم ہوجائے اور پھر وہ اس رات میں قصداً گناہ کرے تو یقینا اس کا یہ گناہ اور راتوں کے گناہوں سے بڑا گینا ہے اور وہ زیادہسزا کا مستحق ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ ” من جآء بالسیئۃ فلا یجزی الا مثلھا “ (سورہ الانعام : 160) جو شخص جتنی برائی کرے گا اسے اتنی برائی ہی کی سزا ملے ی، پھر اس رات میں قصداً گناہ کرنے والا کیوں زیادہ سزا کا مستحق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شب قدر میں گناہ کرنے والے کی دو زیادتیاں ہیں، ایک گناہ کی اور ایک شب قدر کے تقدس کو پامال کرنے کی، جس طرح گھر میں گناہ کی بہ نسبت حرم کعبہ میں وہ گناہ کرنا زیادہ بڑا ہے ، اسلئے جو شخص شب قدر میں گناہ کرے گا، اس کو اسی گناہ کی سزا ملے گی لیکن ظاہر ہے کہ اس رات کا جرم اور اتوں کے جرم کی بہ نسبت زیادہ ہے ۔
شب قدر کو مخفی رکھنے کی حکمتیں
اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو اپنی حکمت سے مخفی رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کس عبادت سے راضی ہوتا ہے، اس کو مخفی رکھا تاکہ بندہ تمام عبادات میں کوشش کرے ، کس گناہ سے نارضا ہوتا ہے ، اس کو مخفی رکھا تاہ بندہ ہر گناہ سے باز رہے ۔ ولی کی کوئی ملامت مقرر نہیں کی اور اسے لوگوں کے درمیان مخفی رکھاتا کہ لوگ ولی کے شائبہ میں ہر انسان کی تعظیم کریں۔ قبولیت توبہ کو مخفی رکھا تاکہ بندے مسلسل توبہ کرتے رہیں۔ موت اور قیامت کے وقت کو مخفی رکھا تاکہ بندے ہر ساعت میں گناہوں سے باز رہیں اور نیکی کی جدوجہد میں مصروف رہیں۔ اسی طرح لیلتہ القدر کو مخفی رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ رمضان کی ہر رات کو لیلتہ القدر سجھ کر اس کی تعظیم کریں اور اس کی ہر رات میں جاگ جاگ کر عبادت کریں ۔
امام رازی تحریر فرماتے ہیں : اگر اللہ تعالیٰ اس رات کو معین کر کے بتادیتا تو نیک لوگ تو اس رات میں جاگ کر عبادت کر کے ہزار ماہ کی عبادتوں کا اجر حاصل کرلیتے ہیں اور عادی گنہگار اگر شامت نفس اور اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس رات بھی کوئی گناہ کرلیتا تو وہ ہزار ماہ کے گناہوں کی سزا کا مستحق ہوتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رات کو مخفی رکھا تاکہ اگر کوئی عادی گنہگار اس رات بھی کوئی گناہ کر بیٹھے تو لیلتہ القدر سے لاعلمی کی بناء پر اس کے ذمہ لیلتہ القدر کی احترام شکنی اور ہزار ماہ کے گناہ لازم آئیں، کیونکہ علم کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی سے گناہ کرنے کی بہ نسبت زیادہ شدید ہے۔ روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مسجد میں داخل ہوئے، وہاں ایک شخص کو سوئے ہوئے دیکھا۔ آپ نے حضرت علی ؓ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، وہاں ایک شخص کو سوئے ہوئے دیکھا آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا اسے وضو کے لئے اٹھا دو انہوں نے اٹھا دیا۔ بعد میں علی ؓ نے پوچھا : یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ! آپ تو نیکی کرنے میں خود پہل کرتے ہیں ، آپ نے اس کو خود کیوں نہیں جگا دیا ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : اگر میرے اٹھانے پر یہ انکار کردیتا تو یہ کفر ہوتا اور تمہارے اٹھانے پر انکار کرنا کفر نہیں ہے تو میں نے تم کو اٹھانے کا اس لئے حکم دیا کہ یہ انکار کر دے تو اس کا قصور کم ہو، غور کرو ! جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی گنہگاروں پر رحمت کا یہ حال ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کیا عالم ہوگا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ آسان ہے کہ نیکو کار لیلتہ القدر کی جستجو میں رمضان کی متعدد راتیں جاگ کر کھنگال ڈالیں، یہ بھی گوارا ہے کہ اس تلاش میں ان سے لیلتہ القدر چوک جائے لیکن یہ گوارا نہیں ہے کہ لیلتہ القدر بتلا دینے سے کوئی گنہگار بندہ اپنے گناہ کی ہزار گنا زیادہ سزا پائے، اللہ ! اللہ ! وہ اپنے بندوں کا کتنا خیال رکھتا ہے، پھر گنہگار بندوں کا !
تیسری وجہ یہ ہے کہ جب لیلتہ القدر کا علم نہیں ہوگا اور بندے رمضان کی ہر رات کو لیلتہ القدر کے گمان میں جاگ کر گزاریں گے اور رمضان کی ہر رات میں عبادت کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا : اسی ابن آدم کے متعلق تم نے کہا تھا کہ یہ زمین کو خونریزی اور گناہوں سے بھر دے گا، ابھی تو اس کو لیلتہ القدر کا قطعی علم نہیں ہے، پھر بھی عبادت میں اس قدر کوشش کر رہا ہے اگر اسے لیلتہ القدر کا علم قطعی ہوتا کہ کون سی رات ہے، پھر اس کی عبادتوں کا کیا عالم ہوتا !
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر ہونے تک سلامتی ہے ۔ (سورہ القدر : 5-4)
امام عبدالرحمان بن محمد بن ادریس ابن ابی حاتم رازی متوفی 327 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : کعب بیان کرتے ہیں کہ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان کے اس کنارے پر ہے، جو جنت کے قریب ہے، پس اس کے نیچے دنیا ہے اور اس کے اوپر جنت ہے اور جنت کسری کے نیچے ہے، اس میں فرشتے ہیں جن کی تعداد کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور سدرہ کی ہر شاخ پر فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے ہیں اور جبریل (علیہ السلام) کا مقام اس کے وسط میں ہے، اللہ تعالیٰ ہر لیلتہ القدر میں حضرت جبریل کو ندا کرتا ہے کہ وہ سدرۃ المنتہی کے فرشتوں کے ساتھ زمین پر نازل ہوں اور ان میں سے ہر فرشتے کو مئومنین کے لئے شفقت اور رحمت دی جاتی ہے، پھر وہ غروب آفاتب کے وقت حضرت جبریل کے ساتھ زمین پر نازل ہوتے ہیں، پھر زمین کے ہر حصہ پر فرشتے سجدہ اور قیام میں مئومنین اور مئومنات کے لئے دعا کرتے ہیں، سوا ان مقامات کے جہاں یہودیوں اور عیسائیوں کا معبد ہو یا آتش کدہ ہو یا بت خانہ ہو یا کچرا کنڈی ہو یا جس گھر میں کوئی نشہ کرنے والا ہو یا جس جبریل ہر مئومن سے مصافحہ کرتے ہیں اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت ہر مئومن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کا دل بہت نرم ہوجاتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس وقت حضرت جبریل اس سے مصافحہ کر رہے ہیں ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج 10 ص 3453 رقم الحدیث : 19428 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1417 ھ،چشتی)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی 606 ھ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اس رات میں فرشتے نازل ہوتے ہیں، اس آیت کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ تمام فرشتے نازل ہوتے ہیں، بعض مفسرین نے کہا : وہ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں، لیکن اکثر مفسرین کا مختار یہ ہے کہ وہ زمین پر نازل ہوتے ہیں، کیونکہ بہت احادیث میں یہ وارد ہے کہ تمام ایام میں فرشتے مجالس ذکر میں حاضر ہوتے ہیں ، پس جب عام ایام میں فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں تو اس عظیم الشان رات میں تو فرشتے بہ طریق اولیٰ زمین پر نازل ہوں گے پھر اس میں اختلاف ہے کہ فرشتے کس لئے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور اس میں درج ذیل اقوال ہیں :
(1) بعض نے کہا : فرشتے اس لئے نازل ہوتے ہیں کہ بشر کی عبادت اور اطاعت میں اس کی کوشش کو دیکھیں ۔
(2) فرشتوں نے کہا تھا : وما نتنزل الا بامر ربک (سورہ مریم : 64) ہم صرف آپ کے رب کے کم سے نازل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس رات اللہ تعالیٰ ان کو زمین پر نازل ہونے کا حکم دیتا ہے ۔
(3) اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں اہل جنت کے پاس فرشتے نازل ہوں گے : یدخلون علیہم من کل باب۔ سلم علیکم (الرعد : 24-23) فرشتے ان کے پاس ہر دروازے سے آئیں گے۔ اور کہیں گے : تم پر سلام ہو۔
اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر میں فرشتوں کو نازل ہونے کا حکم دے کر یہ ظاہر فرمایا کہ آخرت کی عزت افزائی تو الگ رہی، اگر تم دنیا میں بھی میری عبادت میں مشغول رہو گے تو یہاں بھی اس رات میں فرشتے تمہاری زیارت کے لئے آئیں گے۔ روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : فرشتے اس رات کو اس لئے نازل ہوتے ہیں کہ ہم پر سلام پڑھیں اور ہماری شفاعت کریں، سو جس کو ان کا سلام پہنچے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (تفسیر کبیرج 11 ص 233، داراحیائالتراث العربی، بیروت 1415 ھ)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں، روح کے متعلق حسب ذیل اقوال امام رازی نے ذکر کئے ہیں :
(1) روح بہت بڑا فرشتہ ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ تمام آسمان اور زمینیں اس کے سامنے ایک لقمہ کی طرح ہیں۔
(2) روح سے مراد مخصوص فرشتوں کی ایک جماعت ہے، جس کو عام فرشتے صرف لیلتہ القدر کو ہی دیکھ سکتے ہیں۔
(3) وہ اللہ کی ایک خاص مخلوق ہے جو نہ فرشتوں کی جنس سے ہے، نہ انسانوں کی جنس سے ہے، ہوسکتا ہے وہ اہل جنت کے خادم ہوں۔
(4) اس سے مراد خاص رحمت ہے، کیونکہ رحمت کو بھی روح فرمایا ہے : قرآن مجید میں ہے : سورہ یوسف : 87) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
(5) اس سے مراد بہت بزرگ اور مکرم فرشتہ ہے۔
(6) ابونحیج نے کہا : اس سے مراد کراماً کاتبین ہیں، جو مئومن کے نیک کام لکھتے ہیں اور برے کاموں کے ترک کرنے کو لکھتے ہیں۔
(7) زیادہ صحیح یہ ہے کہ روح سے مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں، ان کی خصوصیت کی وجہ سے ان کو عام فرشتوں سے الگ ذکر کیا ہے۔ (تفسیر کبیرج 11 ص 234 داراحیاء التراث العربی، بیروت 1415 ھ،چشتی)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں : القطب الربانی الشیخ عبدالقادر الجیلانی، ” غنیتہ الطالبین “ میں فرماتے ہیں : حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اللہ تعالیٰ لیلتہ القدر میں حضرت جبرائیل کو حکم دیتا ہے کہ وہ سدرۃ المنتہی سے ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جائیں، ان کے ساتھ نور کے جھنڈے ہوتے ہیں، جب وہ زمین پر اترتے ہیں تو جبرائیل (علیہ السلام) اور بقای فرشتے چار جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں، کعبہ پر، سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے روضہ پر بیت المقدس کی مسجد پر اور طور سینا کی مسجد پر، پھر جربائیل (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ زمین پر پھیل جائو، پھر فرشتے تمام زمین پر پھیل جاتے ہیں اور جس مکان یا خیمے یا پتھر پر یا کشتی میں غرض جہاں بھی کوئی مسلمان مرد یا عورت ہو، وہاں فرشتے پہنچ جاتے ہیں ۔ ہاں ! جس گھر میں کتا یا خنزیر یا شراب ہو یا تصویروں کے مجسمے ہوں یا کوئی شخص زنا کاری سے جنبی ہو، وہاں نہیں جاتے۔ وہاں پہنچ کر فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں، کلمہ پڑھتے ہیں اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کی لیلتہ القدر تھی۔ آسمان دنیا کے فرشتے کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے آج محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی حاجات آسمان دنیا کے فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حوامت محمدیہ کی مغفرت فرمائی ہے، اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرشتے دوسرے آسمان پر جاتے ہیں اور وہاں اسی طرح گفتگو ہوتی ہے، علی ہذا القیاس، سدرۃ المنتہی جنت الماوی جنت نعیم، جنت عدن اور جنت الفردوس سے ہوتے ہوئے وہ فرشتے عرش الٰہی پر پہنچیں گے، وہاں عرش الٰہی آپ کی امت کی مغفرت پر شکریہ ادا کرے گا اور کہے گا : اے اللہ ! مجھے خبر پہنچی ہے کہ گزشتہ رات تو نے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کے صالحین کو بخش دیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکو کاروں کی شفاعت قبول کرلی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے عرش ! تم نے سچ کہا، محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کے لئے میرے پاس بڑی عزت اور کرامت ہے اور ایسی نعمتیں ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی کے دل میں ان نعمتوں کا کبھی خیال آیا۔ (روح المعانی جز 30 ص 349-350، دارالفکر، بیروت)
فرشتوں کے زمین پر نزول کے بارے میں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ زمین پر انسانوں کی عبادات کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے : ” تنزل المئکۃ والروح فیھا باذن ربہم، فرشتے اور جبریل امین اللہ تعالیٰ کی اجازت سے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بشمول جبرائیل تمام فرشتے اللہ تعالیٰ سے زمین پر آنے کی پہلے اجازت طلب کرتے ہیں، پھر اس کے بعد زمین پر اترتے ہیں اور یہ چیز انتہائی محبت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ پہلے وہ ہماری طرف راغب اور مائل تھے اور ہم سے ملاقات کی تمنا کرتے تھے، لیکن اجازت کے منتظر تھے اور جب اللہ تعالیٰ سے اجازت مل گئی تو قطار درق طار صف باندھے زمین پر اتر آئے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے اس قدر گناہوں کے باوجود فرشتے ہم سے ملاقات کی تمنا کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو ہمارے گناہوں کا پتا نہیں چلتا کیونکہ جب وہ لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کی عبادات کو تفصیل کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جب گناہوں کا پتا نہیں چلتا کیونکہ جب وہ لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کی عبادات کو تفصیل کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جب گناہوں پر پہنچتے ہیں تو لوح محفوظ پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور اس وقت فرشتوں کی زبان سے بےاتخیار یہ کلمات نکلتے ہیں : سبحان ہے وہ ذات جس نے نیکیوں کو ظاہر کیا اور گناہوں کو چھپالیا ۔ (تفسیر کبیرج 11 ص 234-235 دار احیاء التراث العربی، بیروت)
اگر یہ کہا جائے کہ فرشتے خود عبادات سیم الا مال ہیں، تسبیح، تقدیسا ورت ہلیل کے تونگر ہیں، قیام، رکوع اور سجود کون سی عبادت ہے جو ان کی جھولی میں نہیں ہے، پھر انسانوں کی وہ کون سی عبادت ہے جسے دیکھنے کے شوق میں وہ انسانوں سے ملاقات کی تمنا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے زمین پر اترنے کی اجازت طلب کرتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی شخص خود بھوکا رہ کر اپنا کھانا کسی اور ضرورت مند کو کھلا دے، یہ وہ نادر عبادت ہے جو فرشتوں میں نہیں ہوتی، گناہوں پر توبہ اور ندامت کے آنسو بہانا اور گڑگڑانا، اللہ تعالیٰ سے معافی چاہنا، اپنی طبعی نیند چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی یاد کے لئے رات کے پچھلے پہر اٹھنا اور خوف خدا سے ہچیکاں لے لے کر رونا، یہ وہ عبادت ہے جس کا فرشتوں کے ہاں کوئی تصور نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : گناہ گاروں کی سسکیوں اور ہچکیوں کی آواز اللہ تعالیٰ کو تسبیح اور تہلیل کی آوازوں سے زیادہ پسند ہے، اس لئے فرشتے یاد خدا میں آنسو جانے والی آنکھوں کے دیکھنے اور خوف خدا سے نکلنے والی آہوں کے سننے کے لئے زمین پر اترتے ہیں ۔
امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں فرشتے مسلمانوں کی زیارت کریں گے اور آ کر سلام عرض کریں گے ” الملائکۃ یدخلون علیھم من کل باب سلام علیکم “ فرشتے (جنت کے) ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے اور لیلۃ القدر میں یہ ظاہر فرمایا کہ اگر تم میری عبادت میں مشغول ہو جائو تو آخرت تو الگ رہی دنیا میں بھی فرشتے تمہاری زیارت کو آئیں گے اور آ کر دنیا میں بھی تم کو سلام کریں گے۔ امام رازی نے دوسری وجہ یہ لکھی ہے کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ علماء اور صالحین کے سامنے زیادہ اچھی اور زیادہ خضوع و خشوع سے عبادت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ اے انسانوچ تم عبادت گزاروں کیم جلس میں زیادہ عبادت کرتے ہو، آئو ! اب ملائکہ کی مجلس میں خضوع اور خشوع سے عبادت کرو۔ (تفسیر کبیرج 11 ص 235، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کی پیدائش کے وقت فرشتوں نے اعتراض کی صورت میں کہا تھا کہ اسے پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے جو زمین میں فسق و فجور اور خون ریزی کرے گا ؟ اس رات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ان کی امیدوں سے بڑھ کر اجر وثواب کا وعدہ کیا، اس رات کے عبادت گزاروں کو زبان رسالت سے مغفرت کی نوید سنائی، فرشتوں کی آمد اور ان کی زیارت اور سلام کرنے کی بشارت دی، تاکہ اس کے بندے یہ رات جاگ کر گزاریں، تھکاوٹ اور نیند کے باوجود اپنے آپ کو بستروں اور آرام سے دور رکھیں، تاکہ جب فرشتے آسمان سے اتریں تو ان سے کہا جاسکے : یہی وہ ابن آدم ہے، جس کی خونریزیوں کی تم نے خبر دی تھی، یہی وہ شر رخا کی ہے، جس کے فسق و فجور کا تم نے ذکر کیا تھا، اس کی طبیعت اور خلقت میں ہم نے رات کی نیند رکھی ہے، لیکن یہ اپنے طبعی اور خلقی تقاضوں کو چھوڑ کر ہماری رضا جوئی کے لئے یہ رات سجدوں اور قیام میں گزار رہا ہے، تم نے فسق و فجور اور خن ریزی دیکھی تھی، ہماری خاطر راتوں کو جاگ کر سجدہ کرنے والی جبینیں نہیں دیکھی تھیں، ہماری یاد کے سبب آنکھوں میں مچلنے والے آنسو نہیں دیکھے تھے، دیکھوچ اللہ تعالیٰ بڑے مان سے تمہاری عبادت دکھانے کے لئے آسمان سے فرشتے اتارتا ہے، کہیں تم یہ رات گناہوں میں گزار کر اس کا مان نہتوڑ دینا ۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ شب قدر میں عبادت کرنے والے انسان کو جس وقت روح الامین آ کر سلام کرتا ہے اور اس سے مصافحہ کرتا ہے تو اس پر خوف خدا کی ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے، یاد خدا سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور خشیت الٰہی سے بدن کا رونگٹا رونگٹھا کھڑا ہوجاتا ہے ، امام رازی فرماتے ہیں : فرشتوں کا سلام کرنا، سلامتی کا ضامن ہے۔ سات فرشتوں نے آ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سلام کیا تھا تو ان پر نمرود کی جلائی ہوئی آگ سلامتی کا باغ بن گئی تھی۔ شب قدر کے عابدوں پر جب اس رات لاتعداد فرشتے آ کر سلام کرتے ہیں تو کیونکہ نہ یہ امید کی جائے کہ جہنم کی آگ ان پر سلامتی کا باغ بن جائے گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment