حالتِ نماز میں قرآن یا موبائل پر دیکھ کر تلاوت کرنا
امام برہان الدین مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ الهداية شرح البداية میں تحریر فرماتے ہیں : إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ مِنْ الْمُصْحَفِ فَسَدَتْ صَلَاتُه، عِنْدَ أَبِي حَنِیفَةَ رَحِمَهُ اﷲُ وَقَالَا هِیَ تَامَّةٌ، لِأَنَّهَا عِبَادَةٌ انْضَافَتْ إلَی عِبَادَةٍ أُخْرَی ، إلَّا أَنَّهُ یُکْرَهُ لِأَنَّهُ تَشَبُّہٌ بِصَنِیعِ أَهْلِ الْکِتَابِ، وَلِأَبِي حَنِیفَةَ رَحِمَهُ ﷲُ أَنَّ حَمْلَ الْمُصْحَفِ وَالنَّظَرَ فِیهِ وَتَقْلِیبَ الْأَوْرَاقِ عَمَلٌ کَثِیرٌ، وَلِأَنَّهُ تَلَقُّنٌ مِنْ الْمُصْحَفِ فَصَارَ کَمَا إذَا تَلَقَّنَ مِنْ غَیْرِهِ ، وَعَلَی هَذَا لَا فَرْقَ بَیْنَ الْمَوْضُوعِ وَالْمَحْمُولِ وَعَلَی الْأَوَّلِ یَفْتَرِقَانِ ۔
ترجمہ : جب امام (یا عام نمازی) نے قرآن سے دیکھ کر قراء ت کی تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جائے گی اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : یہ نماز مکمل ہے کیونکہ اس نماز کے ساتھ ایک اور عبادت مل گئی ہے ، البتہ یہ نماز مکروہ ہے کیونکہ یہ اہل کتاب کے عمل کے مشابہ ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ مصحف کو اٹھانا اس کو پڑھنا اور اس کے اوراق پلٹنا عمل کثیر ہے اور اس لیے کہ اس میں قرآن سے لقمہ لینا ہے ۔ لہٰذا یہ اُسی طرح ہوگیا جس طرح خارج از نماز شخص سے نماز میں لقمہ لیا جائے ۔ اس اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں ہے ، خواہ مصحف کو اٹھایا ہو یا رکھا ہوا ہو ، اور پہلے قول یعنی امام ابوحنیفہ رحمة ﷲ علیہ کے قول کے مطابق دونوں میں فرق ہے ۔ (الهداية شرح البداية جلد 1 صفحہ 62 المكتب الإسلامي)
یہاں دو باتیں قابل غور ہیں : ⏬
اول : یہ کہ اگر مصحفِ قرآن کو دائیں یا بائیں طرف رکھ کر اسے دیکھا جائے تو استقبالِ قبلہ نہیں رہتا ، جبکہ قرآنِ مجید نے نماز کی بنیادی شرط یہ بیان کی ہے ۔ فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔ (سورہ البقرة)
ترجمہ : آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی سمت کرلیں ۔
دوم : یہ کہ قیام کی حالت میں نمازی کےلیے مستحب ہے کہ نگاہ سجدہ کی جگہ پر ہو کیونکہ اس سے دلجمعی پیدا ہوتی ہے اور خشوع و خضوع کے آثار نمایاں ہوتے ہیں. مصحف سے دیکھ کر تلاوت کرنے کی صورت میں نگاہ یقیناً قرآن مجید کے صفحات و حروف پر ہوگی ، جس سے نماز کا یہ اہم ادب فوت ہو جائے گا ۔
حضرت صدر الشریعه مفتی امجد علی رحمة الله علیہ ”درمختار، ردالمحتار” کہ حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ : نماز میں مصحف شریف سے دیکھ کر پڑھنا مطلقاً مفسد نماز ہے ، یو ہیں اگر محراب وغیرہ میں لکھا ہو اسے دیکھ کر پڑھنا بھی مفسد ہے ۔ (بہار شریعت جلد 1 حصہ 3 س 609 مفسدات نماز کا بیان،چشتی)
فقه حنبلی کی مشہور کتاب ”شرح منتهي الإرادات“ میں ہے : وَیکرہ لِلحافظ حتی في قیامِ رمضان ، لأنه یشغل عن الخشوعِ وعن النظرِ إلی موضع السجود ۔
ترجمہ : حافظِ قرآن کےلیے نمازِ تراویح میں قرآن دیکھ کر پڑھنا مکروہ ہے. اس لیے کہ یہ خشوع پیدا کرنے میں مخل ہے اور قیام کی حالت میں سجدہ کی جگہ نگاہ رکھنے سے مانع ہے ۔
تراویح میں قرآن مجید مکمل کرنا ایک سنت ہے جو سنت مؤکدہ بھی نہیں ہے ؛ بلکہ غیر مؤکدہ ہے ؛ چنانچہ فتاوی شامی میں ہے والختم مرة سنة و مرتين فضيلة ۔ (الدر المختار مع رد المحتار جلد 2 صفحہ 597 كتاب الصلاة) ۔ جبکہ اس کے بالمقابل دونوں ہاتھوں کو باندھنا سنت مؤکدہ ہے اور صریح و مستند روایات اور عمل متواتر سے ثابت ہے ۔
سنن ابوداؤد کی روایت میں ہے : عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : مِنَ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ ۔ (سنن أبي داود رقم الحديث ٦٥٧ كِتَابُ الصَّلَاةِ أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابٌ وَضْعُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ)
ظاہر ہے کہ قرآن مجید یا موبائل ہاتھ میں لے کر پڑھنے سے اس سنت مؤکدہ پر عمل ممکن نہیں ہے ؛ اس لیے سنت مؤکدہ کو چھوڑ کر قرآن ہاتھ میں لینا کہاں صحیح ہو سکتا ہے ؟
پھر حالتِ نماز میں خشوع وخضوع بھی مقصود ہے جس کا حکم قرآن مجید میں : و قوموا لله قانتین ۔ (سورہ البقرہ 238) ۔ کے الفاظ میں موجود ہے ، اور خضوع و خشوع کا ایک اہم حصّہ یہ ہے کہ حالت نماز میں نظریں پیشانی کے مقام پر رکھی جائیں ۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ینبغی للمصلي اذا قام في صلاتہ أن یرمي ببصرہ الی موضع سجودہ ، وہو قول أبی حنیفة رحمۃ اللہ علیہ ۔ (المٶطا باب وضع الیمین علی الیسار حدیث نمبر۲۹۱) ۔ غور کیجیے کہ قرآن مجید میں یا موبائل فون میں دیکھ کر قرآن پڑھنے سے اس مستحب پر عمل کرنا ممکن ہو گا ؟
قرآن مجید کے اوراق کو پلٹنا اور رکوع سجدہ کے وقت قرآن رکھنا اور پھر اٹھانا اور ورق گردانی کرنا یا موبائل فون کھولنا اور آف آن کرنا کیا اتنے سارے عمل کو عمل کثیر نہیں کہا جایے گا ؟
ایک نظر عمل کثیر کی حقیقت پر بھی ڈالیے عمل کثیر سے فتاوی ہندیہ میں مذکور ہے : العمل الكثير يفسد الصلاه والقليل لا كذا في محيط السرخسى واختلفوا في الفاصل بينهما على ثلاثه اقوال الاول ان ما يقام باليدين عادة كثير وان فعله بيد واحدة .... والثالث انه لو نظر اليه ناظر ان كان لا يشك انه في غير الصلاة فهو كثير مفسد، وإن شك فليس بمفسد وهذا هو الاصح هكذا في التبيين. وهو احسن كذا في محيط السرخسى. وهو اختيار العامة كذا في فتاوى قاضي خان و الخلاصة ۔ (الفتاوى الهندية جلد ١ صفحہ ١٠١ - ١٠٢ الباب السابع في ما يفسد الصلاة،چشتی)
اب اس کی روشنی میں دیکھیے اگر یہ عمل کثیر نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟
حالتِ نماز میں تلاوت کرنے والوں نے بڑا غلط استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل کثیر نہیں ہے ، دلیل یہ دی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی نواسی کو حالتِ نماز میں اٹھاتے اور رکوع کے وقت کھڑا کردیتے ، تو یہ عمل کثیر نہیں تھا ، اب اگر بچی اٹھانے اور بٹھانے کو عمل کثیر نہیں کہا جاسکتا ہے تو حالتِ نماز میں واٹس آپ چلانے ، فیسبک چلانے ایک دوسرے کو میسیج کرنے ، دونوں ہاتھ سے پسینہ صاف کرنے اور مچھروں کو بھگانے اور یوٹیوب کھول کر سرچ کرنے کو بھی عمل کثیر نہیں کہنا چاہیے ؟ یعنی موبائیل میں تلاوت کرتے کرتے اگر کسی کا واٹس آپ میسیج آجائے تو واٹساپ پر آکر میسیج کا جواب دے دینا چاہیے ، فیس بک پر کچھ شیئر کر کے پھر آگے نماز بڑھانی چاہیے ؛ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بچی کو اٹھایا ، کھڑا کیا اور جوتا پہنا ، کیونکہ یہ کام اس کے مقابلے میں تو عمل قلیل ہوئے ، سوچیے کیا یہ نماز کا مزاق اڑانے کے مترادف نہیں ہو گا ؟ کیا کوئی صاحب عقل و دانش اس کی ترغیب دے گا ؟
پھر اس سلسلے میں دیگر اہل علم و تحقیق کی تحقیقات پر بھی نظر ڈالىے کیا وہ حضرات بھی اس کے قائل ہیں ؟ سب سے پہلے صحابی رسول حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی بات دیکھیے ؛ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نماز میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کو برا سمجھتے تھے اور اسے اہل کتاب کا طریقہ بتاتے تھے : عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ کَانَ یَکْرَہُ أَن یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ النَّاسَ بِاللَّیْلِ فِيْ شَہْرِ رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ ہُوَ مِنْ فِعْلِ أَہْلِ الْکِتَابِ ۔ (تاریخ:۹/۱۲۰ الخطيب البغدادي) ۔ غور کیجیے کہ صحابی جلیل تو اس کو اہلِ کتاب کا طریقہ بتلا رہے ہیں اور دونوں ندوی حضرات اس کا انکار کر رہے ہیں ، اب صحابی کی بات مانی جائے گی یا ان حضرات کی ؟
حضرت سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے ایک صاحب کو قرآن مجید دیکھ کر پڑھتے دیکھا تو ان کا قرآن لے کر الگ رکھ دیا : عن سويد بن حنظلة رضي الله عنه أنه مر بقوم يؤمهم رجل في المصحف فكره ذلك في رمضان ونحا المصحف ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف 7301 - ط. عوّامة = 7224 ط. الرشد)(وابن أبي داود في المصاحف 786، 787 ط. البشائر الإسلامية و سنده صحيح) ۔ غور کیجیے کہ صحابی اس عمل پر روک لگا رہے ہیں ہیں جبکہ ہمارے زمانے کے محققین اس کی ترغیب دے رہے ہیں ، کیا صحابی رضی اللہ عنہ کی رائے کے مقابلے میں ان حضرات کی بات درست ہو سکتی ہے ؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ہم لوگوں کو حالت نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے سے قطعا منع فرما دیا تھا : عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال : نہانا أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ أن نؤمَّ الناس في المصحف ونہانا أن یؤمنَّا إلا المحتلم ۔ (کنز العمال ۸؍۱۲۵ رقم: ۲۲۸۳۲، إعلاء السنن ۵؍۶۱ رقم: ۱۴۱۷،چشتی) ۔ کیا آج کے علماء حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے زیادہ شریعت اسلامی کے مزاج شناس ہیں ؟
شہر مدینہ کے سب سے بڑے عالم امام مالک رحمۃ اللہ علیہ حالتِ اضطرار یعنی جب آدمی کو کچھ بھی زبانی یاد نہ ہو تو دیکھ کر پڑھنے کی اجازت دیتے تھے ورنہ نہیں : سمعت مالکا سُئل عمن یوٴم الناس في رمضان في المصحف ؟ فقال لا بأس بذلک إذا اضطروا إلی ذلک ۔ (کتاب المصاحف : ۱۹۳)
جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ بھی اسی وقت اس کی اجازت دیتے تھے جب آدمی زبانی پڑھنے پر قادر نہ ہو : عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ يَؤُمَّ فِي الْمُصْحَفِ إذَا لَمْ يَجِدْ يَعْنِي مَنْ يَقْرَأُ ظَاهِرًا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2 صفحہ 338 حدیث نمبر 7299)
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ جو نہایت بلند درجہ کے عالم و فقیہ تھے وہ کہتے تھے کہ جو یاد ہو وہی بار بار پڑھو مگر قرآن دیکھ کر نہیں پڑھنا : عن سعيد والحسن ، أنهما قالا : في الصلاة في رمضان : تردد ما معك من القرآن ولا تقرأ في المصحف إذا كان معك ما تقرأ به في ليلته ۔ (كتاب المصاحف صفحہ 775 , 776)(مصنف ابن أبي شيبة جلد 2 صفحہ 339)
حضرت امام محمد ابن سیرین رضی اللہ عنہ قرآن دیکھ کر نہیں پڑھتے تھے جہاں بھولتے وہاں قرآن سے مراجعت کرلیتے : کان ابن سیرین یصلی والمصحف إلى جنبہ فإذا تردد نظر فیہ ۔ (المصاحف حدیث نمبر 813)(مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر 3931،چشتی)
ظاہریہ کے امام اور وسیع النظر عالم ابنِ حزم بھی قرآن دیکھ کر قراءت کے قائل نہیں تھے جبکہ وہ ظاہر حدیث پر عمل میں مشہور ہیں ابن حزم لکھتے ہیں : ولا یحل لأحد أن یوٴم وھو ینظر ما یقرأ بہ في المصحف لا في فریضة ولا نافلة، فإن فعل عالما بأن ذلک لایجوز بطلت صلاتہ وصلاة من ائتم بہ عالما بحالہ عالما بأن ذلک لا یجوز ۔ (المحلی جلد ۳ صفحہ ۱۴۰)
دنیائے اسلام کے مجتھد اور تابعی اعظم امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا تحقیقی فتویٰ ہے کہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا درست نہیں ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے : وإن قرأ المصلي القرآن من المصحف أو من المحراب تفسد صلاتہٗ عند أبي حنیفۃ ۔ (حلبی کبیر صفحہ ۴۴۷ لاہور)
وإذا قرأ الإمام من المصحف فسدت صلا تہ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ ۔ (حلبي کبیر صفحہ ۴۴۷)(ہدایۃ جلد ۱ صفحہ ۱۳۷)
وقراء ۃ ما لا یحفظہ من مصحف ۔ (مراقي الفلاح)
ولأبي حنیفۃ في فسادہا وجہان: أحدہما: أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عملٌ کثیرٌ الخ۔ والثاني: أنہ تلقن من المصحف فصار کما لو تلقن من غیرہ وہو مناف للصلاۃ، وہٰذا یوجب التسویۃ بین المحمول وغیرہ فتفسد بکل حال وہو الصحیح، کذا في الکافي ۔ (طحطاوي علی المراقي صفحہ ۲۳۶ أشرفي)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے کہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے ہاں بحالت مجبوری درست ہے "ما یعجبني إلا یضطر إلی ذلک ۔ (فتح الرحمن صفحہ ۱۲۷)
آپ تمام فرض ، واجب اور نفل نمازوں میں قرآن کریم کا وہی حصہ تلاوت کریں جو آپ کو حفظ یا زبانی یاد ہے ۔ مزید سورتیں اور آیات یاد کرنے کی کوشش کریں ۔ اگر نوافل میں طویل تلاوت کا دل چاہ رہا ہو تو ہر رکعت میں وہ تمام آیات اور چھوٹی سورتیں تلاوت کر لیں جو آپ کو یاد ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ، پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو ۔ (سورہ الْمُزَّمِّل آیت نمبر 20)
حدیث مبارکہ میں بھی سورہ فاتحہ کے ساتھ جو قرآن سے میسر آئے یعنی جتنا آسانی سے یاد ہو وہی ملانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : أَمَرَنَا نَبِیُّنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَمَا تَیَسَّرَ ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سورہ فاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم سے میسر ہو پڑھا کریں ۔ (أحمد بن حنبل المسند جلد 3 صفحہ 45 رقم : 11433 مصر مؤسسة قرطبة)(أبي داود السنن جلد 1 صفحہ 216 رقم : 818 دار الفکر بیروت،چشتی)
نماز میں دیکھ کر قرآن پڑھنا مفسد صلاة ہے اس لیے کہ یہ تلقن من الخارج ہے جو کہ مفسد صلاة ہے جس طرح کسی خارجِ نماز شخص سے لقمہ لینا مفسد ہے شامی میں ہے : إنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ ۔ (الدر مع الرد جلد ۲۸ صفحہ ۳۸۴) ۔ نیز اعلاء السنن میں ابوداوٴد اور ترمذی کی ایک روایت سے اس پر ا ستدلال کیا گیا چنانچہ اعلاء السنن میں ہے : عن رفاعة بن رافع أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علّم رجلاً الصلاة فقال : إن کان معک قرآنا فاقرأ وإلا فاحمد اللہ وکبّرہ وہللہ ثم ارکع ۔ رواہ ابوداوٴد والترمذي، وقال حدیث حسن ۔ فنقول : لوکانت القرأة منہ مباحة في الصلاة غیر مفسدة لہا کما زعمہ بعضہم لکان ذلک واجبًا علی العاجز عن الحفظ لکونہ قادرًا علی القرأة من وجہ ۔ (اعلاء السنن جلد ۵ صفحہ ۵۹)
ترجمہ : حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک شخص کو نماز سکھلائی پھر اس سے فرمایا : اگر تمھارے پاس کچھ قرآن ہے یعنی تمھیں اگر قرآن کا کچھ حصہ حفظ ہے تو (نماز میں) اسے پڑھو ورنہ (قرأت کی جگہ) اللہ کی حمد کرو اور تکبیر وتہلیل پڑھو ، اس حدیث کو ابوداوٴد اور ترمذی نے روایت کیا ، پھر فرمایا : (یہ حدیث) حسن ہے ، میں (صاحب اعلاء السنن) کہوں گا : نماز میں دیکھ کر قرآن پڑھنا اگر مباح ہوتا ، مفسد صلاة نہ ہوتا جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے تو حفظ سے عاجز شخص پر (نماز میں دیکھ کر تلاوت کرنا) واجب ہوتا ، اس لیے کہ وہ من وجہٍ تلاوت پر قادر ہے ۔
آئمہ احناف علیہم الرّحمہ کے مطابق قرآنِ پاک سے دیکھ کر امامت کرنا مفسد نماز ہے چاہے فرض ہو ، یا نفل یاتراویح ، محمول یاموضوع علی الرحل ہو ، علی القول الصحیح ، سب کا یہی حکم ہے ، اس لیے حنفی المسلک کےلیے ایسا امام جوکہ دوران اقامت دیکھ کر قراءت کرتا ہو کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔ (المجموع بشرع المھذب “للامام النووی رحمۃ اللہ علیہ جلد 4 صفحہ 95)(وفی الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی جلد1 صفحہ 63،چشتی)(وتحتہ فی حاشیۃ ابن عابدین وکذا فی “الفتاوی الھندیۃ جلد 1 صفحہ 101)(وفی “المختار للفتوی جلد 1 صفحہ 62)(وتحتہ فی الاختیار لتعلیل المختار)
نماز میں مصحف شریف سے دیکھ کر قرآن پڑھنا مطلقاً مفسد نماز ہے ، يوہيں اگر محراب وغيرہ ميں لکھا ہو اسے ديکھ کر پڑھنا بھی مفسد ہے، ہاں اگر یاد پر پڑھتا ہو مصحف یا محراب پر فقط نظر ہے ، تو حرج نہیں ۔ (''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ... إلخ، جلد ۲ صفحہ ۴۶۳)
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قرآن کریم کو دیکھ کر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ، خواہ ہاتھوں میں اُٹھا کر پڑھا جائے یا محض لکھے ہوئے کو دیکھ کر پڑھا جائے ۔ اِس لئے کہ اگر ہاتھوں میں اُٹھاکر پڑھائے جائے اور صفحے پلٹے جائیں تو عملِ کثیر لازم آتا ہے اور اگر کہیں رکھا یا لکھا ہوا دیکھ کر پڑھائے تب بھی ”تلقّن من المُصحف“ یعنی قرآن کریم سے سیکھنے کا معنی پایا جاتا ہے جو کسی شخص سے سیکھنے کی طرح ہے اورمفسدِ صلاۃ ہے ۔ ہاں ! اگر کوئی شخص حافظ ہو اور بغیر اُٹھائے اپنے حافظہ سے پڑھے اور پڑھتے ہوئے صرف قرآن کریم پر نظر پڑ جائے تو نماز فاسد نہ ہو گی ، اِس لیے کہ اِس میں عملِ کثیر اور ”تلقّن من المُصحف“ دونوں میں سے کوئی معنی نہیں پایا جاتا ۔ حضرات صاحبین کے نزدیک قرآن کریم کو دیکھ کر پڑھنا کراہت کے ساتھ جائز ہے ۔ خلاصہ یہ ہے : نماز کے دوران اگر ہاتھوں میں لے کر قرآن کریم پڑھا جائے تو بالاتفاق نماز فاسد ہو جائے گی ۔ کہیں رکھا یا لکھا ہوا ہو اور اُسے دیکھ کر صرف سمجھ لیا جائے تو نماز فاسد نہیں ہو گی ۔ نماز پڑھنے والا حافظ ہو اور اُس کی وجہ سے دیکھ کے خود اپنے حافظہ سے پڑھے تو نماز فاسد نہ ہو گی ۔ (الدر المختار جلد 1 صفحہ 624)
نماز کے دوران قرآن کریم کو دیکھ کر تلاوت کی جاسکتی ہے یا نہیں ، اِس میں اختلاف ہے : ⏬
شوافع و حنابلہ رحمہم اللہ علیہم : جائز ہے ، دیکھ کر تلاوت کی جا سکتی ہے ۔ مالکیہ اور صاحبین رحمہم اللہ علیہم : کراہت کے ساتھ جائز ہے ۔ اِمام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ : نماز کے دوران قرآنِ کریم کو دیکھ کر تلاوت کرنا جائز نہیں ، اِس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ جلد 33 صفحہ 57،چشتی)۔(الدر المختار جلد 1 صفحہ 624)
نماز کے دوران ایسا کوئی عمل کرنا جو ”عملِ کثیر“ کی تعریف میں آتا ہو ، نما زکو فاسد کردیتا ہے ، بشرطیکہ : (1) وہ عمل نماز کی جنس میں سے نہ ہو۔پس ایک رکعت میں دو رکوع یا تین سجدے عملِ کثیر نہ ہوں گے ۔ (2) وہ عمل نماز کی اِصلاح کی غرض سے نہ کیا جائے ۔ پس دورانِ نماز حدث لاحق ہونے کی صورت میں وضو کیلئے جو آنا جانا کیا جاتا ہے وہ عملِ کثیر نہ ہوگا کیونکہ وہ اِصلاح کی غرض سے ہے ۔ (الدر المختار جلد 1 صفحہ 624)
اب غور کیجیے کہ اتنے جلیل القدر صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اور ائمہ مجتہدین علیہم الرّحمہ کی تحقیقات غلط ہیں ؟ کیا انہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اثر (جس کا جواب آگے آ رہا ہے) معلوم نہیں تھا ، ضرور معلوم تھا مگر وہ اس عمل کو غیر راجح اور قابلِ تاویل سمجھتے تھے ۔
حالتِ نماز قرآنِ کریم یا موبائل سے دیکھ کر تلاوت کرنے کے قائلین حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی روایت پیش کرتے ہیں آئیے اس روایت کے متعلق پڑھتے ہیں : ⏬
حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : أَمَرَنَا نَبِیُّنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَمَا تَیَسَّرَ ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سورہ فاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم سے میسر ہو پڑھا کریں ۔ (أحمد بن حنبل، المسند جلد 3 صفحہ 45 رقم : 11433 مصر مؤسسة قرطبة)(أبي داود السنن جلد 1 صفحہ 216 رقم 818 دار الفکر)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے منقول روایت کو سمجھنے سے قبل چند باتیں ذہن نشین کر لینی چاہیں : ⏬
(1) نماز میں دیکھ کر قرآن کریم پڑھنے سے متعلق قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ : ⏬
قرآن میں مذکور ہے : فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔ (البقرة آیت ۱۴۴)
ترجمہ : اب آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی سمت کرلیں ۔
اس آیت کریمہ کے مفہوم کا تقاضہ ہے کہ نماز میں چہرے کا رخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے ، جبکہ نماز میں تلاوت کرنے کی صورت میں چہرے کے زخ کو پھیرنا پڑے گا جو کہ قرآنی مطلوب کے خلاف ہے ۔
چنانچہ سعودی عرب کے مفتی شیخ ابن باز نے لکھا : یتوجہ المصلي الی القبلة أینما کان بجمیع بدنہ ۔ (ہدایة الحائرین صفة صلاة النبی صفحہ ۲۹۷)
ترجمہ : مصلی جہاں کہیں بھی ہو استقبال قبلہ ضروری ہے ، بدن کے ایک ایک عضو کے ساتھ ۔
نماز ی کےلیے مستحب یہ ہے کہ اس کی نگاہ سجدہ کی جگہ پر ہو ، جبکہ دیکھ کر قرآن پڑھتے ہوئے ، نگاہ یقیناً قرآن مجید کے صفحات و حروف پر ہو گی ، اور نماز کا یہ ادب فوت ہو جائے گا ۔
محدث الوہابی شیخ ناصر البانی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پڑھنے کی کیفیت کے بارے میں لکھا : وَکَانَ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی طَأْطَأَ رَأْسَہُ وَرَمٰی بِبَصَرِہِ نَحْوَ الأَرْضِ ۔ (أصل صفة صلاة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد ۱ صفحہ ۲۳۰)
ترجمہ : جب آپ نماز پڑھتے تو سر کو جھکائے رکھتے اور نگاہ کو زمین کی طرف لگائے رکھتے تھے ۔
ترمذی شریف کی روایت ہے : فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوْا فَإِنَّ اللّٰہَ یَنْصِبُ وَجْہَہُ لِوَجْہِ عَبْدِہِ فِيْ صَلَاتِہِ مَا لَمْ یَلْتَفِتْ ۔ (سنن الترمذی حدیث : ۲۸۶۳،چشتی)(مستدرک الحاکم، حدیث:۸۶۳)
ترجمہ : جب نماز پڑھو تو اِدھر اُدھر نہ دیکھو ؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نماز میں اپنا چہرہ بندہ کے چہرہ کی طرف اس وقت تک کیے رکھتے ہیں ؛ جب تک بندہ اپنا رخ نہیں پھیرتا ۔
مستدرک حاکم کی روایت میں ہے : دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الْکَعْبَةَ مَا خَلَفَ بَصَرُہُ مَوْضِعَ سُجُوْدِہِ حَتّٰی خَرَجَ مِنْہَا ۔ (المستدرک للحاکم، حدیث نمبر ۱۷۶۱)
ترجمہ : جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے تو اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ سے نہیں اٹھائی ؛ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ سے باہر تشریف لے آئے ۔
امام کے نزدیک اہلِ علم کے کھڑے ہونے کی ھدایت اور اس کی حکمت : ⏬
صحیح مسلم کی روایت ہے : لِیَلِنِيْ مِنْکُمْ أُوْلُوا الأَحْلَامِ وَالنُّہٰی ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۴۳۲)
ترجمہ : نماز میں میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو سمجھدار اور صاحبِ علم ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد درحقیقت امت کےلیے یہ تعلیم تھی کہ امام کے پیچھے اور امام کے قریب صاحبِ علم اور صاحبِ فہم و ذکاء لوگ ہوں ، تاکہ نماز میں اما سے اگر کوئی بھول چوک ہو جائے ، تو یہ امام کو لقمہ دے کر اصلاح کر دیں ۔
اگر قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات ارشاد نہ فرماتے ۔
الغرض آپ کا یہ ارشاد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام کےلیے نماز میں دیکھ کر قرآن پڑھنا منع ہے ۔
بخاری شریف کی روایت میں : صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِي أُصَلِّيْ ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۶۳۱)
ترجمہ : اس طرح نماز پڑھو جیسے تم لوگ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ آپ سے اور نہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے نماز میں دیکھ کر قرآن پڑھنا ثابت نہیں ہے ۔
سنن ابی داؤد کی روایت ہے : عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ ۔ (سنن أبي داود حدیث نمبر ۴۶۰۷)
ترجمہ : میری سنت (میرے طریقے) کو اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت (کے طریقے) کو لازم پکڑو ۔
خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ، بلکہ سیدنا حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں ممانعت ضرور ثابت ہے ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : نَہَانَا أمیرُ المُوٴمِنِیْنَ عُمَرُ رضی اللّٰہ عنہ أَن یَوٴُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ، وَنَہَانَا أَن یَّوٴُمَّنَا اِلَّا الْمُحْتَلِمُ ۔ (کتاب المصاحف ہل یوم القرآن فی المصحف صفحہ ۱۸۹،چشتی)
ترجمہ : ہمیں امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس بات سے منع کیا کہ امام قرآن دیکھ کر امامت کرے اور اس بات سے منع کیا کہ نابالغ امامت کرے ۔
اب رہی بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے عمل کی تو یہ ان کا ذاتی اجتہاد تھا اور مجتھد کو اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں حرج نہیں ، نیز ان کا یہ اجتہاد ان اجتہادات میں سے ہے جن کو جمہور امت نے قبول نہیں کیا ہے ، خود کتب حدیث میں ایسی صحیح روایات موجود ہیں جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں لیکن امت نے انہیں قبول نہیں کیا ہے مثلاً یہی روایت دیکھیے کہ کیا اس کو امت نے قبول کیا ہے اور اگر قبول بھی کیا ہے تو اس میں تاویل سے کام لیا ہے : عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : مَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبُولُ قَائِمًا فَلَا تُصَدِّقُوهُ، مَا كَانَ يَبُولُ إِلَّا قَاعِدًا ۔ (سنن الترمذي رقم الحديث ١٢ أبْوَابٌ الطَّهَارَةُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَابٌ النَّهْيُ عَنِ الْبَوْلِ قَائِمًا)
محدث الوہابیہ شیخ ناصر البانی نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ حضرت ذکوان کا یہ عمل ان کا خصوصی عمل تھا یہ عمومی بات نہیں تھی "لا نری ذلک، وما ذکر عن ذکوان حادثة عین لاعموم لہا ، وبإباحة ذلک لأئمة المساجد یوٴدي بہم إلی ترک تعاہد القرآن والعنایة بحفظہ غیبا وہذا خلاف قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: تعاہدوا القرآن فوالذي نفسي بیدہ لہو أشد تفصیا من الإبل في عقلہا، ومعلوم أن للوسائل حکم الغایات کقولہم مالا یقوم الواجب إلا بہ فہو واجب وما یوٴدي إلی معصیة فہو معصیة ۔ (فتح الرحمن صفحہ ۱۲۴ ، ۱۲۵)
جہاں تک بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوران نماز اپنی نواسی کو اٹھانے اور کھڑا کرنے کی تو عرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس عمل سے لڑکیوں کی عظمت و عزت کو بتایا تھا ، چونکہ عرب میں لڑکیوں کی ناقدری تھی تو آپ نے ان کی قدر و منزلت کے پیش نظر ایسا کیا ، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب نماز میں ایسے عمل کرنے کی ممانعت نہیں تھی ، تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص تھی یہی وجہ ہے کہ باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کثیر حرص کے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ایک طور طریقے پر عمل کرتے تھے اس طرح نماز پڑھنا کتب حدیث کی ایک بھی صحیح روایت میں موجود نہیں ہے ۔ نیز فقہاء و اصولین نے متضاد روایات کےلیے جو اصول ناسخ منسوخ ، راجح مرجوح وغیرہ بیان کئے ہیں ان اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل اس وقت کا ہے جب اس طرح کے عمل کرنے کی اجازت تھی ، اس لیے بعد کے حالات پر اس کو فٹ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا سلف صالحین علیہم الرّحمہ کے اقوال : ⏬
قتادہ، سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : عن قتادة عن ابن المسیب قال: إِذَا کَانَ مَعَہُ مَا یَقُوْمُ بِہِ لَیْلَہُ رَدَّدَہُ وَلاَ یَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ ۔
ترجمہ : اگر قیام اللیل میں پڑھنے کےلیے مصلی کو کچھ یاد ہے تو وہی بار بار پڑھے؛ لیکن قرآن دیکھ کر نہ پڑھے ۔
لیث ، مجاہد رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں : عن لیث عن مجاہد أنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَّتَشَبَّہُوْا بِأَہْلِ الْکِتَابِ یَعْنِيْ أَنْ یَّوٴُمَّہُمْ فِي الْمُصْحَفِ ۔
ترجمہ : وہ قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کو مکروہ قرار دیتے تھے، اس وجہ سے کہ اس میں اہل کتاب سے تشبہ ہے ۔
اعمش ، ابراہیم رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں : عن الأعمش عن إبراہیم قال: کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ أَنْ یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ کَرَاہِیَةً شَدِیْدَةً أَن یَّتَشَبَّہُوْا بِأَہْلِ الْکِتَابِ ۔
ترجمہ : اہل قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کو سخت ناپسند کرتے تھے؛ کیوں کہ اس میں اہل کتاب سے تشبہ ہے ۔ ان اقوال کے علاوہ بھی اور بہت سے آثار امام ابوداؤد رحمۃ الله علیہ نے نقل کیے ہیں ۔ (کتاب المصاحف صفحہ ۱۸۹ ، ۱۹۰، ۱۹۱،چشتی)
لہذا اکثر اہلِ علم نے اس کو مکروہ بتلایا ہے ۔
علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : إن ہذا الصنیع مکروہ بلا خلاف ۔ (بدائع الصنائع جلد ۲ صفحہ ۱۳۳)
ترجمہ : نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے ۔
علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کے متعلق فرمایا : وأما حدیث ذکوان فیحتمل أن عائشة ومن کان من أہل الفتوی من الصحابة لم یعلموا بذلک وہذا ہو الظاہر بدلیل أن ہذا الصنیع مکروہ بلا خلاف ولو علموا بذلک لما مکنوہ من عمل المکروہ في جمیع شہر رمضان من غیرحاجة، ویَحْتَمِلُ أن یکون قول الراوي کان یوٴم الناس في شہر رمضان وکان یقرأ من المصحف إخبارا عن حالتین مختلفین أي کان یوٴم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف في غیر حالة الصلاة ۔ (بدائع الصنائع جلد ۲ صفحہ ۱۳۳ ، ۱۳۴)
ترجمہ : سیدنا ذکوان رضی اللہ عنہ والی حدیث میں احتمال ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کو معلوم نہ ہوا ہو کہ وہ دیکھ کرپڑھ رہے ہیں اور یہی مناسب بھی معلوم ہوتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ (نماز میں) قرآن دیکھ کر پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے ۔ اگر انہیں اس حالت کاپتہ ہوتا تو ہرگز ایک مکروہ فعل کی اجازت نہ دیتے وہ بھی پورے مہینے بلا ضرورت کے ، اور یہ بھی احتمال ہے کہ راوی کا یہ قول کہ ”ذکوان رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کی امامت کرتے تھے اور قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے“ دو الگ الگ حالتوں کی خبر دینا ہے ، یعنی ذکوان رمضان میں لوگوں کی امامت کرتے تھے اور نماز سے باہر قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے ۔
اسی طرح کی بات علامہ عینی رحمة اللہ علیہ نے بھی کہی ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : أثر ذکوان إن صح فہو محمول علی أنہ کان یقرأ من المصحف قبل شروعہ في الصلاة أي ینظر فیہ ویتلقن منہ ثم یقوم فیصلي، وقیل مادل فإنہ کان یفعل بین کل شفعین فیحفظ مقدار ما یقرأ من الرکعتین، فظن الراوی أنہ کان یقرأ من المصحف ۔ (البنایة جلد ۲ صفحہ ۵۰۴،چشتی)
ترجمہ : اس اثر کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس بات پرمحمول ہوگا کہ ذکوان رضی اللہ عنہ نماز شروع کرنے سے پہلے قرآن دیکھتے تھے ، پھر ذہن نشین کرکے نماز پڑھاتے تھے ، ذکوان رضی اللہ عنہ ہر دورکعت بعد یہ عمل کرتے اور اگلی دو رکعت میں جتنا پڑھنا ہوتا وہ یاد کرلیتے ۔ اسی کو راوی نے اس طرح نقل کردیا کہ وہ قرآن دیکھ کر قرأت کرتے تھے ۔
نیز علامہ کاسانی اور علامہ عینی رحمة اللہ علیہما کی بات کی تائید اس اثر سے بھی ہوتی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے ”التلخیص الحبیر“ میں اور قاضی شوکانی نے ”نیل الاوطار“ میں ذکر کیا ہے ، اس اثر میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی بات ہی نہیں : عن ابن أبي ملیکة أنہم کانوا یأتون عائشة بأعلی الوادي ہو وعبید بن عمیر والمسور بن مخرمة وناس کثیر فیوٴمہم أبو عمر و مولی عائشة، وأبو عمر وغلامہا حینئذ لم یعتق ۔
(التلخیص الحبیر جلد ۲ صفحہ ۱۱۰،چشتی)(نیل الأوطار باب إمامة العبد الأعمی والمولی صفحہ ۵۸۶)
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عبید بن عمیر، مسور بن مخرمہ اور بہت سے لوگ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کے پاس آتے تھے ، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ابو عمرو سب کی امامت کرتے تھے اور وہ اس وقت تک آزاد نہیں ہوئے تھے ۔ اس اثر کے متعلق محدث الوہابیہ شیخ ناصر البانی نے لکھا ہے : وما ذکر عن ذکوان حادثة عین لا عموم لہا ۔ (فتح الرحمن صفحہ ۱۲۴)
ترجمہ : اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کےلیے سیدنا ذکوان کی امامت کا جو واقعہ ذکر کیا جاتا ہے وہ ایک جزوی اور خصوصی واقعہ ہے عمومی نہیں ہے ۔
تراویح یا کسی بھی نماز میں اگر نمازی قرآن کو دیکھ کر قرأت کرے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی : عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: نهانا أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنه أن نؤمَّ الناس في المصحف ونهانا أن یؤمنَّا إلا المحتلم ۔ (کنز العمال جلد 8 صفحہ 125 رقم : 22832)(إعلاء السنن جلد 5 صفحہ 61 رقم الحديث : 1417،چشتی) ۔ وإن قرأ المصلي القرآن من المصحف أو من المحراب تفسد صلاته عند أبي حنیفة ۔ (حلبی کبیر صفحہ 447 مطبوعہ لاهور) ۔ وإذا قرأ الإمام من المصحف فسدت صلا ته عند أبي حنیفة رحمه اللہ ۔ (حلبي کبیر صفحہ 447)(الهدایة جلد 1 صفحہ 137)
اگر کوئی شخص نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھتا ہے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی تھوڑا پڑھا ہو یا زیادہ لہٰذا نماز دوبارہ پڑھے گا اگر اس نے قرآن میں دیکھا اور سمجھ گیا لیکن زبان سے نہیں پڑھا تو اس کی نماز درست ہے لیکن مکروہ ہے لہٰذا اگر آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شجرہ مبارک زبان سے پڑھ لیا تو آپ کی نماز فاسد ہے دوبارہ پڑھنی ہو گی ۔ (الدر المختار جلد ١ صفحہ ۶۲۳) : وقراء تہ من مصحف ای مافیہ قرآن مطلقا لانہ تعلم وفی الشامیۃ قولہ ای مافیہ قرآن عممہ لیشمل المحراب فانہ اذا قرأ مافیہ فسدت فی الصحیح (قولہ مطلقا) ای قلیلا او کثیرا اماماً أو منفردا امیا لا یمکنہ القراء ۃ الا منہ اولا ۔
وفی الفقہ الاسلامی جلد ٢ صفحہ ۱۰۲۴ : ولا تفسد الصلوۃ بالنظر الی مکتوب وفھمہ غیر انہ مکروہ اما القراء ۃ من المصحف فتفسد الصلوۃ عند ابی حنیفۃ لان حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الاوراق عمل کثیر ولانہ یشبہ التلقین من الآخرین ۔
وقراء ۃ ما لا یحفظہ من مصحف۔ (مراقي الفلاح) وفي الطحطاوي: ولأبي حنیفۃ في فسادہا وجہان : أحدہما: أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عملٌ کثیرٌ الخ۔ والثاني: أنہ تلقن من المصحف فصار کما لو تلقن من غیرہ وہو مناف للصلاۃ، وہٰذا یوجب التسویۃ بین المحمول وغیرہ فتفسد بکل حال وہو الصحیح، کذا في الکافي ۔ (طحطاوي علی المراقي صفحہ ۲۳۶)
وَنَظَرٌ بِمُصْحَفٍ فِي فَرْضٍ ۔ (ش) يَعْنِي أَنَّهُ يُكْرَهُ قِرَاءَةُ الْمُصَلِّي فِي الْمُصْحَفِ فِي صَلَاةِ الْفَرْضِ وَلَوْ دَخَلَ عَلَى ذَلِكَ مِنْ أَوَّلِهِ لِاشْتِغَالِهِ غَالِبًا وَيَجُوزُ ذَلِكَ فِي النَّافِلَةِ إذَا ابْتَدَأَ الْقِرَاءَةَ فِي الْمُصْحَفِ لَا فِي الْأَثْنَاءِ فَكُرِهَ وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِهِ " أَوْ أَثْنَاءَ نَفْلٍ لَا أَوَّلَهُ ۔ (شرح مختصر خليل للخرشي فقه مالكي)
قوله : إذا قرأ في الصلاة من المصحف صحت صلاته عندنا، وكذا إذا قرأ من موضع مكتوب فيه من جدار، أو غيره، سواء أمكنه القراءة عن ظهر القلب، أو لم يمكنه ذلك ۔
وقال أبو حنيفة: بطلت صلاته، ولو وقع بصره على شيء مكتوب في المحراب، سوى القرآن، وجعل ينظر فيه، ولم يتلفظ به لم تبطل صلاته ۔ (التعليقة للقاضي حسين فقه شافعي)
وقراء ۃ ما لا یحفظہ من مصحف ۔ (مراقي الفلاح) وفي الطحطاوي : ولأبي حنیفۃ في فسادہا وجہان : أحدہما: أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عملٌ کثیرٌ الخ ۔ والثاني : أنہ تلقن من المصحف فصار کما لو تلقن من غیرہ وہو مناف للصلاۃ ، وہٰذا یوجب التسویۃ بین المحمول وغیرہ فتفسد بکل حال وہو الصحیح، کذا في الکافي ۔ (طحطاوي علی المراقي صفحہ ۲۳۶)
نماز میں قرآن مجید میں سے دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اسی پر فتویٰ ہے ۔ ویفسد ھاقر أتہ من مصحف عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ وقالا لایفسد۔ لہ ان حمل المصحف وتقلیب الاوراق والنظر فیہ عمل کثیر وللصلوٰۃ عنہ بدّ۔ وعلی ہذا لوکان موضوعا بین یدیہ علی رحل وھولا یحمل ولا یقلب اوقرأ المکتوب فی المحراب لاتفسد ولان التلقن من المصحف تعلم لیس من اعمال الصلوۃ وھذا یوجب التسویۃ بین المحمول وغیرہ فتفسد بکل حال وھوا لصحیح ھکذا فی الکافی ۔ (فتاویٰ ہندیۃ جلد ۱ صفحہ ۱۰۱)
نماز کے دوران قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنے یا دیکھ کر سننے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ، نیز جو آدمی امام کے پیچھے اقتدا کی نیت کرکے نماز میں شریک نہ ہو اس کےلیے غلطی بتانا اور لقمہ دینا درست نہیں ہے ، اگر لقمہ دیا اور امام نے لقمہ لے لیا تو سب کی نماز فاسد ہو جائے گی ۔ لہٰذا تراویح میں سامع نہ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص قرآن کھول کر سماعت کرے اور غلطی آنے پر امام کو لقمہ دے اور امام اس کا لقمہ لے لے تو امام اور اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے والے سب مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی ۔ (فتاوی شامی جلد 1 صفحہ 622 ، 623)(فتاوی ہندیہ جلد 1 صفحہ 99)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment