انگریز کا ایجنٹ مرزا غلامِ احمد قادیانی
محترم قارئینِ کرام : جب انگریزی استعمار اپنے تمام تر مظالم اور جبر و استبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد ختم نہ کرسکا تو 1869ء کے اوائل میں برٹش گورنمنٹ نے ممبران برٹش پارلیمنٹ ‘ برطانوی اخبارات کے ایڈیٹرز اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سر ولیم میور کی قیادت میں ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو رام کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کیا جا سکے ۔ برطانوی وفد ایک سال تک برصغیر میں رہ کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کرتا رہا ۔ 1870ء میں وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا جس میں اس وفد نے برطانوی راج کی ہندوستان میں آمد کے عنوان سے دو رپورٹس پیش کیں ۔ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے سوا تمام مذاہب کو کفریہ مذاہب سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مسلح جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دے کر‘ جہاد کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔ چونکہ مسلمانوں کے مذہبی عقیدہ کے مطابق انگریزی حکومت ‘ کافر حکومت ہے ۔ اس لیے مسلمان اس حکومت کے خلاف بغاوت اور جہاد میں مصروف رہتے ہیںجو برطانوی حکومت کےلیے مشکلات کا سبب ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے ۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو انگریز حکومت کے جواز اور اس کے خلاف بغاوت و جہاد کے حرام ہونے کی بابت الہامی سند پیش کردے تو ایسے شخص کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کےلیے مفید کام لیا جاسکتا ہے ۔ ان رپورٹس کو مدنظر رکھ کر برطانوی حکومت کے حکم پر ایسے موزوں شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام کےلیے سند مہیا کر سکے اور جس کے نزدیک تاج برطانیہ کا ہر حکم وحی کے مترادف ہو ۔ ایسے شخص کی تلاش ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ ‘ پارنکسن کے ذمہ لگائی گئی ۔ جس نے برطانوی ہند کی سینٹرل انٹیلی جنس کی مدد سے کافی چھان بین کے بعد چار اشخاص کو اپنے دفتر طلب کرکے انٹرویو کیے ۔ بالآخر ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی کو برطانوی مفادات کے تحفظ کےلیے نامزد کرلیا گیا اور اس کی سرکاری سرپرستی شروع کردی گئی۔ مرزا قادیانی کیوں برطانوی مفادات کے تحفظ کےلیے موزوں ترین شخص تھا ؟ اس لیے کہ اس کا خاندان شروع سے ہی برطانوی سامراج کی خدمت اور کاسہ لیسی میں مشہور تھا ۔ اس کا اعتراف خود مرزا قادیانی نے اپنی متعدد تحریروں میں کیا ہے بطور نمونہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔
گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ خاندان : ⏬
میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا‘ جن کو دربار گورنری میںکرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریز کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے عین زمانہ عذر کے وقت سرکار انگریز کی امداد میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں‘ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے محاذ پر مفسدوں کا سرکار انگریز کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریز کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا ۔ (کتاب البریہ صفحہ 5,4,3‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 6,5,4)
پچاس برس سے وفادار جانثار خاندان : ⏬
سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کرمجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا ۔ (مجموعہ اشتہارات جلد سوئم صفحہ 21 از مرزا غلام احمد قادیانی)
سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں پچاس الماریاں : ⏬
میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی ہیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصراور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں‘ ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں ۔ (تریاق القلوب صفحہ 28 , 27 مندرجہ ذیل روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 156 ,155 از مرزا غلام احمد قادیان)
مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے : ⏬
میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے‘ ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے ۔ (مجموعہ اشتہارات جلد سوئم صفحہ 19 از مرزا غلام احمد قادیانی)
برطانوی گورنمنٹ کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے : ⏬
بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے‘ یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے‘ اس سے جہاد کیسا ۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے ۔ (اشتہارات القرآن صفحہ 84 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 380،چشتی)
جیسی خدا تعالیٰ کی اطاعت ویسی اس سلطنت کی اطاعت : ⏬
سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہرکرتا ہوں‘ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں‘ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو‘ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے ۔ (اشتہارات القرآن صفحہ 84 مندرجہ روحانی خزائن جلد صفحہ 380)
انگریز سلطنت ایک رحمت و برکت ہے : ⏬
سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو ۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریز سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے ۔ تمہارے لئے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے ۔ پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو ۔ (مجموعہ اشتہارات جلد سوئم صفحہ 584 از مرزا غلام احمد قادیانی)
دنیا میں آنے کا مقصد گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی : ⏬
ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیرخواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ ۔ ہمارا اصول ہے ۔ ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقص امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے ۔ (کتاب البریہ صفحہ 17 اشتہار مورخہ 20 ستمبر 1897ء مندرجہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 18 مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
قادیانی بیعت کی شرط : ⏬
اس تمام تقریر سے جس کے ساتھ میں نے اپنی سترہ سالہ مسلسل تقریروں سے ثبوت پیش کیے ہیں ، صاف ظاہر ہے کہ میں سرکار انگریزی کا بدل و جان خیر خواہ ہوں اور میں ایک شخص امن دوست ہوں اور اطاعت گورنمنٹ اور ہمدردی بندگان خدا کی میرا اصول ہے اور یہ وہی اصول ہے جو میرے مریدوں کی شرائط بیعت میں داخل ہے ۔ (کتاب البریہ صفحہ 9 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 10 از مرزا قادیانی)
انگریز کی مدد کےلیے ہر وقت طیار : ⏬
ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے ہیں اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیر خواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ ہمارا اصول ہے۔ ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقص امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لیے طیار ہیں۔اور خدا تعالیٰ کا شکرکرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے ۔ (کتاب البریہ صفحہ17 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 18 از مرزا قادیانی)
انگریز کی نمک پروردہ جماعت : ⏬
غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہیں ۔ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم، صفحہ 20 از مرزا قادیانی)
قادیانی جماعت انگریز کی وفادار جماعت : ⏬
جماعت جو میرے ساتھ تعلق بیعت و مریدی رکھتی ہے۔ وہ ایک ایسی سچی، مخلص اور خیرخواہ اِس گورنمنٹ کی بن گئی ہے کہ مَیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی نظیر دُوسرے مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی۔ وہ گورنمنٹ کے لیے ایک وفادار فوج ہے، جن کا ظاہر و باطن، گورنمنٹ برطانیہ کی خیرخواہی سے بھرا ہوا ہے ۔ (ستارہ قیصریہ صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12 ، صفحہ 264 از مرزا قادیانی)
قادیانی جماعت کی خصوصیت : ⏬
آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے، جو برٹش انڈیا کے متفرق مقامات میں آباد ہے اور ہر ایک شخص، جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے، اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعاً حرام ہے کیونکہ مسیح آ چکا۔ خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ اس کو بننا پڑتا ہے ۔ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ضمیمہ، صفحہ 6، 7، مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 28، 29 از مرزا قادیانی)
قادیانی جماعت کے لیے ضروری نصیحت : ⏬
میں اپنی جماعت کے لوگوں کو، جو مختلف مقامات پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہیں، جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک ان کا شمار پہنچ گیا ہے، نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری اس تعلیم کو خوب یاد رکھیں، جو قریباً سولہ برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں، یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری اطاعت کریں، کیونکہ وہ ہماری محسن گورنمنٹ ہے۔ ان کی ظل حمایت میں ہمارا فرقہ احمدیہ چند سال میں لاکھوں تک پہنچ گیا ہے اور اس گورنمنٹ کا احسان ہے کہ اس کے زیر سایہ ہم ظالموں کے پنجہ سے محفوظ ہیں ۔ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 708 طبع جدید ازمرزا قادیانی)
گورنمنٹ کے لیے دلی جان نثار : ⏬
جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے لبالب ہیں۔ ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لیے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لیے دلی جان نثار ۔ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 66، 67 طبع جدید، از مرزا قادیانی)
انگریز کے ساتھ مل کر لڑناقادیانی حکومت کے قیا م کےلیے ضروری : ⏬
ایک صاحب نے عرض کیا کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت کی حفاظت اور ان کی کامیابی کے لیے حضرت مسیح موعود نے کیوں دُعائیں کیں۔ حضور (مرزا بشیر الدین محمود) بھی ان کی کامیابی کے لیے دعا کرتے ہیں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو جنگ میں مدد دینے کے لیے بھرتی ہونے کا ارشاد فرماتے ہیں، حالانکہ انگریز مسلمان نہیں۔ اس کے جواب میں حضور (مرزا بشیر الدین محمود) نے جو ارشاد فرمایا، اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔’’فرمایا، اس سوال کا جواب قرآن حکیم میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو نظارے دکھائے گئے، ان میں ایک یہ تھا کہ ایک گری ہوئی دیوار بنا دی گئی جس کی وجہ بعد میں یہ بیان کی گئی کہ اس کے نیچے خزانہ تھا جس کے مالک چھوٹے بچے تھے۔ دیوار اس لیے بنا دی گئی کہ ان لڑکوں کے بڑے ہونے تک خزانہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگے اور ان کے لیے محفوظ رہے۔ دراصل حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی جماعت کے متعلق پیش گوئی ہے، جب تک جماعت احمدیہ نظامِ حکومت سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتی، اس وقت تک ضروری ہے کہ اس دیوار (انگریزوں کی حکومت) کو قائم رکھا جائے تاکہ یہ نظام کسی ایسی طاقت کے قبضہ میں نہ چلا جائے جو احمدیت کے مفادات کے لیے زیادہ مضر اور نقصان رساں ہو۔ جب جماعت میں قابلیت پیدا ہوجائے گی اس وقت ظام اس کے ہاتھ میں آجائے گا۔ یہ وجہ ہے انگریزوں کی حکومت کےلیے دعا کرنے اور ان کو فتح حاصل کرنے میں مدد دینے کی ۔ (روزنامہ الفضل قادیان 3 جنوری 1945ء،چشتی)
تعجب ہے ایک طرف فتویٰ یہ ہے کہ اب جہاد منسوخ ہو گیا ہے اور دوسری جانب عمل یہ ہے کہ فرنگی کی فوج میں بھرتی ہو کر مسلمانوں کے خلاف ’’جہاد‘‘ کرو ۔
گورنمنٹ کی پٹھو جماعت : ⏬
ہماری جماعت وہ جماعت ہے جسے شروع سے ہی لوگ کہتے چلے آئے کہ یہ خوشامدی جماعت، گورنمنٹ کی پٹھو ہے، بعض لوگ ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم گورنمنٹ کے جاسوس ہیں۔ پنجابی محاورہ کے مطابق ہمیں جھولی چک اور نئے زمینداری محاورہ کے مطابق ہمیں ٹوڈی کہا جاتا ہے ۔ (قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود کی تقریر، روزنامہ ’’الفضل‘‘ قادیان، 11 نومبر 1934ء)
قادیانی جماعت انگریزوں کی ایجنٹ : ⏬
دنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔ چنانچہ جب جرمنی میں احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن وزیر نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے جو انگریزوں کی ایجنٹ ہے ۔ (قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود کی تقریر، روزنامہ الفضل قادیان جلد 22 نمبر 54 مورخہ یکم نومبر 1934ء،چشت)
قادیانی جماعت انگریزوں کی نمائندہ اور ان کی ایجنٹ : ⏬
ڈاکٹر سید محمود جو اس وقت کانگریس کے سیکرٹری ہیں، ایک دفعہ قادیان آئے اور انہوں نے بتایا کہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو جب یورپ کے سفر سے واپس آئے تو انہوں نے اسٹیشن پر اتر کر جو باتیں سب سے پہلے کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ میں نے اس سفر یورپ میں یہ سبق حاصل کیا ہے کہ اگر انگریزی حکومت کو ہم کمزور کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس سے پہلے احمدیہ جماعت کو کمزور کیا جائے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص کا یہ خیال تھا کہ احمدی جماعت انگریزوں کی نمائندہ اور ان کی ایجنٹ ہے ۔ (قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود کی تقریر، مندرجہ روزنامہ الفضل قادیان جلد 23 نمبر 31 صفحہ 8-7 مورخہ 6 اگست 1935ء)
جب اس قسم کی جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ وطن عزیز کے کلیدی عہدوں پر براجمان ہو ں گے توپھر وہی ہو گا جو آج ہم سب لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ کاش ارباب اختیار کو یہ بات سمجھ آجائے ۔اب بھی اگر ہمت سے کام لے کر قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹا دیا جائے تو وطن عزیز کچھ ہی عرصہ میں تمام بحرانوں سے نکل سکتا ہے ۔
ان حوالہ جات کی روشنی میں قادیانیت کی وجہ تخلیق کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مرزا قادیانی استعماری سیاست کا خود کاشتہ پودا تھا ۔ انگریز نے اپنے نظریہ ضرورت کے تحت قادیانی تحریک کو پروان چڑھایا ۔ جناب مرتضیٰ احمد خاں مکیش بھی رقم طراز ہیں ۔ دین مرزا برطانیہ کی استعماری سیاست کا ایک خود کاشتہ پودا ہے یعنی ایک ایسی سیاسی تحریک ہے جو انگریز کے مقبوضہ ہندوستان میں ایک ایسی مذہبی جماعت پیدا کرنے کے لئے شروع کی گئی جو سرکار برطانیہ کی وفاداری کو اپنا جزو ایمان سمجھے ۔ غیر اسلامی حکومت یا نامسلم حکمرانوں کے استیلا کو جائز قرار دے اور ایک ایسے ملک کو شرعی اصطلاح میں دارالحرب سمجھنے کے عقیدہ کا بطلان کرے جس پر کوئی غیر مسلم قوم اپنی طاقت و قوت کے بل پر قابض ہوگئی ۔ انگریز حکمرانوں کی قہاریت اور جباریت کو مسلمان ازروئے عقیدۂ دینی اپنے حق میں ﷲ کا بھیجا ہوا عذاب سمجھتے تھے اور ان کی رضاکارانہ اطاعت کو گناہ تصور کرتے تھے ۔ انگریز حکمران مسلمانوں کے اس جذبے اور عقیدے سے پوری طرح آگاہ تھے ۔ لہذا انہوں نے اس سرزمین میں ایک ایسا پیغمبر کھڑا کردیا جو انگریزوں کو اولیٰ الامر منکم کے تحت میں لاکر ان کی اطاعت کو مذہباً فرض قرار دینے لگا اور ان کے پاس ہندوستان کو دارالحرب سمجھنے والے مسلمانوں کی مخبری کرنے لگا جس طرح باغبان اپنے خود کاشتہ پودے کی حفاطت و آبیاری میںبڑے اہتمام سے کام لیتا ہے ، اسی طرح سرکار انگریز نے دین مرزائیت کو فروغ دینے کےلیے مرزائی جماعت کو پرورش کرنا اپنی سیاسی مصلحتوں کےلیے ضروری سمجھا ۔ اور اس دین کے پیروئوں سے مخبری‘ جاسوسی اور حکومت کے ساتھ جذبہ وفاداری کی نشرواشاعت کا کام لیتی رہی ۔ 1919ء میں جب مولانا محمد علی علیہ الرحمہ نے خلافت اسلامیہ ترکی کی شکست سے متاثر ہوکر مسلمانوں کو انگریزوں کے قابو چیانہ گرفت سے چھڑانے اور ارض مقدس کو عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کےلیے تحریک احیائے خلافت کے نام سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی مہم شروع کی اور عام مسلمان مولانا محمد علی علیہ الرحمہ اور دیگر زعمائے اسلام کی دعوت ونفیر پر کان دھر کر انگریز حکومت سے ترک موالات کرنے پر آمادہ ہوگئے تو مرزائی جماعت نے اس دور کے وائسرائے کے سامنے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے سرکار انگریزی کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے اس جہاد آزادی کا مقابلہ کرنے کےلیے آپ کے خادم موجود ہیں‘ جو سرکار انگریز کی وفاداری کو مذہبی عقیدہ کے رو سے اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ (پاکستان میں مرزائیت صفحہ 25 تا 27 از مرتضیٰ احمد خان مکیش) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment