Tuesday, 18 May 2021

مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر چشم کشا مضمون

مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر چشم کشا مضمون

محترم قارئینِ کرام ارشادِ بارعی تعالیٰ ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الْبَصِیۡرُ ۔ (سورۃ الاسراء آیت نمبر 1)
ترجمہ : پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے ۔


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجدِ اقصیٰ تک سیر کرانے میں ایک حکمت یہ ہے کہ تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شرف اور فضیلت ظاہر ہو جائے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی جگہ میں انہیں امام بن کر نماز پڑھائی اور جسے گھر والوں پر مُقَدّم کیا جائے اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ و ہ سلطان ہوتا ہے کیونکہ سلطان کو اپنے علاوہ لوگوں پر مُطْلَقاً تَقَدُّم حاصل ہے ۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ حشر کے دن مخلوق اسی سرزمین میں جمع ہو گی اس لئے یہ جگہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کی برکات سے نہال ہو جائے تا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر محشر میں وُقوف آسان ہو ۔ (تفسیر صاوی ، الاسراء : ۱، ۳/۱۱۰۶)

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ پہلی حکمت کے حوالے سے کیا خوب فرماتے ہیں : ⏬

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرعیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

اَلَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ : جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ۔ آیت کے اس حصے میں اللّٰہ تعالیٰ نے مسجد ِاقصیٰ کی شان بیان فرمائی کہ اس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں دینی بھی اور دنیوی بھی ۔ دینی برکتیں یہ کہ وہ سرزمینِ پاک وحی کے اترنے کی جگہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عبادت گاہ اور ان کی قیام گاہ بنی اور ان کی عبادت کا قبلہ تھی۔ دنیوی برکتیں یہ کہ وہاں قرب و جوار میں نہروں اور درختوں کی کثرت تھی جس سے وہ زمین سرسبز و شاداب ہے اور میووں اور پھلوں کی کثرت سے بہترین عیش و راحت کا مقام ہے ۔ (تفسیر مدارک، الاسراء : ۱، ص۶۱۵،چشتی)(تفسیر خازن، الاسراء : ۱، ۳/۱۵۴)(تفسیر خزائن العرفان، بنی اسرائیل : ۱، ص۵۲۵)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث معراج بیان کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا پھر میں براق پر سوار ہوا حتی کہ میں بیت المقدس پہنچا پھر میں نے براق کو اس حلقہ میں باندھ دیا جہاں انبیاء (علیہم السلام) کی سواریاں باندھی جاتی ہیں، پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور میں نے وہاں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں مسجد سے باہر آگیا پھر میرے پاس جبریل (علیہ السلام) ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لے کر آگئے، میں نے دودھ لے لیا تو جبریل نے کہا آپ نے فطرت کو اختیار کرلیا پھر ہمیں آسمان کی طرف معراج کرائی گئی ۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : 162)

اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو براہ راست آسمانوں کی طرف کیوں نہیں لے جایا گیا درمیان میں مسجد اقصی کیوں لے جایا گیا اس کی حسب ذیل حکمتیں ہیں :

1 ۔ اگر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صرف آسمانوں پر جانے کا ذکر فرماتے تو مشرکین کےلیے اطمینان اور تصدیق کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا کیونکہ آسمانوں کے طبقات اور درجات، سدرہ اور سدرہ سے اوپر کے حقائق میں سے کوئی چیز ان کی دیکھی ہوئی تھی نہ انہیں اس کے متعلق کوئی علم تھا، لیکن مسجد اقصی ان کی دیکھی ہوئی تھی تو جب آپ نے یہ فرمایا کہ میں رات کے ایک لمحے میں مسجد اقصی گیا اور واپس آگیا، اور ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ آپ اس سے پہلے مسجد اقصی نہیں گئے ہیں تو انہوں نے آپ سے مسجد اقصی کی نشانیاں پوچھنی شروع کریں اور جب آپ نے سب نشانیاں بتادیں تو واضح ہوگیا کہ آپ کا دعوی اتنا حصہ تو بہرحال سچا ہے کہ آپ مسجد اقصی جاکر واپس آئے ہیں جبکہ بظاہر یہ یہ بھی بہت مشکل اور مستعد اور محال تھا، تو پھر آپ کے دعوی کے باقی حصہ کا بھی صدق ثابت ہوگیا کیونکہ جب آپ رات کے ایک لمحہ میں مسجد اقصی تک جاکر واپس آسکتے ہیں تو پھر آسمانوں تک جاکر بھی واپس آسکتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مسجد اقصی کی نشانیوں کے متعلق سوالات اور آپ کے جوابات دینے کا ذکر اس حدیث میں ہے : حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہوگیا اللہ نے میرے لیے بیت المقدس منکشف کردیا تو میں بیت المقدس کی طرف دیکھ دیکھ کر ان کو اس کی نشانیاں بتارہا تھا ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 4710)(صحیح مسلم، رقم الحدیث : 170)(سنن الترمذی رقم الحدیث : 3133)(مسند احمد، رقم الحدیث : 15099،چشتی)(مسند عبدالرزاق، رقم الحدیث : 9719)(صحیح ابن حبا، رقم الحدیث : 55)

2 ۔ دوسری وجہ ی ہے ہ کہ عالم میثاق میں تمام انبیاء اور مرسلین نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ جب ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مبعوث ہوں تو تمام انبیاء (علیہم السلام) ان پر ایمان لے آئیں اور ان کی نصرت کریں ، قرآن مجید میں ہے : واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ قالء اقرررتم واخذتم علی ذلکم اصری، قالوا اقررنا، قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین، فمن تولی بعد ذلک فاولئک ھم الفاسقون ۔ (آل عمران : 81، 82) ، اور ( اے رسول) یاد کیجیے جب اللہ نے تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ عظیم رسول آجائیں جو اس چیز کی تصدیق کرنے والے ہوں جو تمہارے پاس ہے تو تم ان چیزوں پر ضرور بہ ضرور ایمان لانا اور ضرور بہ ضرور ان کی مدد کرنا، فرمایا کیا تم نے اقرار کرلیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کرلیا ؟ انہوں نے کہا، ہم نے اقرار کرلیا، فرمایا پس گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ پھر اس کے بعد جو عہد سے پھرا سو وہی لوگ نافرمان ہیں۔
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
ابو ایوب بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : اللہ عزوجل نے حضرت آدم کے بعد جس نبی کو بھیجا اس سے (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لیا کہ اگر آپ کو اس نبی کی حیات میں مبعوث کیا گیا تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائے اور آپ کی مدد کرے اور اپنی امت سے بھی آپ کی اطاعت کا عہد لے ۔ (تفسیر جامع البیان، رقم الحدیث : 5790،چشتی)(تفسیر الدر المنثور، ج 2، ص 252، 253)(تفسیر فتح القدیر ج 1، ص 587)

سدی بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جس نبی کو بھی بھیجا اس سے یہ عہد لیا کہ وہ (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ضرور ایمان لائے اگا اور آپ کی ضرور مدد کرے گا اگر آپ اس کی حیات میں مبعوث ہوئے ورنہ وہ اپنی امت سے یہ عہد لے گا کہ اگر آپ مبعوث ہوئے اور وہ امت زندہ ہوئی تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائے گا اور ضرور آپ کی مدد کرے گی ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 5792)(تفسیر امام بن ابی حاتم، رقم الحدیث : 3761)(تفسیر الدر المنثور، ج 2، ص 253)

امام الحسین بن مسعود الفرا البغوی المتوفی 516 ھ لکھتے ہیں : اللہ عزوجل نے یہ ارادہ کیا کہ تمام نبیوں اور ان کی امتوں سے سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لے اور صرف انبیاء کے ذکر پر اکتفا کرلیا ، جیسا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد جس نبی کو بھی بھیجا اس سے سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معاملہ میں عہد لیا اور ان سے ان کی امتوں کے متعلق بھی عہد لیا کہ اگر ان کی زندگی میں آپ کو مبعوث کیا گیا تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کی نصرت کریں گے ، جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا گیا ان میں انبیاء (علیہم السلام) بھی چراغوں کی طرح تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لیا ۔ (تفسیر معالم التنزیل، ج 1 ص 250، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1414 ھ،چشتی)

حافظ عمر بن اسماعیل بن کثیر دمشقی متوفی 774 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن عباس نے کہا اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اس سے یہ عہد لیا کہ اگر اس کی حیات میں اللہ تعالیٰ نے (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیج دیا تو وہ ان کی ضرور اطاعت کرے گا اور ضرور ان کی نصرت کرے گا اور اس کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے بھی یہ عہد لے کہ اگر ان کی زندگی میں سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث کیا گیا تو وہ سب ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت کریں گے اور طاؤس، حسن بصری اور قتادہ نے کہا کہ اللہ نے نبیوں سے یہ عہد لیا کہ بعض نبی دوسرے بعض نبیوں کی تصدیق کریں گے، اور یہ عہد سابق کے منافی نہیں ہے اسی لیے امام عبدالرازق نے حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کے قول کو روایت کیا ہے ۔

امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عمر نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے بنو قریظہ کے ایک یہودی سے کہا ہے تو اس نے میرے لیے تورات کی آیات لکھ کردی ہیں کیا میں وہ آیات آپ کو دکھاؤں ۔ یہ سن کر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ متغیر ہوگیا ، عبداللہ بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہر کس قدر متغیر ہوگیا ہے ، پھر حضرت عمر نے کہا میں اللہ کو رب مان کر راضی ہوں ، اور اسلام کو دین مان کر اور سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسول مان کر ، پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے سے غصہ کی کیفیت دور ہوگئی ، اور آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس ہوں اور پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے ۔ (مسند احمد ج 3، ص 338،چشتی)

امام ابو یعلی اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اہل کتاب سے کسی چیز کا سوال نہ کرو وہ ہرگز تمہیں ہدایت نہیں دیں گے ، وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں تم ان سے کوئی بات سن کر یا کسی باطل کی تصدیق کرو گے یا کسی حق بات کی تکذیب کرو گے ، بیشک اللہ عزوجل کی قسم اگر تمہارے دور میں حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرنے کے سوا ان کے لیے اور کوئی چیز جائز نہ ہوتی ۔ (مسند ابو یعلی، رقم الحدیث : 2135)

بعض احادیث میں ہے کہ اگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرنے کے سوا ان کے لیے اور کوئی کام جائز نہ ہوتا ، پس قیامت تک کے دائمی رسول سیدنا محمد خاتم الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہ ہیں اور آپ جس زمانہ میں بھی ہوتے تو آپ ہی امام اعظم ہوتے اور آپ ہی واجب الاطاعت ہوتے اور تمام انبیاء پر مقدم ہوتے، اسی وجہ سے جب تمام انبیاء (علیہم السلام) معراج کی شب بیت المقدس میں جمع ہوئے تو آپ ہی تمام نبیوں کے امام ہوئے اور میدان حشر میں بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی اللہ تعالیٰ کے حضور سب کی شفاعت فرمائیں گے اور یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کسی کے لائق نہیں ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ج 1، ص 426، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1419 ھ)

اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شب معراج ، مسجد اقسی سے ہوتے ہوئے آسمانوں پر جانا اس لیے تھا کہ اپنے اپنے زمانوں میں انبیاء سابقین (علیہم السلام) نے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی نصرت کرنے کا جو عہد کیا تھا وہ عہد پورا ہوجائے ۔

3 ۔ مسجد اقصی سے ہو کر آسمانوں کی طرف جانے کی تیسری حکمت یہ ہے کہ آپ کا مسجد اقصی جانا اور نبیوں کی امامت فرمانا معراج کی تصدیق کا اور خصوصا بیداری میں اور جسم کے ساتھ معراج کی تصدیق کا ذریعہ بن گیا ۔

حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں : محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت دحیہ بن خلیفہ کو قیصر روم کے پاس بھیجا پھر ان کے وہاں جانے اور قریصر روم کے سوالات کے جوابات دینے کا ذکر کیا، پھر بیان کیا کہ شام کے تاجروں کو بلایا گیا تو ابو سفیان بن صخر بن حرب اور اس کے ساتھیوں کے آنے کا ذکر کیا پھر ہرقل نے ابو سفیان سے سوالات کیے اور ابو سفیان نے جوابا دیئے، جن کا تفصیلی ذکر صحیح بخاری اور مسلم میں ہے ۔ ابو سفیان نے پوری کوشش کی کہ قیصر روم کی نگاہوں میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ کم کردے، ان ہی باتوں کے دوران اس کو واقعہ معراج یاد آیا ، اس نے قیصر روم سے کہا اے بادشاہ ! کیا میں تم کو ایسی بات نہ سناؤں جس سے اس شخص کا جھوٹ تم پر واضح ہوجائے ، اس نے پوچھا وہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات ہماری زمین ارض حرم سے نکل کر تمہاری اس مسجد، بیت المقدس میں پہنچے اور اسی رات کو صبح سے پہلے ہمارے پاس حرم میں واپس پہنچ گئے، بیت المقدس کا بڑا عابد جو بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہوا تھا وہ کہنے لگا مجھے اس رات کا علم ہے ، قیصر نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور پوچھا تمہیں اس رات کا کیسے علم ہے ؟ اس نے کہا میں ہر رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا تھا، اس رات کو میں نے ایک دروازہ کے علاوہ سارے دروازے بند کردیئے ، وہ دروازہ بند نہیں ہوا ، اس وقت وہاں جتنے کارندے دستیاب تھے سب نے پوری کوشش کی مگر وہ دروازہ بند نہیں ہوا، ہم اس دروازہ کو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں سکے، یوں لگتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کے ساتھ زور آزمائی کر رہے ہوں ، ہم نے کہا صبح کو بڑھیوں کو بلا کردکھائیں گے کہ اس میں کیا نقص ہوگیا ہے، اور اس رات کو دروازہ یونہی کھلا چھوڑ دیا، صبح کو ہم نے دیکھا کہ مسجد کے ایک گوشہ میں جو پتھر تھا، اس میں سوارخ تھا اور پتھر میں سواریوں کے باندھنے کے نشانات تھے، میں نے اپنے اصحاب سے کہا گزشتہ رات کو وہ دروازہ اس لیے بند نہیں ہوسکا تھا کہ اس دروازہ سے ایک نبی کو آنا تھا، اور اس رات ہماری اس مسجد میں نبیوں نے نماز پڑھی ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ج 3، ص 28، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1419 ھ)

اس روایت سے بھی یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد اقصی سے گزر کر جو آسمانوں کی طرف گئے اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ آپ کا وہاں جانا واقعہ معراج کی تصدیق کا ذریعہ بن جائے ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جس کے اردگرد ہم نے برکتیں دی ہیں ، تاکہ ہم اس (عبد مکرم) کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں مسجد اقصی کے اردگرد جو برکتیں ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں کہ مسجد اقصی تمام انبیاء سابقین کی عبادت گاہ ہے اور ان کا قبلہ ہے، اس میں بکثرت دریا اور درخت ہیں، اور یہ ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف قصدا رخت سفر باندھا جاتا ہے، اور یہ ان چار مقامات میں سے ہے جہاں دجال کا داخلہ ممنوع ہے، امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ دجال تمام روئے زمین میں گھومے گا، سوا چار مساجد کے، مسجد مکہ، مسجد مدینہ، مسجد اقصی اور مسجد طور، اور اسمیں ایک نماز پڑھنے کا اجر پچاس ہزار نماوں کے برابر ہے۔ (سنن ابن ماجہ) اور امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی باندی حضرت میمونہ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا یا نبی اللہ ! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتائیں، آپ نے فرمایا اس جگہ حشر نشر ہوگا ، اس جگہ آکر نماز پڑھو کیونکہ اس جگہ ایک نماز پڑھنے کا اجر ایک ہزار نمازوں برابر ہے، نیز امام احمد نے نبی صلی الہ علیہ وسلم کی بعض ازواج سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم میں سے کوئی بیت المقدس حاضر ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وہاں حاضر ہوسکے تو وہاں زیتون کا تیل بھیج دے جس سے وہاں چراغ چلایا جائے ، اس مسجد میں چراغ جلانے کا اجر بھی وہاں نماز پڑھنے کے برابر ہے ، اور امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے کہ مسجد اقصی وہ دوسری مسجد ہے جس کو روئے زمین پر بنایا گیا ہے حضرت ابو ذر روایت کرتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زمین میں سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ نے فرمایا مسجد الحرام، میں نے کہا پھر کون سی ؟ آپ نے فرمایا مسجد الاقصی ، میں نے پوچھا ان کے درمیان کتنی مدت ہے ؟ آپ نے فرمایا چالیس سال ، پھر تمہیں جہاں بھی موقع ملے تم نماز پڑھ لو، حضرت ابراہیم کے کعبہ کو تعمیر کرنے کے بعد حضرت یعقوب نے مسجد اقسی کو تعمیر کیا اور پھر حضرت سلیمان نے اس کی تجدید کی ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تاکہ ہم ان کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں ، یعنی تاکہ ہم آپ کو آسمانوں کی طرف لے جائیں تاکہ ہم اس میں بہت عجیب و غریب امور دکھائیں ، حدیث صحیح میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیت المقدس کے پتھر سے آسمانوں کی طرف چڑھ کر گئے اور ہر آسمان میں آپ کی ایک نبی سے ملاقات ہوئی اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنت اور دوزخ کے احوال سے مطلع ہوئے اور آپ نے فرشتوں کو دیکھا جن کی تعداد کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیت المقدس میں انبیاء (علیہم السلام) کو دو رکعت نماز پڑھائی پہلی رکعت میں قل یا ایھا الکافرون اور دوسری میں سورة اخلاص پڑھی ، انبیاء (علیہم السلام) کی سات صفیں تھیں اور تین صفیں مرسلین کی تھیں اور فرشتوں نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی ، اور یہ آپ کی خصوصیت ہے اور اس میں یہ حکمت تھی کہ ظاہر کیا جائے کہ آپ سب کے امام ہیں، اس میں اختلاف ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی روحوں کے ساتھ نماز پڑھی یا جسموں کے ساتھ، اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ نماز آسمانوں کی طرف جاتے ہوئے پڑھی یا واپسی میں۔ حافظ ابن کثیر نے کہا واپسی میں پڑھی اور قاضی عیاض نے کہا پہلے پڑھی، ایک روایت میں یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہر آسمان میں دو رکعت نماز پڑھی اور وہاں کے فرشتوں کی امامت فرمائی، آپ کا رات کو جانا اور آسمانوں کی طرف عروج رات کے ایک حصہ میں ہوا، وہ ایک حصہ کتنی دیر پر مشتمل تھا اس کی مقدار معلوم نہیں ہے ۔
بعض روایات میں ہے کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ واپس آئے تو بستر اسی طرح گرم تھا ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمامہ کے ٹکرانے سے جو درخت کی شاخیں ہلیں تھیں وہ اسی طرح ہل رہی تھیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا اور پھر آسمانوں کی طرف عروج کرایا گیا ، تاکہ بتدریج بلند مقامات کی طرف عروف ہو اور عجیب و غریب امور دیکھنے کے لیے آپ مرحلہ وار مانوس ہوں اور آپ کے آنے اور جانے سے محشر کی زمین مشرف ہوجائے ، کعب احبار نے بیان کیا ہے کہ آسمان دنیا سے بیت المقدس کی طرف ایک دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس دروازے سے ہر روز ستر ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں اور جو شخص بیت المقدس میں آئے اور نماز پڑھے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں اس لیے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا پھر آسمانوں کی طرف عروف کرایا گیا، ایک قول یہ ہے کہ بیت القمدس کا ہر ستون یہ دعا کرتا تھا کہ اے ہمارے رب ہمیں ہر نبی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے ، اب ہم سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کے مشتاق ہیں ، ہمیں آپ کی زیارت کا شرف عطا فرما تو پہلے آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا تاکہ ان کی دعا قبول ہو پھر آپ کو آسمانوں کی طرف عروج کرایا گیا اور اس ناکارہ کا گمان یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تاکہ آپ کی امت کے لیے بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا نمونہ قائم ہو اور آپ کی سنت ہوجائے جیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا ثواب جو پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہوا ہے اس کی وجہ یہی ہو کہ آپ نے وہاں نماز پڑھی ہے، ورنہ یہ مسجد تو بہت پہلے سے بنی ہوئی تھی ، لیکن اس میں نماز پڑھنے کا اجر وثواب پہلے اتنا نہ تھے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے من تبعیضیہ داخل کر کے اس پر متنبہ کیا ہے کہ آپ کو بعض نشانیاں دکھائی گئی ہیں تمام نشانیاں نہیں دکھائی گئیں کیونکہ تمام نشانیاں تو غیر متناہی ہیں اور جسم متناہی غیر متناہی نشانیوں کو نہیں دیکھ سکتا ۔ (تفسیر روح المعانی ج 15، ص 17، 18، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1417 ھ،چشتی)

مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے ۔ مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف (عربی: الحرم القدسی الشریف) کہتے ہیں ۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے ۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے ۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے ۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک کعبہ ہی قبلہ رہا ، پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک بیت المقدس قبلہ رہا اور مسلمان بھی مدینہ منورہ میں آنے کے بعد تقریبا سولہ ، سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران مسجدِقِبْلَتَین میں قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ ہوا ۔ نیزیہ بھی یاد رہے کہ حج ہمیشہ کعبہ ہی کا ہوا ہے ، بیت المقدس کا حج کبھی نہیں ہوا ۔

قبلہ کی تبدیلی یہودیوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی اور یہ طرح طرح سے مسلمانوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کر رہے تھے ، چنانچہ کچھ یہودیوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کے بارے میں مسلمانوں کے سامنے چند اعتراضات کئے اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے زمانہ میں جن صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے وفات پائی ان کی نمازوں کے درست ہونے پر مسلمانوں سے دلیل مانگی تو ان کے رشتہ داروں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ان کی نمازوں کا حکم دریافت کیا کہ وہ نمازیں ہوئیں یا نہیں ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اوراِنہیں اطمینان دلایا گیا کہ ان صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہم کی نمازیں ضائع نہیں ہوئیں ، ان پر انہیں ثواب ملے گا۔یاد رہے کہ اس آیت مبارکہ میں ایمان سے مراد نماز ہے ۔ (تفسیر خازن ، البقرۃ : ۱۴۳، ۱/۹۸)

جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں ۔ البتہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب اطہر کی خواہش یہ تھی کہ خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیاجائے، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بیت المقدس کو قبلہ بنایا جانا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ناپسند تھا بلکہ ا س کی ایک وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے علاوہ کثیر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاقبلہ تھا اور ایک وجہ یہ تھی بیت المقدس کی طرف منہ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے یہودی فخر و غرور میں مبتلاء ہو گئے اور یوں کہنے لگے تھے کہ مسلمان ہمارے دین کی مخالفت کرتے ہیں لیکن نماز ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں ۔ چنانچہ ایک دن نماز کی حالت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس امید میں باربار آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم آجائے ، اس پر نماز کے دوران یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کو رضائے الٰہی قرار دیتے ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چہرہ انور کے حسین انداز کو قرآن میں بیان کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خواہش اور خوشی کے مطابق خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا ۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز ہی میں خانہ کعبہ کی طرف پھر گئے ، مسلمانوں نے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اسی طرف رُخ کیا اورظہر کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف ہوئیں اور دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئیں ۔

ہم جسے عام طور پر "مسجد اقصی" کہتے ہیں ، اسے اور بھی دوسرے ناموں مثلا : "المسجد الأقصی" اور "الحرم القدسي الشریف" وغیرہ سے جانا جاتا ہے ۔ یہ تاریخی مسجد ، فلسطین کے شہر یروشلم (القدس) میں واقع ہے ، جو ان دنوں غاصب صہیونی ریاست اسرائيل کے قبضے میں ہے ۔ یہ مسجد مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقریبا سولہ یا سترہ مہینے تک مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کی ۔ شرعی طور پر اہمیت وفضیلت کے اعتبار سے مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد ، مسجد اقصی کا مقام ومرتبہ ہے۔ قرآن وحدیث میں مختلف جگہوں پر اس مبارک مسجد کا ذکر آیا ہے ۔ اس مسجد کے ارد گرد کی جگہوں کو برکت والی جگہیں کہا گیا ہے ۔ انہیں وجوہات کے پیش نظر دنیا بھر کے مسلمان مسجد اقصی اور قدس کو بڑی عقیدت ومحبت سے دیکھتے ہیں ۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معراج کے موقع سے مسجد حرام سے جس جگہ لے جایا گیا ، وہ یہی مسجد اقصی ہے ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مسجد میں سارے انبیاء علیہم السلام کی امامت کی ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی مسجد سے سفر معراج پر روانہ ہوئے ۔ مسجد حرام سے مسجد اقصی کے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اس مبارک سفر کو قرآن نے کریم نے یوں بیان کیا ہے : سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ۔ (سورۃ الاسراء:1)
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۔ بے شک وہ ہر بات سننے والی اور ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے ۔

مسجد اقصی کو مسلمانوں کا "قبلۂ اوّل" ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے ، مدینہ منورہ تشریف لائے ؛ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پہلے مسجد اقصی کی جانب ہی رخ کر کے تقریبا سترہ مہینے تک نمازیں ادا کرتے رہے ۔ صحابی رسول حضرت بَرَاء بن عازِب فرماتے ہیں : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى إِلَى بَيْتِ المَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ البَيْتِ ۔ (صحیح البخاری: 4486)
ترجمہ : نی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ؛ جب کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ چاہتے تھے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قبلہ بیت اللہ (کعبہ شریف) کی طرف ہو ۔

مسجد اقصی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد روئے زمین پر مسجد حرام کے تقریبا چالیس سال بعد رکھی گئی ۔ اس حوالے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوَّلِ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ ، الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى ،  قُلْتُ : كَمْ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ : أَرْبَعُونَ عَامًا ، ثُمَّ الْأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ ، فَحَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ ۔ (صحیح مسلم: 520)
ترجمہ : میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ روئے زمین پر سب سے پہلے تعمیر کی جانے والی مسجد کے حوالے سے سوال کیا ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا : مسجد حرام ۔ میں نے سوال کیا : پھر کون (اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی) ؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا : "مسجد اقصی"۔ میں نے سوال کیا : ان دونوں کی تعمیر کے دوران کتنا وقفہ ہے ؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا : چالیس سال ، پھر پوری زمین تیرے لیے مسجد ہے ، جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے ، نماز پڑھ لو ۔
اس حدیث شریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام نے "مسجد حرام" کی تاسیس کے 40/سال بعد مسجد اقصی کی بنیاد رکھی ۔ محدثین نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ مشرفہ کی تعمیری تجدید کی ، اسی طرح مسجد اقصی کی تجدید یعقوب علیہ السلام یا داؤد علیہ السلام نے کی اور سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل کی ۔

ایک حدیث شریف میں مسجد اقصی سے حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر ، حج یا عمرہ ادا کرنے والے کو اگلے اور پچھلے گناہوں کے معافی کی بشارت دی گئی ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجہ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا : مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ ، أَوْ عُمْرَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَا تَأَخَّرَ - أَوْ - وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ۔ (سنن ابي داؤد: 1741،چشتی)
ترجمہ : جس نے مسجد اقصی سے مسجد حرام کے لیے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ، اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے - یا - جنت اس کے لیے واجب ہوجائے گی ۔

مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا باعث ثواب ہے ۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو مختلف ابواب کے ذیل میں ذکر کیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ : المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى ۔ (صحیح بخاری:1189)
ترجمہ : (عبادت کی نیت سے) صرف تین مسجدوں کے لیے ہی سفر کیا جائے (اور وہ ہیں) : مسجد حرام ، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصی ۔

ایک حدیث شریف میں مسجد اقصی میں ایک پڑھی جانے والی نماز کا ثواب، پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کے برابر بتایا گیا ہے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ ، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ ۔ (سنن ابن ماجہ: 1413،چشتی)
ترجمہ : ایک آدمی کی ایک نماز اپنے گھر میں ، (ثواب میں) ایک نماز کے برابر ہے ، اس کی نمازمحلے کی مسجد میں ، پچیس نمازوں کے برابر ہے ، اس کی نماز جامع مسجد میں ، پانچ سو نمازوں کے برابر ہے ، اس کی نماز مسجد اقصی میں ، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ، (اسی طرح) اس کی نماز میری مسجد (مسجد نبوی) میں ، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور اسی شخص کی ایک نماز مسجد حرام میں ، ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ۔

مسجد اقصی کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے جیسا کہ حصّہ اوّل میں ہم تفصیل سے عرض کر چکے ہیں کہ اسی مسجد سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سفر معراج ہوا ۔ اسی سفر معراج میں آپ کو نماز کا تحفہ دیا گیا ۔ یہ واقعہ بخاری شریف میں ایک لمبی حدیث میں آیا ہے ۔نماز والے حصے کا حاصل یہ ہے کہ اوّلاً اللہ تعالی نے اس سفر میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پچاس نمازوں کا تحفہ دیا ۔ پھر حضرت موسی علیہ السلام کے کہنے پرکہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ان پچاس نمازوں کی ادائیگی نہیں کر پائے گی ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالی سے نماز کی تعداد کی کمی کی درخواست کی ۔ پھر اللہ تعالی نے اس نماز کو کم کرتے کرتے پانچ نمازیں امت محمدیہ کے لیے باقی رکھی ۔ (صحیح بخاری: 349،چشتی)

پہلی صلیبی جنگ کے بعد، جب 15/جولائی 1099ء کوعیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا ؛ تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا ۔ پھرصلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ نے 538ھ/1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا ؛ تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے خرافات سے پاک کیا ۔ 88 سالوں کے علاوہ ، عہد فاروقی رضی اللہ عنہ سے بیت المقدس اور مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں ۔

اے میرے قبلہ اوّل ! تو آج کس حال میں ہے ؟

تجھے اپنوں کی لاپرواہی نے کیسا لاچار بنا دیا ہے؟

تیرے چاہنے والوں کی کمزوری اور تیرے دشمنوں کی مکاری نے تجھے کیسی تکلیف اور غم میں ڈال رکھا ہے ؟

تیرے مبارک در و دیوار جہاں فرشتے بھی اپنے پر آہستہ مارتے تھے مگر اب بدبخت یہودیوں کے اسلحے کی ٹھوکریں تجھے کتنارنج دیتی ہوں گی ؟

تیری وہ سجدہ گاہیں جہاں کبھی مقدس ترین ہستیاں ، نبوت کے پیکر پیغمبرانِ الٰہی سجدہ ریز ہوتے تھے اب وہاں مجرم یہودیوں کے ناپاک بوٹوں کی دھمک سائی دیتی ہے … جہاں کبھی تکبیر وتہلیل اور تسبیح و تحمید کے زمزمے گونجتے تھے مگر اب دھتکاری ہوئی یہودی قوم کے منحوس فوجیوں کے غلیظ اور بدبودار نعرے وہاں تعفن پھیلاتے ہیں تو تجھے ان سے کتنی گِھن آتی ہو گی ؟

ہاں ! ان دلخراش حالات سے مسلمانوں کے سینے زخمی ہیں ، اہلِ دل اس پر تڑپتے ہیں ، تجھ سے محبت رکھنے والے مجھ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی جیسے لوگ یہ حالت دیکھ کر روتے اور آہیں بھرتے ہیں ، کوئی تجھ پر قربان ہونا چاہتا ہے مگر رکاوٹوں کے اتنے پہاڑ ہیں کہ اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے ، کوئی تجھے ستانے والے یہودیوں پر آگ بن کر برسنا چاہتا ہے مگر وہ تجھ سے بہت دور بیٹھ کر تیرے غم میں تیرا شریک ہوکر بے چین رہتا ہے …تو سعادتوں کا مرکز مگر آج تجھے شقاوت کے مارے یہودیوں نے گھیر رکھا ہے ، تو برکتوں کا گھر مگر آج تجھے غضب کی ماری قوم نے اجاڑ رکھا ہے … لیکن یاد رکھنا ! بہت جلد تیرے چاہنے والے ، تیری عزت اور تقدس کو پہچاننے والے تجھے ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کروائیں گے، عن قریب پھر وہ دن آئیں گے جب تکبیر کے پاکیزہ نعرے تجھ میں گونجیں گے ، عن قریب سعادت مند لوگ کی جبین نیاز تیری زمین کے بوسے لے گی بہت جلد ۔ ان شاء اللہ ۔

محترم قارئینِ کرام : مسجد اقصی عام مساجد سے بہت بلند اور اونچی شان رکھتی ہے، اس کے دامن میں بے بہا برکتیں اور سعادتیں رکھ دی گئی ہیں ، اہل ایمان کے دلوں میں اس مسجد کی بڑی وقعت اور محبت رچی بسی ہوئی ہے ، قرآن وسنت میں اس مسجد کی فضیلت پر کئی دلائل اور ارشادات موجود ہیں جنہوں پڑھ کر ایک مخلص مومن کے دل میں اس مسجد کی خاص عقیدت اور محبت دل میں اتر جاتی ہے ۔ آئیے آج کی مجلس میں اسی عظیم البرکت مسجد کے کچھ فضائل پڑھتے ہیں جو قرآن و سنت میں ہمیں بتلائے گئے ہیں ۔

تین اہم مساجد میں سے ایک : اس مسجد کی ایک فضیلت اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ مسجد اُن تین مساجد میں شامل ہے جن کی طرف سفر کرنے کی بطورخاص اجازت دی گئی ہے اور اس کی طرف سفر کرنے کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : لا تشد الرحال الا الیٰ ثلاثۃ مساجد: المسجد الحرام، و مسجدالرسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، و مسجد الاقصیٰ ۔ (صحیح بخاری : ۱۱۸۹)
ترجمہ : تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے (اور وہ تین مساجد یہ ہیں) ، مسجد حرام ، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ ۔

اگر کوئی انسان عبادت اور تقرب الی اللہ کی نیت سے کسی مسجد کی طرف سفر کر کے جانا چاہتا ہے تو باقی مساجد ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں اس لیے ان مساجد میں کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہیں لیکن یہ تین مساجد اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ، اس لیے ان کی طرف سفر کرنا جائز ہے ۔

یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے : ⏬

جب تک مسلمانوں کےلیے کعبة اللہ کو قبلہ مقرر نہیں کیا گیا تھا اُس وقت تک مسلمانوں کےلیے قبلہ یہی ’’مسجد اقصیٰ‘‘ تھی ، اس طرح یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ تھی ، اس بنیاد پر اس کی جو فضیلت اور مسلمانوں کے دل میں اس کا جو مقام ہونا چاہیے وہ بالکل واضح ہے ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نے تقریباً سولہ یا سترہ مہینوں تک نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں پھر ہمارا قبلہ کعبہ کو مقرر کر دیا گیا ۔ (صحیح بخاری : ۳۳۹۲،چشتی)

زمین پر قائم ہونے والی دوسری مسجد : مسجد اقصی کی فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس زمین پر بیت اللہ کے بعد جو مسجد قائم ہوئی وہ یہی مسجد اقصی ہے ۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا : مسجد حرام ۔ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد ؟ (یعنی مسجد حرام کے بعدکون سی مسجد بنائی گئی؟) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ ۔  (صحیح بخاری : ۳۳۶۶)

مبارک سرزمین سے نسبت : مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ مسجد جس سر زمین پر واقع ہے اللہ تعالی نے اس سر زمین کو مبارک قرار دیا ہے ۔ (سورہ الاسرا :۱)

بعض اہل علم فرماتے ہیں اگر اس مسجد کےلیے اس قرآنی فضیلت کے علاوہ اور کوئی فضیلت نہ ہوتی تب بھی یہی ایک فضیلت اس کی عظمت و بزرگی اور شان کےلیے کافی تھی ۔

جس ملک میں ’’مسجدِ اقصیٰ‘‘ واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری اور باطنی برکات رکھی ہیں ، مادّی حیثیت سے چشمے ، نہریں ، غلے ، پھل اور میووں کی اِفراط اور رُوحانی اِعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیاء و رُسل (علیہم السّلام) کا مسکن و مدفن اوران کے فیوض واَنوار کا سرچشمہ رہا ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وہاں لے جانے میں یہ بھی اِشارہ ہوگا کہ جو کمالات انبیائے بنی اسرائل وغیرہ پر تقسیم ہوئے تھے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات مقدسہ میں وہ سب جمع کردیئے گئے ، جو نعمتیں بنی اسرائیل پرمبذول ہوئی تھیں ، اُن پراب بنی اِسماعیل کو قبضہ دلایا جانے والا ہے ،’’ کعبہ‘‘ اور ’’بیت المقدس‘‘ دونوں کے انوار وبرکات کی حامل ایک ہی امت ہونے والی ہے ۔ (تفسیر نعیمی ، تفسیر قرطبی ، تفسیر تبیان القرآن،چشتی)

سرزمین محشر : مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ جس سرزمین پر واقع ہے وہ سرزمین حشر ونشر کی جگہ ہے ۔

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائیے ؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : وہ سرزمین حشر ونشر کی جگہ ہے ۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۴۰۷،چشتی)

معراج النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک منزل : مسجد اقصیٰ کی ایک یہ فضیلت بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے خاتم النبیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عظیم اعزاز معراج کی صورت میں عطاء فرمایا ، جو ایک عظیم معجزہ بھی ہے ، تو سفر میں ایک اہم منزل وہ پڑاؤ تھا جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد اقصیٰ میں فرمایا ، پھر یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لیجایا گیا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :  میرے پاس براق لایا گیا ، یہ ایک سفید رنگت کی لمبی سواری تھی ، گدھے سے کچھ بڑی اورخچر سے کچھ چھوٹی ، اس کا ایک قدم انتہائے نظر کی مسافت پر پڑتا تھا ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : میں اُس پر سوار ہوا ، یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا ، وہاں پہنچ کر اس سواری کو اس حلقے سے باندھ دیا جس حلقے سے دیگر انبیاء کرام علیہم السّلام (اپنی سواریاں) باندھتے ہیں ، پھر میں مسجد میں داخل ہوا ، اس میںد ورکعات اداء کیں ، پھر باہر نکل آیا، حضرت جبرئیل علیہ السّلام دودھ اورشراب کا ایک الگ الگ برتن میرے پاس لائے ، میں نے ان میں سے دودھ والا برتن لے لیا ، اس پر حضرت جبرئیل علیہ السّلام نے فرمایا : آپ نے فطرت ( کے عین مطابق چیز کو) پسند فرمایا ہے ۔ اس کے بعد وہ ہمیں آسمان کی طرف لے کر چل پڑے ۔ (صحیح مسلم :162،چشتی)

اجرِ نماز میں کئی گُنا اضافہ : اس مسجد کی ایک اہم فضیلت یہ بھی ہے کہ اسلام کے اہم ترین رکن نماز کا اجر و ثواب اس مسجد میں کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مسجد کا مقام و مرتبہ دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک امتیازی شان رکھتا ہے ۔

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ ہم نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بیٹھے اس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ آیا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسجد (یعنی مسجد نبوی) کی فضیلت زیادہ ہے یا بیت المقدس والی مسجد (یعنی مسجد اقصیٰ) کی ؟ یہ باتیں سن کر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری مسجد میں پڑھی جانے والی ایک نماز اُس مسجد (مسجد اقصیٰ) کی چار نمازوں سے افضل ہے ۔ اور وہ نماز کی جگہ تو بہت ہی خوب ہے ۔ عن قریب ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کو اگر گھوڑے کی ایک لگام کے برابر بھی کوئی ایسی جگہ مل جائے کہ جس سے وہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کرسکیں تو ان کے نزدیک یہ زیارت پوری دنیا سے بہتر ہوگی ۔ (مستدرک حاکم:4/509،چشتی)

یہ حدیثِ مبارکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی نشانیوں اور علم غیب میں سے ہے ، اس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ ایک وہ وقت آئے گا جب مسلمانوں کے دلوں میں اس مسجد کی قدر و قیمت بہت بڑھ جائے گی اور اس مسجد کے بارے میں دشمنانِ اسلام کی عداوتیں بہت بڑھ جائیں گی ، ان کی عداوتوں کی وجہ سے مسلمان اس مسجد کےلیے ترسیں گہ حتیٰ کہ انسان یہ سوچے گا کہ کاش اگر مجھے گھوڑے کی لگام جتنی کو ئی ایسی جگہ بھی مل جاتی جہاں سے میں مسجد اقصیٰ کی دیکھ لیتا تو وہ اس خوشی کو دنیا بھر کی خوشیوں سے بہتر سمجھے گا ۔

تمام انبیاء کرام علیہم السّلام کی اجتماع گاہ : ایک طویل حدیثِ مبارکہ میں ہے ، جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِسی مسجد میں سب انبیاء علیہم السّلام کی ایک نماز میں امامت کرائی ، حدیثِ مبارکہ کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں : فحانت الصلاۃ فاممتہم ۔
نمازکا وقت آیا تومیں نے ان کی امامت کرائی ۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر 172،چشتی)

دجال سے محفوظ جگہ : مسجد اقصیٰ ایک ایسی پاکیزہ سرزمین میں واقع ہے ، جہاں ’’کانا دجال‘‘ بھی داخل نہیں ہوسکے گا ، جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایا : وہ دجال ساری زمین گھومے گا م گر حرم اوربیت المقدس میں داخل نہیں ہوسکے گا ۔ (مسنداحمد ۔حدیث نمبر : 19665،چشتی)

جب امیر المومنین حضرت صیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی ۔ مسجد اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل (جس کو سورۃ الاسراء بھی کہتے ہیں) کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے ۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ مسجدِ اقصٰی کا بانی حضرت یعقوب علیہ سلام  کو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرت سلیمان  علیہ سلام نے کی۔ بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی ۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی ۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا ۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا ، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں ۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا ۔

سانحہ بیت المقدس 1969 : 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا ۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں ۔ اس المناک واقعہ کے بعد خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی ۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہوگئی ۔ یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا ۔

سانحہ  بیت المقدس 2017 اب جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل نوازی کیلے یہاں اسرائیل کا دار الخلافہ اور اپنا امریکی سفارتخانہ  کھولنے کاحکم جاری کر دیا ہے ۔  ٹرمپ کے  حکم کی ایسی کی تیسی ۔۔۔۔۔۔ حکم صرف اللہ کا اب 2021 کے مئی اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسرائیلی درندے یہودیوں نے پھر حملہ کر سینکڑوں مسلمان مرد ، عورتیں اور بچے اب تک شہید ہو چکے ہیں ، قبلہ اول کا تقدس مسلسل پامال کیا کیا جا رہا ہے اور امتِ مسلہ اور اس کے حکمران و افواج خوابِ غفلت میں پڑے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امتِ محمدی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے قبلہ اول کو بچانے کیلے کیا کرتی ہی ؟ درحقیقت  اللہ تعالیٰ  مسلمانوں کا امتحان لے رہا ہے ورنہ اللہ صرف کن کہتا ہے اور وہ ہو جاتا ہے ۔ میرے ذاتی نظریہ کے مطابق میں تو اس مسلہ پر ، اگر یہ طول پکڑ گیا ، میں  عالمی جنگ تک کے خطرہ کو محسوس کر رہا ہوں ۔ باقی تمام مسلمان اپنی سطح پر امریکہ و اسرائیل کا اور ان کی ہر قسم کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔ اپنی Trade (تجارت)  ڈالر میں ہرگز نہ کریں ، اس کی کرنسی کو نیچے گرانے میں لگ جایں ۔  امریکہ کا دیوالیہ نکالنے اور اس کو مالی طور پر غیر مستحکم کرنے میں  پر ہر مسلمان اپنا حصہ ڈالے ۔ یہی آپ کا اس وقت جہاد تصور ہوگا ۔

ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں ، جس کا حق یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے آخری اور افضل امت کا اعزاز پانے والی امت اس مسجد کی قدر کرتی ، اس مسجد کو دینی شعائر سے آباد رکھتی اور ہر قسم کے کفر اور کفریہ تسلط سے پاک رکھتی لیکن ۔ آہ ۔ آج اسی ارضِ مقدس کے مسلمان سخت آزمائشوں کا شکار ہیں ، انہیں وہاں قسما قسم کے تکلیف دِہ حالات کا سامنا ہے ، یہودی ظالم انہیں بلڈوزروں سے روند رہے ہیں ، بچوں کو قتل کررہے ہیں ، عورتوں کو جیلوں میں بند کرتے ہیں ، مسلمان عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں ، بوڑھوں کی تذلیل کرتے ہیں ، نوجوانوں کو گولیوں سے اُڑادیتے ہیں ، اُن کے گھروں کو مسمار کردیتے ہیں ، مسجد اقصی کی حرمت پامال کی جاتی ہے ، یہ سب حالات ہم مسلمانوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ان کے غم اور ان کے درد کو محسوس کریں ، ہم ان کےلیے دعاء کو اپنے معمولات کا حصہ بنا لیں اور جہاد کا پختہ عزم کریں ، جہادی قافلے میں شامل ہوجائیں ، تاکہ ان کفار کی جارحیت کا منہ موڑا جائے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان کے رہنماؤں کو اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہو امت مسملہ کی بھاگ دوڑ سنبھالیں اور مظلوم بے کسوں مسلمانوں کو گاجر مولیوں کی طرح کٹنے سے بچانے کےلئے امن کا وہ ہی راستہ اپنایا جائے جو تاریخ اسلام میں سنہری حروف کےساتھ لکھا جاتا ہے ۔ یعنی جہاد فی سبیل للہ ۔ اگر ہم سچے اور پکے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہو جائیں جیسا اللہ عزّوجلّ کے پیارے محبوب نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان عالی شان ہے کہ ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے ۔ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی ۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں والہ قصہ بن جائے گا ۔

یا اللہ مسجدِ اقصیٰ کو ظالموں ، سرکشوں اور غاصبوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک فرما ، فسلطینی مسلمانوں کے ضعف اور کمزوری کو ختم فرما ، انہیں قوت عطاء فرما ، ان کے دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام فرما ، کافروں کی جنگ کو واپس انہی پر پلٹ دے ۔ یا اللہ بلاشبہ تو ہی سب سے بہتر انتقام لینے والا اور مجرموں کو سزا دینے والا ہے ۔ افسوس ہے کہ ادھر چند سالوں سے پھر قدس اور مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں ؛ مگر آج بھی مسجد اقصی اس کا انتظام و انصرام اردن کی "وزارت ِاوقاف اور شئونِ مقدّساتِ اسلامیہ" کے تحت ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی قدس اور مسجد اقصی کو ان ظالم وجابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے آزاد کرادےاور فلسطینیوں کی قربانی بار آور ثابت ہو آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر چشم کشا مضمون

 مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر چشم کشا مضمون محترم قارئینِ کرام ارشادِ بارعی تعالیٰ ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا...