غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : استاذی المکرّم غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے : سَیّد اَحْمَد سعید کاظمى بن سَیّد مختار اَحْمَد کاظمی بن سَیّد یوسف علی چشتی بن سَیّد شاہ وصی اللہ نقشبندی مجددی بن سَیّد صبغۃاللہ نقشبندی بن سَیّد سیف اللہ شاہ چشتی رحمہم اللہ علیہم اجمعین ‘‘ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسب ۳۷ واسطوں سے حضرت سَیّدنا امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ اور ۴۴ واسطوں سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جاملتا ہے ۔ غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کا مبارک خاندان مغل بادشاہ اکبر اعظم کے دور میں دہلی میں آباد ہوا ۔ پھر کچھ عرصہ بعد اترپردیش ضلع مرادآباد کے مضافاتی علاقے امروہہ میں آباد ہوگئے ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ،ص ۲۵)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار بچپن میں والدِ محترم سَیّد مختار اَحْمَد کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا عمامہ شریف اتار کر میرے سر پر رکھ دیا اور اس پر تھپکى کے انداز میں اپنا دستِ شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا : میرا یہ بچہ بہت بڑا عالم بنے گا ، بہت بڑا عالم بنے گا ۔ (علامہ کا ظمی کی دینی و ملی خدمات ،ص٢٧،چشتی)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک تقریباً ۶ سال تھی کہ والدِ محترم کا سایہ سر سے اٹھ گىا تھا ، آپ کى پرورش اور تعلىم و تربیت آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ اور برادرِ مُکَرَّم حضرت علامہ سید محمد خلیل شاہ کاظمی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے زىرِ سایہ ہوئی ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ،ص ۲۷)
حضرت علامہ سَیّد محمد خلیل شاہ کاظمى رحمۃ اللہ علیہ کے امامِ اہلِ سنّت اعلىٰ حضرت علامہ مولانا شاہ امام اَحْمَد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے اچھے تعلقات تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں آنا جانا تھا ۔ ایک بار حضرت علامہ سَیّد محمد خلیل شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کى خدمت میں حاضر ہوئے تو غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ (جو ابھی چھوٹے تھے) بھی ساتھ تھے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں اپنى گود میں اٹھالیا اور دیر تک اپنى دعاؤں اور شفقتوں سے نوازتے رہے ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ،ص ۲۷)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کى والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلىم و تربیت کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں : میری والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا میری تربیت کے دوران سوتے جاگتے ، اٹھتے ، بیٹھتے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیارے پیارے فرامین اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرتِ طَیّبہ کے واقعات ارشاد فرماتی تھیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دینی علوم کا اکثر حصہ اپنی والدہ سے پڑھا ، ہدایہ آخرین بھی آپ کی والدہ ماجدہ نے ہی پڑھائی ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ،ص۲۷)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایام طالب عِلْمى کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ بچپن میں تعلىم کے بعد اکثر و بیشتر کھانے کو بہت کم ملتا تھا ، اکثر فاقوں میں زندگى بسر ہوتى تھى اس حالت میں بھى روزانہ حدیث کے چالیس چالیس صفحات یاد کرلیا کرتا تھا ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات، ص۲۷)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کو زمانہ طالب علمی ہی میں تصنیف و تالیف کا شوق تھا چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۴۴ھ بمطابق 1926ء ۱۳ سال کی عمر میں انتہائى عِلمى تحقیق رقم فرمائی ۔جس کا نام آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تَسبِىحُ الرَّحمٰن عَنِ الکِذبِ وَالنُّقصَان‘‘ رکھا ۔ (حیات غزالئ زماں،ص۳۴)
دستار بندی ۱۳۴۸ ھ بمطابق1929ء میں غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے سولہ سال کى عمر میں سندِ فراغت حاصل کى ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی دستار بندى شیخ المشائخ حضرت سید على حسىن شاہ اشرفى کچھوچھوى رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ۔ اس موقع پر خلیفۂ اعلیٰ حضرت ، صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدىن مراد آبادى ، مولانا نثار اَحْمَد کانپورى اور دیگر کئی علمائے کرام و پیران عظام رحمہم اللہ علیہم بھی موجود تھے ۔ جنہوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو خصوصى دعاؤں سے نوازا ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۳۴،چشتی)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۴۷ھ بمطابق ۱۹۲۹ء میں اپنے برادرِ معظم محدثِ امروہہ حضرت علامہ سید محمد خلیل شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ چشتیہ قادریہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت حاصل کی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو چشتی سلسلے میں خلافت اپنے برادرِمعظم اور قادری سلسلے میں خلافت شہزادۂ اعلی حضرت ، مفتیٔ اعظم ہند علامہ محمد مصطفٰے رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے ملی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ زیادہ تر چشتیہ سلسلہ میں بیعت فرماتے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین سعیدی کہلاتے ہیں ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ، ص۲۸)
غزالىٔ زماں کا لقب
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کو دنیا بھر میں غزالئ زماں کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ لقب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو عظیم مُفَسِّرِ قرآن ، خلیفۂ اعلیٰ حضرت ، محدثِ اعظم ہندحضرت علامہ مولانا سَیّد محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوى رحمۃ اللہ علیہ نے بھرے مجمع میں اس وقت دیا جب کم و بىش ڈیڑھ سو جید علمائے کرام کی موجودگی میں حضرت علامہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ عِلْم و عرفان کے دریا بہا رہے تھے ۔ عوام کے جَمِّ غَفیر نے محدث اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کی تائید فلک شگاف نعروں کے ذریعہ سے کى ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات، ص۲۱)
امروہہ سے لاہور سفر ۱۹۳۰ء میں سندِ فراغت پانے کے بعد باقاعدہ عملی زندگی میں قدم رکھا چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۴۹ھ بمطابق ۱۹۳۰ء میں لاہور تشریف لائے اور استاذ العلماء و المحدثین حضرت علامہ سید محمد دیدار على شاہ مُحدِّثِ اَلوَرِى ، مُفسِّرِقرآن حضرت علامہ سیّد ابوالحسنات محمد اَحْمَد قادرى اور مفتىٔ اعظم پاکستان حضرت علامہ سیّد ابوالبرکات اَحْمَد قادری رحمہم اللہ علیہم جیسى جلیل القدر عِلْمی ہستیوں کى صحبت سے فیض یاب ہوئے ۔ (مقالات کاظمی جلد اوّل ص۱۲)
لاہور میں مختلف علماو مشائخ کی صحبت میسر رہی اسی اثنا میں ایک دن جامعہ نعمانیہ تشرىف لے گئے ۔ وہاں ایک درجے میں مولانا حافظ محمد جمال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ عِلمی مکالمہ ہوا تو وہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کى جودتِ طبع (ذہانت) اور اِستحضارِ مسائل (مسائل کی یادداشت) کے ملکہ سے بہت متأثر ہوئے اور مہتمم جامعہ کے سامنے آپ کی قابلیت کا ذکر کیا ۔ مہتمم صاحب نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو جامعہ نعمانیہ میں تدریس کى پیش کش کى ، جسے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے برادرِ معظم علامہ سَیّد محمد خلیل شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کى اجازت سے قبول فرما لیا ۔ میدانِ تدریس میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی قابلیت و مہارت اور طلبہ کے آپ کی طرف میلان کا نتیجہ تھا کہ اىک وقت میں اٹھائیس اسباق کى تدریس بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول رہی ۔ یوں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 1930ء میں باقاعدہ تدریس کا آغاز فرمایا اورآپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سلسلۂ تدریس ساری زندگی مختلف مقامات پر جاری رکھا ۔ (مقالات کاظمی،۱/۱۲)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ برادرِ اکبر رحمۃ اللہ علیہ اور آبائی وطن سے جدا ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوچکا تھا ۔ یاد وطن نے ستایا تو ۱۹۳۱ء میں آپ لاہور سے واپس امروہہ تشریف لے گئے اور وہیں مدرسہ محمدیہ حنفیہ میں فرائضِ تدریس انجام دینے لگے ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۳۸)
حضرت علامہ سَیّد محمد خلیل شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے ہر پہلو سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت فرمائی ۔ برادرِ اکبر نے غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کو بزرگانِ دین اور صوفیا کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی بھی تربیت فرمائی ۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک درویش صفت بزرگ حضرت سَیّد نفیر عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں وقتاً فوقتاً حاضر ہوتے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سید نفیر عالم رحمۃ اللہ علیہ کواپنا شىخِ صحبت بنالیا تھا ۔ حضرت سید نفیرعالم رحمۃ اللہ علیہ ہر سال ملتان میں خواجہ غریب نواز سلطان الہند معین الدین حسن چشتى اجمیرى رحمۃ اللہ علیہ کا عرس منعقد کیا کرتے تھے ۔ ایک بار عرس کے موقع پر حضرت کاظمی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو بیان کی دعوت دی گئی جسے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خوشی خوشی قبول فرمالیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان میں عِلْم وحکمت کے گلشن کھلا دیۓ ۔ عشاقانِ رسول کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ بیاں اس قدر بھایا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے ملتان شریف ہی میں تشریف فرما رہنے کی اِستدعا کرنے لگے ۔ بالآخر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اہلِ عقیدت کے پیہم اصرار پر ان کی عرض قبول فرمالی ۔ یوں آپ رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۵۳ھ بمطابق ۱۹۳۵ء میں ملتان شریف میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگئے ۔ (مقالات کاظمی،۱/۱۳،چشتی)
ملتان شریف میں قیام فرمانے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بلا تاخیر شمع عِلْمِ دین روشن کرنے کا انتطام فرمایا چنانچہ اپنے دولت خانے پر ہی درس و تدرىس کا سلسلہ شروع فرما دیا ۔ تشنگانِ عِلْم کو کاظمی چشمے کا عِلْم ہوا تو دور دراز سے پیاس بجھانے کےلیے آنے لگے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۴۶)
درسِ قرآن نومبر 1935ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جامع مسجد فتح شیر بیرون لوہارى دروازہ میں درسِ قرآن کا آغاز فرمایا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی استقامت کو لاکھوں سلام کہ ایک دن بھی درسِ قرآن کا ناغہ یا تاخیر نہ فرمائی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مسلسل اٹھارہ برس تک اس مسجد میں درس قرآن دیا ۔ صرف بسم اللہ شرىف پر چھ ماہ درس دیا ۔ (مقالات کاظمی،۱/۱۴)(غزالئ زماں کا طرز استدلال، ص۴۹)
درسِ حدیث کچھ عرصہ بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت چپ شاہ رحمۃ اللہ علیہ کى مسجد میں درسِ حدیث کا آغاز فرما دیا چنانچہ پہلے مشکوة شریف اور اس کے بعد بخارى شرىف کا درس مکمل فرمایا ۔ (نور نور چہرے ،ص۱۴)
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے ملتان شریف کی تقریباً 9 مساجد میں درس وبیاں کا سلسلہ جاری فرمایا جن کے نام یہ ہیں : (1) مسجد فتح شیر بیرون لوہارى دروازہ محلہ قدیرآباد (2) مسجد چپ شاہ (3) جامع مسجد پھول بٹ چوک شاہ مجید (4) مسجد درکھاناں والى نواں شہر (5) مسجد مرکزى انوار العلوم کچہرى روڈ (6) مسجد غوثیہ قادرى قلعہ کہنہ (7) نورى مسجد ممتاز آباد (شاہى مسجد عیدگاہ (9) مسجد دربار پیر ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ، ص۱۱۹،چشتی)
اکاون (51) سال تک فی سبیل اللہ خطابت
غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۳۵ء سے شاہى مسجد عیدگاہ میں خطابت اور جمعہ و عیدین کی نمازکی امامت کے فرائض سنبھالے اور دمِ آخر تک تقریباً 51 سال فی سبیل اللہ یہ فرائض انجام دیتے رہے ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات، ص۱۲۱)
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کے سنیئر استاد بھائی شرفِ ملت استاذ العلما حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فواد نامی ایک عیسائی پادری جو کہ ملک شام کا رہنے والا تھا تقریباً ہر سال پاکستان آیا کرتا ۔ اس نے مختلف مکاتب فکر کے علما سے مناظرے بھى کیئے مگر کسى سے مطمئن نہ ہوا ۔ حسبِ معمول 1960ء مىں جب وہ پاکستان آیا تو حضرت علامہ سید اَحْمَد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ٹھہرا ۔ اس نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے قرآن کریم پر کچھ اعتراضات کیے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حقانیت و صداقتِ قرآن پر بکثرت دلائلِ عقلیہ و نقلیہ پیش فرمائے ۔ دلائل و براہین کے کوہِ گراں کے آگے اسے دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی اور بالآخر وہ مطمئن ہوگیا اور اسی وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر توبہ کرکے مسلمان ہوگیا ۔اس نے ملتان شریف کے عىسائیوں کو جمع کیا اور انہیں بھی دعوت اسلام دیتے ہوئے کہا کہ تم بھى مسلمان ہوجاؤ ، کیونکہ میں علامہ کاظمى شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل سے مطمئن ہو کر ان کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کرچکا ہوں ۔ شرف ملت علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ واقعہ17 مارچ 1986ء بروز پیر شریف خود غزالى زماں رازى دوراں حضرت علامہ سید اَحْمَد سعید شاہ کاظمى رحمۃ اللہ علیہ نے سنایا اور یہى حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے میرى آخرى ملاقات تھى جسے میں کبھى نہىں بھول سکتا ۔ (نور نور چہرے صفحہ نمبر ۲۱)۔(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment