Monday, 17 May 2021

جہاد فرضِ عین کی تعریف و احکام حصّہ دوم

 جہاد فرضِ عین کی تعریف و احکام حصّہ دوم

محترم قارئینِ کرام : حصّہ اوّل میں عنوان کے طور پر پیش کی گئی آیتِ مبارکہ اس موقع پر نازل ہوئی تھی جب کافر کی ایذاء رسانیوں اور زیادتیوں پر مسلمانوں کو صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور ان کو معاف کرنے اور درگزر کرنے کا حکم تھا اور یہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ مسلمانوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اجازت طلب کی کہ وہ خفیہ طریقہ سے کافروں کو قتل کردیں تو آپ نے ان کو منع فرما دیا اور یہ آیت نازل ہوئی کہ مسلمان فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا مشرکین سے خود دفاع کرے گا اور ان کا بدلہ لے گا ، بیشک اللہ کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو پسند نہیں کرتا یعنی مسلمانوں کو اس سے منع کیا کہ وہ خفیہ طریقے سے کافروں کو قتل کریں کیونکہ یہ غدر دھوکا اور خیانت ہے ۔ حدیث میں ہے : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ دھوکا دینے والے اور عہد شکنی کرنے والوں کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 6178،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث :1735)(مسند احمد رقم الحدیث :54570)(السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :8737)

اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حجت اور دلیل کے ساتھ مسلمانوں کی مدافعت اور حفاظت کرے گا اور کوئی مشرک کسی مسلمان کو قتل نہیں کرسکے گا اور اگر کسی مشرک نے کسی مسلمان کو قتل کر بھی دیا تو مسلمان اللہ کی رحمت میں ہوگا ۔
اس آیت کی چوتھی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمنوں کو یہ بشارت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کفار پر غلبہ عطا فرمائے گا اور ان کے مظالم اور ایذائوں کو مسلمانوں سے دور کر دے گا۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے : لن یضروکم الا اذی وان یقاتلوکم یولوکم الادبار اثم لاینصرون ۔ (آل عمران : 111) وہ تمہیں ایذاء پہنچانے کے سوا اور زیادہ ضرر نہیں پہنچا سکتے اور اگر انہوں نے تم سے جنگ کی تو یہ پیٹھ موڑ کر بھاگیں گے پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی ۔

لغت میں کسی کام کےلیے اپنی پوری کوشش اورتوانائی خرچ کرنےکے ہیں اورشریعت کی اصطلاح میں اللہ کا کلمہ بلندکرنے اوردشمن کی مدافعت کرنے میں جان ، مال ، زبان ، قلم کی پوری طاقت خرچ کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے ۔

امامِ راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے لفظِ جہادکی تشریح کرتے ہوے فرمایاکہ جہاد کی تین قسمیں ہیں ، ایک کھلے دشمن کامقابلہ ،دوسرے شیطان اوراس کے پیدا کئیے ہوئے خیالات کامقابلہ ، تیسرے خود اپنےنفس کی ناجائز خو اہشات کا مقابلہ ۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز بھی اللہ تعالٰی کی فرماں برداری کے راستہ میں رکاوٹ ہے ، اس کی مدافعت جہاد ہے اور یہ رکاوٹ عادتاً انہیں تین طرفوں سے ہوتی ہے ۔ اس لیے جہاد کی تین قسمیں ہوگئیں ۔ امامِ راغب نے یہ تین قسمیں بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ارشادِ قرآنی ہے ۔ وَ جاَھِدُوۡ فیِ اللہِ حَقَّ جِہَادِہ ، (یعنی جہادکرواللہ کی راہ میں پوراجہاد) ۔ یہ جہادکی تینوں قسموں کو شامل ہے ۔

بعض روایات حدیث میں نفس کی ناجائز خواہشات کا مقابلہ اسی لئیے جہاد قرار دیا ہے

قرآنِ کریم کی کئ آیتوں میں جہاد کےلیے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد فرمایا ہے ۔ وَتجاھِدُوۡنَ فیِۡ سبیلِ اللہِ بِاَموَالِکمُ ۡ وَاَنفسکم ، کا بھی یہی مطلب ہے اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا کہ جس شخص نے کسی غازی کو سامانِ جہاد دے دیا اس نے بھی جہاد کرلیا ۔

اورایک حدیث میں زبان کے جہاد کو بھی جہاد قرار دیا ہے ۔ اورقلم چونکہ ادائے مضمون میںزبان ہی کے حکم میں ہے ، اس لیے قلمی دفاع کوعلماء اُمّت نے جہاد میں شامل فرمایا ہے ۔

مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ لفظِ جہاد اصطلاحِ شرع میں اللہ کی راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کے مقابلہ اور مدافعت کے لیے عام معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مگر عرفِ عام میں جب لفظِ جہاد بولا جاتا ہے توعموماً اس کے معنی دشمنانِ دین کے مقابلہ میں جنگ ہی سمجھے جاتے ہیں جس کے لیے قرآنِ کریم نےلفظِ قتال یا مقاتلہ استعمال فرمایا ہے ۔

جہاد کی نیّت

ہر مسلمان جانتا ہے کہ تمام عبادات اسلامیہ کی صحِت کا مدارنیّت صحیح ہونے پر ہے ۔ اسی لیے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج سب ہی کی ادایئگی میں نیّت درست کرنا فرض اور ضروی سمجھا جاتا ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا واضح ارشاد اس معاملہ میں یہ ہے ۔ اِنما الا عما ل بالنیّاتِ وانمالامریٔمانوٰ ی ۔ (صحیح بخا ری) ' اعمال کا مدار نیّت پر ہے اور ہر انسان کو اپنے عمل کے بدلہ میں وہی چیز ملتی ہے جس کی نیّت کی ہے ۔

یعنی عبادات کا ثواب جب ہی کسی کو ملتا ہے جب کہ اس کی نیّت خالص اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرماںبرداری اور رضاجوئی کی ہو ۔ دنیا کا مال ومتاع یاجاہ ومنصب مقصود نہ ہو،ورنہ اللہ کے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ ریاء ہے جو بجا ئے ثواب کے گناہِ عظیم ہے ۔

علماء اسلام نے اس حدیث کو ایک چوتھائی اسلام قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کا بہت بڑا حصّہ اس پر موقوف ہے ۔

وہ عالم جو دنیا کی شہرت اور نام و نمود کےلیے علمی خدمات انجام دیتا ہے یا وہ غازی جو جہاد میں شہرت و انعام کی خاطر جانبازی کرتا اور شہید ہو جا تا ہے ۔ اور وہ شخص جو نام و نمود کےلیے دینی خدمات میں بڑی فیاضی سے مال خرچ کرتا ہے ۔

ان تینوں کے متعلق صحیح حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد یہ ہے کہ ان کو یہ کہ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا کہ تو نے جس مقصد کےلیے علمِ دین کو استعمال کیا یا جس مقصد کے لیے جان دی ، یا جس مقصد کےلیے مال خرچ کیا ، وہ مقصد ہم نے تجھے دنیامیں عطا کر دیا کہ لوگوں میں تیرے عالم ، ماہر ہونے کی شہرت ہوئی ، یاتجھے غازی اور شہید کے نام سے پکارا گیا ، یامال خرچ کرنےکی بناء پر تجھے سخی اور فیاض کہا گیا ۔ اب ہم سے کیا چاہتے ہو ؟ (صحیح بخاری)

جہاد کے میدان میں اُترنے والے ہمارے مسلمان بھائی جو ساری دنیا کو چھوڑ کر اپنی جانوں کی بازی لگاتے ہیں ، دنیا و آخرت کے اعتبار سے کتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کے ثواب کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، انُ حضرات کےلیے نہایت اہم ضرورت اس کی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشاد مذکور کو ہر وقت سامنے رکھیں اور جہاد میں اخلاص کے سا تھ صرف یہ نیّت کریں کہ اللہ کےلیے اسلام اور مسلمانوں کی حفا ظت اور دشمنا نِِ دین کی ی مدافعت کرنا ہے ۔ دنیا کے ثمرات و نتائج اور انعامات بھی اللہ تعا لیٰ ان کو عطا فرما یئں گے ۔ مگر جہاد کے وقت ان چیزں کو اپنے دل میں نہ آنے دیں ۔

مؤمن کا جہاد وطن کےلیے نہیں اسلام کےلیے ہے

اسلام نےاپنے ابتدائی دورمیں نسلی ، قبائلی ، وطنی،لسانی وحدتوں کے بت توڑ کر ایک اسلام کی وحدت قائم کی تھی جس میں مشرق مغرب کے بسنے والے کالے گورے ، عربی ، ہندی سب یکساں شریک ہوں ۔ یہ ایک ایسی وحدت قائم ہوئی جس نے دنیاکی ساری وحدتوں کوزیر و زبر کر دیا ۔

چند صدیوں سے یورپ والوں نے اس اسلامی وحدت کی بے پناہ قوت سے عاجز ہو کر بڑی چالاکی سے لوگوں میں پھروطن پرستی اور نسب پرستی کے جذبات بیدار کئے تاکہ اسلامی وحدت کو جعرافیائی اور نسلی تفرقوں میں بانٹ کر پارہ پارہ کر دیں ۔ کفار کے پاس تو کو ئی ایسا دین و مذہت نہیں ہے جس کے نا م پر تما م دنیا کے انسانوں کو جمع کر سکیں ۔ اس لے وہ ہمیشہ یا اپنے قبیلہ اور نسب کی حفاظت کے لیے اسی کے نام پر جنگ کرتے ہیں ، یا پھر اپنے وطن اور ملک کے نام پر لوگوں کو دعوتِ اتّحاّد دیکر جمع کر تےہیں اور لڑتے ہیں ۔

مسلمان قوم کو اللہ تعا لٰی نے ان سب چیزوں سے با لا تر رکھا ہے ۔ وہ صرف اللہ کے لیے اور اسلا م کے لیے جہاد کرتا ہےاور وطن یا نسب اللہ تعا لیٰ اور اسلا م کی راہ میں حائل ہو ، اس نسب و وطن کو بھی اس پر قربان کر دیتا ہے ۔ اسلام کی سب سے پہلی ہجرت ِمدینہ نے اور بدرِ اُحد کے میدانوں نے ہمیں یہی سبق دیے ہیں ، کیونکہ ان میدانوں میں ایک ہی خاندان کے افراد کی تلواریں اسی خاندان کے دوسرے افراد کے سروں پر اس لیے پڑی ہیں کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے ۔ اگر وطنی اور قبائلی وحدتیں مقصد ہوتیں تو یہ سارے جہاد فضول ہوتے ۔

آج کل عام لوگوں کی زبان پر وطن کانعرہ سنتے سنتے مسلمان بھی اس کے عادی ہوگئے اور اپنے جہاد کو وطن کےلیے کہنے لگے ۔ اللہ تعالٰی کاشکر ہے کہ ہمارے اکثر نوجوانوں کے خیالات اس سے پاک ہیں ۔ وہ اپنی جان اللہ کےلیے دیتے ہیں نہ کہ وطن کےلیے ۔ لیکن رائج الوقت زبان کا ایک محاورہ بن جانے کی وجہ سے اکثر ہمارے شعراء اور خطباء غالباً بے خیا لی میں یہ الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایسے الفاظ سے بھی اجتناب کیا جائے ۔

کفار سے درگزر کی آیات کا منسوخ ہونا اور ان سے قتال کی اجازت دینا

الحج :39 میں فرمایا : جن لوگوں سے (ناحق) قتال کیا جاتا ہے ان کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے ۔
یہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب ہیں جن کو مکہ میں مشرکین بہت سخت ایذائیں پہنچاتے تھے ۔ مسلمان آپ کے پاس آتے ، کسی کا سرپھٹا ہوا ہوتا ، کسی کو کوڑوں سے مارا ہوا ہوتا ، کسی کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا ہوا ہوتا ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سے فرماتے : صبر کرو ، ابھی مجھے ان سے قتال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا حتیٰ کہ آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرلی ۔ ستر سے زیادہ آیتیں کفار کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرنے کے متعلق نازل ہوئی تھیں اور یہ پہلی آیت ہے جس میں کفار سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد وہ تمام آیتیں منسوخ ہوگئیں جن میں کافر کی زیادتیوں پر عفو اور درگزر کا حکم دیا گیا تھا ۔ یہ ستر سے زیادہ آیات درحقیقت ایک آیت کے حکم میں ہیں جن میں کفار کی زیادتیوں پر صبر کا حکم دیا گیا ہے ۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ متوفی 310 ھ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا انہوں نے اپنے نبی کو نکال دیا انا للہ و انا الیہ راجعون اور جب یہ آیت نازل ہوئی اذن للذین یقاتلون الآیۃ تو میں نے جان لیا کہ اب جنگ ہوگی ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :19098،چشتی)

اس آیت کی تفسیر میں ابن زید نے کہا مشرکین کو معاف کرنے کا حکم دینے کے دس سال بعد یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو ان سے قتال کی اجازت دی گئی ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :19100)

قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کفار سے قتال کی اجازت دی گئی ہے ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :19105)

بعض لوگوں کو بعض دوسرے لوگوں سے دور کرنے کا محامل

الحج :40 میں فرمایا : جن لوگوں کو ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اتنی بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے ! آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے دو وجہوں سے ان کا ظلم بیان فرمایا ہے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کو ان کے گھروں سے نکالا گیا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کو صرف اس کہنے پر نکالا گیا کہ انہوں نے کہا تھا ہمار ابر اللہ یہ ۔
اس کے بعد فرمایا اور اگر اللہ بعض لوگوں کو دور سے بعض لوگوں سے دور کرتا نہ رہتا تو راہبوں کی خانقاہیں اور کلیسائیں اور یہودیوں کے معبد اور جن مسجدوں میں اللہ کا بہت ذکر کیا جاتا ہے، ان سب کو ضرور منہدم کردیا جاتا۔ اس آیت میں جو فرمایا ہے اللہ بعض لوگوں کو دور سے بعض لوگوں سے دور فرماتا رہتا ہے ۔ اس کے حسب ذیل محامل ہیں ۔

(1) اس سے مراد ہے مسلمانوں کو کفار کے خلاف جہاد کی اجازت دینا گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ مسلمانوں کو مشرکین کے خلاف جہاد کی اجازت دے کر ان سے کفار اور مشرکین کو دور فرماتا ہے اور اگر اللہ یہ اجازت نہ دیتا تو مشرکین مسلمانوں کی عبادگاہوں پر قبضہ کرلیتے اور اسی وجہ سے راہبوں کی خانقاہوں ، کلیسائوں اور یہودیوں کے معبد کا بھی ذکر فرمایا ۔ ہرچند کہ یہ غیر اہل اسلام کی عبادت گاہیں ہیں ۔

(2) جو مسلمان عذر کی وجہ سے جہاد نہیں کرسکتے ، ان سے جہاد کی مشقت کو جہاد کرنے والے مسلمانوں کے سبب سے دور فرما دیتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کی وجہ سے برے لوگوں سے عذاب کو دور فرما دیتا ہے ۔ سو نمازیوں کی برکت سے بےنمازوں کے عذاب کو دور فرما دیتا ہے اور صدقہ کرنے والوں کی وجہ سے ان سے عذاب کو دور کردیتا ہے جو صدقہ نہیں کرتے اور حج کرنے والوں کی وجہ سے ان سے عذاب کو دور کردیتا ہے جو حج نہیں کرتے ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، بیشک اللہ نیک مسلمان کے سب سے اس کے پڑوس کے سو گھروں سے مصائب کو دور کردیتا ہے ۔ (الکامل لابن عدی ج و ص 274، جدید العقیلی ج 4 ص 404، مجمع الزوائد ج 9 ص 167،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : نیکی میں سبقت کرو، نیکی میں سبقت کرو، اگر نوجوان اللہ سے ڈرنے والے اور بوڑھے نمازیں پڑھنے والے اور چرنے والے چوپائے نہ ہوتے تو سب پر آندھیوں کا عذاب آجاتا ۔ (مسند ابویعلی رقم الحدیث :6402، مسند البز اور رقم الحدیث :2193 مسند البزار رقم الحدیث :2193 السنن الکبریٰ للبیہقی ج 3 ص 345 تاریخ بغداد ج 6 ص 64 مجمع الزوائد ج 10 ص 227، 230 المطالب العالیہ رقم الحدیث :3185)

یہود و نصاریٰ کی عبادت کے مقامات اور مسلمانوں کی عبادت کے مقام کو جمع کرنے کی توجیہات

(1) حسن نے کہا، ان مقامات سے مراد مومنوں کی عبادات کے مقامات ہیں خواہ وہ کسی مذہب کے مومنین ہوں ۔

(2) زجاج نے کہا اگر اللہ ہر نبی کی شریعت میں بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے دور نہ کرتا تو کسی نبی کے زمانہ میں نماز پڑھنے کی جگہ سلامت نہ رہتی، اور اگر اللہ بعض شریروں اور مفسدوں کو نیک لوگوں سے دور نہ کرتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان کی عبادت گاہیں قائم نہ رہتیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یک زمانہ میں ان کے معبد سلامت نہ رہتے اور ہمارے نبی سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں آپ کی مسجدیں باقی نہ رہتیں ۔ اس بناء پر یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں سے اس وقت تک مفسدوں کو دور رکھا گیا جب تک وہ دین حق پر قائم تھے اور انہوں نے اپنے دین میں تحریف نہیں کی تھی اور ان کی شریعت منسوخ نہیں کی گئی تھی ۔

(3) اس سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں بھی ان کے معاہد کی حفاظت کی گئی کیونکہ ان عبادت گاہوں میں بہرحال اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے اور وہ بت پرستوں اور مشرکوں کے بت کدوں اور مندروں کی طرح نہیں ہیں ۔

(4) اگر قتال اور جہاد کو مشروع نہ کیا جاتا تو کسی زمانہ میں اور کسی نبی کی امت میں بھی اہل حق کی عبادت گاہیں محفوظ نہ رہتیں ۔

الصوامع، البیع اور صلوات کے معانی

صوامع ، صومعتہ کی جمع ہے ، صومعتہ اس بلند عمارت کو کہتے ہیں جس کا بالائی حصہ محدب (گاؤں دم) ہو ، عیسائی چونکہ اپنے عبادت خانوں کا سرا بنلد، باریک اور گائوں دم بناتے ہیں، اس لئے اس کو صومعہ کہتے ہیں ۔

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اسلام سے پہلے صوامع نصاریٰ کے راہبوں کے ساتھ مخصوص تھے اور صائبین (آتش پرست) گرجوں کے ساتھ مختص تھے پھر بعد میں مسلمانوں کی اذان کی جگہ کو صومعہ کہا جانے لگا ۔ (الجامع لا حکام القرآن جز 12 ص 67)

یع : یہ بیع کی جمع ہے عبادت خانہ، اس کا معنی ہے یہود و نصاریٰ کا عبادت خانہ اور گرجا۔ علامہ قرطبینے لکھا ہے کہ یہ عیسائیوں کا معبد ہے اور امام طبری نے لکھا ہے یہ یہودیوں کی عبادت گاہ ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 12 ص 67)

صلوات : یہ صلوۃ کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے رحمتیں ، دعائیں ، نمازیں عبادت خانے ۔ علامہ قرطبی نے لکھا ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا الصلوت سے مراد ہے یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہیں ۔ ابوالعالیہ نے کہا اس سے مراد ہے صائبین کی مساجد۔ ابن زیاد نے کہا اس سے مراد ہے جب دشمنان اسلام کے حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کی مساجد ویران ہوجائیں اور ان میں نمازیں معطل ہوجائیں ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 12 ص 67،چشتی)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 606 ھ لکھتے ہیں ۔ الصوامع ، البیع الصلوات اور المساجد کے حسب ذیل محامل ہیں :

(1) ابوالعالیہ نے کہا الصوامع نصاریٰ کی وہ عبادت گاہیں ہیں اور البیع یہودیوں کی عبادت گاہیں اور صلوات، صائبین کی عبادت گاہیں ہیں اور مساجد مسلمانوں کی عبتاد گاہیں ہیں ۔
(2) زجاج نے کہا الصوامع نصاریٰ کی وہ عبادت گاہیں ہیں جن کو انہوں نے صحرا میں بنایا تھا اور البیع ان کی وہ عبادت گاہیں ہیں جن کو انہوں نے شہروں میں بنایا تھا اور صلوات یہودیوں کی عبادت گاہیں ہیں عربانی میں اس کو صلوتا کہتے ہیں ۔

(3) قتادہ نے کہا الصوامع صائبین کے لئے ہیں، البیع نصاریٰ کے لئے اور صلوات یہود کے لئے ۔

(4) حسن نے کہا یہ تمام مساجد کے اسماء ہیں ۔ رہا الصوامع تو وہ اس لئے ہے کہ کبھی مسلمان اس طرز کی مساجد بناتے ہیں اور رہا البیع تو یہ اس لئے کہ مسلمانوں کی مساجد پر اس کا تشیباً اطلاق ہے اور رہا الصلوات تو اس کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مفسدوں کو دور نہ کرتا تو نمازیں معطل ہوجاتیں اور مساجد منہدم اور ویران ہوجاتیں ۔ (تفسیر کبیرج 8 ص 230 مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ،چشتی)

فرضِ کفایہ بعض اَوقات فرضِ عین ہوجاتاہے

اگرکوئی قومی فرض جوعلی الکفایہ سب کےذمہ فرض ہے ، اس کے ادا کرنیوالی کوئی جماعت موجود نہیں ہے یا موجود ہوتے ہوئے سستی یا غفلت کر رہی ہے یا اس کی تعداد اور سامان اس فریضے کی ادائیگی کےلیے کافی نہیں ہے تو اُن سے قریب کے مسلمانوں پر فرضِ عین ہو جاتا ہے کہ وہ اِس فریضے کو ادا کریں اور اگر ادا کرنے والوں کو جانی یا مالی امداد کی ضرورت ہو تو اس کو پورا کریں ۔ قریب کے مسلمانوں نے بھی غفلت برتی یا وہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہوئے تو ان سے قریب کے شہروں اور دیہات میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر فریضہ عائد ہو جا ئیگا ۔ اسی طرح جس قدر جانی یا مالی امداد کی ضرورت پیش آتی جائے گی ، نزدیک سے لے کر سب مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہو تا چلا جائے گا ۔ صرف بچے ، بوڑے ، بیمار ،نادار اور اپاہچ لوگ اس فرض سے مستثنٰی ہوں گے ۔ (ہدایہ ، بدائع)

جہاد کب فرضِ عین ہو جاتا ہے ؟

جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر حملہ کردیں اور اس کی مدافعت کے لیے ملک کا مسلمان حاکم و امیر حکم عام جاری کرے کہ سب مسلمان جو قابلِ جہاد ہیں ، شریک ہوں ، تو سب پر جہاد کے لیے نکلنا فرضِ عین ہو جا تا ہے ۔ مدافعت کی ضرورت میں عورتوں پر بھی مقدور بھر مدافعت فرض ہو جاتی ہے ۔ غزوہ تبوک میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسا ہی حکمِ عام جاری فرمایا تھا اسی لیے جو لوگ اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے ان پر سزائیں جاری کی گئیں ۔

یہ ضروری نہیں کہ شہر کا حاکم و امیر جو اعلان جہاد کرے ، متقی ، پرہیزگار یا عالم ہی ہو ، جو بھی مسلمان حاکم ہو ، جب ایسے حکمِ عام کی ضرورت محسوس کرے ، یہ حکم دے سکتا ہے ، اور سب مسلمانوں کو اس کا یہ حکم ماننا فرض ہے ۔ (فتح ا لقدیر۔ ص : 280 ۔ ج: 4)

اس میں شبہ نہیں کہ امیرِ جہاد کا عالم و متقی ہونا بہت بڑی نعمت ہے اور فتح کا بہت بڑا سامان ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بھی کسی کو امیرِ جہاد مقرر فرماتے تو اس کو وصیت فرماتے تھے کہ خود بھی تقوےٰ اختیار کریں اور اپنے سپاہیوں کو بھی اس کی تلقین کریں اوریہی مسلمان کا وہ اصلی جوہر ہے جو دنیا کے کسی طاقت سے مغلوب نہیں ہوتا ۔ یہ سب کچھ ہے مگر عملِ جہاد کےلیے شرط نہیں ۔ جہاد ہر مسلمان امیر و حاکم کے ساتھ ضروری اور اس کے جائز احکام کی تعمیل واجب ہے ۔

جہاد جب فرضِ کفایہ ہو تو بیٹے کو ماں باب کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں کیونکہ ان کی خدمت اور اطاعت فرضِ عین ہے ۔ وہ فرض کفایہ کی وجہ سے ساقط نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح عورت کا شوہر کی اجا زت کے بغیر جہاد کے کام میں لگنا جہاد کے فرضِ کفایہ ہونے کی صو رت میں جائز نہیں ۔ البتہ اگر دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے مسلمان حاکم وقت سب کو جہاد میں لگنے کا حکم جاری کردے اور جھاد فرضِ عین ہوجائے تو پھر بیٹا ماں باپ کی اجازت کے بغیر، عورت شوہر کی اجازت کے بغیر بھی اپنے اس فرض کو پورا کرے ۔ (بدئع۔ ص : 98 ۔ ج: 7،چشتی)

آج کل سرحدوں کی حفاظت کرنے والی آرمی و رینجرز ان میں سے بہت سے آدمی اس کو محض ایک نوکری سمجھ کرانجام دیتےہیں ، اگر وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس ارشاد کو سامنے رکھیں اور یہ خدمت اس عظیم ثواب کی نیّت سے انجام دیں تو نوکری کے ساتھ یہ عظیم الشان دولت بھی ان کوحاصل ہوگی ۔ ان کو اپنی اور خانگی ضرورتوں کےلیے ان کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ اس ثواب سے ان کو محروم نہ کرے گی ۔ شرط یہی ہے کہ اس خدمت کی انجام دہی میں اصل نیت ''رباط'' یعنی اسلامی سرحد کو دشمنانِ دین سے محفوظ رکھنے کی ہو ۔

عن ابن عباس رفعہ لا اخبرکم بخیرالناس منزلا قلنا بلیٰ یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَقال رجل اخذ برأس فرسہ فی سبیل اللہ حتیٰ یعود اویقتل الا اخبرکم باالذی یلیہ قلنا نعم یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قال رجل معتزل فی شعب من اشعب یقیم اصلوۃ ویؤتی الزکوۃ ویعتزل الناس شرہ او اخبرکم بشرالناس قلنا نعم یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قال الذی یسئل با اللہ ولا یعطی بہ ۔ (مالک ۔ ترمذی ۔ نسائی)
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ سب انسانوں سے ذیادہ اچھا مقام اللہ کے نزدیک کس کا ہے ؟ وہ شخص جو اپنا گھوڑا لے کر اللہ کی راہ میں کسی اسلامی سرحد کی حفاظت میں لگ گیا اور یہی مقیم رہا یہاں تک کہ مرجائے یا قتل کردیا جائے ۔ پھر فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ اس شخص کے قریب کس کا درجہ ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور فرمایئے ۔ فرمایا جو کسی پہاڑ کی گھائی جا کر مقیم ہو گیا اور نماز اور زکوۃٰ ادا کرتا ، لوگوں کو اپنی ایذاؤں سے بچایا ۔ پھر فرمایا تمھیں سب سے بد ترین آدمی کا پتہ دوں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ضرور ! نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ وہ شخص دوسروں سے اللہ کے نام پر مانگتا ہے مگر جب کوئی اس سے اللہ کے نام پر مانگے تو اسےکچھ نہیں دیتا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...