بریلوی اہلسنت نہیں ہیں قادیانیوں کے چیلے اجہل مرزا جہلمی کو جواب
محترم قارئینِ کرام : اجہل مرزا جہلمی اپنے بڑے ابّا مرزا قادیانی اور خارجیوں والے جھوٹ و فریب کو آگے بڑھاتے ہوئے بکتا ہے کہ بر صغیر کے اکثریتی مسلمانانِ اہلسنت جنہیں مخالفین بریلوی کہتے ہیں یہ اہلسنت نہیں ہیں اس گمراہ کے گمراہ کن پروپینگنڈے کا مختصر جواب حاضر ہے پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے :
بریلوی نست رکھنے والے اصلی اہل سنت نہیں جب کہ ان کے خارجی فرقے اصلی اہل سنت ہیں ۔
کیا دیوبندی وھابی اہلسنت ہیں ؟
پڑھیں ان کی اپنی کتب کہ حوالا جات سنو غور کرو اور حوالہ جات ملاتے جاؤ ، وہابیوں کو وہابی علامہ ابن عابدین شامی نے کہا دیکھو ردالمحتار حاشیہ و صاحب تفسیر صاوی علی الجلالین علامہ جمیل آفندی عاقی الفجر الصادق ص 17-18، علامہ احمدین زینی دحلان مکی ۔ (الفتوحات الاسلامیہ جلد 2 ص 268، والدر السنیہ ص 49)۔(مولوی عبید ا للہ سندھی ابجد العلوم ص 87 بحوالہ تاریخ وہابیہ ص 83)
بلکہ وہابی اپنی وہابیت پر اس قدر نازاں تھے کہ نواب الوہابیہ نواب صدیق حسن بھوپالی نے اپنے رسالہ کا نام ہی ’’ترجمان وہابیہ‘‘ رکھ لیا تھا اور وہابیوں کی ایک کتاب ’’تحفہ وہابیہ‘‘ ہے ۔
ترجمہ بقلم مولوی اسماعیل غزنوی وہابی یہ جملہ کتب اور ان کے مصنفین سیدنا اعلیٰحضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی ولادت باسعادت سے پہلے کے ہیں ،
لہٰذا ثابت ہوا کہ وہابیوں نے نام وہابی اور وہابیہ خود پسند کیا اور رکھا۔ ہم مندرجہ بالا قسم کے پچاس حوالہ جات اور نقل کرسکتے ہیں کہ وہابی بقلم خود وبیدہ خود وہابی ہیں ۔
اجہل مرزا جہلمی کے روحانی پیشوا مولوی احسان الٰہی ظہیر کی ولادت اور ان کی کتاب ’’البریلویہ‘‘ کے معرض وجود میں آنے سے بہت پہلے متعدد کتب لغت سے ثابت کرسکتا ہے کہ وہابیوں کو وہابی کا لقب ہم نے نہیں دیا ۔ سیدنا اعلیٰحضرت قدس سرہ نے نہیں دیا، بلکہ لفظ وہابی کے معنی کی وضاحت میں اہل لغت متفق البیان ہیں اور سب نے یہی لکھا ہے۔ (وہابی (ع) عبدالوہاب نجدی کا پیروکار فرقہ (جو صوفیوں کے مدِ مقابل خیال کیا جاتا ہے ۔ (حسن اللغات، فیروز اللغات، امیر اللغات وغیرہم زیر و۔ہ)
اکابر علماء بدایوں شریف کی سیدنا مجدد اعظم اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ سے بہت پہلے کی کتاب سیف الجبار اور مجاہد جلیل وعظیم شیر حق علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کی کتاب برد وہابیہ تحقیق الفتویٰ لسلب الطغویٰ اور بوارق محمدیہ وغیرہ ملاحظہ فرماتے اور تو اور مقالات سرسید میں خود مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی فخریہ طور پر اپنی اور اپنے فرقہ کی وہابیت کا برملا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں اور ’’انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں خود اس فرقہ کے لئے جو وہابی کہلاتا ہے، ایک رحمت ہے جو سلطنتیں اسلامی کہلاتی ہیں ان میں بھی وہابیوں کو ایسی آزادی مذہب ملنا دشوار بلکہ ناممکن ہے (مسلم) سلطان کی عمل داری میں وہابی کا رہنا مشکل ہے ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 211-212، از مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی و علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ بابت 2 فروری 1889)
دیوبندی خود کو دیوبندی کہتے ہیں اور وہابی ہونے کا اقرار و اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس عنوان اور اس موضوع پر مولانا اصدق جتنے حوالے ثاہیں نقد بہ نقد موجود ہیں۔ ان کی ضیافت طبع کے لئے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔
دیوبندیت وہابیت ہند کے امام دوم بانی ثانی مدرسہ دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی وہابیت اور بانی وہابیت عبدالوہاب شیخ نجدی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد عمدہ تھے، وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا ۔ (فتاویٰ رشیدیہ جلد 1ص 111 و ص 551)
دیوبندی حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی بدیں الفاظ اپنی وہابیت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں : بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں، یہاں فاتحہ نیاز کیلئے کچھ مت لایا کرو ۔ (اشرف السوانح جلد 1ص 45)
یہی تھانوی صاحب کہتے ہیں : اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں ۔ (الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67)
مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے ۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی، فرمایا : بدعتی کے معنی ہیں باداب، بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں بے ادب باایمان ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد 2ص 326)
دیوبندی وہابیوں کے منظور مضرور مناظر اعظم مدیر الفرقان کہتے ہیں : ہم خود اپنے بارے میں بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں ۔ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی تبلیغی وہابی ص 192)
مولوی محمد ذکریا امیر تبلیغی جماعت کہتے ہیں : مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں ۔ (سوانح مولانا محمد یوسف تبلیغی وہابی ص 193)
فقیر انہی چند حوالہ جات پر اکتفا کرتا ہے ، ورنہ بحمدہ تعالیٰ ایسے بیسیوں حوالے مزید پیش کئے جاسکتے ہیں ۔
ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ وہابی دیوبندی اکابر اپنے آپ کو فخریہ وہابی کہتے ہیں اور اسی طرح وہابی دیوبندی خود کو دیوبندی اور دیوبندی مسلک و مسلک دیوبندی کہتے اور لکھتے ہیں ۔
ملاحظہ ہوں … مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند جس کا مقدمہ قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے ، میں صاف صاف لکھا ہے ، مسلک دیوبند ص 424و ص 428 و ص 431 و ص 476 بیسوں صفحات پر مسلک دیوبند،دیوبندی مسلک لکھا ہوا ہے ۔
کتب خانہ مجیدیہ ملتان کے شائع کردہ المہند عقائد علماء دیوبند کے مصنفہ مولوی خلیل انبیٹھوی کے صفحہ 20 صفحہ 21، صفحہ 164، صفحہ 165، صفحہ 187 پر بار بار مسلک دیوبند مسلک حق دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہے۔ انجمن ارشاد المسلمین کے پاکستانی ایڈیشن حفظ الایمان کے متعدد صفحات پر دیوبندی، بریلوی، دیوبندی لکھا ہے۔ پاکستان دیوبندیوں کے مصنف اعظم مولوی سرفراز صفدر گکھڑوی نے اپنی کتاب عبارات اکابر کے صفحات 143,115,58,18,15 پر بار بار دیوبندی مسلک دیوبندی مسلک لکھا ہے ۔
مولوی منظور سنبھلی مولوی رفاقت حسین دیوبندی کی کتاب بریلی کا دلکش نظارہ کے پاکستانی ایڈیشن شائع کردہ مکتبہ مدینہ صفحہ 35، صفحہ 181وغیرہ پر متعدد صفحات پر دیوبندی بریلوی دیوبندی دیوبندی لکھا ہے ۔
مولوی خلیل بجنوری بدایونی کی کتاب انکساف حق کی پاکستانی ایڈیشن کے صفحہ 6 صفحہ 7 پر دیوبندی، بریلوی، بریلوی دیوبندی ہر دو اہلسنت لکھا ہے ۔
مولوی عارف سنبھلی ندوۃ العلماء کی کتاب بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 121، صفحہ 124پر مسلک دیوبندی، علماء دیوبند کا مسلک لکھا ہے ۔
دیوبندیوں کے خر دماغ ذہنی مریض کذاب مصنف پروفیسر خالد محمود مانچسٹروی اپنی تردید شدہ کتاب مطالعہ بریلویت جلد اول کے صفحہ 401، صفحہ 402 پر دیوبندی مسلک دیوبندی دیوبندی لکھتا ہے ۔ اسی کتاب کی جلد 3 کے صفحہ 202 پر اہلسنت بریلوی دیوبندی لکھا ہے ۔ مطالعہ بریلویت جلد دوم صفحہ 16 پر دیوبندی بریلوی، مطالعہ بریلویت صفحہ 234 پر دیوبندی بریلوی، صفحہ 235 جلد 4 دیوبندیوں، بریلویوں دیوبندیوں جلد 4 صفحہ 237، دیوبندیوں صفحہ 238 جلد 4 دیوبندیوں بریلیوں، بار بار دیوبندیوں بریلویوں صفحہ 239، دیوبندیوں، دیوبندی بار بار دیوبندی صفحہ 240، جلد 4 دیوبندیوں صفحہ 316، اہلسنت والجماعۃ دیوبند مسلک ، دیوبندی بریلوی، صفحہ 317، دیوبندی، دیوبندیوں، دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند وغیرہ وغیرہ، بکثرت مقامات پر دیوبندیوں نے خود کو بقلم خود دیوبندی لکھا ہے ۔
مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی الاقاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 220، دیوبندیوں اور بریلیوں، مولوی انور کاشمیری صدر مدرس و شیخ الحدیث مدرسہ دیوبند کتاب حیات انور صفحہ 333، مضمون وقت کی پکار نوائے وقت لاہور، 8 مارچ 1976، جماعت دیوبندی ۔
دیوبندی امیر شریعت عطاء اللہ بخاری احراری دیوبندی لکھتے ہیں… مولانا غلام اللہ خان دیوبندی بھی اہلسنت و الجماعت ہین، وہ ابن تیمیہ کے پیروکار ہیں (مکتوب بنام علامہ محمد حسن علی قادری رضوی) دیوبندی جمعیت العلماء اسلام دیوبند کے ناظم اعلیٰ مولوی غلام غوث ہزاروی دیوبندی لکھتے ہیں ۔ اہلسنت و جماعت مسلمانوں کی تمام شاخیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب مسلمان ہیں ۔ (خدام الدین لاہور)
قصص الاکبر ص 205 میں تھانوی لکھتے ہیں ’’میرا مسلک شیخ الہند کا مسلک‘‘ (دیوبندی مسلک، الافاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 135) میرا مسلک تھانوی ۔ (اشرف السوانح جلد 3ص 153 وصفحہ 164، تھانوی مسلک ۔
ایک کتاب ’’آئینہ بریلویت‘‘ مولوی عبدالرحیم رائے پوری دیوبندی اور مولوی حسن احمد ٹانڈوی وغیرہ اکابر دیوبند کے پڑپوتے مرید مولوی عبدالرحمن شاہ عالمی مظفر گڑھ کی ہے ۔اس کے صفحہ 24، 27، 30، 34، 40، 42، 43، 45، 54، 57، 61، 63، چالیس صفحات پر بار بار دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند، دیوبندیوں، دیوبندی اہلسنت دیوبندی لکھا ہے اور فخریہ طور پر اپنے دیوبندی ہونے کا اقرار کیا ہے ۔
ایک کتاب تسکین الاتقیاء فی حیاۃ الانبیاء مرتبہ مولوی محمد مکی دیوبندی صفحہ 79 مسلک اکابر دیوبند، صفحہ 99، اکابر دیوبند کا مسلک صفحہ 100اکابردیوبند کا مسلک، صفحہ 01 مسلک دیوبند، صفحہ 102 علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 103، علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 106، صفحہ 107 بار دیوبندی دیوبندی… اس کتاب پر پاکستان کے صف اول کے اکابردیوبند مولوی محمد یوسف بنوری شیخ الجامعہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی، مولوی شمس الحق افغانی، صدر وفاق المدرس العربیہ دیوبند، مفتی محمد حسن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، مفتی محمد شفیع سابق مفتی دیوبند مہتمم دارالعلوم کراچی، مولوی عبدالحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، مولوی ظفر احمد عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ، مولوی محمد ادریس کاندھلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاوہر، مولوی محمد رسول خان جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور ، مولوی احمد علی امیر خدام الدین وامیر جمعیت العلماء اسلام، مولوی محمد صادق، ناظم محکمہ امور مولوی حامد میاں جامعہ مدینہ، مولوی مسعود احمد سجادہ نشین درگاہ دین پور وغیرہ اٹھارہ اکابر دیوبند کی تصدیقات ہیں۔ اس قسم کے حوالے اگر فقیر چاہے تو پچاسوں نقل کرسکتا ہے ۔ مرزا جی اپنی اوقات میں رہنا سیکھو بزرگان اہلسنت اور مسلمانان اہلسنت پر بکنا بند کرو ۔
بریلوی نیا فرقہ ہے مخالفین اہلسنت کی سازش کا مدلّل جواب
محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار ونظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء ومشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا ، مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے ۔
اسی سال پہلے سب سنی حنفی بریلوی خیال کے تھے مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری
مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیرمقلد وہابی لکھتے ہیں : اسی (80) سال پہلے قریبا سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو آج کل بریلوی حنفی کہا جاتا ہے ۔ (رسائل ثنائیہ ، شمع توحید صفحہ نمبر 163 مطبوعہ لاہور،چشتی)
معلوم ہوا وہابیت اس کے بعد کی پیداوار ہے برِّ صغیر پاک و ہند میں اور بریلویوں کے عقائد و نظریات وہی ہیں جو قدیم سنی مسلمانوں کے تھے بطور پہچان آج کل انہیں بریلوی حنفی کہا جاتا ہے حق حق ہوتا ہے ۔
غیرمقلد وہابی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے ، مگر دیوبندی مقلدین (اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں'' بریلوی'' کہتے ہیں . (تراجم علمائے حدیث ہند صفحۃ نمبر 482 مطبوعہ مکتبہ اہلحدیث ٹرسٹ کورٹ روڈ کراچی)
جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے ، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی، بدایونی، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر، البریلویہ، ص٧)
میں یہی کہوں گا کہ اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا ہندوستانی دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ نمبر 3 از تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمائیے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین وائمّہ ومجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟ ۔ (سیّد محمد مدنی، شیخ الاسلام، تقدیم''دور حاضر میں بریلوی ، اہل سنت کا علامتی نشان''، مکتبہ حبیبیہ لاہور، ص١٠۔١١،چشتی)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے''(احسان الٰہی ظہیر، البریلویہ، ص٧)
اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد وافکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت وجماعت کے چلے آہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جاسکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو ۔
امام اہل سنت شاہ احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت وجماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کے لئے سُنی ہونا شرط تھا، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی : سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوسکتا ہو، یہ وہ لوگ ہیں، جو ائمہ دین، خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو''۔ (مولانا محمد جلال الدین قادری، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور، ص٨٥، ٨٦،چشتی)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا، لکھتے ہیں : تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔ (سلیمان ندوی، حیات شبلی، ص٤٦)(بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت، ص٢٢)
مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں(امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (محمد اکرام شیخ، موج کوثر، طبع ہفتم١٩٦٦ئ، ص٧٠،چشتی)
اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی(ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے، اسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔ (ثناء اﷲ امرتسری، شمع توحید، مطبوعہ سرگودھا(پنجاب)، ص٤٠)
یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔
علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے ، دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی اللّہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے۔۔۔۔۔۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔ (انظر شاہ کشمیری، استاذ دیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٨)
پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ''شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت وسنت کا فرق واضح نہیں ہوسکا'' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے''۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری، استاذدیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٩،چشتی)
تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب ازہری سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ؛ بریلوی کوئی مسلک نہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، اہلسنت والجماعت ہیں ۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آخری نبی مانتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اولیاءاللہ سے عقیدت رکھتے ہیں ، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں ۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں ۔ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14)
ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے ۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے ۔ (آئینہ رضویات، ص 300)
صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛ "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں ۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا ۔ لہٰذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے ۔ (فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment