وَالَّذِينَ يَدعُونَ مِن دُونِ اللّهِ خارجیوں کی من گھڑت تفسیر کا مدللّ جواب حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِينَ يَدعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لَا يَخلُقُونَ شَيًا وَّهُم يُخلَقُوُنَ20اَموَاتٌ غَيرُ اَحيآءٍ،وَمَا يَشعُرُونَ اَيَّانَ يُبعَعَثُونَ . (سورہ نحل، آیت20، 21)
ترجمہ : اور جو لوگ پوجتے ہیں اللہ تعالی کے سوا(غیروں کو) وہ نہیں پیدا کر سکتے کوئی چیز، بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں ، وہ مردہ ہیں وہ زندہ نہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ کب انہیں اٹھایا جائے گا ۔
آیئے پڑھتے ہیں کہ اکابرین اسلام نے اس کی کیا تفسیر کی ہے اور کیا فرمایا ہے : مُستند مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت میں مذکور لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی عبادت کرنا لکھا ہے جیسا کہ ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی ، امام جلال الدین سیوطی ، ابو سعود محمد بن محمد اور علامہ اسماعیل حقی علیہم الرّحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں ۔ (تفسیر بیضاوی، النحل : ۲۰، ۳ / ۳۹۱)(جلالین، النحل : ۲۰، ص۲۱۷)(تفسیر ابو سعود، النحل :۲۰،۳ / ۲۵۶)(روح البیان، النحل : ۲۰، ۵ / ۲۳-۲۴)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں لفظ’’ دعا‘‘ عبادت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے ۔ (تفسیر روح البیان، النحل : ۲۰، ۵ / ۲۳)
امام ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ا س بات پر قادر نہیں کہ کوئی چیز پیدا کر سکیں بلکہ وہ خود پتھروں اور لکڑی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں ۔ (تفسیر سمرقندی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۲۳۲)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ اپنی ذات میں بھی ناقص ہیں کہ انہیں دوسروں نے بنایا ہے اور اپنی صفات میں بھی ناقص ہیں کہ یہ کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کر سکتے ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۱۹۵،چشتی)
عن قتادہ فی قولہ (اَفَمَن يَّخلُقُ كَمَن لَّا يَخلُقُ) قال، اللَّه هو الخالقُ الازقُ، وهذه الأوثانُ التى تُعبَدُ من دونِ اللَّهِ تُخلُقُ شيئاً، ولا تملكُ لأ هلِها ضرَّ ولا نفعًا، قال اللَّهُ، (أَفَلَا تَذَكَرُونَ) وفى قوله، (وَالَّذِينَ يَدعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ) الآية، قال هذه الأوثانُ التى تُعبَدُ من دونِ اللَّهِ أمواتٌ لا أرواح فيها، وتملِكُ لأهلِها ضرًّا ولا نفعًا ۔
ترجمہ : حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے (اَفَمَن يَّخلُقُ كَمَن لَّا يَخلُقُ) کے تحت روایت کیا ہے کہ اللہ تعالی ہی پیدا کرنے والا اور رزق دینے والا ہے اور یہ بت جن کی اللہ تعالی کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی ہے، خود گھڑے گئے ہیں، انہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا، نہ ہییہ اپنے پجاریوں کے نفع کے مالک ہیں اور نہ نقصان کے، اللہ تعالی نے فرمایا، کیا تم اتنا نہیں سمجھتے وہ جن کی اللہ تعالی کے سوا عبادت کی جاتی ہے، وہ بت مردہ ہیں ان میں روحیں نہیں ہیں اور اپنے مالکوں کے نہ نفع کے مالک ہیں نہ خیر پہنچانے کے مالک ہیں ۔ (تفسیر القرآن العظیم، امام ابن ابی حاتم، جلد7، رقم12497)(جامع البيان عن تأويل القرآن،امام ابن جریر طبری، جلد، 14، ص196 ،197 ازتفسیر سورہ نحل، آیت 21،22،چشتی)(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، امام سیوطی، جلد9، ص، 27،از تفسیر سورہ نحل، آیت 21)
امام ابو جعفر محمن بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ متوفى هجرى،310 فرماتے ہیں : وقولهُ ؛ (وَالَّذِينَ يَدعُونَمِن دُونِ اللّهِ،لَا يَخلُقُونَ شَيئاً وَهُم يُخلَقُونَ) يقولُ تعال ذكره؛ وأوثنُكم الزين تدعون مِندونِ اللّهِ، أيُها الناسُ، آلهةًلاتَخلُقُ شيئاً وهى تُخلَقُ: فكيف يَكُونُ إلهًا ما كان مصنوعًا مُدَبَّرًا، لا تَملِك لأ نفسِها نفعًا ولا ضرَّا ؟ ۔
ترجمہ : الله تعالی ذکر فرماتا ہے، اور تمہارےوہ بتجن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، اے لوگو یہ معبود کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے یہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں، پس جو خود بنایا ہوا ہو، اور اپنے لیے بھی کسی نفع اور ضرر کا مالک نہ ہو وہ کیسے معبود ہو سکتا ہے ۔ (جامع البيان عن تأويل القرآن،امام ابن جریر طبری، جلد، 14،ص196ازتفسیر سورہ نحل، آیت 21،22)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، المتوفی، ہجری،606 ۔ فرماتے ہیں : المراد بقوله (من لا يخلق) الاصنام ۔
ترجمہ : اس آیت سے اللہ تعالی نے اصنام (بتوں) کی کئ وصف ذکر فرمائے ہیں :
(1) وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے اور خود پیدا کیے ہوئے ہیں ۔
(2) وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ وہ حقیقت میں معبود ہوتے تو زندہ ہوتے مردہ نہ ہوتے حالنکہ ان اصنام (بتوں) کا معاملہ برعکس ہے ۔
(3) وما یشعرون ایان یبعثون وما یشعرون کی ضمیر اصنام کی طرف لوٹتی ہے یعنی یہ بت نہیں جانتے کی ان کو کس وقت اٹایا جائے گا ۔ (تفسیر کبیر، امام رازی، ج20، ص12ازتفسیر آیت سورہ نحل آیت 20،21،چشتی)
امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوذی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ، المتوفی ہجری، 593 ۔ فرماتے ہیں : اموات غیر احیا ۔ اس سے مراد اصنام(بت) ہیں ۔
ترجمہ : فراء نے کہا اموات کا معنی یہاں پر ہے ان میں روح نہیں ہے ، اخفش نے کہا غیر احیاءاموات کی تاکید ہے ، اور ما یشعرون ایان یبعثون کی تفسیر میں لکھا، اس میں دو قول ہیں :
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نہ کہا : اس سے مراد اصنام (بت) ہیں ، ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالی حشر میں اصنام (بتوں) کو بھی اٹھائے گا ، ان کے ساتھ روحیں ہو گی اور ان کے ساتھ ان کی شیاطین ہوں گے، اور وہ کفار کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے، پھر شیاطین کو اور ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا ۔
(2) مقاتل نے کہا:وما یشعرون سے مراد کفار ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔ (زاد المیسر، ابن جوزی، جلد4،ص436، از تفسیر سورہ نحل آیت 18.22)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ہجری، 668 فرماتے ہیں : اموات غیر احیاءسے مراد اصنام (بت) ہیں ، ان میںروحیں نہیں ہیں اور نہ وہ سنتے اور دیکھتے ہیں، یعنی وہ جمادات ہیں سو تم کیسے ان کی عبادت کرتے ہو جبکہ تم زندہ ہونے کی بناء پر ان سے افضل ہو ، وما یشعرون ، اس سے مراد یہ بت نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا، ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ عقل اور علم رکھتے ہیں اور اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے تو ان کے عقیدہ کے اعتبار سے ان سے خطاب فرمایا، اور ایک تفسیر یہ ہےقیامت کے دن ان بتوں کو اٹھایا جائے گا اور ان کی روحی ہوں گی اور وہ کافروں کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور دنیا میں یہ بت جماد ہیں، یہ نہیں جانت کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔(الجامع الحکام القرآن، امام طبری، جلد10، ص75. 76،ان تفسیر سورہ نحل آیت 20.21،چشتی)
امام علاءالدین علی بن محمد بن ابرھیم البغدادی اشہیر بالخازن رحمۃ اللہ علیہ ، متوفی، 765 ۔ فرماتے ہیں : والذین تدعون من دون اللہ، یعنی اصنام (بت) ۔
ترجمہ : اس سے مراد اصنام (بت) ہیں ، ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالی حشر میں اصنام (بتوں) کو بھی اٹھائے گا، ان کے ساتھ روحیں ہو گی اور ان کے ساتھ ان کی شیاطین ہوں گے، اور وہ کفار کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے، پھر شیاطین کو اور ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا ، قیامت کے دن ان بتوں کو اٹھایا جائے گا اور ان کی روحی ہوں گی اور وہ کافروں کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور دنیا میں یہ بت جماد ہیں، یہ نہیں جانت کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔ (تفسیر خازن، جلد3، ص72)
ممدوح وہابیہ علامہ حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر شافع دمشقی متوفی 774 ۔ لکھتے ہیں : اللہ تعالی نے یہ خبر دی ہے کہ یہ اصنام(بت) جن کی کفار اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا، (اَتَعبُدُونَ مَا تَنحِتُونَ) الصّفت:95) ۔ کیا تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہو جن کو تم خودتراشتے ہو ۔ (تفسیرابن کثیر، ج6، ص262)
امام جلال الدین محمد بن احمد المحلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 863 ، امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 911 ۔ دونوں فرماتے ہیں اللہ کی سوا جن بتوں کی تم ۔ پوجا کرت ہو ان کا یہ حال ہے کی وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ جود پیدا کئے گئے ہیں، وہ مردے ہیں نہ کی زندہ ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائیں جائیں گے ۔ (تفسیر جلالین، امام سیوطی، ج2، ص214،چشتی)
محترم قارئینِ کرام : آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اکابرین اسلام ان اس آیت کی کیا تفسیر فرماتے ہیں اصنام سے مراد بت ہیں جنہیں کفّار پوجتے اور پکارتے تھے مگر ابن وہاب نجدی خارجی کے پیروکار ان آیات کو انبیاء علیہم السّلام ، اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں ۔ کیونکہ خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔
خارجیوں کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539،چشتی)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں ؟ قابلِ مذمت ہے ، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں ۔ انہوں نے آپ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے ۔ خارجیوں نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ۔ (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔‘‘) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا ۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے ۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا : کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ . ترجمہ : کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے ۔ (مسلم، الصحيح ، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939)(بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171)
اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خارجیوں ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے اللہ تعالیٰ خارجی فتنہ کے شر سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرماۓ آمین ۔ مزید حصّ دوم میں ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment