صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے گستاخ مرزا جہلمی کذّاب کو جواب
یہ ظالم اجہل کذاب مرزا جہلمی اپنی جہالت و ضلالت کی وجہ سے اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق مسلمانوں میں بدگمانی پیدا کرنے کی مذموم اور ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ اس جاہل کو یہ معلوم نہیں کہ حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا ، جبکہ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے کا ہے ۔ جب سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے ۔ اسی حدیث کی شرح میں شارحِ صحیح مسلم ،علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ (676-631ھ) بڑی صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں : وَہٰذَا الْإِتْیَانُ لِأَبِي سُفْیَانَ کَانَ وَہُوَ کَافِرٌ فِي الْہُدْنَۃِ بَعْدَ صُلْحِ الْحُدَیْبِیَۃِ ۔
ترجمہ : ابو سفیان کی یہ آمد حالت ِکفر میں ہوئی تھی ۔ یہ صلح حدیبیہ کے بعد (مسلمانوں اور کفار کے مابین) معاہدے والا زمانہ تھا۔(شرح النووي علی صحیح مسلم : 66/16۔چشتی)
امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م : 1014ھ) اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : لَقَدْ أَغْضَبْتَ رَبَّکَ’، أَيْ حَیْثُ رَاعَیْتَ جَانِبَ الْکَافِرِ بِرَبِّہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ سے) فرمایا : آپ نے اپنے ربّ کو ناراض کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے (صحابہ کے مقابلے میں) اپنے ربّ کے ساتھ کفر کرنے والے کی طرف داری کی ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 4006/9)
یعنی ابوسفیان اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے ، جب صحابہ نے انہیں اللہ کا دشمن کہا تھا ۔ اس کے برعکس کذاب اعظم اجہل محمد علی مرزا کہتا ہے کہ ابو سفیان مسلمان ہو گئے تھے ، ان کے مسلمان ہونے کا علم ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تھا ، پھر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کےلیے اللہ کے دشمن کے الفاظ استعمال کیئے ۔ معاذاللہ ۔
تابعین سب سے بڑے جھوٹے انسان تھے ، مرزا جہلمی کی بکواس کا جواب
محترم قارئینِ کرام : مرزا اجہل جہلمی اپنے ایک ویڈیو بیان میں بکتا ہے کہ تابعین رضی اللہ عنہم سب سے بڑے جھوٹے انسان تھے حیرت کی بات ہے یہ شخص گستاخیوں پہ گستاخیاں کرتا چلا جا رہا ہے مگر ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ، ایجنسیاں ، عدالتیں اور مقتدر حلقے و ادارے سبھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں صرف خاموش تماشائی ہی نہیں بلکہ ایسے گستاخوں کو تحفظ بھی دے رہے ہیں اور پرموٹ بھی کر رہے ہیں ۔ لگتا ہے مقتدر حلقے پاکستان میں فتنہ و فساد خود پھیلانا چاہتے ہیں ۔ ہماری عدالتیں گستاخانِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو رہا کرتی ہیں اور تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بات کرنے والوں کو قید سناتی ہیں ہیں اور اس سب کھیل میں موجودہ حکمران و تمام ادارے شامل ہیں اہلِ پاکستان کو اس بارے لازمی غور و فکر کرنا ہوگا ۔ اب آیئے اس مرزا اجہل جہلمی کی بکواس کا جواب پڑھتے ہیں : ⬇
صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کوجنت کی بشار ت
صحابی رضی الله عنہ کی تعریف
علماء متقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی صلى الله علیہ و آلہ وسلّم سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نومولود بچے جو نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلّم کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوگا ۔
حضرت خطیب بغدادی اور ابنِ جماعہ علیہما الرّحمہ نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے صحابی کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے : کُلُّ مَنْ صَحِبَهُ سَنَةً أَوْ شَهْرًا أَوْ یَوْمًا أَوْ سَاعَةً أَوْ رَآهُ، فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ، لَهُ مِنَ الصُّحْبَةُ عَلَی قَدْرِ مَا صَحِبَهُ ۔
ترجمہ : ہر وہ شخص جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی صحبت اختیار کی ہو‘ ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی یا اُس نے (فقط حالتِ ایمان میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے۔ اسے اسی قدر شرفِ صحابیت حاصل ہے جس قدر اس نے صحبت اختیار کی ۔ (خطیب بغدادی، الکفایة في علم الروایة، 1: 51، مدینه منوره، سعودی عرب: المکتبة العلمیة،چشتی)(ابن جماعة، المنهل الروی، 1: 111، دمشق شام: دار الفکر)
امام بخاری رحمۃ ﷲ علیہ صحابی کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں : وَمَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم أَوْ رَآهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ ۔
ترجمہ : مسلمانوں میں سے جس نے بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی صحبت اختیار کی ہو یا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دیکھا ہو، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا صحابی ہے ۔ (بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 3: 1335، دار ابن کثیر الیمامة، بیروت)
حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ ﷲ علیہ نے صحابی کی درج ذیل تعریف کی ہے جو بہت جامع ومانع اور اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے : وَهُوَ مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم مُؤمِناً بِهِ، وَمَاتَ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَلَوْ تَخَلَّتْ رِدَّةٌ فِي الْأَصَحَّ ۔
ترجمہ : صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو اگرچہ درمیان میں مرتد ہو گیا تھا (مگر وفات سے پہلے مسلمان ہو گیا) ۔
ابن حجر رحمۃ ﷲ علیہ مذکورہ تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں : وَالْمُرَادُ بِاللِّقَاءِ: مَا هُوَ أَعمُّ: مِنَ الْمُجَالَسَةِ، وَالْمُمَاشَاةِ، وَ وَصُولِ أَحَدِهِمَا إِلَی الآخَرِ، وَإِنْ لَمْ یُکَالِمْهُ، وَیَدْخُلُ فِیهِ رُؤیَةُ أَحَدِهِمَا الآخَرَ، سَوَاءٌ کَانَ ذَلِکَ بِنَفْسِهِ أَو بِغَیْرِهِ ۔
ترجمہ : لقاء سے مراد (ایسی ملاقات) ہے جو باہم بیٹھنے، چلنے پھرنے اور دونوں میں سے ایک کے دوسرے تک پہنچنے اگرچہ اس سے مکالمہ بھی نہ کیا ہو، یہ مجلس اس لحاظ سے عام ہے (جس میں صرف کسی مسلمان کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تک پہنچنا ہی کافی ہے) اور لقاء میں ہی ایک دوسرے کو بنفسہ یا بغیرہ دیکھنا داخل ہے ۔ (عسقلاني، نزهَة النظر بشرح نخبة الفکر: 64، قاہرة ، مصر: مکتبة التراث الاسلامي،چشتی)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا جس نے حالت ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور اس کا خاتمہ بالایمان ہوا تو وہ صحابی کہلاتا ہے ۔
تابعی رضی الله عنہ کی جمع تابعین رضی الله عنہم ہے ایمان کی حالت میں صحابی رضی الله عنہ کی ملاقات کرنے اور اسی ایمان کے ساتھ فوت ہونے والے کو تابعی رضی الله عنہ کہتے ہیں ۔
تابعی رضی الله عنہ کا معنی
وہ شخص جس نے بحالت ایمان کم از کم ایک صحابی رسول سے استفادہ کیا ہو اور ایمان کی حالت میں مر گیا ہو ۔ اور خاص کراسے تابعی کہتے ہیں جس نے کوئی دینی بات صحابی سے روایت کی ہو ۔ (فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 83 مکتبہ رحمانیہ لاہور)
تابعی رضی الله عنہ کی تعریف
تابعی وہ ہے جس نے صحابی سے ملاقات کی ہو، مذکورہ تین شرطوں کے ساتھ، یعنی : (1) صحابی سے ملاقات کی ہو ۔ (2) ایمان کی حالت میں ملاقات کی ہو ۔ (3) انتقال اسلام پر ہوا ہو ۔ (وسیلۃ الظفر اردو شرح نخبۃ الفکر، مؤلف ،محمد عبد القادر جیلانی، ناشر : مکتبہ عمر بن خطاب ملتان پاکستان،چشتی)
تابعی رضی الله عنہ کا مقام و فضیلت
قرآن مجید میں اللہ عزّ و جل نے اس آیت میں تابعین کی یوں تعریف کی ہے : وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿سورہ توبہ آیت نمبر 100﴾
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔
سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي , أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي ۔
ترجمہ : جابر بن عبد الله رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلى الله عليہ و آلہ وسلّم کو یہ کہتے سنا کہ ایسے مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکے گی جس نے مجھے دیکھا ہو یا اسے دیکھا ہو جس نے مجھے دیکھا ۔ (جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى رقم الحديث : 3823(3858))
بہترین زمانہ میرا ہے پھر ان لوگوں کا جو اُن سے متصل ہوں گے ۔ پھر ان لوگوں کا جو ان سے متصل ہوں گے ۔ (مسلم، كتاب الفضائل، حديث نمبر 212)
اس حدیث کے مطابق ان لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے :
نمبر 1 : صحابہ رضی اللہ عنہم جن کو نبی کریم صلى الله عليہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہنے کے مواقع میسر آئے اور خود نبی کریم صلى الله عليہ و آلہ وسلّم کی زبان سے آپ کے اقوال سنے اور افعال دیکھے ۔
نمبر 2 : تابعین رضی اللہ عنہم یعنی وہ بزرگ جن کو نبی کریم صلى الله عليہ و آلہ وسلّم سے فیض صحبت تو نصیب نہ ہوا لیکن انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا زمانہ پایا ۔ اور ان سے نبی کریم صلى الله عليہ و آلہ وسلّم کے اقوال و افعال کو سنا ۔ ان میں بعض تابعین ایسے بھی ہیں جو نبی کریم صلى الله عليہ و آلہ وسلّم کی زندگی میں یا تو بوجہ کمسنی نبی کریم صلى الله عليہ و آلہ وسلّم کو نہ دیکھ سکے یا دوردراز فاصلے کی وجہ سے آپ سے ملاقات نہ کر سکے ۔
نمبر 3 : تبع تابعین علیہم الرّحمہ وہ بزرگ جنھوں نے تابعین کا شرف زیارت حاصل کیا اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہوئے ۔ بالفاظ دیگر تبع تابعین صحابہ رضی اللہ عنہم کی تیسری کڑی ہیں ۔ نبی کریم صلى الله عليہ و آلہ وسلّم کی احادیث ان لوگوں کے واسطے سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ ان کی جانچ پڑتال کے لیے مسلمانوں نے فن اسماء الرجال بنایا جس میں ان کے حالات محفوظ ہیں اور اس سے ان کی حیثیت اور سند حدیث کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔
افضل تابعی رضی اللہ عنہ
سب سے افضل تابعی رضی اللہ عنہ اويس القرنى اور ان کے بعد سات فقہائے مدینہ اور عورتوں میں حفصہ بنت سيرين ، عمرة بنت عبد الرحمن، اورأم الدرداء الصغرى پہلا تابعی جو فوت ہوئے : وہ ابو زيد معمر بن زيد قتل ہوئے خراسان 30ھ میں اور آخری تابعی جو فوت ہوئے وہ خلف بن خليفة تھے جو181ھ میں سو سال سے زیادہ عمر میں وفات پائی ۔ (تدريب الراوى، 2/ 807) ، اس کے علاوہ نعمان بن ثابت المعروف امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ بھی مشہور تابعی ہیں جنہوں نے 72 صحا بہ کرام سے ملا قات کی (رضی اللہ عنہم) ۔
صحابی اور تابعی رضی اللہ عنہم کی دعا سے فتح و کامیابی : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جہاد کے لئے فوج جمع ہو گئی ، پوچھا جائے گا کہ فوج میں کوئی ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت اٹھائی ہو ؟ معلوم ہو گا کہ ہاں ہیں تو ان کے ذریعے فتح کی دعا مانگی جائے گی ۔ پھر ایک جہاد ہو گا اور پھر پوچھا جائے گا، کیا فوج میں کوئی ایسے شخص ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کسی صحابی کی صحبت اٹھائی ہو ؟ معلوم ہو گا کہ ہاں ہیں تو ان کے ذریعے فتح کی دُعا مانگی جائے گی ۔ پھر ان کی دعا کی برکت سے فتح ہو گی ۔ (صیح بخاری شریف حدیث نمبر ۳۵۹۴،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کتنے خوبصورت انداز سے مستقبل میں ہونے والے واقعات کی خبر دی کہ میرے ایک تابعی رضی اللہ عنہ کی دعا سے جنگ میں فتح ہو گی ، اب تابعی رضی اللہ عنہ کا درجہ صحابی رضی اللہ عنہ سے نیچے ہے ، تو صحابی رضی اللہ عنہ کا درجہ کیا ہو گا کہ جن کی دعا کی برکت سے جنگ میں فتح ہو گی ، اس حدیث کو پڑھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم پر ایمان کتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرما رہے ہیں کہ جس نے میرے صحابی رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہو گا اور اس سے فتح کی دعا کرائی جائے گی تو جنگ میں فتح ہو گی ، تو پھر صحابی رضی اللہ عنہ کا مقام کیا ہو گا ، اس سے ثابت ہوا کہ جن پاک لوگوں نے حضور کی صحبت اٹھائی ، اور جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت اٹھانے والوں کی صحبت اٹھائی تو ان کے مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے ، اور پھر خاص کر وہ پاک نفوس رضی اللہ عنہم جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے محبت فرمائی اور دنیا میں جنت کی بشارت سنائی ان کے مقام و مرتبہ کا عالم کیا ہو گا ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment