Saturday 12 June 2021

بلا سوچے سمجھے شرک و کفر کے فتوے

0 comments

 بلا سوچے سمجھے شرک و کفر کے فتوے

محترم قارئینِ کرام : کسی مسلمان کو کافر قرار دینا ایک شرعی مسئلہ ہے ، اور ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتاہے ، لہٰذا اس میں احکام الٰہی و فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اساس بنایا جائے گا ، جس طرح شرعی احکامات، دینی واجبات وفرائض اور حلال وحرام کا مصدر و محور اللہ عزّ و جل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں جیسا کہ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے : فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوهُ ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ ، أَلاَ وَإِنَّ مَا حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم كما حرم الله ۔ (رواه أبو داؤد : 4604)
ترجمہ : جو چیز بزبان قرآن حلال ملے اسے حلال جانو ، اور جو حرام ملے اسے حرام مانو ، اور خبردار ! جس چیز کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) نے حرام قرار دے دیا اس کی حیثیت بھی اللہ کے حرام کردہ امور جیسی ہے ۔

بعینہ اسی طرح تکفیر میں اللہ عزّ و جل و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی مرجع ہیں ، کیونکہ جس جس قول وفعل کو کفر کہا گیا ہے ، ضروری نہیں کہ وہ سبھی خروج از ملت کے موجب کفرِ اکبر کے زمرے میں شمار ہوتے ہوں ۔

فتوائے کفر میں اللہ عزّ و جل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مرجع قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ کسی مسلم کو ہم تب تک کافر نہ کہیں جب تک اس کے کفر پر کتاب وسنت اور اجماع امت سے ایسی صریح اور واضح دلیل نہ ملے کہ جس میں دیگر احتمال کا امکان باقی نہ ہو ۔

اس مسئلہ میں وہم وگمان ، شبہات، اندازوں اور خیالی دعووں کو کبھی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا، اور بغیر قطعی الثبوت اور صریح الدلالت واضح دلائل کے اس پر زبان کھولنا گھمبیر اور انتہائی خطر ناک مسائل سے دوچار کردے گا ۔

اور یہ بھی باور کراتے چلیں کہ شبہ موجود ہوتو شرعی حد تک نہیں نافذ کی جاتی ، جبکہ اس کی مخالفت پر مرتب نتائج ، کسی مسلم کو کافر قرار دے دینے کے نتائج سے کہیں کم سنگین ہیں۔ لہٰذا ایمان کا شائبہ بھی موجود ہو تو دعوائے تکفیر سے گریز رکھنا زیادہ ضروری ہونا چاہیے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو بلا دلیل کافر کہنے سے منع فرمایا : حدیث مبارک ہے کہ : أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لأَخِيهِ يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ ۔ (صحيح مسلم ـ (1/ 56،چشتی)
ترجمہ : جب کوئی شخص دوسرے کو ’’کافر‘‘ کہتاہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس کا مستوجب ضرور ہوگا ، اگر تو مخاطب کافر ہے تو ٹھیک ورنہ کہنے والا کافر ٹھہرتا ہے ۔

بلا سوچے سمجھے ، بات ، بے بات دوسروں کو کافر کہے جانا نہایت سنگین نتائج کو جنم دیتاہے ، مثلاً : دوسروں کے جان ومال کے درپے رہنا ، ہنگامے اور قتل وغارت ، ملی املاک کا ضیاع ، نکاح کا فسخ ہوجانا ، سلام و کلام ترک کردینے کے باعث باہمی نفرت و انتشار اور قطع رحمیاں، حتیٰ کہ دینی ارتداد تک بات جا پہنچتی ہے ، بھلا چند شبہات کی بناپر امت کو ایسے سنگین نتائج کی بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے ؟

مشرک کون ؟ شرک کے فتوے لگانے والوں کےلیے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مجھےتم پراس شخص کا خوف ہے جو قرآن پڑھے گا جب اس پر قرآن کی رونق آجائے گی اور اسلام کی چادر اس نے اوڑھ لی ہوگی تو اسے الله جدھر چاہےگا بہکا دے گا وہ اسلام کی چادر سے نکل جائے گا اور اسے پس پشت ڈال دے گا اور اپنے پڑوسی پر تلوار چلانا شروع کریگا اور اس پر شرک کے طعنے لگائے گاعرض کی گئی شرک کا زیادہ حقدار کون ہوگا ؟ ارشاد ہوا شرک کے طعنے مارنے والا شرک کا زیادہ حقدار ہوگا ۔ (تفسیر ابن کثیر ج2 ص265 مطبوعہ مصر،چشتی)
جو حدیث بیان کی ہے اس کے راوی حضرت حذیفہ بن یمان رضى الله تعالى عنه ہیں اور حدیث پاک سورہ اعراف کی آیت 175 کے تحت ہے محدث ابن کثیر مزید فرماتے ہیں اس حدیث کی اسناد جید ہیں اور اس کی سند میں صلحت بن بہرام کوفی ثقہ راوی ہے جسے امام المحدیثین امام احمد بن حنبل عليه الرحمہ اور امام بخاری عليه الرحمہ کے استاذ امام یحیی بن معین عليه الرحمہ نے ثقہ کہا ۔ (تفسیر ابن کثیر ج2 ص271)

خارجیوں کے مسلمانوں پر شرک کے فتوے

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی یہ روایت پڑھیں ۔ میں نےاسکے دیگرحوالہ جات بھی دے دیئے ہیں ۔ اسکے بعد قرآن مجید کھولیں وہ آیات پڑھیں اپنےعقیدے و عمل پرغور کریں اورصحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بعد آنیوالے اس کی شرح کرنیوالوں تمام پر اپنے احکامات لاگو کریں ۔ روایت یہ ہے : ⬇

وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَقَالَ : إِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلَي آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ.وقال العسقلاني في الفتح : وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بکير بن عبد ﷲ بن الأشج : أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا کَيْفَ کَانَ رَأَي ابْنُ عُمَرَ فِي الْحَرُوْرِيَةِ ؟ قَالَ : کَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، انْطَلَقُوْا إِلَي آيَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا فِي الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ (أخرج البخاري في صحيحه في ترجمة الباب : قَوْلُ ﷲِ تَعَالَي : وَمَا کَانَ ﷲُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّي يُبَيِنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُوْنَ ۔ (التوبة، 9 : 115)
قلت : وسنده صحيح، وقد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذر رضي الله عنه في وصف الخوارج : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وعند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعًا مثله.وعند البزار من طريق الشعبي عَنْ عَاءِشَةَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ : ذَکَرَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْخَوَارِجَ فَقَالَ : هُمْ شِرَارُ أُمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي. وسنده حسن.وعند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقْتُلُهُمْ خَيْرُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وفي حديث أبي سعيد رضي الله عنه عند أحمد : هُمْ شَرُّ الْبَرِيَةِ.وفي رواية عبيد ﷲ بن أبي رافع عن علي رضي الله عنه عند مسلم : مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ ﷲِ إِلَيْهِ.وفي حديث عبد ﷲ بن خباب رضي الله عنه يعني عن أبيه عند الطبراني : شَرُّ قَتْلَي أَظَلَّتْهُمُ السَّمَاءُ وَأَقَلَّتْهُمُ الْأَرْضُ. وفي حديث أبي أمامة رضي الله عنه نحوه.وعند أحمد وابن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعًا في ذکر الخوارج : شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا.وعند ابن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ. وهذا مما يؤيد قول من قال بکفرهم ۔
ترجمہ : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان (ترجمۃ الباب) کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے : ﷲ تعالیٰ کا فرمان : اور ﷲ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے ۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو ، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے ۔ اور عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما ان (خوارج) کو ﷲ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے ۔ (کیونکہ) انہوں نے ﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا ۔
اور امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار سے بکیر بن عبد ﷲ بن اشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ’’انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ انہیں ﷲ تعالیٰ کی بدترین مخلوق خیال کیا کرتے تھے جنہوں نے ﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا ۔ میں ’’امام عسقلانی‘‘ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور تحقیق یہ سند حدیث صحیح مرفوع میں امام مسلم کے ہاں ابو ذر غفاری کی خوارج کے وصف والی حدیث میں ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’وہ خَلق اور خُلق میں بدترین لوگ ہیں‘‘ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی اسی کی مثل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ہے ۔ اور امام بزار کے ہاں شعبی کے طریق سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا : وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور انہیں میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے ۔ اور اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اور امام طبرانی کے ہاں اسی طریق سے مرفوع حدیث میں مروی ہے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اور خُلق والے ہیں اور ان کو بہترین خَلق اور خُلق والے لوگ قتل کریں گے ۔

اور امام احمد بن حنبل کے ہاں حضرت ابو سعید والی حدیث میں ہے کہ ’’وہ (خوارج) مخلوق میں سے سب سے بدترین لوگ ہیں ۔

اور امام مسلم نے عبید ﷲ بن ابی رافع کی روایت میں بیان کیا جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ’’یہ (خوارج) ﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں ۔

اور امام طبرانی کے ہاں عبد ﷲ بن خباب والی حدیث میں ہے جو کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’یہ (خوارج) بدترین مقتول ہیں جن پر آسمان نے سایہ کیا اور زمین نے ان کو اٹھایا ۔‘‘ اور ابو امامہ والی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں ۔

اور امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو مرفوعا خوارج کے ذکر میں بیان کرتے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اورخُلق والے ہیں ۔‘‘ ایسا تین بار فرمایا ۔

اور ابن ابی شیبہ کے ہاں عمر بن اسحاق کے طریق سے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین مخلوق ہیں ۔ ’’اور یہ وہ چیز ہے جو اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو ان کو کافر قرار دیتا ہے ۔

ہر بات پر بلا وجہ ، بلا تحقیق داد و تحسین دینے والو اپنےطریق کار پر غور کرو اپنےحسد ، تعصب ، جہالت ، کم علمی اور لادینیت سے قرآن مجید کی تعلیمات کومسخ کرنے کی سزا کا بھی کبھی تصور کر لیا کرو ۔ ہر واعظ بدبخت کی بات مان کر اپنے عقیدے گھڑتے ہو ۔ دوسروں پر شرک کے فتوے لگاتے ہو اپنے کو سب سے بڑا مومن گردانتے ہو ۔ ذرا ان احادیثِ مبارکہ کو بھی غور سے پڑھو ۔ پھر دیکھو کہاں کھڑے ہو ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : (5) قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق والخليقة، 2 / 750، الرقم : 1067، وفي کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 749، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119. 120، الرقم : 4103، وابن ماجه في السنة، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 170، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، 224، الرقم : 11133، 13362، 4 / 421، 424،چشتی)

عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّي إِذَا رُئِيَتْ بَهْجَتُهُ عَلَيْهِ وَکَانَ رِدْئًا لِلْإِسْلَامِ غَيْرَهُ إِلَي مَاشَاءَ ﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَ نَبَذَهُ وَرَاءَ ظُهْرِهِ وَ سَعَي عَلَي جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاهُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ ﷲِ ، أَيُّهُمَا أَوْلَي بِالشِّرْکِ الْمَرْمِيُّ أَمِ الرَّامِي قَالَ : بَلِ الرَّامِي ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک ﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا ۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا ، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے ﷲ کے نبی ! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220، الرقم : 2793، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 301، الرقم : 2907، والطبراني عن معاذ بن جبل رضي الله عنه في المعجم الکبير، 20 / 88، الرقم : 169، وفي مسند الشاميين، 2 / 254، الرقم : 1291، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 24، الرقم : 43، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 188، وقال : إسناده حسن، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 266،چشتی)

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : سَيَخْرُجُ أَقْوَامٌ مِنْ أُمَّتِي يَشْرَبُوْنَ الْقُرْآنَ کَشُرْبِهِمُ اللَّبَنَ.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَالْمَنَاوِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، والمناوي في فيض القدير، 4 / 118)

ذکر ابن الأثير في الکامل : خَرَجَ الْأَشْعَثُ بِالْکِتَابِ يَقْرَؤُهُ عَلَي النَّاسِ حَتَّي مَرَّ عَلَي طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ فِيْهِمْ عُرْوَةُ بْنِ أُدَيَةِ أَخُوْ أَبِي بِلَالٍ فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ عُرْوَةُ : تَحَکَّمُوْنَ فِي أَمْرِ ﷲِ الرِّجَالُ؟ لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲِ ۔
ترجمہ : امام ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں بیان کیا : ’’اشعث بن قیس نے اس عہدنامہ کو (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا) لے کر ہر ہر قبیلہ میں لوگوں کو سنانا شروع کیا ۔ جب قبیلہ بنی تمیم میں پہنچے تو عروہ بن اُدیہ (خارجی) جو ابوبلال کا بھائی تھا بھی ان میں تھا جب اس نے وہ معاہدہ انہیں سنایا تو عروہ (خارجی) کہنے لگا : اللہ تعالیٰ کے امر میں آدمیوں کو حَکم بناتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا ۔ (أخرجه ابن الأثير في الکامل، 3 / 196، وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 / 123،چشتی)

عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّهُ کَتَبَ إِلَي الْخَوَارِجِ بِالنَّهْرِ : بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ، مِنْ عَبْدِ ﷲِ عَلِيٍّ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلَي زَيْدِ بْنِ حُصَينٍ وَ عَبْدِ ﷲِ بْنِ وَهَبٍ وَ مَنْ مَعَهُمَا مِنَ النَّاسِ . أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ ارْتَضَيْنَا حَکَمَينِ قَدْ خَالَفَا کِتَابَ ﷲِ وَاتَّبَعَا هَوَاهُمَا بِغَيْرِ هُدًي مِنَ ﷲِ فَلَمْ يَعْمَلَا بِالسُّنَّةِ وَلَمْ يُنْفَذَا الْقُرْآنَ حُکْمًا فَبَرِيءَ ﷲُ مِنْهُمَا وَرَسُوْلُهُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ،فَإِذَا بَلَغَکُمْ کِتَابِي هَذَا فَأَقْبِلُوْا إِلَيْنَا فَإِنَّا سَائِرُوْنَ إِلَي عَدُوِّنَا وَ عَدُوِّکُمْ وَ نَحْنُ عَلَي الْأَمْرِ الْأَوَّلِ الَّذِي کُنَّا عَلَيْهِ.فَکَتَبُوْا (الخوارج) إِلَيْهِ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّکَ لَمْ تَغْضَبْ لِرَبِّکَ وَ إِنَّمَا غَضِبْتَ لِنَفْسِکَ فَإِنْ شَهِدْتَ عَلَي نَفْسِکَ بِالْکُفْرِ وَاسْتَقْبَلْتَ التَّوْبَةَ نَظَرْنَا فِيْمَا بِيْنَنَا وَ بَيْنَکَ وَ إِلَّا فَقَدْ نَبَذْنَاکَ عَلَي سَوَاءٍ، إِنَّ ﷲَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِيْنَ.فَلَمَّا قَرَأَ کِتَابَهُمْ أَيِسَ مِنْهُمْ وَرَأَي أَنْ يَدَعَهُمْ وَيَمْضِيَ بِالنَّاسِ حَتَّي يَلْقَي أَهْلَ الشَّامِ حَتَّي يَلْقَاهُمْ.رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَابْنُ الْأَثِيْرِ وَابْنُ کَثِيْرٍ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خوارج کو نہروان سے خط لکھا : ’’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے : اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین علی کی طرف سے زید بن حصین اور عبداللہ بن وھب اور ان کے پیروکاروں کے لئے ۔ واضح ہو کہ یہ دو شخص جن کے فیصلہ پر ہم راضی ہوئے تھے انہوں نے کتاب اللہ کے خلاف کیا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کی ۔ جب انہوں نے قرآن و سنت پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سب اہل ایمان ان سے بری ہو گئے۔ تم لوگ اس خط کو دیکھتے ہی ہماری طرف چلے آؤ تاکہ ہم اپنے اور تمہارے دشمن کی طرف نکلیں اور ہم اب بھی اپنی اسی پہلی بات پر ہیں ۔ اس خط کے جواب میں انہوں نے (یعنی خوارج نے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا : ’’واضح ہو کہ اب تمہارا غضب اللہ کےلیے نہیں ہے اس میں نفسانیت شریک ہے اب اگر تم اپنے کفر پر گواہ ہو جاؤ (یعنی کافر ہونے کا اقرار کر لو) اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تمہیں دور کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ سو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا جوابی خط پڑھا تو ان کے (ہدایت کی طرف لوٹنے سے) مایوس ہوگئے لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اپنے لشکر کے ساتھ اہلِ شام سے جا ملے ۔ (أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 117، وابن الأثير في الکامل، 3 / 216، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 287، وابن الجوزي في المنتظم، 5 / 132،چشتی)

عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ أَنَّ عُرْوَةً بْنَ حُدَيْرٍ (الخارجي) نَجَا بَعْدَ ذَلِکَ مِنْ حَرْبِ النَّهَرْوَانِ وَبَقِيَ إِلَي أَيَامِ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه. ثُمَّ أَتَي إِلَي زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ وَمَعَهُ مَولَي لَهُ، فَسَأَلَهُ زِيَادُ عَنْ عُثْمَانَ رضي ﷲ عنه، فَقَالَ : کُنْتُ أَوَالِيَ عُثْمَانَ عَلَي أَحْوَالِهِ فِي خِلَافَتِهِ سِتَّ سِنِيْنَ. ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بِعْدَ ذَلِکَ لِلْأَحْدَاثِ الَّتِي أَحْدَثَهَا، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ. وَسَأَلَهُ عَنْ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَقَالَ : کُنْتُ أَتَوَلَّاهُ إِلَي أَنْ حَکَمَ الْحَاکِمِيْنَ، ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بَعْدَ ذَلِکَ، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ وَسَأَلَهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه فَسَبَّهُ سَبًّا قَبِيْحًا... فَأَمَرَ زِيَادُ بِضَرْبِ عُنُقِهِ. رَوَاهُ الشَّهَرَسْتَانِيُّ ۔
ترجمہ : زیاد بن امیہ سے مروی ہے کہ عروہ بن حدیر (خارجی) نہروان کی جنگ سے بچ گیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ رہا پھر وہ زیاد بن ابیہ کے پاس لایا گیا اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو زیاد نے اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اس نے کہا : ابتدا میں چھ سال تک انہیں میں بہت دوست رکھتا تھا پھر جب انہوں نے بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہو گیا اس لئے کہ وہ آخر میں (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا؟ کہا : وہ بھی اوائل میں اچھے تھے جب حکم بنایا (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا ؟ تو وہ انہیں سخت گالیاں دینے لگا ۔ پھر زیاد نے اسکی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔(أخرجه عبد الکريم الشهرستاني في الملل والنحل، 1 / 137)

عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ أَنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ عَلَي عَهْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَخَذَ بِبَشَرَةِ وَجْهِهِ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَکَةِ قَالَ : فَنَبتَتْ شَعَرَةٌ فِي جَبْهَتِهِ کَهَيْئَةِ الْقَوْسِ وَشَبَّ الْغُلَامُ فَلَمَّا کَانَ زَمَنَ الْخَوَارِجِ أَحَبَّهُمْ فَسَقَطَتِ الشَّعَرَةُ عَنْ جَبْهَتِهِ فَأَخَذَهُ أَبُوْهُ فَقَيَدَهُ وَ حَسَبَهُ مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ بِهِمْ قَالَ : فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَوَعَظْنَاهُ وَقُلْنَا لَهُ فِيْمَا نَقُولُ : أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَکَةَ دَعْوَةِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْهَتِکَ فَمَا زِلْنَا بِهِ حَتَّي رَجَعَ عَنْ رَأْيِهِمْ فَرَدَّ ﷲُ عَلَيْهِ الشَّعَرَةَ بَعْدُ فِي جَبْهَتِهِ وَتَابَ.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ ۔
ترجمہ : ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے چہرے سے پکڑا اور اسے دعا دی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی پیشانی پر خاص طور پر بال اگے جو تمام بالوں سے ممتاز تھے وہ لڑکا جوان ہوا اور خوارج کا زمانہ آیا تو اسے ان سے محبت ہو گئی (یعنی خوارج کا گرویدہ ہو گیا) اسی وقت وہ بال جو دستِ مبارک کا اثر تھے جھڑ گئے اس کے باپ نے جو یہ حال دیکھا اسے قید کر دیا کہ کہیں ان میں مل نہ جائے۔ ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے پاس گئے اور اسے وعظ و نصیحت کی اور کہا دیکھو تم جب ان لوگوں کی طرف مائل ہوئے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جاتی رہی غرض جب تک اس شخص نے ان کی رائے سے رجوع نہ کیا ہم اس کے پاس سے ہٹے نہیں ۔ پھر جب خوارج کی محبت اس کے دل سے نکل گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کی پیشانی میں وہ مبارک بال لوٹا دیئے پھر تو اس نے ان کے عقائد سے سچی توبہ کر لی ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 456، الرقم : 23856، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 556، الرقم : 37904، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 174، الرقم : 220، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 243، 10 / 275، وقال رواه أحمد والطبراني ورجاله رجال علي ابن زيد وقد وثق، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 359، الرقم : 6972،چشتی)

عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ : سَأَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ، أَوْ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ. عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عَنِ (الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ). أَوْ عَنْ بَعْضِهِنَّ، فَقَالَ عُمَرُ : ضَعْ عَنْ رَأْسِکَ، فَإِذَا لَهُ وَفْرَةٌ، فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه : أَمَا وَﷲِ لَوْ رَأَيْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ الَّذِي فِيْهِ عَيْنَاکَ، ثُمَّ قَالَ : ثُمَّ کَتَبَ إِلَي أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَوْ قَالَ إِلَيْنَا. أَنْ لَا تُجَالِسُوْهُ، قَالَ : فَلَوْ جَاءَ وَ نَحْنُ مِائَةٌ تَفَرَّقْنَا.رَوَاهُ سَعِيْدُ بْنُ يَحْيَي الْأُمْوِيُّ وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ کَمَا قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی یربوع یا بنی تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’’ الزَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ ‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے سر سے کپڑا اتارو ، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے ۔ انہوں نے فرمایا : بخدا ! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں ۔ شعبی کہتے ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے نام خط لکھا یا کہا کہ ہمیں خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا ، ہماری تعداد ایک سو بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہو جاتے تھے ۔ (أخرجه ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 195)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔