اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ اور مسلہ حیات انبیاء علیہم السّلام
محترم قارئینِ کرام اللہ تعالی کا ارشادِ مبارک ہے : اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ ۔
ترجمہ : بے شک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 30)
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ : بیشک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے ۔ اس آیت میں ان کفار کا رد ہے جوسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی وفات کا انتظارکیا کرتے تھے ، انہیں فرمایا گیا کہ خود مرنے والے ہو کر دوسرے کی موت کا انتظار کرنا حماقت ہے ۔ (تفسیر جلالین مع صاوی، الزمر : ۳۰، ۵/۱۷۹۶)
کفار تو زندگی میں بھی مرے ہوئے ہیں اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی موت ایک آن کے لئے ہوتی ہے پھر اُنہیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے ۔ اس پر بہت سے شرعی دلائل قائم ہیں ، ان میں سے دو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسموں کو کھانا زمین پر حرام فرما دیا ہے ، پس اللہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۲/۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان میں نماز پڑھتے ہیں ۔ (مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ثابت البنانی عن انس، ۳/۲۱۶، الحدیث: ۳۴۱۲)
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَتَيْتُ ، وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ : " مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفَضَائِلِ بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386(2377)،چشتی)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : "معراج کی رات میرا گذر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر ہوا، جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے ، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ۔
وقال أبو الشيخ في الكتاب ((الصلاة على النبي)) : حدثنا عبد الرحمن ابن أحمد الأعرج ، حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبو معاوية ، حدثنا الأعمش ، عن أبي الصالح ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ، قَالَ : " مَنْ صَلَّى عَلِيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ ، وَمَنْ صَلَّى عَلِيَّ نَائِيًا عَنْهُ أَبْلَغْتُهُ " ۔ (جلاء الافہام، لابن قيم : ٢٥،:رقم الحديث: 19 ؛ مشكوة: جلد # ١ حديث # ٨٩٩ برواية الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ)
ترجمہ : حافظ ابو الشیخ اصبہانی فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرج نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباح نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمش رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ۔ وہ ابو صالح سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔ (جلاء الافہام، لابن قيم جوزی : ٢٥،:رقم الحديث: 19،چشتی)
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (۸۴۹–۹۱۱ ھہ) فرماتے ہیں : قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : الأنبياء بعدما قبضوا ردت إليهم أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء ، وقال القرطبي في التذكرة في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ، ويدل على ذلك أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء يرزقون فرحين مستبشرين وهذه صفة الأحياء في الدنيا ، وإذا كان هذا في الشهداء فالأنبياء أحق بذلك وأولى، وقد صح أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء ، وأنه صلى الله عليه وسلم اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء ، ورأى موسى قائما يصلي في قبره وأخبر صلى الله عليه وسلم بأنه يرد السلام على كل من يسلم عليه ، إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أن غيبوا عنا بحيث لا ندركهم وإن كانوا موجودين أحياء ، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء ولا يراهم أحد من نوعنا إلا من خصه الله بكرامته من أوليائه ، انتهى أنباء الأذكياء في حياة الانبياء ۔ (الحاوي للفتاوي للسيوطي)
ترجمہ : امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے "کتاب الاعتقاد" میں بیان کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی روحیں وفات کے بعد پھر ان کی اجسام میں واپس کردی گئیں چنانچہ وہ اپنے رب کے پاس شہیدوں کی طرح زندہ ہیں. امام قرطبی نے "تذکرہ" میں حدیث صعقه کے متعلق اپنے شیخ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ "موت عدم محض کو نہیں کہتے بلکہ وہ خاص ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید لوگ اپنے قتل وموت کے بعد زندہ رہتے ہیں ، روزی دیے جاتے ہیں ، ہشاش بشاش رہتے ہیں اور یہ صفت دنیا میں زندوں کی ہے اور جب یہ حال شہداء کا ہے تو انبیاء علیہم السلام بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں. یہ بات بھی پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین انبیاء کرام علیہم السّلام کے اجسام کو نہیں کھاتی، نیز نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے شب معراج میں انبیاء علیہم السّلام سے بیت المقدس اور آسمان پر ملاقات کی اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو دیکھا کہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور خود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ : جو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا ، میں اس کو اس کے سلام کا جواب دوں گا . اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں . ان سب کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کی موت کا مآل صرف یہ ہے کہ وہ ہم سے اس طرح غائب ہیں کہ ہم ان کو نہیں پاسکتے گو زندہ وموجود ہیں اور ان کا حال فرشتوں کے جیسا ہے کہ وہ زندہ وموجود ہیں ہم میں سے کوئی ان کو نہیں دیکھتا بجز ان اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کے جن کو الله تعالیٰ نے اپنی کرامات کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے ۔
مزید فرماتے ہیں : حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت [به] الأخبار ، وقد ألف البيهقي جزءا في حياة الأنبياء في قبورهم ، فمن الأخبار الدالة على ذلك ۔
ترجمہ : نبی کریم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اور دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کی قبر میں حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں ۔ (الحاوي للفتاوي الفتاوى الحديثية كتاب البعث مبحث النبوات تزيين الآرائك في إرسال النبي صلى الله عليه وسلم إلى الملائك أنباء الأذكياء بحياة الأنبياء ... ٢/١٣٩،چشتی)
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قبر انور کے قریب پڑھا جانے والا درود و سلام خود سنتے ہیں دور سے پہنچا دیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم جواب عطاء فرماتے ہیں ۔ ( قاعدہ عظیمہ علامہ ابن تیمیہ صفحہ نمبر 57،چشتی)
یہ وہی علامہ ابن تیمیہ ہیں جنہیں غیر مقلد سعودی اور غیر سعودی وہابی نجدی اپنا امام مانتے ہیں سوال یہ ہے اب کیا کہتے ہیں یہ منکرین حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلّم جو کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم قبر انور میں حیات نہیں ہیں اپنے بڑے کی ہی مان لو اے آل نجد و آل سعود ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں
اَنبیا کو بھی اجل آنی ہے مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات مثلِ سابق وہی جسمانی ہے
عن اوس بن اوس قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم و فیہ قبض وفیہ النفخۃ و فیہ الصعقۃفاکثرو ا علی من الصلاۃ فیہ فان صلاتکم معرو ضۃ علیّ ، قال : قالوا یا رسول اللہ و کیف تعرض صلاتنا علیک و قد ارمت ؟یقولون :بلیت،فقال :انّ اللّٰہ َعز وجل حرّمَ علی الارض اجساد الانبیائ۔(ابوداود، رقم الحدیث:۱۰۴۷،ابن ماجہ،رقم الحدیث:۱۶۳۶)
تر جمہ: حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا : بے شک تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ،اسی دن ان کی روح قبض کی گئی،اسی دن صور پھو نکا جائے گا اور اسی دن سب بے ہوش ہو نگے ۔ پس اس دن کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کروکیو نکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جا تا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اُس وقت ہمارا درود آ پ پر کس طرح پیش کیا جائے گا جبکہ آپ مٹی ہو چکے ہوں گے ؟ تو ارشاد فر مایا : بے شک اللہ تعالی نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے ۔
لگے ہاتھو اس حدیث پر غیرمقلدین وہابیہ کے اعتراض کا جواب بھی پڑھتے چلتے ہیں غیرمقلدین حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ والی اس حدیث پر ہمیشہ کی طرح ضعیف کا فتویٰ جھاڑ کر سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں آیئے ان کے ضعیف کے ڈرامے کو بھی ان کے گھر پہنچاتے ہیں : یہ روایت بلکل صحیح ہے ۔ اس کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے الاذکار،جلد1صفحہ 131 پہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری، جلد6، صفحہ 562 پہ ،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد جلد 26 صفحہ 84 پہ ذکر کیا ہے اور علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کے رجال کو صحیح کہا ہے،علامہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن حبان جلد 3صفحہ 190،191 پہ اس کے رجال کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔ امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن دارمی جلد 1 صفحہ 445، علامہ ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 40 پہ، امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن الکبری للبہیقی جلد 4 صفحہ 432 پہ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن خزیمہ جلد 3 صفحہ 118 پہ ذکر کیا ہے ۔ اس کے رجال صحیح ہیں۔
علامہ ابن قیم جلاء الافھام میں یہ حدیث بیان کر کے اس پہ حسین بن علی الجعفی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حسین بن علی الجعفی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت عبدالرحمان بن یزید بن جابر رحمۃ اللہ علیہ سے سنی ہے چنانچہ اب حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے اور اس سند میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے۔اور لوگوں کا یہ گمان کہ یہ ابن تمیم ہے اور حسین بن علی سے ابن جابر رحمۃ اللہ علیہ کہنے میں غلطی ہو گئی ہے یہ گمان صحیح نہیں ہے ۔حسین بن علی پراس میں کوئی اشتباہ نہ تھا۔ وہ تنقیقد کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور دونوں کو بخوبی جانتے بھی تھے اور دونوں سے سماعت بھی کی ۔''۔(جلاء الفھام،صفحہ 79،80،چشتی) ۔ تو حیات النبیاء علیہم السّلام پہ یہ روایت بلکل صحیح ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔
حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297، الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/404
المحدث: الدمياطي - المصدر: المتجر الرابح - الصفحة أو الرقم: 246 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده
المحدث: محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 1/100 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 1/190 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الحكمي - المصدر: معارج القبول - الصفحة أو الرقم: 792/2 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1672 ، خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره
علامہ عزیزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔
علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،، چشتی )
اسی طرح علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ سمہووی رحمۃ اللہ علیہ ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، قاضی شوکانی نے نیل الاوطار جلد5ص 264،اور شمس الحق عظیم آبادی نے عون المعبود جلد ۱ص405۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ عبادہ بن نسی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابو الدردہ رضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں۔(التہذیب التہذیب جلد 5ص113)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔[فتح الباری جلد ۶ ص352]
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا [الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089]
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214]
علامہ عزیزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ [مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180]
علامہ ناصر البانی امام الوہابیہ نے اس روایت کو [صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل - الصفحة أو الرقم: 59] میں صحیح ، [أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ جید اور [أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ قوی فرمایا ہے.
غیر مقلدین کے علامہ ارشاد الحق اثری نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا حجاج کو مجہول قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا اعتراض نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ''امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ان کو ثقہ کہتے ہیں،امام ابن معین ان کو ثقہ کہتے ہیں،ابو حاتم ان کو صالح الحدیث اور ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں۔(لسان المیزان،جلد2صفحہ 175، چشتی)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہیں بھی اس روایت کو ضعیف نہیں کہا۔۔ انہوں نے تو حسین بن علی جعفی کا ذکر کیا کہ وہ یزید بن جابر کی بجائے یزید بن تمیم سے روایت کرتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ روایت بھی یزید بن جابر کی بجائے یزید بن تمیم سے مروی ہے۔۔۔۔ علامہ ابن قیم کا حوالہ دیا ہے اور انہوں نے آپ کے اس اعتراض کا بھی جواب دیے دیا ۔۔ باقی سینہ پہ ہاتھ باندھنے پہ تو ابن خزیمہ کی ضعیف روایت کو بھی آپ صحیح تسلیم کر لیتے ہیں لیکن یہاں ابن خزیمہ کی روایت کا انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں دی ۔
آپ کی اطلاع کے لئے علامہ ناصر البانی نے اس کو صحیح سنن ابو داود اور سلسلہ احادیث صحیحیہ میں ذکر کیا ہے۔وہی علامہ البانی جن کے حوالے آپ اسی مضمون میں دے چکے ہیں چند احادیث کے ضعیف ہونے پہ ۔ " أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة ، فإن صلاتكم معروضة علي . قالو : كيف تعرض)عليك و قد أرمت ؟ قال : إن الله تعالى حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ". قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 32 :رواه أبو إسحاق الحربي في " غريب الحديث " 5 / 14 / 2) عن حسين بن علي عن ابن جابر عن أبي الأشعث عن أوس بن أوس مرفوعا ۔ قلت : و إسناده صحيح ، و قد أعل بما لا يقدح كما بينته في كتابي " صحيح أبي داود " ( 962 ) و " تخريج المشكاة " ( 1361 ) و " صحيح الترغيب " ( رقم 698 )
و لذلك صححه جمع من المحدثين ، ذكرتهم هناك . و لطرفه الأول شاهد من رواية أبي
رافع عن سعيد المقبري عن أبي مسعود ، الأنصاري مرفوعا به . أخرجه الحاكم ( 2 /
421 ) و قال : " صحيح الإسناد ، فإن أبا رافع هذا هو إسماعيل بن رافع "،چشتی)
علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح کہا ہے۔۔
امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ''حیات الالنبیاء صفحہ 88 '' میں اس روایت کو حیات انبیاء پہ بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ مطلب یہ کہ امام بہیقی اس روایت سے حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دلیل لے رہے ہیں ۔
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک حاکم میں اس کی سند کو بخاری کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں اس روایت کو ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ابن خزیمہ، ابن حبان اور امام نووی نے الاذکار میں اس کو صحیح کہا ہے۔
علامہ شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد وہابی نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس باب پہ نص ہے ۔ (عون المعبود،ج1،صفحہ 405)
علامہ ناصر البانی محدث الوہابیہ نے سلسلہ صحیحیہ میں یہ روایت بیان کر کے اس کا مکمل جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا وھم ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو بیان کر کے اس کا رد کیا ہے اور کہا ہےکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام معین نے حجاج بن زیاد الاسود کو ثقہ کہا ہے اور ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے ۔ اب یہ دیکھو کہ کن کن محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے ۔ أخرجه البيهقي في حياة الأنبياء في قبورهم [ص /23 طبعة مكتبة الإيمان]، من طريق أبي يعلى به قال الهيثمي في المجمع [8/ 386 ] : « رواه أبو يعلى والبزار ورجال أبو يعلى ثقات ۔
وقبله نقل ابن الملقن في البدر المنير [5/ 285] عن البيهقي أنه قال بعد أن ساق هذا الطريق : « هَذَا إِسْنَاد صَحِيح » ثم قال ابن الملقن : «وَهُوَ كَمَا قَالَ ؛ لِأَن رِجَاله كلهم ثِقَات .
وأما السنة : ففيها شيء كثير من الأدلة على حياتهم، فمن ذلك : الحديث (( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون )) رواه أبو يعلى في مسنده (6/147، چشتی)
ارشاد الحق اثری فی التحقیق مسند ابی یعلی : قال الإمام في الصحيحة [رقم/621] بعد أن ساق كلام النقاد في « حجاج » قال : « و يتلخص منه : أن حجاجا هذا ثقة بلا خلاف ، و أن الذهبي توهم أنه غيره فلم يعرفه ؟ و لذلك استنكر حديثه ! و يبدو أنه عرفه فيما بعد ، فقد أخرج له الحاكم في " المستدرك " ( 4 / 332 ) حديثا آخر ، فقال الذهبي في " تلخيصه " : " قلت : « حجاج ثقة » و كأنه لذلك لم يورده – يعني الذهبي- في كتابه " الضعفاء " و لا في ذيله، و الله أعلم . »
قلتُ : وقد وجدتُ الذهبي نفسه قد ترجمه في سير النبلاء [76/7]، وقال: « بصْريٌ صدوق ....... وكان من الصلحاء » فلله الحمد ۔
سنن الکبریٰ للبہیقی اور مسند ابو یعلیٰ کی روایات 2 ہیں جن کے راوی مختلف ہیں۔ آپ نے جو سکین دئے انہی تمام سکین کے حاشیہ میں تمام حاشیہ نگاروں نے مسند ابو یعلیٰ کی روایت ''حدثنا أبو الجهم الأزرق بن علي ، حدثنا : يحيى بن أبي بكر ، حدثنا : المستلم بن سعيد ، عن الحجاج ، عن ثابت البناني ، عن أنس بن مالك قال رسول الله (ص) : الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون - '' کو صحیح کہا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔
آپ نے جو جرح نقل کی جس میں الحسن بن قتیبہ المدائنی" ہے تو یہ امام بہیقی کی سند ہے جس پہ اعتراض کو سکتا ہے لیکن میرا موقف مسند ابو یعلیٰ کی سند پہ ہے جو کہ بلکل صحیح ہے۔ آپ کے اپنے علماء البانی، ارشاد الحق اثری ، اور محدث فتاوی کی کمیٹی والے اس روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں ۔
غیرمقلدین اکثر علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیتے ہیں جس کا جواب دیا جا چکا ہے ۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےجو کہا کہ مستلم بن سعید کو وھم ہو جاتا تھا تو اس سے کب ثابت ہے کہ اس روایت میں بھی وہم ہو گیا۔
ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تو خود فتح الباری جلد 6 صفحہ 562 پہ مسند ابو یعلیٰ کی روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں اور حجاج بن اسود پہ آپ کیجرح کا رد بھی کر رہے ہیں کہ ابن معین،امام احمد نے ثقہ کہا ہے اور ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے۔ آپ نے لسان المیزان کا حوالہ دیا تو جناب ادھورا حوالہ دیا۔ لسان المیزان میں تو علامہ ابن حجر امام ذہبی کی جرح نقل کر کے نیچے اس کا رد کر رہے ہیں ۔
اگر ابن حجر کو مستم بن سعید پہ اعتراض ہوتا تو امام ذہبی کی جرح کا رد نہ کرتے اور نہ ہی فتح الباری میں اس کے تمام رجال کو صحیح کہتے۔
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اسی جرح کو تو علامہ البانی نے سلسلہ حدیث صحیحیہ میں نقل کر کے اس حدیث پہ اعتراضات کا جواب دیا ہے ۔ قال الإمام في الصحيحة [رقم/621] بعد أن ساق كلام النقاد في « حجاج » قال : « و يتلخص منه : أن حجاجا هذا ثقة بلا خلاف ، و أن الذهبي توهم أنه غيره فلم يعرفه ؟ و لذلك استنكر حديثه ! و يبدو أنه عرفه فيما بعد ، فقد أخرج له الحاكم في " المستدرك " ( 4 / 332 ) حديثا آخر ، فقال الذهبي في " تلخيصه " : " قلت : « حجاج ثقة » و كأنه لذلك لم يورده – يعني الذهبي- في كتابه " الضعفاء " و لا في ذيله، و الله أعلم . »
قلتُ : وقد وجدتُ الذهبي نفسه قد ترجمه في سير النبلاء [76/7]، وقال: « بصْريٌ صدوق....... وكان من الصلحاء » فلله الحمد ۔
اب امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح پہ آتے ہیں تو اس کا جواب تو علامہ البانی نے تفصیل سے دیا کہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کو وھم ہو گیا تھا اور خود حجاج بن الاسود کو علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک حاکم کی تلخیص جلد 4صفحہ 332 پہ ثقہ قرار دیا ہے۔
سیر اعلام النبلاء میں حجاج بن الاسود کو بصری صدوق قرار دیا اور ساتھ کہا کہ ابن معین نے حجاج کو ثقہ کہا ہے۔(سیر اعلام النبلاء جلد 7 صفحہ 76، چشتی)
تو امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح کا جواب خود ان سے ہی مل گیا کہ ان کے نزدیک بھی حجاج بن الاسود ثقہ ہیں اور صدوق ہیں۔
عن ابی الدرداء قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : اکثروالصلاۃ علیّ یوم الجمعۃ فانہ مشہود تشھدہ الملائکۃ و ان احدا لن یصلی علیّ الاعرضت علیّ صلاتہ حتی یفرغ منھا ،قال:قلتُ :و بعد الموت؟ قال: و بعد الموت ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ،فنبی اللہ حی یرزق۔(ابن ماجہ،کتاب الجنائز ،باب ذکر وفاتہ و دفنہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم،حدیث:۱۶۳۷،چشتی)
تر جمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو،کیونکہ یہ یومِ مشہود ہے،اس دن فر شتے حاضر ہوتے ہیں ،کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوجاتا ہے،حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا :اور وفات کے بعد ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا:اور وفات کے بعد بھی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا : اللہ تعالی نے زمین کے لئے انبیائے کرام کے جسموں کو کھانا حرام کردیا ہے ،تو اللہ کے نبی زندہ ہوتے ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے ۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لقد رأیتنی فی الحِجر وقریش تسألنی عن مسرای،فسألتنی عن اشیاء من بیت المقدس لم اثبتھا فکربت کربۃ ما کربت مثلہ قط ،قال: فر فعہ اللہ لی أنظر الیہ ما یسألونی عن شئی الا أنبأتھم بہ ۔و قد رأیتنی فی جماعۃ من الانبیاء فاذا موسی قائم یصلی ،فاذا رجل جعد کانہ من رجال شنوء ۃ واذا عیسی ابن مریم علیہ السلام قائم یصلی ،اقرب الناس بہ شبھا عروۃ بن مسعود الثقفی ۔واذا ابراھیم علیہ السلام قائم یصلی ،اشبہ بہ صاحبکم ،یعنی نفسہ فحانت الصلاۃ فأممتھم فلما فرغت من الصلاۃ قال قائل:یا محمد ،ھذا مالک صاحب النار فسلم علیہ فالتفت الیہ فبدأنی بالسلام۔(مسلم،کتاب الایمان ،باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال،حدیث:۱۷۲)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا:میں حطیم کعبہ میں کھڑا تھا اور قریش مجھ سے میرے سفر معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جن کو میں نے محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہواکہ اس پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہواتھا ،تب اللہ تعالی نے بیت المقدس کو اٹھا کر میر ے سامنے رکھ دیا ،وہ مجھ سے بیت المقدس کی چیزوں کے بارے میں پوچھتے رہے اور میں دیکھ دیکھ کر بیان کرتا رہا۔اور میں نے اپنے آپ کو انبیائے کرام کی جماعت میں پایا،میں نے دیکھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ قبیلئہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگھریالے بالوں والے تھے ،اور پھر عیسی ابن مریم علیھما السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں ،اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور تمہارے پیغمبر ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے ان سب انبیائے کرام علیھم السلام کی امامت کی ،جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا:یہ مالک،جہنم کے داروغہ ہیں ،انہیں سلام کیجئے،میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہلے مجھے سلام کیا۔یہ حدیث صحیح ہے ۔
یہ نجدی منافق ہے گندہ ہے واللہ
جہنّم پہ اس کا نام کندہ ہے واللہ
جو مردہ کہے تمکو وہ خود مردہ ہے واللہ ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
جو سُنــی ہـــے وہ تو ہــمیـــــشہ کہے گا
رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قال:مررت علی قبر موسیٰ علیہ السلام و ھو یصلی فی قبرہ۔(سنن نسائی،رقم الحدیث:۳۳۱۶،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۲۳۷۵)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :میں حضرت موسی علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گذرا(تو میں نے دیکھا کہ)وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔
حدثتنی سلمۃ قالت : دخلت علی ام سلمہ وھی تبکی فقلت :ما یبکیک؟قالت:رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ’تعنی فی المنام‘و علی رأسہ و لحیتہ التراب فقلت:ما لک یا رسول اللہ ؟قال :شھدت قتل الحسین آنفا ۔ (جامع ترمذی ،رقم الحدیث:۳۷۷۱)
تر جمہ : حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں ام المو منین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنھا کے کی خدمت میں حاضر ہوئی ، وہ رو رہی تھیں ۔ میں نے پو چھا آپ کیوں رو رہی ہیں ؟ انہوں نے فر مایا کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خواب میں دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے ، میں نے عر ض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میں ابھی (امام) حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شہادت میں شریک ہوا ہوں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment