Saturday 12 June 2021

الصّلوٰۃ و السّلام علیک یارسول اللہ پڑھنا حصہ اول

0 comments

 الصّلوٰۃ و السّلام علیک یارسول اللہ پڑھنا حصہ اول

محترم قارئین کرام : الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کے صیغے سے حضورنبی کریم رؤف الرحیم علیہ التحیۃ والتسلیم پر درود و سلام پڑھنا جائز و مستحسن ہے جس طرح دیگر درود شریف کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالی کے اس فرمان پاک سے ثابت ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔
ترجم : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔ (سورۃ الاحزاب اٰیۃ نمبر ۵۶)
اس آیت کریمہ میں لفظ " صلاة" اورلفظ "سلام" ہے اور "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" میں بھی لفظ "صلاۃ" اورلفظ "سلام" دونوں ہیں ۔
مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے : (عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول : السلام علیک یا رسول اللہ)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گذرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا ۔ (مراقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۱۱،ص:۶۵،حدیث:۵۹۱۹، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)
اس حدیث پاک میں "اسلام علیک یا رسول اللہ" ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دونوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" اس میں "صلوا" اور "وسلموا" دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہی الفاظ کیوں ہیں ؟ احادیث پاک میں کثرت سے دوردو سلام کے صیغے موجود ہیں ان میں سے ہی پڑھا جانا چاہئے تو اس کے لئے جواب یہ ہے کہ وہ دورد پاک جواحادیث میں وارد ہیں ان میں حصر نہیں کہ صرف وہی پڑھے جائیں اس کے علاوہ نہیں پڑھ سکتے بلکہ علماء نے صراحت کی ہے کہ جتنے اچھے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہو سکیں اس کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پردورد اور سلام بھیجا جائے اس کی ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں جن میں قصیدہ بردہ شریف ، اور دورد تاج ، دلائل الخیرات شریف اس کے علاوہ بھی بہت سارے دورد وسلام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے موجود ہیں ۔ اگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کا کیا جواب دیں گے ؟
ہاں بعض لوگوں کو یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ ہضم نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ اس طرح کہنا شرک ہے ، میرا ان سے ایک سوال یہ ہے کہ جو شرک ہوتا ہے وہ ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر لحاظ سے شرک ہوتا ہے تو پھر یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین علیہم الرحمہ کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کیا اور خود اللہ تعالی کے بارے میں ان لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب اللہ تعالی قرآن کریم میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی "یاایھا المزمل" کے خطاب سے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی "یاایھا المدثر" کے لقب سے اور کبھی "یاایھا النبي" کے مبارک الفاظ سے ۔ کیا نعوذباللہ ، اللہ تعالی خود شرک کی تعلیم دیتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں اور عقلوں پر اللہ تعالی نے مہر لگا دی ہے ان کو حقیقت بات بھی الٹی سمجھ آتی ہے ۔
الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ عالم امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا فرمان مرشد اکابرین تمام اکابرین دیوبند کے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بعض لوگ الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ بصیغہ خطاب میں کلام کرتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے قرب و بعد نہیں ہے پس اس کے جواز میں شک نہیں ہے ۔ (امداد المشاق صفحہ نمبر 60) ۔ اور مسلک حق کا فیصلہ کیجیے ساتھ ہی کھسیانی بلی کھبا نوچے کی زندہ عملی مثال تھانوی صاحب کا حاشیہ پڑھیئے کہتے ہیں پڑھنے والے کو اگر کشفی کیفیت حاصل ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ اجازت نہیں دی جائے گی مگر تھانوی صاحب اسے ناجائز نہیں لکھ سکے اگر وہ یا کوئی دیوبندی اسے ناجائز ، یا شرک کہتا ہے تو مرشد اکابرین دیوبند کو ناجائز کام کا مرتکب اور مشرک قرار دینا پڑے گا اس لیئے کہ ناجائز شرک ہر ایک کےلیے ناجائز و شرک ہوگا ۔
کیا حاجی صاحب کے اس فرمان پر تھانوی صاحب سمیت کسی بھی دیوبندی عالم نے شرک و گمراہی کا فتویٰ لگایا اگر لگایا ہے تو ہمارے علم میں اضافہ کےلیے بتایا جائے ؟
اگر نہیں لگا تو مسلمانان اہلسنت کیا کیا قصور ہے کہ وہ یہ درود پڑھیں تو دیوبند کی شرک و گمراہی کی توپیں کھل جاتی ہیں اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر انتشار و فساد پھیلایا جاتا ھے آخر یہ دوغلہ پن و دھرا معیار فتویٰ کیوں ؟
درود و سلام پڑھنے میں بہتر ہے کہ درود کے ساتھ سلام بھی شامل کرکے یوں پڑھیں : الصّلوٰۃُ والسّلام علیک یا رسول اللہ اسی طرح آخیر تک السّلام کے ساتھ الصّلوٰۃ کا لفظ بھی بڑھا دے ۔ (فضائل درود شریف صفحہ نمبر 29،چشتی)
علماۓ اہلحدیث لکھتے ہیں : الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جائز ہے ۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد نہم صفحہ نمبر 15)
مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے : عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول :السلام علیک یا رسول اللہ ‘‘یعنی،’’ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا ۔ [مراقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۱۱،ص:۶۵،حدیث:۵۹۱۹،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی]
اس حدیث پاک میں’’ السلام علیک یارسول اللہ ‘‘ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دو نوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے’’ الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ‘‘ اس میں’’ صلوا‘‘ اور’’ وسلموا‘‘ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔
حقیقت بات یہ ہے کہ ندا ئے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ’’لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا‘‘ترجمہ : یعنی،’’ رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ‘‘۔ [سورہ النور :63]
اس آیت کے تحت تفسیر روح المعانی میں اور تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے تحت مذکور ہے ’’ والفظ لہ :قال الضحاک عن ابن عباس ،کانو یقولون یامحمد یااباالقاسم فنہاھم اللہ عزوجل عن ذلک اعظاما لنبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم قال فقولو ایانبی اللہ ،یارسول اللہ ھکذا قال مجاہد وسعید بن جبیر ،وقال قتادۃ ‘‘یعنی،’’ حضرت ضحاک علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے یامحمد ، یا اباالقاسم ، تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور توقیر کےلیے اس سے منع فرما دیا اور فرمایا کہو ’یانبی اللہ ، ’یارسول اللہ ، اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنھم نے اسی طرح روایت کیا ۔ [تفسیر ابن کثیر :ج،6 ص81 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
اسی سے ملتاجلتا مضمون تفسیر درمنثور :ج،8ص230پر بھی موجود ہے اور تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ لا تنادو ہ کما ینادی بعضکم بعضا یامحمد ولکن قولوا یا رسول اللہ ،یانبی اللہ ‘‘یعنی ان (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ندا اس طرح نہ دیں جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکار تے ہو (یعنی یامحمد کہہ کرنہ پکارو) لیکن یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو ۔ [تفسیر کبیر:ج،8ص 425مطبوعہ دار الا حیاء بیروت]
حدیث پاک میں ہے کہ جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یارسول اللہ کے نعرے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا ’’فصعد الرجال والنساء فوق البیو ت وتفرق الغلمان والخد ام فی الطرق ینادون یامحمد ، یارسول اللہ ، یامحمد ، یارسول اللہ ‘‘یعنی،’’ پس مرد اور عورتیں مکان کی چھتوں پر چڑھ کر اور بچے اور خدام بازاروں کے راستوں میں پھیل کر یامحمد ، یارسول اللہ ، یامحمد ، یارسول اللہ ، کا نعرہ لگاتے تھے ۔ [صحیح مسلم شریف :ج،1ص419مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ،السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی،’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی حاجت (ضرورت) میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کو وسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔ موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے جاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ :ج،۲۳، ص۶۸۰ مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور ،چشتی)
علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا نبی الرحمۃ ۔ [حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،صفحہ نمبر ،747،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ]
علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں ’’ یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ :صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا :قرت عینی بک یارسول اللہ ‘‘یعنی،’’مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت (اشھد ان محمد رسول اللہ) سنے تو کہے صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ (اشھد ان محمد رسول اللہ) سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں)‘‘ ۔ [ردلمحتار ،ج:۲،ص:۶۸،مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان]
ان دلائل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ : الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا جائز اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔