وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ کی تفسیر اور خارجیوں کو مدللّ جواب
محترم قارئینِ کرام : ایسا ممکن ہی نہیں ہوں خارجی اور وہ مسلمانان اہلسنت و جماعت پر کفر و شرک کے فتوے نہ لگائیں اگر یہ فتوہ کفر و شرک نہیں لگائیں گے تو معلوم کیسے ہوگا کہ یہ خارجی ہیں جبکہ خارجی جہنم کے کتے ہیں ۔ احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ ۔ (سورة يوسف آیت نمبر 106)
وہابی کا ترجمہ : ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔
اہلسنت کا ترجمہ : اور ان میں اکثر وہ ہیں کہ الله پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہیں ۔
جمہور مفسرین علیہم الرّحمہ کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی جو کہ الله تعالٰی کی خالقیت رازقیت یعنی کی الله کو خالق بھی مانتے اور رزق دینے والا بھی بھی مانتے تھے اور ساتھ بُت پرستی بھی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک بھی کرتے تھے ۔ اس پوری سورة کو پڑھا جائے یعنی اس کے سیاق و سباق کو پڑھا جائے تو اس آیت سے واضع تور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کفار کے متعلق نازل ہوئی تفسیر مدارک ، تفسیر مظہری : اور باقی تفاسیر اٹھا کر دیکھ لیں ۔
تفسیر ابن عباس کا حوالہ : اور اکثر اہل مکہ جو دل میں الله کی عبودیت کو مانتے بھی ہیں مگر علانیہ وحدانیت خداوندی میں شرک کرتے ہیں ۔ ( تفسیر ابن عباس سورة يوسف آیت نمبر 106،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت ،، وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ، سے مراد ہم اہلِ ایمان نہیں بلکہ اس سے مراد اہلِ کتاب مشرکین ہیں ۔ (فضائل صحابہ مترجم صفحہ نمبر 592 مطبوعہ بک کارنر جہلم)
اگر خارجی واقع حلالی ہں تو مجھے بتائے اس وقت کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو معاذ الله ایمان لا کر بھی شرک کرتے تھے ؟ خاری اس بات کا جواب دے دیں تو بحث ہی ختم ہو جاتی ۔ جتنی بھی تفاسیر موجود ہیں سب کو اٹھا کر دیکھ لیں یہاں اس آیت سے مراد اہلِ کتاب کفار و مشرکین ہی ہیں ۔
مطلب بن عبد الله رحمۃ الله علیہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما نے نماز تہجد میں ایک آیت پڑھی ، اس کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ، انہوں نے کہا:اس امت کا بڑا عالم کون ہے؟ میں نے کہا حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ہیں ۔ پھر انہوں نے مجھے حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کو بلانے بیجھا (جب ابن عباس آئے) تو حضرت سیدنا عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما نے ان سے پوچھا : میں نے آج رات ایک آیت کو پڑھا ہے ، میں اس سے آگے نہیں بڑھ سکا ، مجھے اس آیت نے بے چین کر دیا ہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ہے (یعنی اسی ایک آیت کو بار بار پڑھتا رہا ہوں) (ومایومن اکثرھم بالله الاوھم مشرکون) (سورة یوسف آیت نمبر 106) (ان میں سے اکثر لوگ باوجود ایمان لانے کےبھی مشرک ہی ہیں) سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا : آپ بے چین نہ ہوں اس آیت سے ہم (مسلمان) مراد نہیں ہیں بلکہ اہل کتاب مراد ہیں جیسا کہ الله فرماتا ہے : (ولئن سالتھم من خلق السماوات والارض لیقولن الله) (سورة لقمان آیت نمبر 25) ترجمہ : (اگر ان سے پوچھو زمین اور آسمان کا خالق کون ہے ؟ کہیں گے الله ہے) ( بیدہ ملکوت کل شئء وھویجیرولا یجار علیه) (سورة المومنون آیت نمبر 88) الله کے ہاتھ ہر چیز کا اختیار ہے وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے ۔ (سیقولون الله) (سورة المومنون آیت نمبر 89) ترجمہ : (یہ کہیں گے الله ہے) پس اہل کتب یہاں الله پر ایمان لاتے ہیں اور حالانکہ شرک بھی کرتے ہیں ۔ آگے نیچے خارجی وہابی اس حدیث کی صحت کے بارے میں لکھتا ہے کہ : تحقیق : اسناد حسن ؛ تخریج : جامع البیان فی ای القرآن للطبری جلد نمبر نمبر صفحہ نمبر 50 ) ۔ یہیں حدیث تفسیر مظہری اور تفسیر مدارک میں بھی موجود ہے ۔ اب ان لوگوں کو شرم سے ایک پیالے میں پانی ڈال کر اور وہاں ڈوب کر مر جانا چاہیئے ۔ یہ خارجی وہابی کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں کو دکھا کر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بخاری شریف کی ہی ایک حدیث ہے جو ان الفاظ میں ہے کہ : بد ترین ہیں وہ لوگ جو کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں پر فٹ کرتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری،باب قتل الخوارج، جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 1024)
جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے خالق اور رازق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود بت پرستی کر کے غیروں کو عبادت میں اللّٰہ تعالیٰ کا شریک کرتے تھے ۔ (تفسیر مدارک یوسف : ۱۰۶، ص۵۴۷)
حسن ، مجاہد ، عامر اور شعبی نے کہا : یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو یہ مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا اور تمام کائنات کا خالق ہے، اس کے باوجود وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ عکرمہ نے کہا : انہی لوگوں کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں :
ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ فانی یوفکون ۔ (سورہ الزخرف : 87) ، اگر آپ سن سے یہ سوال کریں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ، پھر وہ کہاں بھٹک رہے ہیں ۔
ولئن سالتھم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ فانی یوفکون۔ (سورہ العنکبوت : 61) ، اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے توہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹک رہے ہیں ۔
حسن نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں ، وہ اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں ، عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا تو کہتے ہیں اور یہود عزیر کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں اور یہ شرک ہے ۔
ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو زبان سے ایمان لاتے تھے اور ان کے دل میں کفر تھا ۔
حسن سے یہ روایت بھی ہے کہ یہ آیت ان مشرکین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور جب اللہ ان کو اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں : قل من ینجیکم من ظلمت البر والبحر تدعونہ تضرعا و خفیہ لئن انجانا من ھذہ لنکونن من الشاکرین ۔ قل اللہ ینجیکم منھا ومن کل کرب ثم انتم تشرکون ۔ (سورہ الانعام : 63، 64) ، آپ پوچھیے کہ تمہیں سمندروں اور خشکی کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے ؟ جس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو ، اگر وہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے ، آپ کہیے کہ تمہیں اس مصیبت سے اور ہر سختی سے اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر (بھی) تم شرک کرتے ہو ۔
جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا وہی اللہ پر ایمان لایا ۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ جس نے مجھے مانا اُسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی مانا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانا ، جانا ، پہچانا ، سمجھا اُسی نے درحقیقت میری وحدت کا اقرار کیا ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا مظہر ہیں اللہ تعالیٰ کا عکس و آئینہ ہیں ۔ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارک کو مانا ، جانا ، سمجھا اقرار کیا اُسی نے اللہ تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کیا ۔ اور عشق و محبت میں محبوب کی ہر طرح کی شان بلند و بالا رکھی جاتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنا فرضِ عین ہیں ۔ اب ایسا کون ہوگا جو عشق و محبت کا دعویٰ بھی کرتا ہو اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اُس سے برداشت ہی نہ ہورہی ہو ۔ ایسا لوگ ابوجہل کی نسل سے ہیں ہوشیار ہو جاٶ ایسے لوگوں سے کہ جن کے پاس ایسی عبادتیں ، ریاضتیں ہونگی کہ ہم لوگ اُن کی عبادتوں کے سامنے اپنی عبادتوں کو حقیر جانیں گے ۔ لیکن یہی لوگ اصل میں جہنم کے حقدار اور عداوت و بغض رکھنے والے اشخاص ہیں جن کو دنیا اور آخرت میں بھی لعنت ہی ملیں گی اور یہی لوگ دین و ایمان کے دشمن ہیں اور خوارجی کے لقب سے مشہور ہیں ۔ ہوشیار ایسے عبادت گزاروں سے ۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و بلندی میں گستاخیاں کرتے ہے وہ لوگ کتنی ہی عبادت و ریاضت کریں اُن کےلیے ہم نے ایک دردناک عزاب تیار کرکے رکھا ہوا ہے اور اصل میں یہی لوگ مشرک و منافق و کافر ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخ ہو ۔ ابوجہل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کرتا تھا ، توحید پرست ، اللہ کو ماننے والا تھا لیکن اللہ نے پھر بھی خطاب کیا کہ ابوجہل مجھے کتنا بھی مان لے لیکن اس کے دل میں میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان برداشت نہیں ہو رہی اس کےلیے اولٰئک اصحاب النار ھم فیھا خٰلدون ۔ اور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے ابوجہل بتا تو آپ رضی اللہ عنہ معراج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی اور اللہ کریم نے ارشاد و خطاب فرمایا کہ رضی اللہ عنھم و رضو عنہ واعدلھم جنٰت تجری تحتہاالانھار خٰلدین فیھا ابداََ ۔ بات واضع ہوگئ آپ سب سمجھدار ہیں ۔
سنن ترمذی میں امام ابو غالب نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : فَقَالَ أَبُوْ أُمَامَةَ رضی الله عنه : کِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَائِ خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوْهُ ثُمَّ قًرَأَ : ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ﴾ إِلَی آخِرِ الآيَةِ قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ : أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّی عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمُوْهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (یہ خوارج) جہنم کے کتے ہیں ، آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہیں اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : (جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔) حضرت ابو غالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (یہ فرمان) ایک ، دو ، تین ، چار یہاں تک کہ سات بار بھی سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا (یعنی میں نے یہ بات خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد بار سنی ہے) ۔ (ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن ، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000)(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 256، رقم : 22262)(حاکم، المستدرک، 2 : 163، رقم : 2655)(بيهقي، السنن الکبری، 8 : 188)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 248، رقم : 1279)
امام ابن ابی شیبہ، بیہقی اور طبرانی نے حضرت ابو غالب سے روایت کیا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے خوارج اور حروریہ کے متعلق بیان فرمایا : کِلَابُ جَهَنَّمَ، شَرُّ قَتْلَی قُتِلُوْا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ، وَ مَنْ قَتَلُوْا خَيْرُ قَتْلَی تَحْتَ السَّمَاءِ . . . إلی الآخر .
ترجمہ : یہ جہنم کے کتے ہیں اور زیرِ آسمان تمام مقتولوں سے بدترین مقتول ہیں اور ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے زیر آسمان تمام شہیدوں سے بہترین شہید ہیں ۔
(ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 554، رقم : 37892)(طبراني، المعجم الکبير، 8 : 267، 268، رقم : 8034، 8035)(بيهقي، السنن الکبری، 8 : 188)
جبکہ واضح حدیث موجود ہے : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداءِ اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مُردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو ہوں، میں تمہارے اُوپر گواہ ہوں، ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عقبہ فرماتے ہیں کہ یہ میرا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا)(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة أحد، 4 / 1486، الرقم : 3816)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں ۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔ (صحيح بخاری کتاب : المناقب، باب : علامات النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401،چشتی)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے ڈر ہے کہ تم دنیا کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ گے اور آپس میں لڑو گے اور ہلاک ہو گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگ ہوئے ۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آخری بار تھی جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا) ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : اثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1796،چشتی)
جبکہ ان دو ٹکے کے جاہلوں کو شرک کا خوف ستانے لگا ہے اور یہ خارجی جس آیت کو مسلمانان اہلسنت پر فٹ کرتے ہیں اسکا سیاق وسباق اور پس منظر ماحظہ کریں :
وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ (سورة يوسف 106)
وہابی کا ترجمہ : ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔
اہلسنت کا ترجمہ : اور ان میں اکثر وہ ہیں کہ الله پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہیں ۔
مختصر تفسیر : جمہور مفسرین علیہم الرّحمہ کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی جو کہ الله تعالٰی کی خالقیت رازقیت یعنی کی الله کو خالق بھی مانتے اور رزق دینے والا بھی بھی مانتے تھے اور ساتھ بُت پرستی بھی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک بھی کرتے تھے ۔ اس پوری سورة کو پڑھا جائے یعنی اس کے سیاق و سباق کو پڑھا جائے تو اس آیت سے واضع تور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کفار کے متعلق نازل ہوئی تفسیر مدارک ، تفسیر مظہری : اور باقی تفاسیر اٹھا کر دیکھ لیں ۔
تفسیر ابن عباس کا حوالہ : اور اکثر اہل مکہ جو دل میں الله کی عبودیت کو مانتے بھی ہیں مگر علانیہ وحدانیت خداوندی میں شرک کرتے ہیں ۔ ( تفسیر ابن عباس صفحہ :۔ ۱۰۳ آیت:۔۱۰۶)
اگر خارجی واقع حلالی ہیں تو مجھے بتائیں اس وقت کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو معاذ الله ایمان لا کر بھی شرک کرتے تھے ؟ خاری اس بات کا جواب دے دیں تو بحث ہی ختم ہو جاتی ۔ جتنی بھی تفاسیر موجود ہیں سب کو اٹھا کر دیکھ لیں یہاں اس آیت سے مراد کفار اہلِ کتاب مشرکین ہی ہیں نہ کہ اہلِ ایمان ۔
مطلب بن عبد الله رحمتہ الله علیہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما نے نماز تہجد میں ایک آیت پڑھی ، اس کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ، انہوں نے کہا:اس امت کا بڑا عالم کون ہے؟ میں نے کہا : سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ہیں ۔ پھر انہوں نے مجھے سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کو بلانے بیجھا (جب ابن عباس آئے) تو سیدنا عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما نے ان سے پوچھا : میں نے آج رات ایک آیت کو پڑھا ہے ، میں اس سے آگے نہیں بڑھ سکا ، مجھے اس آیت نے بے چین کر دیا ہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ہے (یعنی اسی ایک آیت کو بار بار پڑھتا رہا ہوں) (ومایومن اکثرھم بالله الاوھم مشرکون) (سورة یوسف:۱۰۶) (ان میں سے اکثر لوگ باوجود ایمان لانے کےبھی مشرک ہی ہیں) سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا : آپ بے چین نہ ہوں اس آیت سے ہم (مسلمان) مراد نہیں ہیں بلکہ اہل کتاب مراد ہیں جیسا کہ الله فرماتا ہے : ( ولئن سالتھم من خلق السماوات والارض لیقولن الله) (سورة لقمان:۲۵) ترجمہ : (اگر ان سے پوچھو زمین اور آسمان کا خالق کون ہے ؟ کہیں گے الله ہے) ( بیدہ ملکوت کل شئء وھویجیرولا یجار علیه) (سورة المومنون:۸۸) الله کے ہاتھ ہر چیز کا اختیار ہے وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے ۔ (سیقولون الله) (سورة المومنون: ۸۹) ترجمہ:(یہ کہیں گے الله ہے) پس اہل کتب یہاں الله پر ایمان لاتے ہیں اور حالانکہ شرک بھی کرتے ہیں ۔ آگے نیچے خارجی وہابی اس حدیث کی صحت کے بارے میں لکھتا ہے کہ : تحقیق : اسناد حسن ؛ تخریج : جامع البیان فی ای القرآن للطبری:۵۰/۳) ۔ یہیں حدیث تفسیر مظہری اور تفسیر مدارک میں بھی موجود ہے ۔
اب ان لوگوں کو شرم سے ایک پیالے میں پانی ڈال کر اور وہاں ڈوب کر مر جانا چاہیئے ۔ یہ خارجی وہابی کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں کو دکھا کر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بخاری شریف کی ہی ایک حدیث ہے جو ان الفاظ میں ہے کہ : بد ترین ہیں وہ لوگ جو کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں پر فٹ کرتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری،باب قتل الخوارج، جلد 2 ص 1024) ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانانِ اہلسنت کو خارجی نجدی وہابی فتہ کے شر و فساد سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment