Tuesday, 8 June 2021

انبیائے کرام علیہم السّلام اور اولیاء اللہ کا مردوں کو زندہ کرنا

 انبیائے کرام علیہم السّلام اور اولیاء اللہ کا مردوں کو زندہ کرنا

محترم قارئینِ کرام : انبیائے کرام علیہم السّلام اور اولیاء اللہ کا مردوں کو زندہ کرنا ، غیب کی خبریں دینا ، بیمار کو شفا دینا ، اللہ تعالی کی عطا سے ، اللہ تعالی کی قدرت کا ظہور ہے ان کا انکار کرنا اللہ والوں سے عداوت ہے یہ منافقوں کا کام ہیں :


ارشادِ باری تعالیٰ باری تعالیٰ ہے : وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ ، وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۙ۬ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ۙ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ١ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ ۔

ترجمہ : اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا ۔ اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ،وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 48/49)


اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دلیل کے طور پر اس زمانے کے حالات کے موافق بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ یہی بات موجودہ بائبل میں بھی موجود ہے۔ آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پانچ معجزات کا بیان ہے ۔ (1) مٹی سے پرندے کی صورت بنا کر پھونک مارنا اور اس سے حقیقی پرندہ بن جانا ، (2) پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا فرما دینا، (3) کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کردینا ، (4) مردوں کو زندہ کردینا، (5) غیب کی خبریں دینا ۔


حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کی تفصیل


(1) پرندے پیدا کرنا : جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبوت کا دعویٰ کیا اور معجزات دکھائے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی ۔ (تفسیر خازن اٰل عمران : ۴۹، ۱ / ۲۵۱)


چمگادڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت عجیب ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں دوسروں سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بغیر پروں کے اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اوروہ بچہ جنتی ہے حالانکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں ۔ (تفسیر جمل اٰل عمران : ۴۹، ۱ / ۴۱۸)


(2) کوڑھیوں کو شفایاب کرنا ۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس مریض کو بھی شفا دیتے جس کا برص بدن میں پھیل ہوگیا ہو اور اَطِبّاء اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں طب کاعلم انتہائی عروج پر تھا اور طب کے ماہرین علاج کے معاملے میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کی نبوت کی دلیل ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا ، ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے ۔ (تفسیر خازن اٰل عمران : ۴۹، ۱ / ۲۵۱)


(3) مردوں کو زندہ کرنا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ،ایک عازر جس کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مُخلصانہ محبت تھی، جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطلاع دی مگر وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا ۔ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کی بہن سے فرمایا، ہمیں اس کی قبر پر لے چل ۔وہ لے گئی ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی جس سے عازر حکمِ الٰہی سے زندہ ہو کر قبر سے باہر آگیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد ہوئی ۔ دوسرا ایک بڑھیا کا لڑکا تھا جس کا جنازہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے جارہا تھا ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے لیے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر جنازہ اٹھانے والوں کے کندھوں سے اتر پڑا اور کپڑے پہنے ، گھر آگیا ،پھر زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی۔ تیسری ایک لڑکی تھی جوشام کے وقت مری اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے اس کو زندہ کیا ۔ چوتھے سام بن نوح تھے جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے ۔ لوگوں نے خواہش کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کو زندہ کریں ۔ چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ سام نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے ۔ ’’ اَجِبْ رُوْحَ اللہ‘‘ یعنی’’ حضرت عیسیٰ روحُ اللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن‘‘ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی، اس کی دہشت سے ان کے سر کے آدھے بال سفید ہوگئے پھر وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سَکراتِ موت کی تکلیف نہ ہو ، اس کے بغیر انہیں واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا ۔ (تفسیر قرطبی اٰل عمران : ۴۹، ۲ / ۷۴، الجزء الرابع)(تفسیر جمل، اٰل عمران : ۴۹، ۱ / ۴۱۹)


حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جسے زندہ فرماتے اسے’’ بِاِذْنِ اللہِ ‘‘یعنی ’’اللہ کے حکم سے‘‘ فرماتے ۔ اس فرمان میں عیسائیوں کا رد ہے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُلُوہِیَّت یعنی خدا ہونے کے قائل تھے ۔


(4) غیب کی خبریں دینا ۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے ،تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کر رکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آدمی کو بتادیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور جو آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لیے تیار کررکھا ہوتا ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس بہت سے بچے جمع ہوجاتے تھے ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے، تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے، فلاں چیز تمہارے لیے بچا کر رکھی ہے، بچے گھر جاتے اورگھر والوں سے وہ چیز مانگتے ۔ گھر والے وہ چیز دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ؟بچے کہتے: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ،تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آنے سے روکا اور کہاکہ وہ جادو گر ہیں ، اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے ؟ انہوں نے کہا : سور ہیں۔ فرمایا، ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سور ہی سور تھے ۔ (تفسیر قرطبی اٰل عمران : ۴۹، ۲ / ۷۴، الجزء الرابع،چشتی)(تفسیر جمل، اٰل عمران : ۴۹، ۱ / ۴۲۰)


ان آیات مبارکہ سے حاصل ہونے والے فوائد


(1) ۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معجزات عطا ہوئے ۔


(2) ۔ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات عطا ہوتے ہیں ۔


(3) بہت سے معجزات انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اختیار سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ان معجزات میں کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔


(4) معجزات بہت سی قسموں کے ہوسکتے ہیں حتّٰی کہ مُردوں کو زندہ کرنے کا بھی معجزہ ہوتا ہے ۔


(5) اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو اختیارات اور قدرتیں عطا فرماتا ہے ۔


(6) محبوبانِ خدا لوگوں کی حاجت روائی پر قدرت رکھتے ہیں اور ان کی مشکل کشائی فرماتے ہیں ۔


(7) محبوبانِ خدا عام عادت سے ہٹ کر مشکل کشائی کرتے ہیں ۔


(8) محبوبانِ خدا کی قدرتیں عام مخلوق کی قدرتوں سے بڑھ کر اور بالا تر ہوتی ہیں ۔


(9) محبوبانِ خدا شفا بھی بخشتے ہیں ۔


(10) اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی دعائیں قبول فرماتا ہے ۔ اسی لئے بطورِ خاص اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور محبوبانِ خدا کی بارگاہ میں عرض کی جاتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش فرمادیں اور ہمارے لئے دعا کردیں ۔


(11) محبوبانِ خدا کے تمام اختیارات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا اور اجازت سے ہوتے ہیں ۔


(12) محبوبانِ خدا کے اختیارات کا انکار کرنا سیدھا قرآن کا انکار کرنا ہے ۔


(13) محبوبانِ خدا کیلئے قدرت و اختیار ماننا شرک نہیں ورنہ معاذاللہ قرآن پاک کی تعلیمات کو کیا کہیں گے ؟


(14) شِفا دینے ، مشکلات دور کرنے وغیرہ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کیلئے استعمال کرنا شرک نہیں لہٰذا یہ کہنا جائز ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مشکل کشا اور دافعُ البلاء ہیں ، یا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے اولاد دیتے ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں مردے زندہ کرتا ہوں ، میں لاعلاج بیماروں کو اچھا کرتا ہوں ، میں غیبی خبریں دیتا ہوں ، حالانکہ یہ تمام کام ربّ عَزَّوَجَلَّ کے ہیں ۔


(15) محبوبانِ خدا غیب کی خبریں جانتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گھروں میں رکھی ہوئی چیزوں کو بھی جانتے تھے ۔


(16) محبوبانِ خدا کیلئے علومِ غَیْبِیَہ ماننا توحید کے منافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا انکار کرنا توحید کے منافی ہے۔ اس آیت میں جتنا غور کرتے جائیں اتنا زیادہ عقائد ِ اہلسنّت واضح ہوتے جائیں گے ۔


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مردے زندہ کرنا


حضرت سَیِّدُنا جَابِر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ فاقوں سے شکم ِاَقْدَس پر پتّھر بندھا ہوا دیکھ کر میرا دل بھر آیا ، چُنانچہ میں حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اِجازَت لے کر اپنے گھر آیا اور اپنی اَہْلِیَّہ سے کہا کہ میں نے نبیِ اَکْرَم ، نُورِ مُجَسّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اِس قَدر شدید بُھوک کی حالت میں دیکھا ہے کہ مجھ میں صَبْر کی تاب نہیں رہی ۔ کیا گھر میں کُچھ کھانا ہے ؟ اُنہوں نے کہا کہ گھر میں ایک صَاع (تقریباً چارکلو) جَو کے سِوا کُچھ بھی نہیں ، میں نے کہا کہ تُم جلدی سے اُس جَو کو پیس کر گُوندھ لو ، پھر میں نے اپنے گھر کا پَلا ہوا ایک بکری کا بچّہ ذَبْح کرکے اس کی بوٹیاں بنا ئیں اور زَوجَہ سے کہا کہ جَلد اَزْ جَلد گوشت اور روٹیاں تَیّار کر لو ، میں حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بُلا کرلاتا ہوں ، چلتے وَقْت زَوجَہ نے کہا : دیکھنا ! حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عِلاوہ صِرْف چند ہی اَصْحاب کو ساتھ میں لانا کیونکہ کھانا کم ہے ، کہیں مجھے رُسْوا مت کر دینا ۔ حَضْرتِ سَیِّدُنا جابررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خَنْدق پرآ کر آہستگی سے عَرْض کیا کہ یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک صاع آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچّے کا گوشت میں نے گھر میں تیار کروایا ہے ، لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  صِرْف چند اَشْخاص کے ساتھ چل کر تَناوُل فرما لیں ، یہ سُن کر حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اے خَنْدق والو ! جابر نے دَعْوتِ طَعام دی ہے ، لہٰذا سب لوگ ان کے گھر پر چل کر کھانا کھا لیں ، پھر مُجھ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں روٹیاں مت پکوانا ، چُنانچہ جب حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ تَشْریف لائے تو گوندھے ہوئے آٹے میں اپنا لُعابِ دَہْن ڈال کر بَرَکت کی دُعا فرمائی اور گوشت کی ہانڈی میں بھی اپنا لُعابِ دَہْن ڈال دیا ۔ پھر روٹی پکانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہانڈی چُولھے سے نہ اُتاری جائے ۔ جب روٹیاں پک گئیں تو حَضْرتِ سَیِّدُنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اَہْلِیَّہ نے ہانڈی سے گوشت نکال نکال کر دینا شُروع کیا ، ایک ہزار صَحَابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے آسُودہ ہو کر کھانا کھا لیا مگر گُوندھا ہوا آٹا جتنا پہلے تھا اُتنا ہی رہ گیا اور ہانڈی چُولھے پر بَدَسْتُور جوش مارتی رہی ۔ (صحیح بُخاری ،ج۲،ص۵۸۹،غزوۂ خندق،چشتی)،(سیرتِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ،۳۲۵/۳۲۷)


امام ( 2) بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کی ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک شخص کو دعوتِ اسلام  دی ۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ پر ایمان نہیں لاتا یہاں تک کہ میری بیٹی زندہ کی جائے ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ مجھے اس کی قبر دکھا ۔ اس نے آپ کو اپنی بیٹی کی قبر دکھائی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس لڑکی کانام لے کر پکارا۔ لڑکی نے قبر سے نکل کر کہا: لَبـَّیـْکَ وَسَعْدَیْکَ ( 3) نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کیا تو پسند کرتی ہے کہ دنیا میں پھر آجائے؟ اس نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمقسم ہے اللّٰہکی! میں نے اللّٰہ کو اپنے والدین سے بہتر پایا اور اپنے لئے آخرت کو دنیا سے اچھا پایا۔ (4 )

حافظ ابو نُعَیْم ( 5) نے کعْب بن مالک کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللّٰہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہرہ متغیر پایا اس لئے وہ اپنی بیوی کے پاس واپس آئے اورکہنے لگے: میں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہر ہ متغیر دیکھاہے میرا گمان ہے کہ بھوک کے سبب سے ایسا ہے کیا تیرے پاس کچھ موجود ہے؟ بیوی نے کہا: اللّٰہ کی قسم! ہمارے پاس یہ بکری اور کچھ بچا ہوا توشہ ہے۔ پس میں نے بکری کو ذبح کیا اور اس نے دانے پیس کر روٹی اور گوشت پکایا پھر ہم نے ایک پیالہ میں ثرید (6 ) بنایا۔ پھر میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لے گیا۔ آپ نے فرمایا: اے جابر! اپنی قوم کو جمع کر لو۔ میں ان کو لے کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا۔ آپ نے فرمایا: ان کو میرے پاس جدا جدا جماعتیں بناکر بھیجتے رہو ۔ اس طرح وہ کھانے لگے۔ جب ایک جماعت سیر ہوجاتی تو وہ نکل جاتی اور دوسری آتی یہاں تک کہ سب کھا چکے اورپیالے میں جتنا پہلے تھا اتنا ہی بچ رہا ۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے تھے: کھاؤ اور ہڈی نہ توڑو ۔ پھر آپ نے پیالے کے وسط میں ہڈیوں کو جمع کیا ان پر اپنا مبارک ہاتھ رکھا پھر آپ نے کچھ کلام پڑھا جسے میں نے نہیں سنا۔ ناگاہ وہ بکری کان جھاڑتی اٹھی آپ صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا : اپنی بکری لے جا ۔ پس میں اپنی بیوی کے پاس آیا ، وہ بولی یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : اللّٰہ کی قسم! یہ ہماری بکری ہے جسے ہم نے ذبح کیا تھا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اللّٰہ سے دعا مانگی پس اللّٰہ نے اسے زندہ کردیا ۔ یہ سن کر میری بیوی نے کہا : میں گواہی دیتی ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں ۔ (شفاء شریف اس حدیث کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند حسن حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے روایت کیاہے۔ (مواہب لدنیہ) اور بیہقی نے اسمٰعیل بن عبدالرحمن سے بطریق ارسال نقل کیا ہے ۔ (خصائص کبریٰ للسیوطی)(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الرابع۔۔۔الخ،فصل فی انشقاق القمر۔۔۔الخ،الجزء الاول،ص۲۸۴-۲۸۵۔ علمیہ،چشتی)(مواہب لدنیہ)


غزوۂ خیبر کے بعد سَلام بن مِشکَم یہودی کی زوجہ نے بکری کا زہر آلود گوشت آنحضرت صَلَّی اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجا ۔ آپ اس میں سے بازو اٹھا کر کھانے لگے وہ بازو بولا کہ مجھ میں زہر ڈالا گیا ہے ۔ وہ یہودیہ طلب کی گئی تو اس نے اعتراف کیاکہ میں نے اس گوشت میں زہر ملایا ہے ۔ یہ معجزہ مردے کے زندہ کرنے سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ یہ میت کے ایک جزو کا زندہ کرنا ہے حالانکہ اس کا بقیہ جو اس سے منفصل تھا مردہ ہی تھا ۔


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے والدین کا آپ کی خاطر زندہ کیا جانا اور ان کا آپ پر ایمان لانا بھی بعض احادیث میں وارد ہے۔ علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس بارے میں کئی رسالے تصنیف کیے ہیں ، اور دلائل سے اسے ثابت کیا ہے ۔ جزاہ اللّٰہ عنّا خیر الجزاء ۔ (المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،ابراء ذوی العاہات واحیاء الموتی۔۔۔الخ،ج۷،ص۶۱-۶۲۔ علمیہ)


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے توسل سے بھی مردے زندہ ہو گئے چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک جوان نے وفات پائی اس کی ماں اندھی بڑھیاتھی ۔ ہم نے اس جوان کو کفنا دیااور اس کی ماں کو پُرسَہ دیا ۔ ماں نے کہا : کیا میرا بیٹا مر گیا ہے ؟ ہم نے کہا: ہاں ! یہ سن کر اس نے یوں دعا مانگی : یااللّٰہ ! اگر تجھے معلوم ہے کہ میں نے تیری طرف اور تیرے نبی کی طرف اس امید پر ہجرت کی ہے کہ تو ہر مشکل میں میری مدد کرے گا تو اس مصیبت کی مجھے تکلیف نہ دے ۔ ہم وہیں بیٹھے تھے کہ اس جوان نے اپنے چہرے سے کپڑا اٹھا دیا اور کھانا کھایا اور ہم نے بھی اس کے ساتھ کھایا ۔ (خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۶۷۔۱۲)


عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم، يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ لَا أَجْعَلُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُلَامًا نَجَّارًا. قَالَ: إِنْ شِئْتِ قَالَ: فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم عَلَي الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي کَانَ يَخْطُبُ عِنْدَهَا، حَتَّي کَادَتْ أَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم حَتَّي أَخَذَهَا فَضَمَّهَا إِلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِيْنَ الصَّبِيِّ الَّذِي يَسَکَّتُ، حَتَّي اسْتَقَرَّتْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔

ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا میں آپ کے تشریف فرما ہونے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں ؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اگر تم چاہو تو (بنوا دو) ۔ اس عورت نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ایک منبر بنوا دیا ۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن (حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے) کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خطبہ ارشاد فرماتے تھے (ہجر و فراق رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں) چِلاَّ (کر رو) پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر سے اتر آئے اور کھجور کے ستون کو گلے سے لگا لیا ۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: البيوع، باب: النجار، 2 / 378، الرقم: 1989، وفي کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1314، الرقم: 3391 - 3392، وفي کتاب: المساجد، باب: الاستعانة بالنجار والصناع في أعواد المنبر والمسجد، 1 / 172، الرقم: 438،چشتی)(والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: (6)، 5 / 594، الرقم: 3627، والنسائي في السنن، کتاب: الجمعة، باب: مقام الإمام في الخطبة، 3 / 102، الرقم: 1396، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في بدء شأنالمنبر، 1 / 454، الرقم: 1414 - 1417، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 226، والدارمي نحوه في السنن، 1 / 23، الرقم: 42، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 139، الرقم: 1776 - 1777، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 186، الرقم: 5253، وابن حبان في الصحيح 14 / 48، 43، الرقم: 6506، وأبويعلي في المسند، 6 / 114، الرقم: 3384)


ہر نَبی کا مُعْجِزَہ چُونکہ اس کی نَبُوَّت  کی دلیل ہوا کرتا ہے،لہٰذا خُداوَنْدِ عالَم جَلَّ جَلَالُہ نے ہر نَبی کو اس دَور کے ماحول اور اس کی اُمَّت کے مِزاجِ عَقْل و فَہْم کے مُناسِب مُعْجِزَات سے نوازا ۔ مثلاً حَضْرتِ مُوسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دَورِنَبُوَّت میں چُونکہ جادُو اور سَاحِرانہ کارنامے اپنی ترقّی کی اعلیٰ تَرین مَنْزل پر پہنچے ہوئے تھے ، اس لئے اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ کو ”یَدِبَیْضا“ اور ”عَصا“کے مُعْجِزَات عطا فرمائے ، جن سے آپ نے جادُوگروں کے سَاحِرانہ کارناموں پر اس طرح غَلَبَہ حاصل فرمایا کہ تمام جادُو گر سَجْدہ میں گر پڑے اور آپ کی پر اِیْمان لائے ۔ اسی طرح حَضْرتِ عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں عِلْمِ طِبْ اِنْتہائی تَرقّی پر پہنچا ہوا تھا اور اس دَور کے طَبِـیْبوں یعنی ڈاکٹروں نے بڑے بڑے اَمْراض کا عِلاج کرکے اپنی فنّی مَہارَت سے تمام اِنْسانوں کو مَسْحُور کر رکھا تھا،اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نےحَضْرتِ عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو مادَر زاد اَنْدھوں اور کوڑھیوں کو شِفا دینے اور مُردوں کو زِنْدہ کر دینے کا مُعْجِزَہ عطا فرمایا ، جس کو دیکھ کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے دَور کے  اَطِبَّاء (یعنی ڈاکٹروں) کے ہوش اُڑ گئے اور وہ حیَرْان و شَشْدَرْ رہ گئے اور بالآخر اُنہوں نے ان مُعْجِزَات کو اِنْسانی کمالات سے بالاتَر مان کر آپ کی نَبُوَّت کا اِقْرار کرلیا ۔ اَلْغرض اسی طرح ہر نَبی کو اس دَور کے ماحول کے مُطابِق اور اس کی قَوم کے مِزاج اور ان کی طبیعت کے مُناسِب کسی کو ایک، کسی کو دو، کسی کو اس سے زِیادہ مُعْجِزَات عطا ہوئے ، مگر نبیِّ آخرُالزّماں ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ چُونکہ تمام نبیوں کے بھی نَبی ہیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سِیْرتِ مُقدَّسہ تمام اَنْبِیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ السَّلَام  کی مُقدَّس زِنْدگیوں کا خُلاصَہ ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تَعْلِیْم تَمام اَنْبیاء کِرام عَلَیْہِمُ الصّلٰوۃ وَ السَّلَام کی تَعْلیمات کا عِطْر (نِچوڑ) ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ دُنْیا میں ایک عالمگیر اوراَبَدی دِیْن لے کر تَشْرِیْف  لائے تھے اور عالمِ کائنات میں اَوَّلین و آخرین کی تمام اَقْوام اور مِلّتیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مُقدَّس دَعْوت کی مُخاطَب تھیں ، اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ مُقدَّسہ کو اَنْبیائے سابِقین کے تمام مُعْجِزَات کا مَجْموعہ بنا دیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قِسم قِسم کے ایسے بے شُمار مُعْجِزَات سے سرفراز فرمایا جو ہر طَبقہ ، ہرگروہ ، ہر قوم اور تَمام اَہْلِ مَذاہِب کے مِزاجِ عَقْل و فَہْم کے لئے ضَروری تھے ۔ (سیرتِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ص712تا 741،چشتی)


علاوہ اَزِیْں بے شُمار ایسے مُعْجِزَات سے بھی حَضْرتِ حَق جَلَّ جَلَالُہ نے اپنے آخِری پَیغمبر ، شَفیعِ مَحْشر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مُمتاز فرمایا جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خَصائص کہلاتے ہیں ۔ یعنی یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وہ کمالات و مُعْجِزَات ہیں جو کسی نَبی و رَسُول کو نہیں عَطا کئے گئے ۔ (سیرتِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ص820)


کرامت غوث الاعظم


تاجدار بغداد پیر لاثانی ، قطب ربانی محبوب سبحانی حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جلانی المعروف غوث الاعظم رضی اللہ عنہ اپنے چند مریدین کے ساتھ عراق کے کردستان علاقہ میں تشریف لے گئے. یہ پوری بستی کئی لاکھ افراد پر مشتمل تھی اور ان کا مذہب عیسائیت تھا . طبیعت کے لحاظ سے بہت سخت قوم تھی . اسلام کا پیغام آنے کے باوجود سینکڑوں برس گزر جانے کے بعد اس قوم کے لوگ عیسائیت پر قائم تھے. آپ نے ان کے مرکز میں پہنچ کر ان کے بڑے بڑے سرداران قبائل کو دین اسلام کی دعوت دی ۔ آپ کی اس دعوت اسلام پر ان کاایک پادری سامنے آیا اور وہ اس قوم کا بہت بڑا عالم مانا جاتا تھا . وہ کچھ عرصہ بغداد شریف اور مصر میں بھی رہ چکا تھا .اس نے مسلمان علمائے کرام سے کچھ حدیثیں بھی سن رکھی تھی ۔ آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگاکہ کیا آپ کےنبی(صلی اللہ علیہ والہ و اصحابہ وسلم) کا یہ فرمان ہے : میر ی امت کے علماء(ولی ) کا درجہ بنی اسرائیل کے نبیوں جیسا ہو گا . آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کیا تم کو اس میں کوئی شک ہے ؟ وہ پادری کہنے لگا : حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے ۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطاء فرمایا تھا کہ وہ ٹھوکر سے مردہ کو زندہ کردیتے تھے . آپ کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی حدیث کی رو سے آپ امت محمدی کے علمائے کرام (ولیوں)میں سے ہیں . لہٰذا بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی طرح ہوئے . وہ تو ٹھوکر سے مردہ زندہ کردیتے تھے تو ہم تو جب جانیں کہ آپ بھی مردہ کو زندہ کرکے دکھائیں . آپ نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ ہمارے آقا سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کے علمائے ربانیین یعنی اولیا ء اللہ کی شان یہی ہے . یہ تو کوئی مشکل بات نہیں . تم کون سے مردے کو زندہ دیکھنا چاہتے ہو ؟ چنانچہ قریب ہی ایک قبرستان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس مردہ کو زندہ دیکھنا چاہتے ہیں . آپ اس قبر کے قریب تشریف لے گئے اور آپ نے اس قبر کو ٹھوکر مارتے ہوئے ارشاد فرمایا : قم باذن اللہ . “اللہ کے حکم سے اٹھ” ! قبر شق ہوگئی اور اس میں سے ایک شخص باہر نکلا اور نکلتے ہیسلام کیا اور پوچھا کیا قیامت ہوگئی ؟ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں ابھی قیامت نہیں ہوئی بلکہ تمہیں اٹھایا گیا ہے . تم اپنے بارے میں بتاؤ . اس نے کہا : میں حضرت دانیال علیہ السلام کا امتی ہوں اور میں ان کے ماننےوالوں میں سے تھا . میراحال اچھا ہےاور اس دین اسلا م ہی برحق ہے اور فلاح و کامرانی اورنجات کا دارومداراسی دین کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے.سرکارغوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اب تم واپس جاؤ، تمہیں قیامت میں پھر اٹھایا جائے گا . یہ عظیم کرامت دیکھ کر وہاں موجود تمام کردوں نے اور اس عالم نے اسلام قبول کرلیا اور اس طرح کرد قبائل نوراسلام سے منور ہوگئے . پھریہ لوگ اسلامی لشکر میں شامل ہوگئے . سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق بھی اسی کرد قوم سے تھا ، ان کے والد بھی اسی دوران اپنی برادری کے ساتھ مسلمان ہوکر حضور غوث الاعظم سے بیعت ہوئے تھے اور بعد میں ملک شام کے زنگی سلاطین کے بہت بڑے فوجی جرنیل بنے ۔ (حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ)۔(تفریح الخاطر صفحہ نمبر 19)


حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی ایک سوال کا جواب دیتے ہیں کہ کسی نے کہا کہ یہ جو مشہور ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی مردوں کو کہتے ’’قُمْ بِاِذْنِیْ‘‘ ’’میرے حکم سے زندہ ہوجا‘‘، تو آپ کے حکم سے مردے زندہ ہوجاتے، کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے ؟

جواب لکھتے ہیں : ہاں یہ درست ہے اس لئے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ قربِ نوافل کے درجے میں تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه‘‘ (اللہ کے حکم سے زندہ ہوجا) کہہ کر مردہ زندہ کرتے اور آپ قربِ فرائض کے درجے میں تھے، آپ کا مرتبہ اونچا تھا۔ قربِ فرائض کے درجے میں قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه کہے تومردے زندہ ہوتے ہیں اور قربِ نوافل کے درجے میں ولی قُمْ بِاِذْنِیْ کہے تو مردے زندہ ہوتے ہیں ۔ لہذا اس عقیدے کو کفر اور شرک کہنا جہالت ہے ۔ (اشرف علی تھانوی دیوبندی امداد المشتاق صفحہ نمبر 71،چشتی)


علامہ شطنوفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ایک بی بی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئیں کہ’’ اس کا دل حضور سے گرویدہ ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ  اوراس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کی تربیت فرمائیں ۔‘‘ آپ نے ا سے قبول فرما کر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز ان کی ماں آئیں دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہوگیا ہے اور اسے جو کی روٹی کھاتے دیکھا جب بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں تودیکھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے تناول فرمایاتھا ، عرض کی : ’’اے شیخ آپ تو مرغی کھائیں اور میرا بچہ جو کی روٹی ۔‘‘ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنا دست اقدس ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا : ’’ قُوْمِیْ بِاِذْنِ اللّٰہِ الَّذِیْ یُحْیِی الْعِظَامَ وَ ھِیَ رَمِیْم‘‘ یعنی جی اُٹھ اس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائے گا ۔ یہ فرمانا تھا کہ مرغی فورا ًزندہ صحیح سالم کھڑی ہو کر آواز کرنے لگی ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا :  ’’جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گاتو جو چاہے کھائے ۔ (بہجۃالاسرار، ذکرفصول من کلامہ…الخ، ص۱۲۸)


حضرت شیخ ابو سعید قیلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اذن سے مادر زاد اندھوں اور برص کے بیماروں کو اچھا کرتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرتے ہیں ۔ (بہجۃالاسرار، ذکرفصول من کلامہ مرصعا بشی من عجائب، ص۱۲۴)


شان اولیاء کرام علیہم الرّحمہ اور  بعد از وصال تصرف و مدد کرنا


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو شخص میرے کسی ولی (بندہ مقرب) سے عداوت رکھے تو میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ، اور میرا بندہ کسی اور میری پسندیدہ چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جتنا کہ فرائض کے ذریعے (میرا قرب پاتا ہے) اور میرا بندہ نفل (زائد) عبادات کے ذریعے ہمیشہ میرا قرب پاتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت فرماتا ہوں جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگروہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور عطاء کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو اسے ضرور پناہ عطاء فرماتا ہوں ۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث نمبر : 6021،چشتی)


حدیث بالا میں لفظ ''عادلی'' عدو سے بنا ہے۔ جس کا معنی ہے ظلم کرنا، دور رہنا، دشمنی رکھنا اور لڑائی کرنا۔ جبکہ لفظ ''ولی'' ولی یا ولایة سے بنا ہے ۔ اور ولایة کا معنی ہے : محبت کرنا ، قریب ہونا ، حاکم ہونا، تصرف کرنا، مدد کرنا ، دوستی کرنا اور کوئی کام ذمہ لینا ۔ لہٰذا ''ولی'' کا لغوی معنی ہے : قریب ، محب ، حاکم ، مددگار ، دوست ، متولی امر ۔ اور شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی وپرہیزگار ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے ۔ اور اس بات پر متکلمین کا اتفاق ہے کہ کافر اور فاسق و فاجر کو اللہ تعالیٰ اپنی ولایت (اپنے قرب محبت) سے نہیں نوازتے ۔


حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ تفسیر مظہری میں مرتبہ ولایت پر فائز ہونے کے اسباب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : مرتبہ ولایت کے حصول کی یہی صورت ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت کے انوار کا انعکاس ہونے لگے اور پرتو جمال محمدی (علی صاحبہ اجمل الصلوات و اطیب التسلیمات) قلب و روح کو منور کردے اور یہ نعمت انہیں بخشی جاتی ہے جو بارگاہ رسالت میں یا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کے نائبین یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضررہیں ۔


لفظ ولی کے تمام لغوی معانی مبالغہ کے ساتھ اللہ کے محبوب و مقرب بندوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے دلائل کتاب و سنت اور سیرت بزرگان دین میں بکثرت موجود ہیں اور اس حدیث پاک میں بھی اس پر مضبوط استدلال موجود ہے ۔


حدیث بالامیں لفظ ''بالحرب'' سے اللہ تعالیٰ کا ولی کے دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہے یا پھر دشمن ولی کا اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے خلاف اعلان جنگ سے مراد یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں ہدایت کی توفیق مرحمت نہ فرمائے یا اسے ایمان پر خاتمہ نصیب نہ فرمائے ۔ اور آخرت میں اسے عذاب الیم میں مبتلا کردے ۔


بزرگان دین فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے دو گناہوں پر وعید جنگ فرمائی ہے : 1. سود ۔ 2. اللہ کے محبوب بندوں سے عداوت ۔


حضرت امام ملا علی قاری مکی حنفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ کے محبوب بندوں کے ساتھ عداوت رکھنا انتہائی خطرناک ہے ، اس کی وجہ سے ایمان کے خلاف خاتمہ ہونے کا خطرہ ہے اور اسی قسم کا مضمون حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے ۔ (اعاذنا اللہ من ذالک)


حدیث بالامیں قرب محبت پانے والے شخص کے متعلق لفظ ''عبدی (میرابندہ) فرمانے میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں بلند مراتب حاصل کرنے کا اصل سبب خدا تعالیٰ کی بندگی ہے ۔ جیسا سورہ اسراء میں آیت اسراء میں حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ اور ''مما افرضت علیہ'' فرض سے مراد وہ دینی احکام ہیں جنہیں دلیل قطعی کے ذریعے جن و انس پر لازم کردیا جائے۔ فرض کا انکار کفرہے ، اور فرض کو ادا نہ کرنے والا فاسق و فاجر ہے۔ بعض مقامات پر فرض کا اطلاق نواہی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نواہی میں بھی کام کو نہ کرنا فرض کر دیا جاتا ہے بلکہ نواہی سے احتراز کرنا، اوامرکی ادائیگی سے زیادہ ضرور ی ہے ۔


حدیث بالامیں ''وما یزال العبد یتقرب الی بالنوافل'' میں نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض وواجب نہیں ۔ جیسے نفلی نماز ، نفلی روزہ ، تلاوت قرآن ، محافل میلاد ، محافل ایصال ثواب ، درود شریف وغیرہ ۔ اور ''فاذا احبببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ تا ورجلہ التی یمشی'' میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ محبوب کے کان ہاتھ اور پاؤں بن جانے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ مومن فرائض پر پابندی کے بعد نوافل کی کثرت اختیار کرتا ہے اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس پر وارد ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے ۔ اب اس کا سننا، دیکھنا ، پڑھنا اور چلنا عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس کےلیے دوریاں اور فاصلے ختم کردیئے جاتے ہیں اور وہ جہاں چاہے تصرف کرسکتا ہے ۔


جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے کہ ملکہ یمن بلقیس مسلمان ہونے کی غرض سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کے قریب پہنچ چکی تھی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : تم میں کون ہے جو بلقیس کا تخت (سینکڑوں میل دور صنعاء یمن سے )اس کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میرے پاس لائے ؟ تو قرآن مجید، پارہ نمبر 19 سورہ نمل ، آیت نمبر 40 میں ہے : اس شخص نے جسکے پاس کتاب کا علم تھا کہا : میں آپ کے پاس وہ تحت آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں ۔


یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ولی تھے ، لیکن حضور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے اولیاء کی شان پہلی امتوں کے اولیاء کرام سے کہیں زیادہ ہے ۔


اس حدیث میں اولیاء کیلئے جن مافوق الاسباب اختیارات کا ذکر ہے وہ اختیارات روحانی ہیں، لہٰذا اولیاء کرام کو یہ اختیار وفات کے بعد بھی حاصل رہتے ہیں کیونکہ اجماع امت ہے کہ وفات سے روح فنا نہیں ہوتی ، بلکہ علامہ ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون میں فرماتے ہیں کہ وفات کے بعد روح جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے ۔


روح کا وفات کے بعد دنیاوی زندگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے ، جوکہ صحیح بخاری ، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال ، حدیث نمبر 1252 میں ہے کہ : بیشک میت دفن کرکے لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔


حالانکہ اگر زندہ آدمی کو قبر میں دفن کر دیا جائے تو وہ باہر سے لائوڈ سپیکر کی آواز بھی نہیں سن سکتا، لیکن میت جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔


شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں : جن سے زندگی میں استمداد (مدد) حاصل کی جاتی ہے، ان سے بعد از وصال بھی استعانت (مدد مانگنا) کی جاتی ہے ، مشائخ عظام میں سے بعض نے کہا ہے کہ میں نے چار حضرات کو دیکھا کہ وہ جس طرح اپنی زندگی میں تصرف کرتے تھے اسی طرح اپنی قبروں میں بھی تصرف کرتے ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ، ایک شیخ معروف کرخی اور دوسرے شیخ عبدالقادر جیلانی ، اور ان کے علاوہ دو (2) کا نام اور لیا ، ان کا مقصود ان چار میں حصر کرنا نہیں تھا بلکہ محض اپنے مشاہدے کو بیان کرنا تھا ۔ (أشعة اللمعات 715/1،چشتی)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار بزرگ اپنی  قبروں میں زندہ ہیں اور زندگی کی طرح تصرف فرماتے ہیں ۔ (زبدۃُ الآثار صفحہ 21 مترجم  صفحہ 31 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور)


حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی عقیدہ حیات الاولیاء بعد از وصال کے قائل ہیں جبھی تو لکھا ہے کہ : وہ (حضور غوث پاک) شیخ عبدالقادر جیلانی (علیہ الرحمہ) ذات گرامی ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ موصوف اپنی قبر میں "زندوں کی طرح تصرف"کرتے ہیں ۔ (ہمعات ،اردو، ص108،مطبوعہ سندھ ساگر اکادمی لاہور)


یعنی حضور غوث پاک نہ صرف اپنے مزار شریف میں زندہ ہیں بلکہ زندوں کی طرح تصرف بھی فرماتے ہیں یعنی کہیں بھی آجا سکتے ہیں اور اسی بنا پر اگر اِن سے استمداد و استعانت کی جائے کہ یہ اللہ کی عطا سے مدد پر قادر ہیں بگڑی بنا دیں گے تو ایسا عقیدہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ علاوہ ازیں تمام سلاسل روحانیہ قادریہ ، نقشبندیہ ، چشتیہ اور سہروردیہ و غیرہا کے مسلمہ مشائخ کا اہل قبور سے فیض حاصل کرنے اور ان کے روحانی تصرفات پر اجماع ہے ۔


حدیث بالا میں لفظ ''ولان سالنی لاعطینہ یعنی اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور اسے عطاء کرتا ہوں۔'' سے اولیاء کرام کی دعائوں کا قبول ہونا ثابت ہوتا ہے ۔


یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام سے دعا کروانا ہمیشہ سے مسلمانوں میں مروج ہے۔ حضور نبی اکرمۖ نے صحابہ کرام کو حضرت اویس قرنی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اویس قرنی، حدیث: 4612 میں ہے : ترجمہ : تم میں سے جس کی بھی ان (اویس قرنی) سے ملاقات ہو ا تو وہ تمہارے لئے استغفار کریں ۔


اور امام بخاری و مسلم کے استاذ شیخ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط پیدا ہوا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روضہ نبوی پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیں کیوں کہ وہ ہلاک ہونے والی ہے ۔ چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6صفحہ 356طبع ریاض اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب میں فرمایا : عمر کے پاس جاؤ انہیں سلام کہو اور بشارت دو کہ بارش ہوگی ۔


حدیث بالا میں لفظ ''ولان استعاذنی لاعیذنہ یعنی اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور بالضرور پناہ دیتا ہوں'' سے مراد نفس شیطان کے شر سے یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی طرف سے سختی یا اس کی بارگاہ سے دوری وغیرہ سے پناہ مانگنا مراد ہے ۔ یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ اولیاء کرام گناہوں سے محفوظ ہیں ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولیاء کرام کو اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اور کسی حکمت کے تحت ان سے کوئی لغزش ہوجائے تو فوراً رجوع الی اللہ کی توفیق مرحمت فرماتا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...