الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَارَسُولَ اللهِ پڑھنے کا ثبوت و جواز
محترم قارئین کرام : الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَارَسُولَ اللهِ کے صیغے سے حضورنبی کریم رؤف الرحیم علیہ التحیۃ والتسلیم پر درود و سلام پڑھنا جائز و مستحسن ہے جس طرح دیگر درود شریف کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالی کے اس فرمان پاک سے ثابت ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔
ترجم : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔ (سورۃ الاحزاب اٰیۃ نمبر ۵۶)
اس آیت کریمہ میں لفظ " صلاة" اورلفظ "سلام" ہے اور "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" میں بھی لفظ "صلاۃ" اورلفظ "سلام" دونوں ہیں ۔
مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے : (عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول : السلام علیک یا رسول اللہ)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گذرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا ۔ (مراقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد ۱۱ صفحہ ۶۵ حدیث نمبر ۵۹۱۹ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)
اس حدیث پاک میں "اسلام علیک یا رسول اللہ" ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دونوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" اس میں "صلوا" اور "وسلموا" دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہی الفاظ کیوں ہیں ؟ احادیث پاک میں کثرت سے دوردو سلام کے صیغے موجود ہیں ان میں سے ہی پڑھا جانا چاہئے تو اس کے لئے جواب یہ ہے کہ وہ دورد پاک جواحادیث میں وارد ہیں ان میں حصر نہیں کہ صرف وہی پڑھے جائیں اس کے علاوہ نہیں پڑھ سکتے بلکہ علماء نے صراحت کی ہے کہ جتنے اچھے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہو سکیں اس کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پردورد اور سلام بھیجا جائے اس کی ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں جن میں قصیدہ بردہ شریف ، اور دورد تاج ، دلائل الخیرات شریف اس کے علاوہ بھی بہت سارے دورد وسلام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے موجود ہیں ۔ اگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کا کیا جواب دیں گے ؟
ہاں بعض لوگوں کو یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ ہضم نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ اس طرح کہنا شرک ہے ، میرا ان سے ایک سوال یہ ہے کہ جو شرک ہوتا ہے وہ ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر لحاظ سے شرک ہوتا ہے تو پھر یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین علیہم الرحمہ کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کیا اور خود اللہ تعالی کے بارے میں ان لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب اللہ تعالی قرآن کریم میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی "یاایھا المزمل" کے خطاب سے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی "یاایھا المدثر" کے لقب سے اور کبھی "یاایھا النبي" کے مبارک الفاظ سے ۔ کیا نعوذباللہ ، اللہ تعالی خود شرک کی تعلیم دیتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں اور عقلوں پر اللہ تعالی نے مہر لگا دی ہے ان کو حقیقت بات بھی الٹی سمجھ آتی ہے ۔
الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ عالم امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا فرمان مرشد اکابرین تمام اکابرین دیوبند کے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بعض لوگ الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ بصیغہ خطاب میں کلام کرتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے قرب و بعد نہیں ہے پس اس کے جواز میں شک نہیں ہے ۔ (امداد المشاق صفحہ نمبر 60) ۔ اور مسلک حق کا فیصلہ کیجیے ساتھ ہی کھسیانی بلی کھبا نوچے کی زندہ عملی مثال تھانوی صاحب کا حاشیہ پڑھیئے کہتے ہیں پڑھنے والے کو اگر کشفی کیفیت حاصل ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ اجازت نہیں دی جائے گی مگر تھانوی صاحب اسے ناجائز نہیں لکھ سکے اگر وہ یا کوئی دیوبندی اسے ناجائز ، یا شرک کہتا ہے تو مرشد اکابرین دیوبند کو ناجائز کام کا مرتکب اور مشرک قرار دینا پڑے گا اس لیئے کہ ناجائز شرک ہر ایک کےلیے ناجائز و شرک ہوگا ۔
کیا حاجی صاحب کے اس فرمان پر تھانوی صاحب سمیت کسی بھی دیوبندی عالم نے شرک و گمراہی کا فتویٰ لگایا اگر لگایا ہے تو ہمارے علم میں اضافہ کےلیے بتایا جائے ؟
اگر نہیں لگا تو مسلمانان اہلسنت کیا کیا قصور ہے کہ وہ یہ درود پڑھیں تو دیوبند کی شرک و گمراہی کی توپیں کھل جاتی ہیں اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر انتشار و فساد پھیلایا جاتا ھے آخر یہ دوغلہ پن و دھرا معیار فتویٰ کیوں ؟
درود و سلام پڑھنے میں بہتر ہے کہ درود کے ساتھ سلام بھی شامل کرکے یوں پڑھیں : الصّلوٰۃُ والسّلام علیک یا رسول اللہ اسی طرح آخیر تک السّلام کے ساتھ الصّلوٰۃ کا لفظ بھی بڑھا دے ۔ (فضائل درود شریف صفحہ نمبر 29،چشتی)
علماۓ اہلحدیث لکھتے ہیں : الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جائز ہے ۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد نہم صفحہ نمبر 15)
مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے : عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول :السلام علیک یا رسول اللہ ‘‘یعنی،’’ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا ۔ [مراقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۱۱،ص:۶۵،حدیث:۵۹۱۹،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی]
اس حدیث پاک میں’’ السلام علیک یارسول اللہ ‘‘ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دو نوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے’’ الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ‘‘ اس میں’’ صلوا‘‘ اور’’ وسلموا‘‘ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔
حقیقت بات یہ ہے کہ ندا ئے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ’’لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا‘‘ترجمہ : یعنی،’’ رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ‘‘۔ [سورہ النور :63]
اس آیت کے تحت تفسیر روح المعانی میں اور تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے تحت مذکور ہے ’’ والفظ لہ :قال الضحاک عن ابن عباس ،کانو یقولون یامحمد یااباالقاسم فنہاھم اللہ عزوجل عن ذلک اعظاما لنبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم قال فقولو ایانبی اللہ ،یارسول اللہ ھکذا قال مجاہد وسعید بن جبیر ،وقال قتادۃ ‘‘یعنی،’’ حضرت ضحاک علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے یامحمد ، یا اباالقاسم ، تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور توقیر کےلیے اس سے منع فرما دیا اور فرمایا کہو ’یانبی اللہ ، ’یارسول اللہ ، اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنھم نے اسی طرح روایت کیا ۔ [تفسیر ابن کثیر :ج،6 ص81 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
اسی سے ملتاجلتا مضمون تفسیر درمنثور :ج،8ص230پر بھی موجود ہے اور تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ لا تنادو ہ کما ینادی بعضکم بعضا یامحمد ولکن قولوا یا رسول اللہ ،یانبی اللہ ‘‘یعنی ان (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ندا اس طرح نہ دیں جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکار تے ہو (یعنی یامحمد کہہ کرنہ پکارو) لیکن یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو ۔ [تفسیر کبیر:ج،8ص 425مطبوعہ دار الا حیاء بیروت]
حدیث پاک میں ہے کہ جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یارسول اللہ کے نعرے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا ’’فصعد الرجال والنساء فوق البیو ت وتفرق الغلمان والخد ام فی الطرق ینادون یامحمد ، یارسول اللہ ، یامحمد ، یارسول اللہ ‘‘یعنی،’’ پس مرد اور عورتیں مکان کی چھتوں پر چڑھ کر اور بچے اور خدام بازاروں کے راستوں میں پھیل کر یامحمد ، یارسول اللہ ، یامحمد ، یارسول اللہ ، کا نعرہ لگاتے تھے ۔ [صحیح مسلم شریف :ج،1ص419مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی]
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ،السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی،’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی حاجت (ضرورت) میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کو وسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔ موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے جاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ :ج،۲۳، ص۶۸۰ مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور ،چشتی)
علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا نبی الرحمۃ ۔ [حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،صفحہ نمبر ،747،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ]
علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں ’’ یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ :صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا :قرت عینی بک یارسول اللہ ‘‘یعنی،’’مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت (اشھد ان محمد رسول اللہ) سنے تو کہے صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ (اشھد ان محمد رسول اللہ) سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں)‘‘ ۔ [ردلمحتار ،ج:۲،ص:۶۸،مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان]
ان دلائل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ : الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا جائز اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔
حضرت عثمان بن حنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت بابرکت میں ایک نابینا صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور عرض کی : یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! دعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ میری بینائی پر پڑے ہوئے پردے کو دور فرما دے ! آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں تمہارے لئے دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کرو اور صبر تمہارے لئے بہتر ہے ۔ عرض کی : آپ دعا فرما دیجئے ! نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا مانگو : اللَّھُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ وَاَ تَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوَجَّہُ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہِ لِتُقْضٰی لِیْ اللھُمَّ شَفِّعْہُ فِیَّ ۔
ترجمہ : اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی محمد مصطفیٰ ، نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں ، یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت کے سلسلے میں متوجہ ہوں تاکہ یہ حاجت پوری کی جائے ، اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شفاعت میرے لئے قبول فرما ‘‘ راوی فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ شخص آیا اور وہ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کبھی وہ نابینا تھا ہی نہیں ۔ (جامع ترمذی کتاب الدعوات باب فی انتظار الفرج۔۔۔ الخ، ۵/۳۳۶، حدیث:۳۵۸۹) (دلائل النبوۃ للبیھقی باب ما فی تعلیمہ الضریر ماکان فیہ شفاؤہ… الخ، ۶/ ۱۶۸،چشتی)۔(ہدیۃ المہدی عربی ص ٢٤ وحید الزمان وہابی)
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں اُسے منظور بڑھانا تیرا
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
یا رسول اللہ کی کثرت کیجئے
(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واللہ ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال کے وقت آسمان سے میں نے یہ آواز سنی ''یا محمداہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔ ( الشمامۃ العنبریہ ص ١١٣ ، صدیق حسن بھوپالوی غیر مقلد وہابی)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو اتنا ہی کہتے تھے ''السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا ابابکر ، السلام علیک یا ابتاہ ''۔ (فضائل حج ص ٩١٧ ، ذکریا سہارنپوری' دیوبندی)
جو عوام الناس کہتے ہیں یعنی یا رسول اللہ ، یا علی ، یا غوث تو اکیلی نداء سے ان پر شرک کا حکم نہیں دیا جائے گا اور کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بدر کے مقتولوں کو فلاں بن فلاں کہتے ہوئے پکارا تھا ۔ اور حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں یا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لفظ بھی آئے ہیں اور ایک حدیث میں یا رسول اللہ کا لفظ بھی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی اُردو صفحہ نمبر ٥١،٥٠)
صلوٰۃ و سلام کے الفاظ میں تنگی نہیں ہے ادب شرط ہے ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر شریف پر سلام اس طرح پڑھاہے ''السلام علیک یا رسول اللہ، السلام علیک یا نبی اللہ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا احمد ؐ ، السلام علیک یا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔ (الصلوٰ ۃ والسلام ص ١٢٦ ، فردوس شاہ قصوری وہابی)
تفسیر ابن کثیر و مدارک میں ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دفن کے بعد ایک اعرابی آیا اور اپنے کو روتے اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے قبر شریف پر گرا دیا اور کہا ''یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں ۔ قبر مبارک سے آواز آئی ''کہ تجھ کو بخش دیا گیا ہے ۔ (نشر الطیب صفحہ ٢٧٩)(فضائل حج صفحہ ٢٥٣،چشتی)
حکیم الات دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی نے کہا : اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مستغیث ہو کر اور اُمید کی چیزوں کا اُمید وار ہو کر پکارا ہے ۔ (نشر الطیب صفحہ نمبر ٢٧٩ )
نواب وحید الزمان حیدر آبادی غیر مقلد وہابی نے لکھا : جب روم کے بادشاہ نے مجاہدین اسلام کو عیسائیت کی ترغیب دی تو انہوں نے بوقت شہادت ''یا محمداہ'' صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نعرہ لگایا جیسا کہ ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے روایت کیا ۔ (ہدیۃ المہدی)
ایک اور دیوبندی عالم اپنی کتاب یا حرف محبت میں لکھتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور ؐ کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا ر سو ل اللہ جا ہ ۔ (یا حرف محبت ص ٩٤)
ایک اور دیوبندی عالم اپنی کتاب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا ر سو ل اللہ جا ہ ۔ (یا حرف محبت صفحہ نمبر ٩٤)
مولوی محمد علی جانباز غیر مقلد وہابی لکھتے ہیں : حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ(علیہم السلام ) نے آپ کو بایں الفاظ سلام کیا : السلام علیک یا ا وّل ، ا لسلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حا شر ۔ ( کتاب معراج مصطفےٰ صفحہ ١٢،چشتی)
آج جی کرتا ہے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں درود و سلام زیادہ پڑھوں اور وہ بھی ان الفاظ سے الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ (شکر النعمة بذکر الرحمة صفحہ نمبر 10 اشرف علی تھانوی دیوبندی)
وہابیہ خبیثیہ کی زبان سے بار ہا سنا گیا ھے کہ وہ الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ کو سخت منع کرتے ہیں اور اہل حرمین پر سخت نفرتیں اس ندإ اور خطاب پر کرتے ہیں اور ان کا اسہزإ اڑاتے ہیں اور کلمات ناشاٸستہ استعمال کرتے ہیں حالانکہ ہمارے مقدس بزرگان دین اس صورت اور جملہ صور درود شریف کو اگرچہ بصیغہ خطاب و ندا کیوں نہ ہو مستحب و مستحسن جانتے ہیں اور اپنے متعلقین کو اس کا امر کرتے ہیں ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ نمبر 65 حسین احمد مدنی صدر مدارس دارالعلوم دیوبند،چشتی)
مدنی صاحب کی عبارت سے درج ذیل باتیں ثابت ہوٸیں ۔
الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ یا دیگر خطاب کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنے سے منع کرنے والے ۔ (خبیث) ہیں ۔
یہ صیغہ درود و سلام اہل حرمین کا معمول تھا ۔
مذکورہ صیغوں سے درود وسلام پڑھنا مستحب ہے ۔
حسین احمد مدنی دیوبندی کے نزدیک بھی وہابی خبیث لوگ ہیں ۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگوں کو ان کے بزرگوں کا حکم ہے کہ وہ مذکورہ صیغوں سے درود وسلام کو اپنا معمول بناٸیں ۔
فرمایا ۔ بعض لوگ الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ بصیغہ خطاب میں کلام کرتے ہیں ۔ یہ اتصال معنوی پر مبنی ہے ۔ لہ الخلق والامر عالم امر مقید بجہت و طرف و قرب و بعد وغیرہ نہیں پس اس کے جواز میں کوٸی شک نہیں ہے ۔ (امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق صفحہ نمبر 49 اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی)
ملاٸکہ کا درود شریف حضور اقدس میں پہنچانا احادیث سے ثابت ھے اس اعتقاد سے کوٸی شخص (الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ) پڑھے تو کچھ مضاٸقہ نہیں ہے ۔ (فیصلہ ھفت مسلہ صفحہ نمبر 8 سیدالطاٸفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ مرشد گرامی اکابرینِ دیوبند)
حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا ملفوظ نقل کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ فرمایا : الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ کے جواز میں شک نہیں ۔ (شماٸم امدادیہ صفحہ نمبر 52 اشرف علی تھانوی دیوبندی)
میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پڑھ رہا ہوں ۔ الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ (رسالہ المبشرات ملحقہ ببلغة الحیران صفحہ نمبر 8 حسین علی واں بچھراں دیوبندی استاد مولوی غلام اللہ خان آف راولپنڈی)
اگر محبت وشوق سے پڑھے ۔ الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ ۔۔ جاٸز ہے ۔ (براھین قاطعہ صفحہ نمبر 222 مولوی خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)
حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت حاصل کرنے کا طریقہ لکھتے ہیں ۔ عشا کی نماز کے بعد نٸے کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر منہ ادب سے مدینہ منورہ کی طرف کرکے بیٹھے اور خدا کی درگاہ میں جمالِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت حاصل ہونے کی دعا کرے اور دل کو تمام خیالات سے خالی کر کے آنحضرت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صورت کا سفید شفاف کپڑے اور سبز پگڑی اور منور چہرے کے ساتھ تصور کرے اور ،،الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ،، داٸیں طرف ،،الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ،، باٸیں طرف اور ،،الصلوة والسلام علیک یا حبیب اللہ،، کی ضرب دل پر لگاۓ اور جس قدر ہو سکے متواتر درود شریف پڑھے اور طاق عدد میں اللھم صلی علی محمد ۔۔پڑھے اور 21 بار سورة نصر پڑھ کر آپ کے جمال مبارک کا تصور کرے اور درود شریف پڑھتے وقت سر قلب کی طرف اور منہ قبلہ کی طرف داہنی کروٹ کی طرف سوۓ اور الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ پڑھ کر داہنی ہتھیلی پر دم کرے اور سر کے نیچے رکھ کر سوۓ ۔۔۔۔ تو ان شاء اللہ العزیز نبی کرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت نصیب ہو گی ۔ (ضیإ القلوب صفحہ نمبر 61 حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مرشد اکابرینِ دیوبند)
آذان سنتے ہوۓ اشھد ان محمد رسول اللہ پہلی دفعہ سن کر صلی اللہ علیک یا رسول اللہ پڑھنا مستحب ہے ۔ (فتاویٰ فریدیہ جلد دوم ص نمبر 182 مفتی محمد فرید دیوبندی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک،چشتی)
اگر ہر جگہ درود و سلام دونوں کو جمع کیا جاۓ تو زیادہ بہتر ھے یعنی بجاۓ السلام علیک یا رسول اللہ کہنے کے الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ کہے تو زیادہ اچھا ہے ۔ (فضاٸل درود شریف صفحہ نمبر 23 مولوی زکریا صاحب دیوبندی)
سوال : کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسلہ کے بارے میں زید کہتا ہے کہ بوقت زیارت روضہ اقدس کے پاس درود شریف کے صیغے الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ وغیرہ یعنی خطاب کے صیغے اور حروف ندا جو کہے جاتے ہیں ان کا ثبوت احادیث میں نہیں ہے کیا زید کا یہ کہنا صحیح ہے یا نہیں ؟
الجواب : یہ خطاب کے صیغے الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے امر سے مروی ہیں ۔ رواہ ابو حنیفہ ۔
وایضا جاز من البعید فی بعض الا حوال فکیف لا یجوز من القریب لا سماع الموتیٰ حق ۔
یعنی الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ دور سے بھی بعض حالتوں میں پڑھنا جاٸز ہے تو قریب سے پڑھنا کیسے نا جاٸز ہو سکتا ہے کیونکہ سماع موتیٰ حق ہے ۔ (فتاویٰ فریدیہ جلد 4 صفحہ 364 مفتی محمد فرید دیوبندی دارالعلوم اکوڑاخٹک،چشتی)
اشھد ان محمد رسول اللہ سن کر صلی اللہ علیک یا رسول اللہ پڑھنا مستحب ہے ۔ (شامی کی عبارت کی توثیق) ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند عزیزی الفتاوٰی جلد 1 صفحہ 128 مفتی عزیز الرحمٰن صاحب دیوبندی)
صیغہ درود و سلام ،،الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ،، ۔ (بوادر النوادر صفحہ205 اشرف علی تھانوی دیوبندی)
الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ
الصلوة والسلام علیک یا نبی اللہ
یہ مشہور درود شریف صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مروی ہے ۔ (حزب الصلوة و السلام صفحہ154 ظفر احمد دیوبندی خلیفہ مجاز مولوی زکریا دیوبندی)
ہم اور ہمارے تمام اکابر الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ کو بطور درود شریف پڑھنے کو جاٸز سمجھتے ہیں ۔ (درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ صفحہ 75 مولوی سرفراز گکھڑوی دیوبندی)
صلوة وسلام میں کلمات ندا (یارسول اللہ) کا استعمال جاٸز ہے اور صفحہ 378 پر ہے الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ بطور درود شریف پڑھنا غلط نہیں ہے ۔ (فتاوٰی فریدیہ جلد 1 صفحہ 375 مفتی فرید دیوبندی)
فرمایا الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ کا کون منکر ہے ۔ (ملفوظات احمد علی لاہوری صفحہ نمبر 111،چشتی)
الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ ،،یا،، صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ۔ کے ضمن میں کلمہ یا رسول اللہ کہنے میں حرج نہیں درست ہے ۔ (فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 172 مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی)
ملاٸکہ کا درود شریف حضور اقدس میں پہنچانا احادیث سے ثابت ہے اس اعتقاد سے کوٸی شخص ۔الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ کہے کچھ مضاٸقہ نہیں ۔ (شرح فیصلہ ھفت مسلہ صفحہ 61 مفتی جمیل احمد تھانوی دیوبندی مفتی اعظم جامعہ اشرفیہ)
حضرت شبلی ہر فرض نماز کے بعد تین دفعہ پڑھتے تھے ۔ صلی اللہ علیک یا محمد ۔ صلی اللہ علیک یا محمد ۔ صلی اللہ علیک یا محمد ۔ (فضاٸل عمال ، فضاٸل درود شریف صفحہ 105 مولوی زکریا دیوبندی)
حضرت غوث پاک پر کوٸی صدمہ یا حادثہ پیش آتا تو اللہ کی طرف متوجہ ہوتے اور اچھی طرح وضو کر کے دورکعت نفل پڑھتے تھے ۔ پھر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف متوجہ ہوتے اور کہتے اغثنی یا رسول اللہ علیک الصلوة والسلام ۔ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میری مدد کریں اے اللہ کے رسول آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درود و سلام ہو ۔ (غوث اعظم کی زندگی کے مختصر حالات صفحہ 33 مولوی احتشام الحسن کاندھلوی دیوبندی)
الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ بہت مختصر درود ہے ۔ (فیوض قاسمیہ صفحہ 48 مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی)
الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ ۔ دور سے کہنے میں کوٸی حرج نہیں ۔ علماۓ دیوبند کے ہاں شوق ومحبت سے صلوة والسلام کی صورت میں اس کا پڑھنا درست ہے ۔ (رحمت کاٸنات صفحہ 307 قاضی محمد زاہدالحسنی دیوبندی خلیفہ مجاز مولوی حسین مدنی دیوبندی)
اگر کوٸی شخص بیٹھا ہوا تھا اس کے سامنے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اسم گرامی آیا اور دل میں اس نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سامنے تصور کر کے کہہ دیا ۔ الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ اس میں کوٸی گناہ نہیں ۔ (بدعت ایک گمراھی صفحہ۔33.32 مولوی محمد تقی عثمانی دیوبندی)
الصلوةوالسلام علیک یا رسول اللہ کے صیغے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ۔ (حزب الصلوة والسلام صفحہ 154 مولوی محمد ہاشم دیوبندی)
انتہاٸی ذوق شوق اور نہایت سکون و وقار سے آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر
الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ
الصلوة والسلام علیک یا نبی اللہ
پڑھتا رہے تو جب تک شوق میں اضافہ پاۓ انہی الفاظ کو یا اور کسی سلام کو بار بار پڑھتا رہے ۔
پہلی فصل کے نمبر 10پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ 70 مرتبہ پڑھنا گذارہ ہے وہ بھی بہتر ہے ۔ (فضاٸل حج صفحہ 167 مولوی زکریا کاندہلوی دیوبندی)
مذکوہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ ‘‘کہنا جائز اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ منکرین کو ہدایت عطاء فرماے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment