اللہ کی عطاء سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مختار کل ہیں
محترم قارئینِ کرام : پہلے مختارِ کل کی تعریف پڑھتے ہیں ۔ اہلِ اسلام کا ایمان ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قاسم بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو بھی عطا فرماتے ہیں وہ اللہ کے حکم اور اس کی رضا کے مطابق ہوتا ہے ، اللہ کا فضل ہی مسلمان کے لئے خزانہ ہوتا ہے ۔ مختار کل کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، اللہ کی مرضی کے خلاف جس کو جو چاہیں عطا فرما دیں ، یہ تشریح ان خود ساختہ مفسرین کی ہے جو درِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اہل ایمان کو ہٹانے کی سازش میں ملوث ہیں ۔ مختار کل کا مطلب ہے کہ جس کو جو بھی ملتا ہے اللہ کے حکم سے ملتا ہے اور اللہ کا حکم درِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہی نافذ ہوتا ہے، ملنے کا ذریعہ درِ مصطفٰے ہی ہے ۔
منافقین بارہا عقائدِ اہلسنت و جماعت پر بے جا اعتراضات کرتے ہیں ۔ کبھی گیارہویں شریف کو نشانہ بناتے ہیں تو کبھی بارہویں شریف کو کبھی علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر نکتہ چینی کی ہے تو کبھی حاضر و ناضر پر اعتراض کیا جاتاہے کبھی نوری بشر ہونے کا انکار کیا جاتا ہے اور کبھی سردارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مالک و مختار ہونے پر ۔ آپ حضرات نے غور کیا ہوگا کہ منافقین ہمیشہ ایسے اعتراضات کرتے ہیں جو قرآن و حدیث سے ٹکراتے ہوئے نظر آتے ہیں
اہلست و جماعت کے تمام عقائد و نظریات قرآن و احادیث سے ثابت ہیں ۔ اہلسنت و جماعت کے عقائد کوئی نئے عقائد نہیں ہیں بلکہ وہی عقائد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہیں اور صحابۂ کرام و اولیائے کرام کے ہیں
اہلسنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ رب العزت کی عطاسے مختارِ کل ہیں اور یہ وہ عقیدہ ہے جو چودہ سو سال سے مسلمانوں کا عقیدہ رہا ہے
آج سے تقریباً پونے دو سو سال پہلے منافقین نے ایک نیا عقیدہ گڑھا کہ جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مالک و مختار نہیں
ملاحظہ فرمائیں فتنۃ الایمان المعروف تقویت الایمان صفحہ نمبر 59 پر معاذ اللہ ثم معاذ اللہ
یہ عقیدہ صرف اور صرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے دشمنی اور بغض کی وجہ سے گڑھا گیا ہے ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب چاہیں جسے چاہیں جو چاہیں عطا فرمادیں ۔ ریشم جو کہ پوری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مردوں پر حرام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ رب العزت کی عطا کردہ قوت و اختیار سے اپنے دو صحابی کیلئے جائز و مباح فرما دیا بخاری شریف کی حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہم کو ریشمی لباس پہننے کی رخصت دی ۔ (بخاری شریف عربی اردو جلد دوم کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر 181 صفحہ 114،چشتی)
حدیث پاک پر غور کریں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چاہیں تو حرام چیزوں کو جائز اور مباح فرمادیں ریشم کا لباس مردوں کیلئے زیب تن کرنا حرام ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر کو اجازت مرحمت فرمائی جس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مالک و مختار بنایا ۔
وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِه ۔
ترجمہ : اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا۔[پارہ ۱۰ ، سورۃ التوبہ ۷۴]
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی لوگوں کو غنی اور مالدار فرماتے ہیں اور دوسروں کو غنی وہی کرتا ہے جو خود مالک و مختار ہوتا ہے۔
وَ مَاۤ اٰتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۔
ترجمہ : اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔ [پارہ ۲۸ ، سورۃ الحشر ۷]
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بہت کچھ عطا فر سکتے ہیں وہ شریعت کے احکام ہوں یا مال و دولت ہو، اس کے پیش نظر کسی عاشق نے فرمایا۔
وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ ۔
ترجمہ : اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ و رسول نے ان کو دیا۔ [پارہ ۱۰ ، سورۃ التوبہ ۵۹]
اس آیت میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عطا کا ذکر ہے۔ تو ہم سنیوں کا عقیدہ کہ حضور مختارِ کل ہیں۔ بعینہ قرآن پاک کے مطابق ہے ۔
پارہ 26، سورہ نمبر 49، الحجرات، آیت نمبر 2" میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ادب سکھایا جا رہا ہے ۔ وہیں آپ کے اختیارات و دسترس کو بھی بیان کیا گیا ۔
شانِ نزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ : یہ آیت ثابت بن قیس بن شماس کے حق میں نازل ہوئی انہیں ثقلِ سماعت تھا اور آواز ان کی اونچی تھی، بات کرنے میں آواز بلند ہوجایا کرتی تھی جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ثابت اپنے گھر میں بیٹھ رہے اور کہنے لگے کہ میں اہلِ نار سے ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت سعد سے ان کا حال دریافت فرمایا انہوں نے عرض کیا کہ وہ میرے پڑوسی ہیں اور میرے علم میں انہیں کوئی بیماری تو نہیں ہوئی پھر آکر حضرت ثابت سے اس کا ذکر کیا ، ثابت نے کہا ، یہ آیت نازل ہوئی اور تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ بلند آواز ہوں تو میں جہنّمی ہوگیا حضرت سعد نے یہ حال خدمتِ اقدس میں عرض کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ وہ اہلِ جنّت سے ہیں ۔
غور کریں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اختیارات کے تحت فرمایا کہ "وہ اہلِ جنت ہیں" جب کہ قرآنِ کریم میں اللہ عزوجل نے فرمایا "اعمال اکارت نہ ہو جائیں" مگر اللہ کے محبوب ان حضرت کے بارے بشارت دیتے ہیں کہ یہ جنتی ہیں ۔ اب اگر اس آیت و تفسیر سے انکار کرتے ہوئے کوئی یہ کہے کہ یہ اللہ کا فیصلہ تھا کہ جنتی یا جہنمی یا کسی فرشتہ نے خبر دی کہ یہ حضرت جنتی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرما دیا کہ جنتی ہیں۔ اس میں اختیارات کہاں ؟ تو اب جو آیت پیش کرنے جا رہا ہوں اس آیت کو پڑھ کر ان اعتراض کرنے والوں کے منہ بند ہو جائیں گے ۔
يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا - (سورۃ الاحزاب: آیت نمبر 32)
ترجمہ : اے نبی کی بیبیو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو, اگر اللّٰہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے, ہاں اچھی بات ۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے اللہ عزوجل کلام حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے فرما رہا ہے ۔ اور اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا - (سورۃ الاحزاب : آیت نمبر 33) ۔ ترجمہ : اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللّٰہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اللّٰہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے ۔
اس آیت کو آیت تطہیرا، یعنی پاک کرنے والی آیت بھی کہا جاتا ہے خیر آپ نے پڑھ لیا کہ اللہ عزوجل نے چاہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج کے بارے خواہش فرمائی کہ "اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کر دے ۔
اختیاراتِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جاننے کے لئے پڑھیئے تفسیر ابنِ کثیر جلد 2 پارہ 21 صفحہ نمبر 671 عربی ۔ ابنِ ابی حاتم میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو چاہے مجھ سے مباہلہ کر لے ۔ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن ہی کی شان میں ناذل ہوئی اس قول سے اگر یہ مطلب ہے کہ شانِ نزول یہی ہے اور نہیں تو یہ تو ٹھیک ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اہلِ بیت میں اور کوئی ان کے سواء داخل ہی نہیں تو اس میں نظر ہے ۔ اس لئے کہ احادیث سے اہلِ بیت میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے سواء اوروں کا داخل ہونا بھی پایا جاتا ہے ۔
اللہ کی پاک کتاب سے ہمیں یہ اصول ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے فضل سے عطا فرماتے ہیں ۔ لیکن بد قسمت لوگ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے علیحدہ سمجھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عطا پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں ۔
ہر نبی علیہ السّلام نے کافروں کا منہ بند کرنے کے لئے فرمایا
نمبر 1۔ میں تمہاری طرح بشر ہوں ۔
نمبر 2 ۔ میرے پاس علم غیب نہیں ہے ۔
نمبر 3 ۔ میرے پاس خزانے نہیں ہیں ۔
لیکن اسی قرآن پاک میں اللہ جل شانہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی کافروں کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور انبیاء کو اپنے جیسا کہتا ہے تو وہ راہ راست سے بھٹک گیا ہے ۔ سورۃ ابراہیم میں ارشاد فرمایا : قَالَتْ لَھُمْ رُسُلُھُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَاِّءُ مِنْ عِبَادِہٖ چ وَمَا کَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِیَکُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ چ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ ترجمہ : ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم ہیں تو تمہاری طرح انسان لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے احسان فرماتا ہے،اور ہمارا کام نہیں کہ ہم تمہارے پاس کچھ سند لے آئیں مگر اللہ کے حکم سے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کفار سے فرمایا میں تمہاری طرح بشر ہوں لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ انبیاء علیہم السّلام ہوتے تو بشر ہی ہیں لیکن اللہ کی طرف سے احسان یافتہ ہوتے ہیں ۔ تو اسی طرح اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ وہ دیکھو پیغمبر علیہ السلام یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں ، میرے پاس علم غیب نہیں ہے، میرے پاس خزانے نہیں ہیں اور ان تمام آیات کو پس پشت ڈال دیتا ہے جو پیغمبر علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کے احسان کے بارے میں ، ان کے علم غیب کے بارے میں ، ان کو جو اللہ نے حاکمیت عطا کی ہے اس کے بارے میں ہیں، تو ایسا شخص اپنی توحید کی حفاظت نہیں کر رہا بلکہ اپنے اندر چھپے ہوئے کفر کو تھپکیاں دے رہا ہے ۔
انبیاء کرام علیہم السّلام کی بادشاہت
اللہ جل شانہ نے حضرت داؤدعلیہ السلام کے لئے ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا چ یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ٹ وَاَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَ (۱۰) اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا چ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ (سورہ السبا:۱۱)
ترجمہ : اور بے شک ہم نے داؤد کو اپنا بڑا فضل دیا اور اے پہاڑو ! اس کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرواور پرندو ۔اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کیا کہ وسیع زرہیں بنا اور ان کے بنانے میں اندازے کا لحاظ رکھ۔ اور تم سب نیکی کرو بے شک تمہارے کام دیکھ رہا ہوں ۔
حضرت داؤد علیہ السلا م جب تسبیح کرتے تو پہاڑ بھی آپ کے سا تھ تسبیح کرتے اور پرندے آپ پر جھک آتے اور لوہا آپ کے ہاتھ میں مثل موم کے نرم ہو جاتا اور آپ اس سے جو چاہتے بغیر آگ کے اور بغیر ٹھونکے، پیٹے بنا لیتے ۔
اللہ تعالےٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ارشاد فرمایا : وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَاحُھَا شَھْرٌ ٹ وَ اَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِچ وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ چ وَ مَنْ یَّزِغْ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ، یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَاِّءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍرّٰسِیٰتٍ چ اِعْمَلُؤْا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا چ وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ ۔ (سورہ نمل)
ترجمہ : اور سلیمان کے بس میں ہوا کر دی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایااور جنوں میں سے جو اس کے آگے کام کرتے اس کے رب کے حکم سے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے پھرے ہم اسے بھڑکتی آگ کا عذاب چکھائیں گے ۔ اس کے لئے بناتے جو وہ چاہتا اونچے اونچے محل اور تصویریں اور بڑے حوضوں کے برابر لگن اور لنگر دارا دیگیں، اور اے آلِ داؤد شکر کرو اور میرے بندوں میں کم ہیں شکر والے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے تسخیر جنات عطا فرمائی تھی ۔
اللہ تعالےٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے ارشاد فرمایا : وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَ عَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ کَمَآ اَتَمَّھَا عَلآی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْحٰقَ چ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔ (سورہ یوسف)
ترجمہ : اور اسی طرح تجھے تیرا رب چن لے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھائے گا اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور یعقوب کے گھر ولالوں پر جس طرح تیرے پہلے دونوں باپ دادا ابراہیم اور اسحٰق پر پوری کی ۔ بے شک تیرا رب علم و حکمت ولا ہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی شان تھی کہ وہ مستقبل کی خبر دے دیتے تھے ۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا : وَ اُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ
ترجمہ : اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سفیدداغ والے کو اور میں مردے زندہ کرتا ہوں اللہ کے حکم سے ۔
مسندِ احمد اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صبح کی نماز کے لئے جب نکلتے توحضرت فاطمہ رضی اللہ کے دروازے پر پہنج کر فرماتے۔ اے اہلِ بیت نماز کا وقت آ گیا ہے ۔ پھر اسی آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے۔ امام ترمذی اسے حسنِ غیرب بتاتے ہیں ۔
مسند میں ہے شداد بن عمار کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا اس وقت کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہو رہا تھا وہ آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ میں نے بھی انکا ساتھ دیا ۔ جب وہ لوگ گئے تو مجھ سے حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ تو نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے ؟ میں نے کہاں، ہاں میں نے بھی سب کی زبان میں زبان ملائی۔
تو فرمایا: سُن میں نے جو دیکھا ہے تجھے سُناتا ہوں میں ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں گئے ہوئے ہیں۔ میں انکے انتظار میں بیٹھا رہا ۔ تھوڑی دیر میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لا رہے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت علی اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہم بھی ہیں ۔ دونوں بچے آپ کی انگلیاں تھامے ہوئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور دونوں نواسوں کو اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیا اور ایک کپڑے سے ڈھک لیا۔ پھر اسی آیت "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا - الاحزاب : آیت نمبر 33" کی تلاوت کر کے فرمایا : "اے اللہ عزوجل" یہ ہیں میرے اہلِ بیت اور میرے اہلِ بیت کے زیادہ حقدار ہیں ۔
یہاں پر اختیاراتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار واضح ہے ۔ وگرنہ کس کی مجال کی اللہ کے حکم کے آگے چوں چراں کرے۔ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی ہیں جو کہ مقامِ محود پر فائز ہوئے اور جیسے چاہا ویسے کو بذریعہ دعا عرض کیا ۔
مسند احمد میں ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے گھر میں تھے جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حریرے کی ایک پتیلی بھری ہوئی لائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اپنے میاں اور بچوں کو بھی بلالو۔ چنانچہ وہ بھی آ گئے اور کھانا شروع ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے بستر پر تشریف فرما تھے ۔ خیبر کی ایک چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھی ہوئی تھی۔ میں حجرے میں نماز ادا کر رہی تھی جو یہ آیت اتری پس حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چادر انہیں اڑھا دی اور چادر میں سے ایک ہاتھ مبارک نکال کر آسمان کی طرف اتھا کر یہ دعا کی کہ الہٰی یہ میرے اہلِ بیت اور حمایتی ہیں تو ان سے ناپاکی دور کر اور انہیں ظاہر کر میں "امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ" زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم" نے اپنا سر نکال کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ کے ساتھ ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یقیناً تو بہتری کی طرف ہے فی الواقع تو خیر کی طرف ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ میں اس وقت گھر کے دروازے کے قریب بیتھی ہوئی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ کیا میں اہلِ بیت میں سے نہیں ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، تو بھلائی کی طرف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویوں میں سے ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ میں نے کہا یا رسول اللہ مجھے بھی ان میں شامل فرما لیجئے۔ تو فرمایا تو میری *"ہل" ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سیاہ چادر اوڑھے بیٹھے ایک دن صبح ہی صبح نکلے اور ان چاروں کو اپنی چادر تلے لے کر یہ آیت پڑھی ۔ (مسلم و مشکوٰۃ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک مرتبہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں سُوال کیا تو آپ نے فرمایا : وہ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے محبوب تھے۔ ان کے گھر میں آپ کی صاحبزادی تھیں جو سب سے زیادہ آپ کی محبوب تھیں ۔ پھر چادر کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا میں نے قریب جا کر کہا "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں بھی آپکے اہلِ بیت میں سے ہوں ؟
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: دور رہو۔ تم یقیناً خیر پر ہو ۔ "ابنِ ابی حاتم"
حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے اور ان چاروں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں "جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وہی اتری تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان چاروں کو اپنے کپڑوں تلے لے کر فرمایا " یا رب یہ میرے اہل ہیں اور میرے اہلِ بیت ہیں ۔ (ابنِ جریر)
صحیح مسلم شریف میں ہے ۔ حضرت یزید بن حبان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں اور حصین بن سیرہ اور عمر بن مسلمہ مل کر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے۔ حصین کہنے لگے۔ اے زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو تو بہت سی بھلائیاں مل گئیں۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اچھا تو ہمیں کوئی حدیث سناؤ تو فرمایا یہ بھی مروی ہے کہ میں نے پوچھا "کیا آپ کی بیویاں بھی اہل بیت میں داخل ہیں؟ کہا نہیں۔ قسم ہے اللہ کی، بیوی کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنے خاوند کے پاس گو عرصہ دراز سے ہو لیکن پھر اگر وہ طلاق دے دے تو وہ اپنے میکے میں اپنی قوم میں چلی جاتی ہے ۔ آپ کے اہلِ بیت آپ کی اصل اور عصبہ ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے۔۔۔۔۔ الخ ۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُوْ تِیْتُ مَفَاتِیْعَ خَزَائِنِ الْاَرْضِ ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطاکی گئیں ہیں۔(مشکوٰۃ شریف فضائل سید المرسلین،چشتی)
اُعْطِیْتُ الْکَنْزِیْنِ الْاَحْمَرِوَالْابْیَضِ ۔ مجھے دو خزانے عطا فرمائے گئے ایک سرخ اور ایک سفید ۔ [مشکوٰۃ شریف]
زمین کے خزانوں کی کوئی انتہا نہیں ہے جو کچھ زمین پر ہے انسان، حیوانات، ہر قسم کے غلے ،ہر قسم کے پھل ، سونا، چاندی، موتی، جوہرات، لعل، زمرد وغیرہ یہ سب زمین کے خزانے ہیں اور حضور ان کے مالک و مختار ہیں جسے چاہیں جب چاہیں اپنی مرضی سے عطا فرمائیں ۔
لَوْ شِئْتُ لَسَارَتْ مَعِیَ الْجِبَالُ الذَّھَبِ ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اگر ہم چاہیں تو ہمارے ساتھ سونے کے پہاڑ چلا کریں۔ [مشکوٰۃ باب اخلاق النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم]
قربان جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایسا مالک و مختار بنایا کہ اگر چاہیں تو پہاڑ بھی آپ کے لئے سونا بن جائیں۔
اِنَّماَ اَنَا قَاسِمٌ وَّ اللہُ یُعْطِیْ ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ دینے والا ہے اور ہم تقسیم کرنے والے ۔ [مشکوٰۃ کتاب العلم]
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا تقسیم کرتے ہیں ؟ جو کچھ اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور اللہ کے پاس تو ہر چیز ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر چیز کے مالک و مختار ہیں اور عطا فرماتے ہیں مگر کوئی لینے والاہو ۔
مشکوٰۃ باب السجود میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ربیعہ سے فرمایا سل ، مانگ جو مانگتا ہے ۔ یہ وہی کہہ سکتا ہے جس کے پاس ہر چیز کا اختیار ہو، عرض کیا میں آپ سے یہ مانگتا ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں پھر فرمایا : اَوْ غَیْرَ ذٰلِلکَ اور کچھ مانگو عرض یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہی کافی ہے ۔
معلوم ہوا کہ کہ ہر چیز بلکہ جنت بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اختیار میںہے جسے چاہیں عطا فرمائیں ۔
صحیح الاسناد احادیث مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اختیارات کے ہونے کا اظہار فرمایا حالانکہ قرآن کی آیت آپ نے جو پڑھی وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ۔ مگر اللہ عزوجل نے وہ قبول فرمایا جو کہ منشاءِ مصفطیٰ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھی ۔
اللہ تعالیٰ کی عطا سے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ جس چیز کو چاہیں ’’فرض و واجب ‘‘یا’’ ناجائز و حرام‘‘ فرمادیں اور کسی عام حکم میں سے جس کو چاہیں مستثنیٰ (الگ ، Exempt) فرمادیں ۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خصوصیات (Particularities) میں سے یہ ایک عظیمُ الشّان خصوصیت ہے جسے بڑے بڑے عُلَماء ، فُقَہاء ، مُفسّرین ، مُحدّثین اور مجتہدین علیہم الرّحمہ نے بیان فرمایا ہے ۔ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ائمۂ مُحَقِّقِین تصریح فرماتے ہیں کہ احکامِ شریعت حضور سیّد عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو سپرد ہیں ۔ جو بات چاہیں واجب کردیں ، جو چاہیں ناجائز فرمادیں ، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم وغیرہ سے چاہیں مُسْتَثْنٰی (یعنی الگ)فرمادیں ۔ (زرقانی علی المواھب ، 7 / 346،چشتی)(فتاویٰ رضویہ ، 30 / 518)
حلال یا حرام کرنے کا اختیار
قراٰنِ کریم کی کئی آیات اور کثیر احادیث سے ثابت ہے کہ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام ، فرض یا واجب فرما دیں۔ بطور دلیل ایک ایک آیت اور حدیث مُلاحظہ فرمائیے :
اللہ کریم نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دو صفات یہ بیان فرمائی ہیں : وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ ترجمۂ کنزالعرفان : اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں ۔ (پ9 ، الاعراف : 157)
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اِنِّی حَرَّمْتُ كُلَّ مُسْكِرٍ یعنی بے شک نشہ لانے والی ہر چیز میں نے حرام کردی ہے ۔ (نسائی ، ص886 ، حدیث : 5614)
عام حکم میں سے کسی کو خاص کردینا
اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ اختیار عطا فرمایا ہے کہ آپ کسی عام حکم میں سے جس کو چاہیں الگ کردیں ۔
نماز کا عام حکم:فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اِنَّ اللَّهَ قَدْ اِفْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ یعنی بے شک اللہ پاک نے اپنے بندوں پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں ۔ (بخاری ، 1 / 471 ، حدیث : 1395،چشتی)
تین نمازیں معاف فرمادیں : رب کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک صاحب اس شرط پر اسلام لائے کہ صرف 2 ہی نمازیں پڑھیں گے ۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن کی اس شرط کو قبول فرمالیا۔ (مسند احمد ، 7 / 283 ، حدیث : 20309)
گواہی کا عام حکم
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْۚ ۔
ترجمۂ : اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنالو ۔ (پ3البقرۃ : 282)
ایک کی گواہی دو کے برابر قرار دے دی
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ذُوالشَّہادَتَیْن حضرت سیدنا خُزَیمہ بن ثابت اَنصاری رضی اللہ عنہ کی اکیلے کی گواہی ہمیشہ کےلئے دو مَردوں کی گواہی کے برابر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : مَنْ شَهِدَ لَهٗ خُزَ يْمَةُ اَوْ شَهِدَ عَلَيْهِ فَحَسْبُهٗ یعنی خُزیمہ جس کے حق میں یا جس کے خلاف گواہی دیں تو ایک ان ہی کی گواہی کافی ہے ۔ (معجم کبیر ، 4 / 87 ، حدیث : 3730،چشتی)
ریشم کا عام حکم
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے سیدھے ہاتھ میں ریشم اور اُلٹے ہاتھ میں سونا لے کر ارشاد فرمایا : اِنَّ هٰذَيْنِ حَرَامٌ عَلٰى ذُكُورِ اُمَّتِيْ یعنی بے شک یہ دونوں چیزیں میری اُمّت کے مَردوں پر حرام ہیں ۔ (ابوداؤد ، 4 / 71 ، حدیث : 4057)
ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت
حضرت سیّدنا زبیر بن عوام اور حضرت سیّدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہماکے بدن میں خُشک خارش تھی ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت دے دی ۔ (بخاری ، 4 / 61 ، حدیث : 5839)
سونے کا عام حکم
حضرت سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نَهَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ۔ (المجالسۃ وجواہر العلم ، 3 / 283 ، حدیث : 3639،چشتی)
سونے کی انگوٹھی پہنادی
حضرت سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سونے کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے ۔ لوگوں کے اعتراض کرنے پر انہوں نے بیان کیا : ہم نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ۔ آخر میں جب صرف یہ انگوٹھی باقی رہ گئی تو نظر مبارک اٹھاکر حاضرین کو مُلاحظہ فرمایا اور نگاہیں جھکالیں ، دوسری بار بھی نظر یں اٹھاکر دیکھا اور نگاہ نیچی کرلی ، تیسری بار پھر نظرِ رحمت ڈالی اورفرمایا : اے براء! میں قریب حاضر ہوکر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ انگوٹھی لے کر میری کلائی تھامی اور ارشاد فرمایا : اِلْبَسْ مَا كَسَاكَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ ، یعنی اللہ و رسول تمہیں جو پہناتے ہیں اسے پہن لو ۔ (مسند احمد ، 6 / 427 ، حدیث : 18625)
عدت کا عام حکم
شوہر کی موت کی عِدّت چار مہینے دس دن ہے ۔ (بہارِ شریعت ، 2 / 237)
اللہ پاک کا فرمان ہے : وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ ۔
ترجمہ : اور تم میں سے جو مرجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں ۔ (پ2 ، البقرۃ : 234)
تین دن کی عدّت
حضرت اسماء بنتِ عمَیس رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت سیّدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے ارشاد فرمایا : تَسَلَّبِىْ ثَلَاثَا ثُمَّ اصْنَعِىْ مَا شِئْتِ یعنی تین دن تک بناؤ سنگھار سے الگ رہو ، پھر جو چاہو کرو ۔ (جامع الاحادیث ، 4 / 89 ، حدیث : 10362)
یہاں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو اس حکمِ عام سے اِسْتِثْناء فرما دیا کہ عورت کو شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ واجب ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ، 30 / 529)
جنابت کا عام حکم
جُنبی یعنی جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس کو مسجد میں جانا حرام ہے ۔ (بہار شریعت ، 1 / 326)
رُخصت
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : یَاعَلِیُّ!لَا یَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَّجْنَبَ فِیْ ھٰذَا الْمَسْجِدِ غَیْرِیْ وَغَیْرَکَ ۔
ترجمہ : اے علی رضی اللہ عنہ میرے اور تمہارے سوا کسی کو حلال نہیں کہ اس مسجد میں جنابت کی حالت میں داخل ہو ۔(ترمذی ، 5 / 408 ، حدیث : 3748) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment