لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نعرے پر اعتراض کیوں ؟
محترم قارئین کرام : لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہنے سے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ظاہری طور پر رو برو بھی نہ ہوں ، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کہنے والا دل و جان سے یہ اقرار کر رہا ہے کہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وابسطہ رکھے گا ۔ اب اس ایک پکار لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہنے والے نے دنیا بھر کو یہ باور کرا دیا کہ ہمارا سب کچھ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان ہے ۔ اس نعرے سے اصل تکلیف یہ ہے مرزا قادیانی اس کے چیلوں ، جاوید غامدی ، مرزا جہلمی اور دیسی لبرل و ملحدین کو ۔
لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مطلب آسان اور عام فہم ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی مکتب فکر والوں کےلیے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے ۔ فقیر کو امید ہے کہ اس نعرے لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام اہلِ اسلام سمجھتے ہوں گے ۔ اگر بدقسمتی سے نہیں سمجھتے یا اگر سمجھتے ہیں مگر سمجھ اپنے تک محدود رکھتے ہیں یا رکھنا چاہتے ہیں تو تمام مکاتبِ فکر کے رہنماؤں کا دینی فریضہ بنتا ہے کہ اچھے ماحول میں سب کو سمجھائیں ۔
نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب کسی صحابی کو بلاتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عرض کرتے تھے لبیک یارسول اللہ ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم حاضر ہیں ۔ آج کل اس نعرے پر مرزا قادیانی کے چیلے اور دیسی لبرل اعتراض کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک اُمتِ مسلمہ کا یہی نعرہ ہے لبیک یارسول اللہ ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم حاضر ہیں :
قَالَ : يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ۔ قَالُوا : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے گروہ انصار ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم حاضر ہیں ۔ (صحيح البخاري فی حديث4333،چشتی)۔(مسلم فی حديث1780)
قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا أَبَا ذَرٍّ ۔ قُلْتُ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے ذر ۔ میں نے عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک و علیٰ آلک وسلم ۔ (سنن أبي داود فی حديث4261)
فَنَادَى : يَا كَعْبُ قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ندا دی اے کعب ۔ حضرت سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ (صحیح بخاری فی حديث457)۔(سنن النسائي فی حديث5408،چشتی)
قَالَ : يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ۔ قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اےمعاذ بن جبل ۔ حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک و علیٰ آلک وسلم ۔ (صحيح البخاري فی حديث نمبر 128)
حَدَّثَنِي أَبُو نُعَيْمٍ بِنَحْوٍ مِنْ نِصْفِ هَذَا الْحَدِيثِ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ قَالَ : يَا أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ۔۔۔۔۔۔۔ قَالَ : أَبَا هِرٍّ : قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ۔۔۔۔۔۔۔ قَالَ : يَا أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ۔۔۔۔ أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، الخ ۔۔۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ، اباہر ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ ۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ، اباہر ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ ۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اباہر ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ الخ ۔ (صحيح البخاری حدیث نمبر 6452،چشتی)
حدثنا هدبة بن خالد حدثنا همام حدثنا قتادة حدثنا أنس بن مالك عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال بينما أنا رديف النبي صلى الله عليه وسلم ۔۔۔۔ فقال يا معاذ قلت لبيك يا رسول الله وسعديك ۔۔۔ قال يا معاذ قلت لبيك رسول الله وسعديك ثم سار ساعة ثم قال يا معاذ بن جبل قلت لبيك رسول الله وسعديك ۔۔۔۔۔۔۔ ثم قال يا معاذ بن جبل قلت لبيك رسول الله وسعديك ۔۔۔۔۔۔ الخ ۔ (صحيح البخاري كتاب الرقاق باب من جاهد نفسه في طاعة الله الرقم 6135)
وَعن أَنسٍ : أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم - وَمُعَاذٌ ردِيفُهُ عَلى الرَّحْلِ- قَالَ : يَا مُعاذُ ، قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قالَ : يَا مُعَاذُ، قالَ : لَبَّيكَ يا رَسُول اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ، قالَ : يَا مُعَاذُ ، قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ، ثَلاثًا ، قالَ : الخ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ (ریاض اصالحین 4/415)
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنَ مَالِكٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ ، قَالَ : يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ، قَالَ : يَا مُعَاذُ ، قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا ، الخ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، اس نے کہا کہ میرے باپ نے قتادہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) معاذ بن جبل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا ، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں ، اے اللہ کے رسول ، تین بار ایسا ہوا ۔ الخ ۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح بخاری جلد اول : كتاب العلم حدیث 128)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک پالان پر آگے پیچھے سوار تھے ، آپ نے فرمایا : اے معاذ بن جبل ! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ آپ نے اس طرح تین بار فرمایا تھا ۔ الخ ۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :128)(صحیح مسلم رقم الحدیث :32،چشتی)(مسند احمد رقم الحدیث :13778)
فداک امی وابی یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
فقیر کو سمجھ نہیں آرہی کہ بات کہاں سے شروع کرے ، اتنی عظیم ہستی کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے بار بار قلم کو اپنی بے مائیگی کا احساس پکڑ لیتا ہے ، مگر کیا کروں کہ آئے دن دل تڑپتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ دنیا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر حملے کر کر کے ہمارے ایمان کی کمزوری اور طاقت کا اندازہ لگاتی ہے ، ہماری نیند ، بے ہوشی اور موت کا معائنہ کرتی ہے ، کبھی تقریر ، کبھی تحریر اور کبھی ان دونوں سے ہٹ کر مگر برق رفتار اور کثیر الاثر الیکٹرانک میڈیا کا ہتھیار ۔ ایک جانب امت کو نازیبا الفاظ ، خاکوں ، فلموں کے ذریعے اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے تو دوسری جانب آزادیِ اظہار کے عالمی دو غلے رویے کی کند چھری سے اس بے بس امت کو ذبح کیا جاتا ہے ۔
شاید یہ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ نہیں جانتے کہ پوری امت کی تاریخ میں ان کا انجام ذلت اور رسوائی ہی ہوا ہے جب کہ ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ﷲ کا اعلان ہے : ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ ۔
نبی اکرم رحمتِ عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ بھی امتیاز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر فدا ہونے والے ابتدائے اسلام ہی سے سر فروشی کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں ، اسلام کے پہلے شہید حارث رضی اللہ عنہ بن ابی ہالہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بچاتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کفار کے حملے سے بچایا ، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے فرما رہے تھے :’’اتقتلون رجلًا ان یقول ربی ﷲ‘‘ ۔۔۔۔ (سورۃ المومن، آیۃ۲۸)۔
کفر واسلام کی پہلی جنگ غزوہ بدر میں دو بچے معاذ و معوذ رضی اللہ عنہما کفر کے ایک سردار کی تلاش میں ہیں ، انہوں نے اسے دیکھا نہیں ، مگر اس کے قتل کا عزم لئے بڑے اصرار کے ساتھ اجازت لے کر میدانِ جہاد میں اترے ہے ، حضرت عبد الرّحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ابو جہل کا پوچھتے ہیں ، اور اپنا ارادہ بھی بیان کر دیتے ہیں ، وہ اس عزم کا سبب پوچھتے ہیں تو معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما کا جواب ہے : ’’کان یوذی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‘‘ ، یعنی ابو جہل رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ میں ایذا دیا کرتا تھا ، اس لئے وہ اس کے بدلے اسے قتل کرنا چاہتے ہیں ، اور یہ ﷲ کی قدرت ہے کہ وہ اس سورما کو ان بچوں کے ہاتھوں ذلت سے قتل کرواتا ہے ۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو ان کے چچا زاد اور ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے اپنے باپ کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت دینے کے لئے برا بھلا کہا اور آپ کی بیٹی کو طلاق دے دی ، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے بددعا دی : ’’اللہم سلّط علیہ کلباً من کلابک‘‘، (اے ﷲ اس پر اپنا ایک کتا مسلط کر دے) ۔ عتیبہ شام کے سفر پر تھا جب اس نے رات کو پڑاؤ ڈالا تو اسے ایک شیر کی دھاڑ سنائی دی ، اس کا رواں رواں کانپ اٹھا ، ساتھیوں نے اسے تسلی دی مگر اسے یقین تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بددعا سے وہ بچ نہ پائے گا ، انہوں نے اس کے خیمے کے گرد رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور اسے درمیان میں سلایا ، مگر رات کو شیر آیا اور سب کے سر سونگھے اور عتیبہ پر پل پڑا اور اسے ہلاک کر دیا ۔ (دلاٸل النبوہ للبہیقی) ۔ ﷲ تعالی کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وعدہ ہے : ’’انا کفیناک المستھزئین‘‘ ۔ (سورہ الحجر، ۹۵)
قرآن کریم نے نام لیکر ابو لہب پر لعنت بھیجی ، اور اسکے اور اسکی بیوی کے بد انجام کی خبر دی ، جو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت دینے میں پیش پیش تھا ۔
قرآن کریم سے استشہاد ’’یآایھا الرسول بلّغ ما انزل الیک من رّبک ۔۔۔ وﷲ یعصمک من النّاس‘‘ ۔۔۔ (سورہ المائدۃ، ۶۷) ۔ (اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ۔۔۔ ﷲ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ۔۔۔ ) ۔ ’’سیکفیکھم ﷲ، وھو السّمیع العلیم ‘‘ ۔ (سورہ البقرۃ، ۱۳۷) ۔ (اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں ﷲ تمہاری حمایت کے لئے کافی ہے ، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے)۔
’’الیس ﷲ بکافٍ عبدہ، ویخوّفونک بالّذین من دونہ ‘‘۔۔۔(الزمر، ۳۶)۔ (اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، کیا ﷲ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں) ۔ ’’انّ شانئک ھو الابتر‘‘ ۔ (الکوثر، ۳) ۔ (تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے) ۔
’’انّ الذین یؤذون ﷲ ورسولہ لعنھم ﷲ فی الدنیا والآخرۃ واعدّلھم عذاباً مھیناً‘‘۔ (الاحزاب، ۵۷) ۔ (جو لوگ ﷲ اور اسکے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں ﷲ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کےلیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے۔) ۔ ’’ومنھم الذین یؤذون النبیّ ویقولون ھو اذن، قل اذن خیر لّکم یؤمن باﷲ ویؤمن للمؤمنین ورحمۃ للذین آمنوا منکم، والذین یؤذون رسول ﷲ لھم عذاب الیم‘‘۔ (التوبۃ، ۶۱) ۔ (ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے ۔ کہو، وہ تمہاری بھلائی کے لئے ایسا ہے ، ﷲ پرایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد رکھتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو تم میں سے ایمان دار ہیں۔ اور جو لوگ ﷲکے رسولؐ کو دکھ دیتے ہیں ان کے لئے دردناک سزا ہے ۔
یہ تمام وثائق ثابت کرتے ہیں کہ ﷲ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا محافظ ہے ، ان کا مددگار ہے ، اور جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ظلم کے مرتکب ہوں ان سے خود انتقام لینے والا ہے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تمسخر اڑانے والوں کی پکڑ اپنا حق سمجھتا ہے، بلکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا استہراء اڑانے والوں کے مقابلے میں اکیلا ہی کافی ہے ۔
علامہ ابنِ تیمیہ اپنی کتاب ’’الصارم المسلول‘‘ کے ۱۴۴ صفحہ پر لکھتے ہیں : ’’یہ ﷲ تعالی کی سنت ہے کہ اگر مومنوں کے پاس اتنا اقتدار نہ ہو کہ وہ ﷲ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت دینے والے سے انتقام لے سکیں تو ﷲ اس سے اپنا حق سمجھ کر انتقام لیتا ہے اور وہ انکے لئے کافی ہے ۔۔ اور جس کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے برائی کی ، یا بغض رکھا یا عداوت رکھی ، ﷲ اس کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور اسے اور اس کی نسل کو مٹا ڈالتا ہے ۔ اور تاریخ میں ایسے متعدد واقعات موجود ہیں ، کہ جس نے آپ کو برا بھلا کہا، اور اگر کسی نے فوراً بدلہ نہ لیا تو ﷲ نے خود اس سے انتقام لیا ۔ السعدی کی رائے ہے کہ جس کسی کا ایسا عمل ظاہر ہو گیاکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی استہزاء کی تو ﷲ نے اسے ہلاک کر دیا اور وہ بری موت مارا گیا ۔
تاریخ کی کتابوں میں یہ واقعہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے موجود ہے کہ کفار کے بعض اکابرین نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی استہزاء کی ، وہ ولید بن المغیرۃ ، اسود بن عبد یغوث ، اسود بن المطلب ، حارث بن غیطل السہمی ، اور عاص بن وائل تھے ، حضرت جبریل ؑ آئے تو آپؐ نے ان سے ان کی شکایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں ولید بن المغیرہ دکھایا ، جبریل نے اس کی طرف اشارہ کیا ، اور اس کا ہاتھ بھیگا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا ، تو جبربلؑ نے کہا : ’’میں ان کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے کافی ہوں ، پھر انہوں نے حارث بن غیطل السہمی کی طرف دیکھا ، اور اس کے پیٹ ک طرف اشارہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا : جبریل نے کہا : ’’میں اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے کافی ہوں ، پھر عاص بن وائل السہمی کی طرف دیکھا اور اس کے پاؤں کے اخمص یعنی نچلی جانب اشارہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ’’مین نے کچھ نہیں کیا‘‘ ، جبربل نے کہا : میں ان کےلیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے کافی ہوں ۔ پھر جب ولید بن المغیرہ گھر سے نکلا تو وہ خزاعہ کے ایک شخص کے پاس سے گزرا ، جو اپنا تیر ٹھیک کر رہا تھا ، وہ ولید بازو پر لگ گیا اور اس کی بڑی رگ کٹ گئی ، اسود بن المطلب اندھا ہوا ، اور وہ ایسے کہ وہ ایک درخت کے نیچے آیا ، تو کہنے لگا : ’’اے بیٹو، تم میرا دفاع کیوں نہیں کرتے ؟ میں قتل ہو جاؤں گا ، وہ کہنے لگے ہمیں تو کچھ نظر نہیں آرہا ، وہ بولا : میری آنکھ میں ایک کانٹا پڑ گیا ہے، وہ دیکھتے رہے مگر انہیں کچھ دکھائی نہ دیا حتی کہ وہ اندھا ہو گیا ۔ اسود بن عبد یغوث باہر نکلا تو کسی جانب سے تیر آیا اسے جا لگا ، اور وہ مر گیا ۔ الحارث بن غیطل کو پیلا پانی جاری ہو گیا ، اور وہ کثرتِ اجابت سے مر گیا (جیسے مرزا قادیانی بھی مرا) ، اور العاص بن وائل کی موت بھی اسی طرح واقع ہوئی کہ اس کا پاؤں کانٹے دار جھاڑی پر اس بری طرح پڑا کہ کانٹے اس میں بھر گئے اور وہ مر گیا ۔ (اصفہانی نے اسے دلائلِ نبوت کے باب میں درج کیا ہے، ۱:۶۳) یہ پانچوں اپنی قوم کے سرکردہ افراد تھے، انہوں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی استہزاء کی ، تو اس نے اپنی قدرت سے انہیں سزا دی اور ان کے لئے وہ اکیلا ہی کافی ہے ۔
بزّار اور طبرانی نے الاوسط میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت لکھی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ کر چپکے چپکے آنکھوں سے اشارے شروع کر دیے ، اور کہنے لگے : ’’یہ صاحب خود کو ﷲ کا نبی کہتے ہیں‘‘ ، حضرت جبریلؑ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ تھے ، انہوں نے ان کی جانب انگلی سے اشارہ کیا ، جو کفار کے جسموں پر ناخنوں کی طرح لگا اور ان کے ایسے بد بو دار زخم بن گئے کہ کوئی ان کے قریب بھی نہ آتا تھا ۔ (تفسیر الدر المنثور، ۱۰۰:۵)
بنو نجار کا ایک عیسائی شخص مسلمان ہو گیا ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی کتابت کرنے لگا ، پھر وہ الٹے قدموں پھر گیا اور مرتد ہو کر دوبارہ عیسائیت میں داخل ہو گیا ، وہ اہلِ کتاب کے پاس چلا گیا اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مذاق اڑانے لگا ، اور دعوی کرنے لگا کہ وہ وحی میں وہ کچھ شامل کر دیتا تھا جو اس میں نہیں تھا ، اور وہ کہتا : ﷲ کی قسم ، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وہی جانتے ہیں جو میں بتاتا ہوں ، وہ کچھ عرصہ اسی طرح رہا ، پھر ﷲ نے اسے ہلاک کر دیا ، لوگوں نے اسے دفن کیا ، مگر اگلی صبح زمین نے اسے (قبر سے) باہر پھینک دیا ، لوگ کہنے لگے : یہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کے اصحاب نے کیا ہے ۔ انہوں نے ہمارے ساتھی کی قبر کھود کر اسے نکالا اور باہر ڈال دیا ، انہوں نے قبر کے گڑھے کو اور گہرا کیا اور اسے پھر دفن کر دیا ، صبح اسے پھر زمین نے باہر اگل دیا تھا ، اس کے ساتھی کہنے لگے : یہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے ، انہوں نے اسکی قبر سے اسے باہر پھینکا کیونکہ یہ ان سے بھاگ گیا تھا ، اور انہوں نے اسے پا لیا ، انہوں نے تیسری مرتبہ جتنی گہری قبر کھود سکتے تھے کھود دی اور دفن کر دیا ، لیکن اگلی صبح وہ پھر زمین سے باہر پڑا تھا، تو انہوں نے جان لیا کہ یہ کسی آدمی کا کام نہیں ہے ، پس انہوں نے اسے چھوڑ دیا اور چلے آئے ۔ (بخاری حدیث نمبر۱۷ ۳۶، مسلم حدیث نمبر۲۷۸۱)
یہ ﷲ کی شان ہے کہ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا استہزاء کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا ۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بادشاہوں کے نام خط ارسال کئے تو قیصر و کسری کو بھی خط بھیجا گیا ، قیصر نے اس خط کا اکرام کیا تو اس کی سلطنت باقی رہی ، اگرچہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا ، اور کسری نے اس خط کی اہانت کی اور اسے پرزے پرزے کر دیا ، اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مذاق اڑایا ، وہ تھوڑے عرصے بعد بری طرح قتل ہوا اور اس کی مملکت پارہ پارہ ہو گئی ۔ (الصارم المسلول، ۱۴۴)
ﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے استہزاء کرنے والوں کے بدلے کی صرف یہی صورت نہیں کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا ان کے لئے زمین پھٹ پڑے ، بلکہ اس کے لئے متعدد اور متنوع صورتیں ہیں ، کبھی ﷲ تعالی ان پر ایسے بندے مسلط کر دیتا ہے جو اسے ہلاک کر دیتے ہیں ، جیسے کعب بن اشرف نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ستایا ، اور اشعار کے ذریعے ان کا استہزاء کیا تو محمد بن سلمہؓ نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر اس کا کام تمام کیا ، ایک یہودیہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گالیاں بکتی تھی ، ایک صحابی نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے مار دیا ، اور ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہانت کرتی تھی ، اور وہ ان کے بچوں کی ماں بھی تھی ، انہوں نے اسے قتل کر دیا ، اور خمیطہ نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجو کی تو اس کی اپنی قوم کے ایک شخص نے اسے قتل کر دیا ۔ (الصارم المسلول، ۹۵)
ابو عفک یہودی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجو بیان کی تو سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اس سے قصاص لے لیا ۔ (الصارم المسلول، ۱۰۱)
اور انس بن زنیم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجو کی تو خزاعہ کے ایک لڑکے نے اس سے بدلہ لے لیا ۔ (الصارم المسلول، ۱۰۲)
سلام بن ابی الحقیق نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے ابال کھایا تو عبد ﷲ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا کام تمام کر دیا۔ (الصارم المسلول، ۱۳۵)
ﷲ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دشمنوں سے اس طرح بھی حفاظت کی کہ ان کے دلوں میں ان کی ہیبت اور رعب طاری کر دیا ، کہا جاتا ہے کہ غورث بن الحرث کہتا تھا : میں ضرور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کروں گا ؟ اس کے ساتھی اس سے پوچھتے : تم انہیں کیسے قتل کرو گے وہ کہتا کہ میں ان سے کہوں گا : مجھے اپنی تلوار دیں ، جب وہ مجھے اپنی تلوادیں گے تو میں ان کی گردن اڑا دوں گا ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا : محمد مجھے ذرا اپنی تلوار دو میں اسے سونگھوں گا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے تلوار دے دی ، اس کے ہاتھ لرز اٹھے اور تلوار نیچے زمین پر گر گئی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تیرے اور تیرے ارادے کے درمیان اﷲ حائل ہو گیا ۔ (تفسیر الدر المنثور، ۱۱۹:۳)
تفسیر ابن کثیر میں بیان کیا گیا ہے کہ ابو جہل کہتا تھا : لات اور عزی کی قسم ، اگر میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نماز پڑھتے دیکھا تو میں ضرور آپ کی گردن پر پاؤں رکھ دونگا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ خاک آلود کر دوں گا، پس جب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گردن پر پاؤں رکھنے کے لئے آیا ، مگر آگے بڑھتے ہوئے وہ اچانک الٹے قدموں پیچھے پلٹنے لگا ، اور اپنے ہاتھ سے کچھ پیچھے کرنے لگا ، اس سے پوچھا گیا: تجھے کیا ہوا؟، وہ بولا: میرے اور ان کے درمیان آگ کی ایک ھولناک خندق ہے ، جس سے شعلے لپک رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ میرے ذرا بھی قریب آتا ، فرشتے اسکو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ۔ (تفسیر ابن کثیر ۵۳۰: ۴)
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ قریش کے کچھ لوگ الحجر میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے باہم عہد کیا کہ لات ، عزی اور منات الثالثۃ الاخری ، اور نائلہ اور اساف کی قسم ، اگر ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دیکھا تو ہم سب اکٹھے اس پر یکبارگی حملہ کر دیں گے ، اور اسے قتل کر دیں گے ، یہ سن کر ان کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا روتی ہوئی اندر آئیں ، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اندر آئے تو انہوں نے ان کو بتایا کہ یہ آپ کی قوم کے افراد ہیں ، انہوں نے آ پ کو اکٹھے ہو کر قتل کرنے کا عہد کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک اس خون میں شریک ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جاؤ وضو کا پانی لاؤ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وضو کیا ، اور مسجد میں چلے گئے ، انہوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا بولے : ہاں وہ آگئے ، اور ان کی آنکھیں جھک گئیں اور ان کے کان سینوں پر گر گئے ، ان کی آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ نہ پائیں ، ان میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب نہ بڑھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے سروں پر پہنچ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مٹھی بھر خاک لی اور ’’شاھت الوجوہ‘‘ کہہ کر ان کے چہروں پر پھینک دی ، ان میں سے جس پر ایک کنکر مٹی بھی پڑی وہ بدر کے روز کفر کی حالت میں مارا گیا ۔ (دلائل النبوۃ، ۶۵:۱)
ﷲ عزوجل نے سچ فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے کافی ہیں ۔
نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت شرطِ ایمان ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لا یؤمن احدکم حتی اکون احبّ الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین ۔ (متفق علیہ) ، یعنی تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کی اولاد ، اس کے باپ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں ۔
ظاری عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واقعہ ہے کہ ایک یہودی اور ایک (منافق) مسلمان اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لے گئے ، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فیصلہ یہودی کے حق میں کیا ، منافق کو سخت تکلیف پہنچی اور اس نے یہودی سے کہا کہ ہم اس معاملہ کو حضرت عمر کے پاس لے جاتے ہیں، (اس کا خیال تھا کہ عمر یہودیوں کے دشمن ہیں اس لئے فیصلہ اس کے حق میں کریں گے) حضرت عمر نے پوری تفتیش کے بعد پوچھا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ منظور کس کو نہیں ہے ، منافق کے اقرار پر انہیں رک جانے کو کہا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر گئے ، اپنی تلوار نکالی ، اس کی دھار چیک کی اور آ کر منافق کی گردن اڑا دی ، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہم عمر کے ساتھ ہیں ۔
مدینة المنورہ کے یہودی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو زِک پہنچانے کے نئے نئے انداز اختیار کرتے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں آتے ، اور بظاہر’’ راعنا ‘‘ کہہ کر مگر دل کا غبار نکالتے ہوئے ’’راعینا‘‘ کہتے، حضرت سعد بن عباد ان کی زبان سمجھتے تھے ، کہ وہ آپؐ کو ’’او احمق‘‘ کہتے ہیں ، انہوں نے دھمکی دی کہ اگر اب کسی نے ایسا لفظ استعمال کیا تو اس کی گردن اڑا دوں گا، پھر سورہ البقرۃ کی یہ آیۃ نازل ہوئی :
یاأیھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا وللکافرین عذاب الیم ۔ ( البقرۃ، ۱۰۴)
آغازِ اسلام ہی سے ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملہ کرنے والوں سے سختی سے نبٹا گیا اور اس میں کسی کی دینی حیثیت اور دنیوی منصب کا خیال نہیں رکھا گیا ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں بحرین کا عیسائی پادی گستاخیء رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مرتکب ہوا ، اسے کچھ نو عمر لڑکوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا ، معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے اس قتل کو درست قرار دیا ۔
تاریخِ اسلامی میں گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعداد شمار دیکھے جائیں تو ریاستِ مدینہ کے قیام سے اب تک 40 گستاخان کو عوام نے اور 80 کو عدالتوں نے سزائیں دی ۔
اسپین کی اسلامی ریاست میں پادریوں نے توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مہم چلا رکھی تھی ، وہ خود بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے ، چناچہ 234 ھ میں 53 شاتمانِ رسول کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں پادری بھی تھے ۔
توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا معاملہ نہیں جسے کسی صورت بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے ، شہنشاہ اکبر کے زمانے میں ایک ہندو نے شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں گستاخی کی ، معاملہ بیربل اور ابو الفضل کے سپرد ہوا ، توہین ثابت ہو گئی ، علماء کے بھی دو گروہ بن گئے ، محل کی خواتین بھی ہندو مجرم سے ہمدردی رکھتی تھیں ، قاضی القضاۃ نے سزا سنائی اور فیصلہ نافذ کر دیا گیا ۔
حقیقت رائے نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ، زکریا شاہ لاہور کا گورنر تھا ، اس نے ہندو اکثریتی آبادی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سزا کو نافذ کیا ۔
ﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے اور ان سے محبت کرنے والے حزب ﷲ کا گروہ ہیں اور وہ حزب الشیطان سے کسی قسم کی الفت ، محبت اور مروت نہیں رکھتے ، خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ۔
لاتجد قوماً یؤمنون باﷲ والیوم الآخر یوادّون من حاد اﷲ ورسولہ ولو کانوا آباءھم او اخوانھم او عشیرتھم ۔۔۔ (سورہ المجادلۃ، ۲۲)
تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو ﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے ﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا بھائی یا اہلِ خاندان ۔۔ یعنی یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنانِ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں ، بالکل اسی طرح جیسے ایک دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت جمع نہیں ہو سکتی ۔
اسی کے بے شمار نمونے غزوات میں بھی دکھائی دیے اور مسلمانوں کی عام زندگی میں بھی ، سچے مومنوں نے ان تمام رشتوں کو کاٹ کر پھینک دیا جو ان کے دین کے راستے میں مزاحم ہوئے ، غزوہ بدر میں ابو عبیدۃ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ عبد ﷲ بن جراح کو قتل کیا ، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبید کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا ، حضرت ابو بکرؓ اپنے سگے بیٹے سے لڑنے کو تیار ہو گئے، حضرت علی ، حضرت حمزۃ اور عبیدۃ بن الحارث رضی اللہ عنہم نے عتبہ شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے اور ثابت کیا کہ ﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کسی رشتے کے سامنے مغلوب نہیں ہو سکتی ۔
یہ آج کے دور کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ایسی مملکت جسے لا الہ الا ﷲ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ، شانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معاملے میں لیت و لعل کا شکار ہے اور تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کرنے والوں پر گولیاں برساٸی جاتی ہیں اور انہیں قید کیا جاتا ہے ، قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی ، اس وقت بھی جیلوں میں کم ازکم چودہ مجرمان ایسے ہیں جن پر جرم ثابت ہو چکا ہے ، لیکن سزا نافذ نہیں ہوئی ، حالانکہ پرویز مشرف جیسے حکمران بھی ہیں جو زندہ موجود ہیں مگر ان کے اقدامِ قتل کے کئی مجرم پھانسی کی سزا پا چکے ہیں ۔اس ملک میں ایسا گورنر بھی تھا جو شاتمِ رسول آسیہ ملعونہ کی اشک شوئی کے لئے جیل جا تا ہے اور قانون میں تبدیلی کے عزم کا اظہار کرتا ہے ۔ اور کروڑوں مسلمانوں کا دل دکھانے پر جب ایک محبِ رسول غازی اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتا ہے تو بیرونی آقاؤں کو اسے پھانسی دے کر خوش کیا جاتا ہے ۔ اور اس ملک کے حکمران و جج اپنے بیرونی آقاٶں کو خوش کرنے کےلیے گستاخوں کو رہا کرتے عشاقانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پھانسیاں اور قید و بند کی سزاٸیں دیتے ہیں ۔ گاہے گاہے کبھی ہلکی اور کبھی تیز آوازیں ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قانون میں تبدیلی کے لئے اٹھتی رہتی ہیں ، لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ایسے قانون کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ یہی سوال امام مالکرحمة اللہ علیہ سے بھی پوچھا گیا تھا ، کہ کوفہ کے کچھ مولویوں کی رائے ہے کہ گستاخیء رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سزا موت سے کم بھی ہو سکتی ہے ؟
آپ نے فرمایا : اگر گستاخ گستاخی کے بعد بھی زندہ رہے تو پھر امت کے زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ۔
اس معاملے کا سب سے حساس پہلو یہ ہے کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال کیا جائے، تو اس کا تدارک کیسے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس قانون کو فعالیت کے ساتھ عدالتیں استعمال کریں اور شہادتوں کی بنیاد پر درست فیصلے کریں تو غلط استعمال بھی محدود ہو جائے گا ، بروقت سزاؤں کا نفاذ عوام کا اعتماد بڑھائے گا ۔ ’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے ، اور اگر کسی کو مسلمان جانتے ہوئے ناحق قتل کیا تو اس کی سزا سے دنیا میں بچ بھی جائے تو آخرت میں نہ بچ پائے گا ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو تلوار دیکھ کر کلمہ پڑھنے پر قتل کر دیا تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اے اسامہ تم کیا کرو گے اس روز جب وہ کلمہ کے ساتھ آئے گا ؟ ، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بار بار یہی دہراتے رہے حتی کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تمنا کی کہ : ’’کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا‘‘ اور یہ عمل میرے نامہء اعمال میں نہ ہوتا ۔
دنیا میں کوئی قانون ایسا نہیں جسے غلط تشریح سے استعمال کی کوشش نہ کی جاتی ہو ، لیکن نظامِ انصاف ظالموں کی ٹیڑھ کو سیدھا کرتا ہے ، اگر دنیا میں زن ، زر اور زمین کی بنیاد پر اور نسلی ، قومی اور لسانی عصبیتوں کے نام پر قتل ہونے والے اعداد و شمار کا موازنہ توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقتولوں سے کیا جائے تو یہ تعداد کافی کم ہے ، لیکن یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ بموں کی ماں بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیتی ہے ، مگر ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی اور ایک نوجوان جس کا معاملہ ابھی تک واضح نہیں قتل ہوتا ہے (قابلِ افسوس جرم ، انتہائی سفاکی سے) لیکن اخبار و جرائد اور میڈیا کے چینلز پر ایسی آوازیں اور شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ، ترحم کی ایسی آوازیں کہ ہزاروں انسانوں کے قتل کی روداد دب کر رہ گئی ہے ۔
جن کے نسب نامے نامعلوم راتوں کی عشوہ طرازیوں کی نذر ہوگئے ، انہیں اپنی اوقات کے اظہار کا موقع میسر آیا تو دامنِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے الجھ گئے ۔ احترامِ انسانیت کا ایکسپائر منجن بیچنے والے گٹر دماغوں کوجب اپنی ہی لفظی جگالیوں سے ابکائی آنے لگی تو اپنا منہ یثرب کی وادیوں کی طرف موڑ دیا ۔ رواداری کے مجہول فارمولے تخلیق کرنے والے اذہان سے فرسودگی کے بھپکے اٹھے تو ہذیان کے نشتر اسی محسن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہ چلا دیئے ، جو انسانیت کی آخری ضمانت ہے ۔ مگر کوئی نہیں ، مفلوج دماغی کا کیا گلہ کیجیئے صاحب ۔ آسودہ کائنات کے کچھ نطفہائے نا تحقیق سے بھی کیا الجھیئے صاحب ۔ کوئی کتنا ہی دانش کے زیور سے آراستہ پیراستہ کیوں نہ ہوجائے ۔ کسی کے سینے پہ کامیابی کے کتنے ہی تمغے کیوں نہ سجا دیئے جائیں ۔ کسی کے کندھوں پہ تہذیب و شرافت کے ہزار قرینے ہی کیوں نہ جگمگاتے ہوں ، مگر جب علم آفریں دماغ پہ انگورِ بے راہ رو کا ملیدہ مل دیا جائے ، تو مثانے کا دباؤ اپنے ہی بستر پہ نکل جاتا ہے ۔ بیل جواں ہو کر اگر اپنی ہی ماں کا ریپ کر دے تو بات سمجھ آتی ہے ، مگر اے انسان ! اے انسان ۔ ہوتا ہے ۔ ہوتا ہے ۔ یہ انسانی تاریخ کا کوئی پہلا واقعہ نہیں صاحب ۔ بیش قیمت جہالت تو وہی ہوتی ہے جس کا ظہور دانشکدوں سے ہو ۔ کیا خون کے بازار میں جذبات کی تجارت کیلئے ضروری ہے کہ براہ راست احمدِ مرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گریبان و ناموس پہ ہاتھ ڈالا جائے ؟
ہم کیا کریں ؟ تمہارے ہی رنگ میں رنگ جائیں ؟ ہماری مجبوری تو دیکھئے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بدلہ تمہارے نبی سے نہیں لے سکتے ۔ اپنے چچا جو لگتے ہیں ۔ رنج کا ایک سامان ہے ، بس وہی کر رہے ہیں ۔ وہی کریں گے ۔ عزیزانِ گرامی قدر اس ساری بحث سے آپ سمجھ گۓ ہونگے لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نعرے سے کس کس کو اور کیوں تکلیف ہے ؟ اللہ عزوجل ہم سب اہلِ اسلام کو ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تحفظ کےلیے مر مٹنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment